حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(انتالیسویں قسط)

تکملہ فتح الملہم کی تالیف
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃاللہ علیہ نے تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں صحیح مسلم شریف کی شاہکار شرح "فتح الملہم” کے نام سے لکھی تھی جس نے نہ صرف ہندوستان، بلکہ عرب کے علماء سے بھی خراج تحسین حاصل کیا ، اور اہل علم اُس کی قدر وقیمت سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن حضرت کی یہ شرح ابھی کتاب النکاح تک پہنچی تھی کہ حضرت کی سیاسی اور اجتماعی مصروفیات نے انہیں گھیر لیا ، اور وہ اس کی تکمیل نہ فرماسکے ، یہاں تک کہ ۱۹۴۹ ء میں ان کا وصال ہوگیا۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دلی خواہش تھی کہ اس کتاب کی تکمیل کی جائے۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی گوناگوں مصروفیات ایسی تھیں کہ خوداس کام کیلئے وقت نکالنا مشکل تھا ۔ اس لئے انہوں نے متعدد علماء سے جو علم حدیث میں اختصاص رکھتے تھے ، اس خواہش کا اظہار کیا ، لیکن وہ بھی بے حد مصروف تھے۔
آخرکار حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وفات سے کچھ پہلے یہ ایماء ظاہر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں اس کام کا آغاز کردوں، اور مسودہ لکھ لکھ کر حضرت والد صاحب رحمۃاللہ علیہ کو دکھاتا رہوں۔ اتنے بھاری کام کا پہلے میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا ، لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء اور اس یقین دہانی پر کہ وہ میرے مسودے کو پورا دیکھ کر جہاں ضرورت ہوگی ، اصلاح فرمائیں گے ، میں نے توکلا ً علی اللہ صحیح مسلم کی کتاب الرضاع سے تکملہ کا کام شروع کردیا۔پیش نظر یہ بھی تھا کہ اس طرح ان کے زیر سایہ میری تربیت ہوگی۔چنانچہ روزانہ جو کچھ لکھتا ، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کرتا ، اور وہ اپنے افادات سے سرفراز فرماتے تھے۔
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ابھی میں مسودے کے صرف اسّی صفحات ہی لکھ پایا تھا کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی علالت شدت اختیار کرگئی ، اور بالآخر وہ وقت آہی گیا جس کے تصور ہی سے ہمیشہ دل بے چین رہا کرتا تھا ۔حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۱۱ ؍شوال۱۳۹۶ ھ مطابق اکتوبر ۱۹۷۶ ء کو اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئے۔ اس حادثے اور اُس سے پیدا ہونے والے مسائل نے مدت تک دل ودماغ ماؤف رکھا ۔فتح الملہم کی تکمیل کا کام میں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اس یقین دہانی پر شروع کیا تھا کہ وہ اس کی نگرانی فرمائیں گے ، لیکن اب وہ سہارا چھوٹ چکا تھا ۔اس لئے ایک عرصے تک میں یہی سوچتا رہا کہ آں قدح بشکست وآں ساقی نہ ماند
