خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب: مولانا راشد حسین صاحب
(فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی)
فلسطین کی صورتحال اور جہاد کے فریضے سے ہماری غفلت
۸ ذوالقعدہ ۱۴۴۵ھ(مطابق ۱۷ /مئی ۲۰۲۴ء) کو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے جامع مسجد جامعہ دارالعلوم کراچی میں جمعہ کی نماز سے پہلے قضیۂ فلسطین کے حوالے سے بصیرت افروز گفتگو فرمائی اور فلسطین کے موجودہ حالات کے تناظر میں جہادفی سبیل اللہ کے فریضے کی ضرورت و اہمیت اور اس فریضے سے امتِ مسلمہ کی غفلت کے حوالے سے چشم کشا اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔یہ اہم خطاب ہدیۂ قارئین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ) |
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا و مولانا محمد خاتم النبیین و امام المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، وعلی کل من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد!
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
{ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ} [التوبة: 35]
میرے محترم بھائیو، دوستو اور بزرگو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ
اللہ تبارک و تعالی کا فضل و کرم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں مسلمان بنایا اور ایسے گھرانے میں پیدا کیا جو مسلمان گھرانہ تھا۔ اس طرح اسلام کی دولت ہمیں اپنے ماں باپ سے وراثت میں مل گئی، اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی جدوجہد نہیں کرنی پڑی، کوئی قربانی نہیں دینی پڑی، اسی لیے بعض اوقات ہم اس عظیم نعمت کی ناقدری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔اور اسی ناقدری کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے کچھ عبادتوں کو -جن کی اللہ تعالی ہمیں توفیق دے دیتا ہے- پورا پورا اسلام سمجھ کر بیٹھ گئے ہیں۔
الحمدللہ یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے، اس کی توفیق ہے کہ ہم مسجدوں میں آ جاتے ہیں، نمازوں میں شریک ہو جاتے ہیں، رمضان آتا ہے تو روزے رکھ لیتے ہیں، الحمدللہ یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے، لیکن دین کے تقاضے صرف اس حد تک محدود نہیں ہیں۔ دین ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اس میں عبادات کے ساتھ معاملات بھی ہیں، معاشرت اور اخلاق بھی ہیں۔ ہم دین کے کسی ایک شعبے کو پکڑ کر اکثر و بیشتر دین کے دوسرے شعبوں سے غافل رہتے ہیں، اور اس کی وجہ سے ہماری زندگی اسلام کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتی۔
جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت اور اس فریضے سے ہماری غفلت
اسلام کے ان تقاضوں میں سے ایک ایسی چیز جس کو ہم مکمل طور پر بھلائے بیٹھے ہیں اور اس کا کبھی خیال بھی دل میں نہیں آتا، چہ جائیکہ اس پر عمل کرنے کا کوئی جذبہ پیدا ہو ۔اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ ،یعنی اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ جہاد اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، ایک حدیث میں رسول کریم سرور دو عالم ﷺ نے جہاد کو ’’عماد الاسلام‘‘یعنی اسلام کا ستون قرار دیا۔ اور ایک روایت میں اس کو ’’ذروۃ السنام‘‘یعنی اسلام کی بلند ترین چوٹی قرار دیا ۔
جہاد کے فضائل سےاور اس کے احکام سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں۔ مکی زندگی میں نبی کریم سرور دو عالم ﷺ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، لیکن وہاں یہ جہاد کا حکم نہیں تھا ۔جہاد کے بارے میں غالبا ًسب سے پہلی آیت جو نازل ہوئی، وہ اس وقت نازل ہوئی جب انصارِ مدینہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر اپنی طرف سے یہ پیشکش کی کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لے آئیں تو ہم آپ کی ہر طرح سے حمایت کریں گے اور آپ کا ساتھ دیں گے۔ بعض روایات کے مطابق اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ:
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ١ؕ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَ١۫ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا۠ بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ۔[التوبة: 35]
واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت انہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور انجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو ؟ لہذا اپنے اس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کرلیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔
اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ نے تمام مومنین کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں اور اس خریداری کی قیمت اللہ تبارک و تعالی نے جنت مقرر کی ہے، یعنی جو شخص بھی ایمان لاتا ہے اللہ پر اللہ کے رسول ﷺ پر اور یوم آخرت پر، تو وہ پہلے ہی سمجھ لے کہ اس کی جان بھی اور اس کا مال بھی اللہ تبارک و تعالی کے ہاتھ بکا ہوا ہے، اور اس کی قیمت اللہ نے جنت مقرر کی ہوئی ہے۔
