خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
صدروفاق المدارس العربیہ پاکستان
ضبط وترتیب: مولانا عبدالناصر ترمذی صاحب
(فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی)
فکرانگیزصدارتی خطاب
۱۱؍صفرالمظفر۱۴۴۳ھ مطابق ۱۹؍ستمبر ۲۰۲۱ء اتوارکے روزجامعہ اشرفیہ لاہورمیں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نئے صدرکے انتخاب کے لیے وفاق کی مجلس شوریٰ ومجلس عمومی کا اجلاس منعقدہوا،جس میں ملک بھرکے علماء نے شرکت فرمائی۔ قائدِجمعیت علماء اسلام حضرت مولانافضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اس اہم عہدے کے لیے جونہی نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہم کانام تجویزفرمایا فوراََ تمام علماء کرام نے کھڑے ہوکر اس کی تائید فرمائی اور نہایت فرحت وبشاشت اورگرم جوشی کے ساتھ اس تجویز کو قبول کیا،یہ خوشخبری سنتے ہی ملک وبیرونِ ملک علمی اوردینی حلقوں میں خوشی کی لہردوڑگئی،سب حضرات نے وفاق المدارس کے اِس بصیرت افروزاور تاریخی فیصلے پرمسرت وطمانینت کااظہارکیا۔ اس موقع پرحضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہم نے اپنے اولین صدارتی خطاب میں مدارسِ دینیہ کے تحفظ اوربقاء کے حوالہ سے جو فکرانگیزگفتگو فرمائی وہ اہل مدارس کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ حضرت والامدظلہم کایہ اہم اورموثربیان ہدیۂ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ) |
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ،الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذباللّٰہ من شرورانفسناومن سیئات اعمالنا،ونعوذباللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا،ونعوذباللّٰہ من شرورانفسناومن سیئات اعمالنا،من یہدہ اللّٰہ فلامضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ،واشھدان لاالٰہ الااللّٰہ وحدہ لاشریک لہ،واشھدان سیدناوسندناونبیناوحبیبناومولانا محمدا ًعبدہ ورسولہ، صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیماً کثیراکثیرا، امابعد:
حضرت مولانافضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ،حضرت مولاناانوارالحق صاحب مدظلہم العالی،حضرت مولانامحمدحنیف صاحب جالندھری حفظہ اللہ تعالیٰ اورتمام اکابرین اورحضرات علماء کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کلماتِ تشکر
مجھے اپنی زندگی میں بہت اجتماعات سے خطاب کرنے کاموقع ملاہے ،لیکن مائیک کے سامنے آنے کے بعدجوکیفیت بعض اوقات اپنی عاجزی کی محسوس کی وہ چند ہی مواقع ہیں،ان میں سے ایک آج بھی ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آرہاکہ آپ حضرات نے جس محبت اور شفقت سے اپنے اعتمادکا مظاہرہ فرمایااورجس حسنِ ظن کے ساتھ فرمایامیری سمجھ میں نہیں آرہاکہ میں کس طرح اس پراللہ تبارک وتعالیٰ کاشکرادا کروں،اور آپ حضرات کا بھی، کیونکہ اس سے پہلے مجھے بہت سی فقہی عالمی تنظیموں کی سربراہی کا موقع ملا اور اب بھی متعدد تنظیموں کاسربراہ ہوں لیکن آج مجھے آپ حضرات نے جواعزاز عطافرمایا ہے وہ صرف ایک اعزازہی نہیں ہے وہ ایک بہت بھاری اورعظیم ذمہ داری ہے اس لیے میں اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ شکربھی اداکرتا ہوں اوردعابھی کرتاہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کے حسن ظن کو میرے حق میں پورا فرمائیں۔