لیکن جب کچھ عرصے کے بعد ہوش ٹھکانے آنے شروع ہوئے، تو دل نے کہا کہ جو کام حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے چاؤ سے شروع فرمایا تھا ، اُسے اپنی بساط کے مطابق مکمل ہی کرناچاہئے ۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک خدمت شروع کرنے کی توفیق بخشی ہے، تو اُنہی کے کرم سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ وہ اس کی تکمیل بھی فرما دیں گے ۔ہم کیا اور ہمارا علم کیا؟ وہ اگر چاہیں تو ایک ناچیز ذرّے سے جو چاہیں کام لے لیں ، جو کچھ ہوتاہے ، انہی کی توفیق سے ہوتا ہے ، انہی سے توفیق مانگ کر کام شروع کرنا چاہئے ۔ ان کی مشیّت ہوگی تو وہ تکمیل کرادیں گے ، اور مشیت نہیں ہے تو میری کیا مجال جو ایک لفظ بھی لکھ سکوں ۔ اس خیال سے کچھ حوصلہ بندھا ، اور میں نے استخارہ کرکے اس نیت سے کام ازسرنو شروع کردیا کہ میں خود اپنی معلومات کیلئے احادیث کی شروح کا مطالعہ کروں گا ، اور حاصل مطالعہ کو تحریری شکل دیدوں گا۔
حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ کو علم ہوا کہ میں نے یہ کام شروع کیا ہوا ہے ، تو انہوں نے مزید ہمت افزائی فرمائی ، اور اُسی وقت اپنا یہ ارادہ بھی ظاہر فرمایا کہ وہ فتح الملہم کے مقدمے کو اپنی تحقیق وتعلیق کے ساتھ مرتب کرکے شائع کرنے کاارادہ رکھتے ہیں ۔چنانچہ انہوں نے اپنے ایک خط میں مجھے تحریر فرمایا:
” بسم اللہ الرحمن الرحیم
إلی الأخ الأعز والحبیب المحبّ، زہرۃ العلم والعلماء ، وعید أہل النّبل والفضلاء ، فضیلۃ الشیخ محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ ورعاہ ونفع بہ
من أخیہ ومحبہ عبد الفتاح أبو غدۃ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد فأحمد اللہ إلیکم، وأصلی وأسلّم علی سیدنا محمد عبدہ ورسولہ، وأرجو أن تکونوا أنتم وسائر الأہل والإخوۃ بخیر حال وأنعم بال….
وآمل أن تحدثونی أیضا عن مشاریعکم العلمیۃ، فقد حدثنی بعض محبیکم وہو الأخ محمد إلیاس ظفر أنکم تعزمون إتمام (فتح الملہم) لمولانا شبیر أحمد العثمانی، وہذا فضل جسیم ومغنم عظیم. فأرجو أن یحقّقہ اللہ علی یدیکم ، ویقرّ بہ العیون ویشرح بہ الصدور والقلوب.
وإذا کنتم تعتزمون ہذا، فأنا أشارککم بلُبَینۃ صغیرۃ فی رفع ہذا الصرّح الشامخ، والفضل الباذخ، وہو خدمۃ مقدمۃ (فتح الملہم) وتحقیقہا وطبعہا طبعاً رفیعاً وأنیقاً وخلیقاً بأن یکون مقدمۃ لذاک الکتاب العظیم والشّرح الجسیم.
وقد توجہت إلیہا بالقراء ۃ والتنظیم منذ شہر تقریباً، مُراعیاً فیما أقرأ منہا النّشر والطبع فی ہذہ القراء ۃ الأولی، وسأقرأہامرّۃً ثانیۃ للتّعلیق والتخریج إن شاء اللہ تعالی، لتکون قرّۃ عین لی ولک، فدعواتکم لی بالتوفیق والعون من اللہ تعالی.
وفی أوّل المطبوعۃ التی کان آثرنی بہا مولانا البنوری رحمہ اللہ تعالی المطبوعۃ علی حدۃ، ترجمۃٌ لمولانا عاشق إلہی لمولانا شبیر أحمد العثمانی، أراہا قصیرۃً عن طویل نجادہ، ورفیع عمادہ، وشامخ أمجادہ، فحبّذا لورفعتم لی ترجمتہ بقلمٍ أوفی جمعاً، وأصفی نبعاً، وأحرق طبعاً، وأحسن صنعاً، وأنا لکم من الشّاکرین، وتکرّموا علیّ بنسخۃ ثانیۃ للتی عندی احتیاطاً عند الطبع إن شاء اللہ تعالی.
وإذا طبع شیء من الکتب الحدیثۃ أو الفقہیۃ عندکم، فتکرموا بشراء نسخۃ لی منہ، لأشمّ ریّا الدیار ولو بَعُدَ المزار، وتکالیفہ من شرائہ حتی إرسالہ إلیّ کلہا علیّ، فتکرموا بذلک دون تردّد، ولکم الشکر الدّائم والأجر الدائم إن شاء اللہ. وسلامی للأنجال بریرۃ ومحمد عمران، وباقی إخوتہما بارک اللہ فی الجمیع وتحیاتی للعلماء کافۃ عندکم وللطلبۃ البررۃ، وأستودعکم اللہ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. أخوکم
عبد الفتاح أو غدۃ
۳؍ ۳؍۱۳۹۸ھ
عنوانی الریاض. کلیۃ أصول الدین.
