مذہبی رواداری
اسلام نے دوسرے مذھب کے پیرؤوں کے ساتھ رواداری کی بڑی فراخ دلی کے ساتھ تعلیم دی ہے ۔ خاص طورپر جو غیر مسلم کسی مسلمان ریاست کے باشندے ہوں ، ان کے جان ومال ، عزت وآبرو اور حقوق کے تحفظ کو اسلامی ریاست کی ذمہ داری قراردیا ہے ۔ اس بات کی پوری رعایت رکھی گئی ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے مذھب پر عمل کرنے کی آزادی ہو ، بلکہ انہیں روزگار ، تعلیم اور حصولِ انصاف میں برابر کے مواقع حاصل ہوں ، اُن کے ساتھ حسن ِ سلوک کا معاملہ رکھا جائے اور ان کی دلآزاری سے مکمل پرہیز کیا جائے ۔ ہمارے فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ "اگر کسی شخص نے کسی یہودی یا آتش پرست کو اے کافر ! کہہ کر خطاب کیا ، جس سے اس کی دل آزاری ہوئی ، تو ایسا خطاب کرنے والا گنہگار ہوگا” (فتاوی عالمگیر یہ ص ۵۹ ج ۵)
قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ :”اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو ۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "(ترجمہ سورہ ۶۰ آیت ۸) اسی بنیاد پر احادیث کا ذخیرہ اور اسلامی فقہ اور تاریخ کی کتابیں غیرمسلم شہریوں کے ساتھ نہ صرف رواداری ، بلکہ حسنِ سلوک اور برابر کے انسانی حقوق کی تاکید وترغیب سے بھری ہوئی ہیں(میں نے اپنی کتاب "اسلام اور سیاسی نظریات” میں ان تعلیمات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے) لیکن رواداری ، حسن سلوک اور انصاف کا یہ مطلب ہر گزنہیں ہے کہ مذاھب کے درمیان فرق اور امتیاز ہی کو مٹادیا جائے ، اور مسلمان رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقیدہ ومذھب ہی کی تائید شروع کردیں ، یا اس عقیدہ پر مبنی مذھبی تقریبات میں شریک ہوکر یا ان کے مذھبی شعائر کو اپنا کران کے مذھب کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو واضح طرز عمل بتایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ "تمہارے لئے تمہارادین ہے ،اور میرے لئے میرادین”۔
اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کو شائستگی کے دائرے میں اپنے مذھبی تہوار منانے کا پورا حق حاصل ہے ، اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں نہ خود کوئی رکاوٹ ڈالے ، نہ دوسروں کو ڈالنے دے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی وہ مذھبی رسمیں جو ان کے عقیدے پر مبنی ہیں ، ان میں کوئی مسلمان انہی کے ایک فرد کی طرح حصہ لینا شروع کردے۔ پچھلے دنوں ھندؤوں کے دیوالی کے تہوار کے موقع پر ہمارے متعدد سیاسی رھنماؤں نے رواداری کے جوش میں دیوالی کی تقریبات میں باقاعدہ حصہ لیا ،بعض رھنماؤں نے ھندؤوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے تِلک بھی لگایا، اور اس کی وسیع پیمانے پر فخریہ انداز میں نشرواشاعت بھی ہوئی ۔ خود ہمارے وزیر اعظم بھی دیوالی کی تقریب میں نہ صرف شریک ہوئے ، بلکہ کیک بھی کاٹا۔ اور اخباری اطلاع کے مطابق انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ انہیں ہولی کے موقع پر بھی بلایاجائے اور ان پر رنگ بھی پھینکا جائے، غالباً ان کے ذہن میں یہ یکطرفہ پہلُو رہا کہ ھندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ عدم برداشت کے جو مظاہرے ہورہے ہیں ، ان کے مقابلے میں پاکستان کی رواداری کو نمایاں کیا جائے کہ پاکستانی حکومت کس طرح ھندؤو ں کی خوشی میں برابر کی شریک ہے ، لیکن یہ پہلُو ان کی نظر سے اوجھل ہوگیا کہ دیوالی کے ساتھ بہت سے عقائد اور تصورات وابستہ ہیں جن کی بنیاد دیویوں اور دیوتاؤں کے مشرکانہ عقیدوں پر ہے اور اس طرف بھی ان کی توجہ نہ گئی کہ دیوالی میں شریک ہوکر کیک کاٹنے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس کا پس منظر کیا ہے ؟ دنیا کے عام رواج کے مطابق عموماً کیک کاٹنے کی رسم کسی کے یوم پیدائش کے موقع پر ادا کی جاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ دیوالی کے موقع پر کس کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے ؟ بہت سے ھندؤوں کے عقیدے میں دولت اور خوشحالی کی دیوی (goddess)لکشمی بھی دیوالی کے پہلے دن پیدا ہوئی تھی، اور صحت وشفاکا دیوتا (god) دھن ونتری کا بھی یوم پیدائیش یہی ہے (وکی پیڈیا)۔چنانچہ دیوالی کے دنوں میں لکشمی کے بُت کی پوچا دیوالی کی تقریب کا ایک اہم حصّہ ہے ۔ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے ، وہ کیک کاٹیں ، یادئیے جلائیں یہ ان کے مذہب کا تقاضا ہے ،لیکن جو مسلمان توحید کا عقیدہ رکھتا ہو، اور لَااِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ پر ایمان اس کی شناخت کا لازمی حصہ ہو ، اس کے لئے اس عقیدے کے عملی مظاہرے کا حصہ بننا رواداری نہیں ، مداھنت اور اپنے عقیدے کی کمزوری کا اظہار ہے ۔ خاص طور پر ملک کے وزیر اعظم کا برسرِ عام قول وعمل صرف ان کی ذات کی حدتک محدود نہیں رہتا ، بلکہ وہ پوری قوم کی طرف منسوب ہوتا ہے اس لئے اس میں تمام پہلوؤں کی رعایت اور مختلف جہتوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ وطن کے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری ، حسن سلوک اور ان کی باعزت اور آرام دہ زندگی کا خیال رکھنا یقینا ضروری اور مستحسن ہے ، لیکن ہر چیز کی کچھ حدود ہوتی ہیں ان حدود سے آگے نکلنے ہی سے انتہا پسندی کی قلمرو شروع ہوتی ہے ۔غیر مسلموں یا ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا، یا ان کے اپنے مذھب پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالنا یقینا گناہ اور قابل مذمت ہے ، لیکن کسی مسلمان کا ان کے عقیدوں پر مبنی مذھبی رسوم میں شریک ہونا بھی ناجائز اور قابل مذمت ہے ۔ اعتدال کا راستہ افراط وتفریط کی انتہاؤں کے درمیان سے گذرتا ہے ۔