دارالعلوم دیوبنداوراتباع سنت
میں نے دنیاکے چھ براعظم دیکھے اورخاص طورپرجوآج مسلمان ممالک کہلاتے ہیںمیں ایک دوکوچھوڑکر تقریباًسب میں گیاہوں،اورمیراوہاں جاناوہاں کے اہل علم اور علماء سے رابطے کے لیے رہاہے،ان کے ساتھ میں بیٹھاہوں اورآج بھی بیٹھتا ہوں،ان کے ساتھ میں گفتگوکرتارہاہوں ،ان کے ساتھ میں نے وقت گزارے ہیں،ان کے حالات کابھی مطالعہ کیاہے،اورصرف ایک ملک کے نہیں بہت سے اسلامی ممالک کے اور ان میں بعض اوقات مجھے علم وتحقیق کے وہ شناورنظرآئے کہ ان کے مقابلہ میں میں اپنے آپ کو بالکل طفل مکتب کہہ سکتاہوں ،ایسے عظیم علم وتحقیق کے پیکرمیں نے دیکھے جواب بھی موجود ہیں،لیکن اس سب کے باوجودقرآن وسنت کی صحیح تعبیراوراتباع سنت کاجوجذبہ اور اتباع سنت کے جوپیکردارالعلوم دیوبندنے پیداکئے اوردارالعلوم دیوبندکی شاخوں نے پیدا کئے ان کی نظیرمجھے سارے عالمِ اسلام میں کہیں نہیں ملی۔
ابنائے دیوبنداورتواضع
اگرتحقیق کامقابلہ ہو،مقالات کامقابلہ ہو،کہ کون مقالہ زیادہ اچھالکھتاہے ،کون زیادہ تحقیقی لکھتاہے، توشایدوہ لوگ بازی لے جائیں، لیکن اگرمقابلہ دین کواپنی زندگی میں سمانے کاہو،اوردین کے لیے اپنے جان مال آبروکی قربانی پیش کرنے کامقابلہ ہوتویقینا حضرات علماء دیوبندساری فہرستوں کے سربراہ ہیں۔یہ البیلاانداز،میرے والدماجدرحمہ اللہ تعالیٰ حضرات علماء دیوبندکے ساتھ یہ لفظ استعمال فرمایاکرتے تھے کہ جوالبیلااندازمیں نے اپنے بزرگوں کادیکھاکہ ایک طرف علم ومعرفت کے پہاڑہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے اپنے جان مال آبروکوقربان کرنے کے لیے تیارہیں لیکن اپنے آپ کوکچھ بھی نہیں سمجھتے ،تواضع اس اندازکی ہے کہ اپنے آپ کوکچھ بھی نہیں سمجھتے ،حضرت والدصاحب بھی بہت سے ملکوں میں گئے تھے لیکن ان کاذکرکرتے ہوئے فرماتے تھے کہ :
تولائے مردانِ ایں پاک بوم
برانگیختم خاطرازشام وروم
ان بعض بزرگوں کی دوستی نے یعنی ان کے ساتھ تعلق نے میرادل شام اورروم سب سے ہٹادیا۔
یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کاخاص کرم ہے ،حضرت مولانافضل الرحمن صاحب اور مولانا محمدحنیف جالندھری صاحب فرمارہے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس طائفے کواس کام کے لیے چناہے تووہ ایسے ہی نہیں چن لیاوہ درحقیقت ان کے اخلاص کی بناپر،ان کی تواضع کی بناپر،ان کی للہیت کی بناپراللہ تعالیٰ نے ان کویہ مقام بخشا:من تواضع للہ رفعہ اللہ۔
وفاق المدارس عظیم نعمت