کتبت لکم ہذہ الرسالۃ والأخ محمد إلیاس ظفر عندی، فحرّک شوقی وشدّ یدی إلی القلم فکتبت ہذہ الکلمات، ولکم تحیاتہ.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہایت عزیزبھائی ، و محبوب ومحب، علم و علماء کے پھول، اہلِ شرافت وفضل کی عید، فضیلۃ الشیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ ورعاہ ونفع بہ

من جانب برادر محب عبد الفتاح ابو غدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد،
اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں ، حضرت سیدنا محمد ، اللہ تعالی کے بندے اور رسول پر درود اور سلام بھیجتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ آپ اور پورا خاندان اور بھائی بہترین حال میں ہوں گے۔
یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ آپ مجھے اپنے علمی منصوبوں کے بارے میں بتائیں، آپ کے ایک چاہنے والے ، یعنی بھائی محمد الیاس ظفر صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ آپ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کی فتح الملہم کو مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں، یہ زبردست فضیلت اور عظیم فائدے کا کام ہے۔
اور جب آپ کا یہ عزم ہے، تو اس بلند اور اونچی شان والے محل کی تعمیر کے لئے ایک چھوٹی سی اینٹ کے ذریعہ میں آپ کے ساتھ شریک ہوں گا، وہ یوں کہ فتح الملہم کے مقدمے، اس کی تحقیق، اور اس کی اعلیٰ طباعت کی خدمت جواس عظیم کتاب اور زبردست شرح کی شایان شان ہو، پیش کروںگا۔
چنانچہ میں اپنی توجہ مقدمے کے مطالعے اور اسے ترتیب دینے پر تقریباً ایک ماہ سے صرف کررہا ہوں، اس پہلی مرتبہ کے مطالعے ہی میں اشاعت اور طباعت کا لحاظ رکھ رہا ہوں۔ اور دوسری مرتبہ کے مطالعے میں ان شاء اللہ تعالیٰ تعلیق و تخریج مد نظر رہے گی تاکہ یہ مقدمہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق اورمدد کے لئے آپ کی دعاؤں کا خواستگار ہوں۔
مولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے جس مطبوعہ نسخے کا ایثار میرے حق میں فرمایا تھا، اس کے شروع میں مولانا عاشق الٰہی صاحب کے لکھے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کے حالات ہیں، میں اُسے ان کی بلند شان و شخصیت سے کچھ مختصر پاتا ہوں، کتنا اچھا ہو اگر آپ میرے لئے ان کے حالات ایسے قلم سے جمع فرمائیں جو زیادہ جامع، شفاف ، گہرے جذبات اور بہتر انداز کا حامل ہو، میں آپ کا شکرگزار ہوں گا، اور میرے پاس موجود نسخہ کے علاوہ طباعت کے موقع پر احتیاطاً ایک دوسرا نسخہ عنایت فرمائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
آپ کے ہاں حدیث یا فقہ کی کوئی نئی کتاب چھپے ، تو مجھ پر یہ کرم فرمائیں کہ میرے لئے ایک نسخہ خرید لیجئے، تاکہ میں دیار کی خوشگوار ہوا تو پالوں،اگر زیارت دور کی بات ہو، خریدنے سے لے کر ارسال کرنے کے تمام اخراجات میرے ذمہ ہیں، لہٰذا یہ کرم میرے اوپر بغیر تردد کے فرمائیے ، میں آپ کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا، اور آپ کے لئے ان شاء اللہ ہمیشہ اجر وثواب ہوگا۔ میرا سلام صاحبزادوں، بریرہ اور محمد عمران کو،اور ان کے باقی بھائی بہنوں کو، بارک اللہ فی الجمیع، اور تمام علماء اور صالح طلبہ کو میرا سلام، اللہ کے حوالے، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا بھائی

عبد الفتاح ابو غدہ
۳؍۳؍۱۳۹۸ھ
میرا پتہ: الریاض، کلیۃ أصول الدین
میں نے یہ خط آپ کو اُس وقت لکھا جب بھائی محمد الیاس میرے پاس ہیں، چنانچہ انہوں نے میرے جذبات ابھارے اور میرے ہاتھ کو قلم کی طرف بڑھایا، اور میں نے یہ کلمات لکھ دئے، آپ کو ان کی طرف سے بھی سلام ۔
پھر ایک اور خط میں تحریر فرمایا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إلی الأخ الأعزّ والحبیب المحب العلامۃ الموہوب مولانا الشیخ محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ ورعاہ وأکرمہ وأولاہ ونفع بہ البلاد والعباد.