تومیں یہ کہتاہوں کہ وفاق المدارس اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے،یہ وہ چھت ہے،وہ سائبان ہے کہ جس کے نیچے بیٹھ کرہم ساری دنیاومافیہاسے قطع نظر کرکے صرف ایک مقصدکے لیے جمع ہوتے ہیںاور وہ ہے دینی مدارس کاتحفظ ۔
عظیم فتح
آج ایک طرف تواللہ تبارک وتعالیٰ نے ان بوریہ نشینوں کے ذریعہ دنیاکی ساری طاقتوں کواس طرح ذلیل اوررسواکیاہے کہ اس ذلت اوررسوائی کی کوئی مثال میرے خیال میں تاریخ میں نہیں ملتی۔ برطانیہ کے زمانے سے یہ لڑائی چلی آرہی تھی،برطانیہ جوپہلی سپرپاورتھی جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتاتھا،اس وقت بھی انہوں نے افغانوں کامقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی( لیکن) پہاڑوں سے ٹکراٹکراکرپاش پاش ہوگئے تھے، تو اس وقت انگریزوں اوردشمن اسلام طاقتوں کی زبان سے اقبال مرحوم نے یہ کہاتھا ؎
افغانیوں کی غیرتِ دیں کاہے یہ علاج
ملاکواُن کے کوہ ودَمن سے نکال دو
وہ فاقہ کَش کہ موت سے ڈرتانہیں ذرا
روحِ محمداُس کے بدن سے نکال دو
یہ تھاایجنڈابرطانیہ کابھی ،روس کابھی،اورآخرمیں امریکاکابھی کہ ُملاکواس کے کوہ ودمن سے نکال دو،مگروہ ملااتناسخت جان تھاکہ چالیس پچاس ہزارآدمیوں نے تمام تکنیکی اسلحہ سے لیس پچاس ملکوں کی فوجوں کواس طرح رسواکیاکہ آج پوری دنیاچیخ رہی ہے، چلارہی ہے اورخاص طورپہ اگربھارت کاریڈیوسن لویااس کاچینل دیکھ لوتواس کی جو چیخیں ہیں وہ آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں۔وہ ملاکونکالنے کے لیے آیاتھاملانے اس کونکال باہرپھینکا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ عزت اورشرف الحمدللہ ان بوریہ نشینوں کوعطافرمایا۔اورویسے ہی نہیں کردیابیس سال کی تاریخی جدوجہدقربانیاں جان کی، مال کی ،آبروکی، بیٹوں کی، اولادکی ،بھائیوں کی، بہنوں کی،قربانیاں دینے کے بعدان تنصروااللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم کا اللہ تعالیٰ نے کھلی آنکھو ں معجزہ دکھادیا۔
وفاق تعلیمی اورروحانی ادارہ ہے
میرے بھائیو!یہ وفاق درحقیقت ہے توخالص تعلیمی ادارہ، لیکن یہ ایسی تعلیم دینے والاادارہ ہے کہ جوانسان کوانسان بنائے،جواُس میں ایمان کی روح پھونکے،وہ جو روحِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ،جس کے بدن سے نکالنے کے لیے ساری سازشیں چل رہی ہیں،وہ روح محمدپیداکرنے کے لیے یہ ادارہ ہے ۔
وفاق کے خلاف سازشیں
اورآج ایک طرف توماشاء اللہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دکھادیاہے کہ ُملاکیاہوتاہے اوردوسری طرف خودہمارے یہاں کچھ کالی چمڑی والے انگریزاب بھی اس فکرمیں ہیں کہ کسی طرح اِس ملاکوپاکستان سے نکالو،اوراس کے لیے طرح طرح کی سازشیں ،طرح طرح کے منصوبے بنائے جارہے ہیں،اورہمیشہ دشمنِ اسلام طاقتوں کاجوسب سے بڑاہتھیار ہوتاہے وہ کوئی اصول نہیں ہوتا،کوئی نظریہ نہیں ہوتا،وہ پھوٹ ڈالناہوتاہے،ڈیوائیڈاینڈ رول کی پالیسی ،ان کوتقسیم کرواورپھران پرحکومت کرو،تووہ صورتحال ہمارے وفاق میں ہے، اس کی کچھ تفصیل حضرت مولانافضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم اورمولاناحنیف صاحب نے بھی بیان فرمائی ۔
درپیش چیلنجزکامقابلہ کیسے ہو؟
ہمارے سامنے بہت سے چیلنج درپیش ہیں ،اور ان چیلنجوں کامقابلہ دوچیزوں سے ہی ہوسکتاہے ۔
ایک ہمارے اتفاق اوراتحادسے ،جیسے مولانانے فرمایاکہ بنیان مرصوص کوئی اس میں آکرشگاف نہ ڈال سکے،وفاق کو ایسی بنیان مرصوص بنایاجائے ۔
اوردوسراسبب وہ ہے جس پرہمارے اکابردیوبندنے تعلیمی نظام کی بنیادرکھی۔
دارالعلوم دیوبندکاامتیازی وصف
مجھے یادہے کہ مصرکے ایک عالم دارالعلوم دیوبندکامعائنہ کرنے دارالعلوم دیوبندتشریف لائے تھے ،اوروہ معائنہ انہوں نے صحیح طریقہ سے کیا، اس زمانے کی بات ہے جب اکابرزندہ تھے توان کاجملہ یہ تھاکہ :
’’میں نے ایک ایساادارہ دیکھاکہ جس میں دن بھرتوقال اللہ اورقال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں اوررات کوکمرے کمرے سے رونے اوراللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنے کی آوازیں آتی ہیں‘‘۔
وہ جوصحابہ کرام کے بارے میں کسی نے تبصرہ کیاتھا۔ غیرمسلم جوحضرت خالدبن ولید کی فوج کودیکھنے آیاتھاجب واپس گیاتو لوگوں نے پوچھاکہ تم نے کیا دیکھا؟اس نے کہا:
انہم رہبان باللیل وفرسان بالنہار۔رات کوجاکے دیکھوتویہ راہب ہوتے ہیں، عبادت میں مصروف ہوتے ہیں اور دن کوجاکردیکھوتویہ شہسوارہوتے ہیں۔
تواللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بنیادپرہمارے مدارس کی بنیادرکھی تھی،اخلاص پر، للہیت پر،رجوع الی اللہ پر،انابت الی اللہ پر،خشیت پراوراس کانتیجہ یہ تھاکہ اللہ تعالیٰ نے وہاں سے کیسے جبالِ علم وعرفان پیدافرمائے جن کی نظیردنیانے کبھی دیکھی نہیں ، تومیں یہ عرض کیا کرتاہوں کہ ان شاء اللہ دنیاکی کوئی طاقت آپ کے مدرسوں کوختم نہیں کرسکتی ،لیکن خدانہ کرے اگرختم ہوئے تو ختم کرنے والے ہم خود ہوں گے ،اگرہم اکابرکی راہ سے ہٹ گئے،اگرہمارے اندروہ اخلاص اورللہیت نہ رہی۔
حضرت مولانارفیع الدینؒ اورخشیت الٰہی
حضرت مولانارفیع الدین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ مہتمم دارالعلوم دیوبند سے دہلی جاتے ہیں ،دارالعلوم کے چندے کے لیے،تین سو رروپے اس زمانے میں اکٹھے کرکے لاتے ہیں، اس زمانے کے تین سوروپے آج کے تین لاکھ روپے کے برابرہوں گے،تین سو روپے اکٹھے کرکے لاتے ہیں راستے میں چوری ہوجاتے ہیں ،تواپنی ساری جائیداد،جوکچھ اپنے پاس تھاسب بیچ کردارالعلوم میں داخل کررہے ہیں،لوگوں نے کہاکہ حضرت اس کا ضمان آپ کے اوپرنہیں آتا،وہ امانت تھی آپ کے پاس ،آپ نے اپنی طرف سے پوری حفاظت کی،لیکن چوری ہوگئے، غیراختیاری بات ہے، آپ پرضمان نہیں آتا،نہ داخل کریں، کہاکہ نہیں میں داخل کروں گا،لوگوں نے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کوخط لکھا،حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سرپرست تھے دارالعلوم کے ان کو خط لکھاکہ حضرت یہ مولانارفیع الدین صاحب مانتے نہیں ہیںاوراپنی ساری جمع پونجی اسی میں خرچ کردیں گے، گھرمیں ان کے کچھ رہے گا نہیں،آپ ان کومنع فرمائیں کہ یہ ایسانہ کریں کہ اس کاضمان بھریں جبکہ شرعاًان کے ذمہ نہیں ہے۔
توحضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کوخط لکھاکہ مولاناآپ کے اوپراس کا شرعاً ضمان نہیںآپ یہ تکلف نہ کریں ،جب خط پڑھاتومولانانے فرمایاکہ مولوی رشیداحمد صاحب نے ساری فقہ میرے لیے پڑھی تھی ،مولوی رشیداحمدنے ساری فقہ میرے لیے پڑھی تھی،میں ان سے کہتاہوں کہ تم اپنے دل پرہاتھ رکھ کردیکھواگرتمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آیاہوتاتم کیاکرتے؟نتیجہ یہ کہ داخل کردیا۔
حضرت مولانارفیع الدین کاتقویٰ
حضرت مولانارفیع الدین صاحب کی ایک گائے تھی وہ اس کوچرانے کے لیے شام کے وقت باہرلے جایاکرتے تھے ،توچراتے چراتے واپس آئے تودرالعلوم کاکوئی کام تھا ،گائے دارالعلوم کے احاطے میں کھڑی کرکے دفترمیں جاکراپنا دارالعلوم کاکام کرنا شروع کردیا۔ایک شیخ زادے آگئے دارالعلوم میں،دیوبندکے شیخ زادے بڑے طرم خان ہوتے تھے،انہوں نے کہااچھاتواب دارالعلوم مہتمم صاحب کی گائیوں کااصطبل بنے گا، یہاں لاکے گائے کھڑی کردی ہے،چیخناشروع کردیا۔آس پاس جولوگ تھے انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی کوئی کھڑی نہیں کی ہے ابھی آئے ہیں تھوڑی دیرہوئی ہے،وہ مانتاہی نہیں تھا،حضرت کوخبرہوگئی توباہرنکلے اورپوچھاکہ کیاقصہ ہے؟بتایاگیاکہ یہ صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ مہتمم صاحب نے گائے لاکے صحن میں کھڑی کردی ہے دارالعلوم کوباڑہ بنادیااپنی گائے کا۔
فرمایا:آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں،آپ صحیح کہہ رہے ہیں غلطی ہوگئی ہم سے ،ارے بھئی یہ گائے تُوہی لے جا!اس غلطی کی تلافی یہ ہے کہ گائے تمہیں ہی دیتاہوں،وہ اللہ کابندہ ایساتھاکہ وہ بھی لے کرچل دیا۔
اکابرکے طریقے پرچلنے میں ہی کامیابی ہے
توایسے حضرات نے دارالعلوم دیوبندبنایاہے،ایسے حضرات نے دارالعلوم کی تعمیر کی ہے،پیسے کے معاملات ،مالیات کامعاملہ یہ ایسی چیزہے جوانسان کوتباہی تک پہنچادیتی ہے،تواللہ کی رحمت سے جب تک ہم قرآن وسنت کوتھامے ہوئے ہیں،جب تک اپنے اکابرکے طریقے پرگامزن ہیں،ان شاء اللہ کوئی طاقت مدرسوں کوختم نہیں کرسکتی ،بس خدا کرے کہ ہم اس راستے پررہیں وہاں سے نہ ہٹیں،اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اپنی رحمت سے ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے اورآپ نے جوذمہ داری اس عاجزبندے پرڈالی ہے دعابھی فرمائیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کواپنی رضاکے مطابق صحیح طریقے سے اداکرنے کی توفیق عطافرمائے،اللہ تعالیٰ آپ سب کاحامی وناصرہو،اللہ تعالیٰ سب کی مرادوں کوپورافرمائے اورسب کواپنے دینی مدارس کی اورعلوم دین کی خدمت کی اخلاص کے ساتھ ،صدق کے ساتھ توفیق عطافرمائے۔
وآخردعواناان الحمدللہ رب العٰلمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :ربیع الاول ۱۴۴۳ھ)