من محبہ وراجی دعواتہ: عبد الفتاح أبو غدۃ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد فأحمد اللہ إلیکم، وأرجو أن تکونوا أنتم وسائر الأسرۃ الکریمۃ بخیر من اللہ ونعمۃ. تلقیت رسالتکم اللطیفۃ الشریفۃ، فأحیَتْ من النفوس مواتہَا، وردّت علی الرّوح أقواتہا، فللہ أنتم، وللہ أبوکم رحمہ اللہ تعالی وأغدق علیہ شآبیب رحمتہ ورضوانہ، وأسکنہ فسیح رحمتہ وجنانہ.
سُررت بکتابکم جدّاً، وکَسَبنی نشاطاً ونشوۃً وحیویۃ، وأعاد علیّ من العزم والجلد خیراً وإحساناً، فجزاکم اللہ عما کتبتم فأحییتم (ومن أحیی أرضا میتۃ فہی لہ) کما ہو نص الحدیث الشریف.
وتلقّیت بعد الکتاب ہدیتّکم الکریمۃ: الازدیاد السنی علی الیانع الجنیّ، ومقدمۃ فتح الملہم بشرح صحیح مسلم، فأکرمکم اللہ وأبقاکم لمحبیکم ملاذاً وموئلاً، ومنہلاً ومَعْلَماً. وسرّنی عزمکم علی استکمال(فتح الملہم) فذلک الحقّ الّذی أشیر إلیہ بمثل قولہ تعالی (وعلی الوارث مثل ذلک)، فالحمد للہ الّذی آتاکم، وأکرمکم وأولاکم، ونسألہ المزید من فضلہ وکرمہ للشیخ والمرید والطارف مثلی، ومثلکم التلید المجید.
وقدیماً قال أبو العباس المبرّد، وہو القائل المحق: لیس لقِدم العہد یفضَّل القائل، ولا لحِدثانہ یُہتضم المصیب، ولکن یُعطی کلٌّ ما یَستحقّ. وتبعہ ابن مالک، وما ابن مالک؟ خیر من ذلک، فقال فیما ہنالک، فی أوّل کتابہ ((التسہیل)) لیُبصِر کلُّ علیل وکلیل مقامَ ذوی التّأویل والتنزیل:وإذا کانت العلومُ مِنَحاً إلہیۃ، ومواہب اختصاصیۃ، فغیرُ مستبعَد أن یُدَّخَر لبعض المتأخرین، ما عَسُر علی کثیر من المتقدّمین، نعوذ باللہ من حَسَد یسُدّ باب الإنصاف، ویَصُدُّ عنہ جمیل الأوصاف.
فأقرّ اللہ بکم وبآثارکم ومآثرکم العیون، وأفرح القلب المحزون بفقدِ إبراہیمہ الجوہرِ المکنون. وآمل أن یسعدنی اللہ سبحانہ بزیارۃ غیر بعیدۃ أعرّج فیہا علی زیارۃ الشیخین والترحم علی صاحبی المرقدین بمشہد من القلب والعین، فتؤدّی العینُ حقَّہا، وتَسْکُب الآماق وَسْقَہا، ویبرُد ببرْد سَکْب الدّموع ظاہرُ القلب المفجوع. وإنّ للہ ما أعطی، وللہ ما أخذ، وکلّ شیء عندہ بمقدار.
وآمل أن یُسعدنی اللہ باستکمال خدمۃ (مباحث فی علوم الحدیث) مقدمۃ فتح الملہم، فأکونَ کقائد المحمل الشریف إلی الحجّ المنیف، البرکات والرحمات إلیہ وعلیہ، وقائدہ یشدّ بمَقُودہ إلیہ، لعلَہ ینالہ ممّا لدیہ، ویَسعد بسعدیہ، فدعواتکم بالإتمام والإکمال، والإنجاز والاحتمال، واللہ مجیب الداعین.
وبارک اللہ بالمولود حسّان إلی إخوتہ الأکارم الحسان، وسلامُ جمانۃ وسلمان، ولبابۃ وحسناء -من الباقیات- إلی إخوانہنّ وأخواتہن الصّالحات عمران وبریرۃ ومحمّد زبیر.
وتحیاتی واحتراماتی للأخ الأعز الأکبر مولانا الشیخ محمد رفیع، رفع اللہ قدرہ العالی، وأمکنہ من تحقیق الأمانی الغوالی فی المعہد العتید المتلالی، لیُکمل الخلفُ ما رفعہ السّلف، وتأتی اللّبِنۃ تلک فی موضعہا، وختاماً أستودعکم اللہ،
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. الریاض ۲۴؍ ۴؍ ۱۳۹۸ھ
راجی الدعاء عبد الفتاح أبو غدۃ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہایت عزیز بھائی، محبوب ومحب، علامہ مولانا شیخ محمد تقی عثمانی صاحب، جسے اللہ تعالیٰ نے مواہب سے نوازا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت اور دستگیری فرمائے، اور آپ کو عزت عطا فرمائے اور آپ پر احسان فرمائے، اور آپ سے ہر خاص وعام کو نفع پہنچائے۔
منجانب: آپ کا محب اورآپ کی دعاؤں کی امیدرکھنے والا: عبد الفتاح ابو غدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد ،
اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں۔اور امید رکھتا ہوں کہ آپ سب اور معزز خاندان اللہ کے فضل اور نعمتوں میں ہوں گے۔ آپ کا لطیف وشریف مکتوب موصول ہوا، اُس نے تو جان میں جان ڈالی، اور روح کو غذا بخشی، واہ رے آپ!اور واہ رے آپ کے والد!اللہ تعالیٰ اُن پراپنی رحمت ورضوان کی گھٹائیں نازل فرمائیں، اور اپنے جوار رحمت اور جنتوں میں جگہ عطا فرمائے۔
آپ کی کتاب سے بڑا دل خوش ہوا، اُس نے مجھے نشاط اورتوانائی بخشی، اور میرے اندر عزم وقوت کو بہترین اور محسنانہ طریقے سے لوٹا دیا، پس اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے لکھے پر جزاء خیر عطا فرمائے، کہ اُس کے ذریعہ آپ نے زندہ کیا(اور جس نے کسی بنجر زمین کو زندہ کیا، تو وہ اس کی ہوجاتی ہے)جیسا حدیث شریف وارد ہوئی ہے۔
نیز آپ کا ہدیہ کریمہ موصول ہوا: الازدیاد السنیّ علی الیانع الجنیّ اور فتح الملہم بشرح صحیح مسلم کا مقدمہ، اللہ آپ کو عزت دے، اور چاہنے والوں کے لئے آپ کو بطور ملجا ومأوی اور منبع فیض و مشعل راہ سلامت رکھے۔فتح الملہم کی تکمیل کے عزم نے دل خوش کیا، یہ وہ حق ہے جس کی طرف میں ارشاد باری تعالیٰ کے ذریعہ اشارہ دیا کرتا ہوں: (وعلی الوارث مثل ذلک)اور اسی طرح کا حق وارث پر بھی ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے آپ کو یہ نعمت عطا کی،آپ کو عزت دی، آپ پر احسان فرمایا، اور اُس اللہ سے شیخ ومرید اور مجھ جیسے نووارد کے واسطے، اور آپ جیسے قدیم عریق خاندانی شرافت رکھنے والے کے واسطے مزید فضل وکرم کی دعا کرتے ہیں۔
ابو العباس المبرّد نے بہت پہلے کہاہے، اور بر حق کہا ہے: صرف زمانے کی سبقت کی بناء پر کسی کہنے والے کو فضیلت نہیں دی جاسکتی ہے، اور نہ بعد میں آنے کی وجہ سے کسی صحیح کام کرنے والے کی ناقدری کی جاتی ہے، بلکہ ہر ایک کو وہ دیا جاتا ہے جسکا وہ مستحق ہے۔ اور ابن مالک نے بھی اسی قسم کی بات کہی ہے،وما ابن مالک؟ خیر من ذلک. ابن مالک کیا زبردست چیز ہیں؟ ابن مالک ہر تصوّر سے بہتر ہیں، چنانچہ اس بارے میں اپنی کتاب تسہیل کے شروع میں لکھتے ہیں:ہر بیمار وکمزور شخص کو چاہئے کہ وہ اہلِ تفسیر کا مقام دیکھے(۱)، جب علوم خدائی عطیہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی خاص عطا، تو بعید نہیں ہے کہ بعد میں آنے والے کچھ لوگوں کیلئے وہ کچھ اٹھا کر رکھا گیا ہوجو بہت سے پہلے آنے والوں پر مشکل رہا۔ اللہ تعالیٰ سے ایسی حسد سے پناہ چاہتے ہیں جو انصاف کا دروازہ بند کردے، اور جمیل خصلتوں کو روک کر رکھے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ اور آپ کے آثار ومآثر کے ذریعہ آنکھوں کو ٹھنڈا فرمائے، اور جو دل اپنے موتی ابراہیم کو کھو بیٹھنے کی وجہ سے غمگین ہے، اسے خوشی عطا فرمائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مجھے عنقریب ایک زیارت کی سعادت عطا فرمائے، جس میں دونوں شیخین کی زیارت کروں اور دونوں مرقد والوں کیلئے دعا ء رحمت دل اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ کروں، تاکہ آنکھ اپنا حق ادا کرے، اور چشمِ نم اپنے آنسو بہادے، اور دکھا دل آنسو بہاکر کچھ ٹھنڈک محسوس کرے۔ بے شک اللہ ہی کا ہے وہ جو اُس نے عطا کیا، اور اللہ ہی کا ہے وہ جو اُس نے لیا، ہر چیز کی ایک مقدار اس کے ہاں مقرر ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ مجھے مباحث فی علوم الحدیث ، یعنی فتح الملہم کے مقدمے کی خدمت مکمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے، تاکہ میں اس شریف محمل کو حج بیت اللہ کی طرف اٹھانے والے کی طرح بنوں، برکتیں اور رحمتیں اس کے واسطے مقدر ہوں، اور لے جانے والا اپنی سواری کو تیز تیز لے جائے کہ ہوسکتا ہے کہ اُسے بھی وہ ملے جو اُس کے سواری کے پاس ہے، اور وہ بھی اس سعادت سے بہرہ ور ہو جو سواری کو حاصل ہے، لہٰذا تکمیل اور قبولیت کے لئے آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے، اللہ تعالی دعا کرنے والوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نومولود حسّان اور ان کے معزز بھائیوں کوبرکتیں عطا فرمائیں، اور جمانہ، سلمان ، لبابہ اور حسنائ۔جو باقی رہ گئی ہیں، کی طرف سے ان کے نیک بھائی بہنوں ، عمران، بریرہ اور محمد زبیر کو سلام۔
اور میرا سلام واکرام نہایت عزیز بڑے بھائی ، مولانا شیخ محمد رفیع، کو، اللہ تعالیٰ ان کی عالی قدرومنزلت کواور بلند فرمائے، اور قدیم وعریق جگمگاتے ہوئے ادارے کے سلسلے میں ان کی بیش قیمت تمناؤں کو پورا فرمائے، تاکہ خلف اس عمارت کو پورا فرمائے جس کی بنیادیں سلف نے اٹھائیں، اور وہ خاص اینٹ اپنی جگہ لگ جائے، آخر میں، اللہ کے حوالے، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الریاض۲۴ ؍۴ ؍۱۳۹۸ ھ
دعا جو۔۔عبد الفتاح ابو غدہ

جاری ہے ….
(ماہنامہ البلاغ :رجب المرجب ۱۴۴۲ھ)