اس لحاظ سے جتنے مومن پہلے پیدا ہوئے، آج موجود ہیں، آئندہ پیدا ہوں گے اور ہم سب جتنے بھی یہاں بیٹھے ہیں ، یہ سب اللہ تبارک و تعالی کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں اور بکے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری جان اور ہمارے مال یہ ہماری ملکیت نہیں، بلکہ اللہ کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا ان مؤمنین کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ (يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ) وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے،جہاد کرتے ہیں، لڑائی کرتے ہیں ۔اور لڑائی میں کیا کرتے ہیں؟ دوسروں کو بھی قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہوتے ہیں، اور (وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا) اللہ تعالی نے ان سے سچا وعدہ کر رکھا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں وہ انہیں جنت دے گا۔ اور یہ وعدہ آج کا نہیں ہے، بلکہ (فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الْقُرْاٰنِ) یعنی اللہ نے تورات میں بھی یہ وعدہ کیا تھا، انجیل میں بھی یہ وعدہ کیا تھا ،اور آج قرآن میں بھی اللہ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے۔
اس آیت نے واضح کر دیا ایک مومن کی جان اس کی اپنی جان نہیں ہے، اس کا مال اس کا اپنا مال نہیں ہے، اس کی جان بھی اللہ کی، اس کا مال بھی اللہ کا۔ اس لیے جس جگہ اللہ تعالی اسے جان دینے کا حکم دے ، اس کا فرض ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کے راستے میں اپنی جان قربان کرے۔اگر اللہ تعالیٰ اسے اپنا مال خرچ کرنے کا حکم دے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ اس مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اور ان دونوں کی عملی صورت جہاد فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے جہاد میں کرنا ہے۔
جہاد و مجاہدین کی عظیم فضیلت اور جہاد کا خیال نہ آنے پر وعید
جہاد کی بڑی عظیم فضیلتیں ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم سرور دو عالم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ : ائّ الناس افضل؟ یعنی آپ کے نزدیک تمام لوگوں میں سب سے زیادہ افضل انسان کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:
المجاہد فی سبیل اللہیعنی وہ شخص سب سے افضل ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: جہاد کی صف میں تھوڑی دیر کھڑا ہو جانا 70 سال کی عبادت سے زیادہ افضل ہے ۔ رسول کریم سرورِ دو عالم ﷺ بہت سے غزوات میں تو خود بنفس نفیس شریک ہوتے تھے اور بعض جگہ خود شریک ہونے کے بجائے اپنے صحابہ کو سریہ کے طور پر بھیج دیتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اگر میرے پاس یہاں مدینہ منورہ میں کام کرنے کے تقاضے نہ ہوتے تو کوئی سریہ ایسا نہ ہوتا جس میں، میں بذاتِ خود شریک نہ ہوتا، ہر لشکر اور ہر دستے میں میں شریک رہتا۔( )اوریہاں تک فرمایا کہ:
«لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ»
مجھے یہ خواہش ہے کہ اللہ کے راستے میں جب میں جہاد کروں تو مجھے قتل کیا جائے، اور قتل کرنے کے بعد مجھے اللہ تعالی دوبارہ زندگی دے، پھر میں اللہ کے راستے میں دوبارہ قتل ہوجاؤں، پھر اللہ تعالی مجھے زندگی دے اور میں سہ بارہ اللہ تعالی کے راستے میں شہید ہو جاؤں۔
یہ جہاد اتنا عظیم عمل ہے کہ رسول کریم ﷺ جہاد میں شہادت کی تمنا فرمارہے ہیں۔لیکن آج ہمارے دلوں میں اس کا خیال ہی نہیں آتا،کبھی یہ خواہش بھی پیدا نہیں ہوتی کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں جہاد میں قبول فرما لے۔ جہاد کے کسی کام میں ہماری جان خرچ ہو جائے یا ہمارا مال خرچ ہو جائے۔ رسول کریم سرور دو عالم ﷺ نےارشاد فرمایا کہ جو شخص اس طرح زندگی گزارے کہ ساری زندگی کبھی اس کے دل میں جہاد کا خیال بھی نہ آیا ہو تو وہ نفاق کی قسموں میں سے ایک قسم پر مرا۔ساری زندگی عبادت کرتا رہا، ذکر کرتا رہا، تسبیح کرتا رہا، لیکن کبھی یہ خواہش نہیں پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی جہاد میں شریک ہو جاتا تو فرمایا کہ وہ نفاق کی قسموں میں سے ایک قسم پر مرا ۔
مغربی ممالک کے امنِ عالم سے متعلق دوہرے معیارات
جہاد فی سبیل اللہ کے اتنے عظیم فضائل اور اتنے عظیم احکام ہیں،لیکن مدتوں سے ہمارے ذہنوں سے اس کا تصور مٹتا جا رہا ہے ۔کیوں مٹ رہا ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ ہم عرصۂ دراز سے مغرب کے غلام ہو چکے ہیں۔ ہم مغربی ممالک کے، یورپی ممالک کے، امریکہ کےاور برطانیہ کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہر وقت امن کا نعرہ لگاتے ہیں ؛ امنِ عالم ،امنِ عالم، امنِ عالم ،اور کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں ، جب کہ امن کا مطلب ان کے اپنے لیے کچھ اور ہے اور ہمارے لیے کچھ اور ہے۔
اگر وہ عراق پر حملہ کریں تو یہ امن کے خلاف نہیں، اگر وہ افغانستان پر حملہ کریں تو یہ امن کے خلاف نہیں۔ اگر برمی حکومت برما کے مسلمانوں پر حملے کرے اور ان کے گھر جلائے تو یہ امن کے خلاف نہیں۔اگر بھارتی حکومت کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کرے تو یہ امن کے خلاف نہیں، لیکن اگر کوئی ملک مسلمان اپنی حریت کے لیے، اپنی آزادی کے لیے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے کوئی جدوجہد کرتا ہے تو وہ دہشت گرد ہے۔اگر افغانستان یہ کہتا ہے ہمیں امریکہ کا تسلّط قبول نہیں ہے، اور ہم اپنی آزادی و خودمختاری کیلئے لڑیں گے تو وہ دہشت گرد ہے، چنانچہ آج تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اگر کشمیر کے مجاہدین یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھارت کے تسلّط سے آزادی چاہیے تو وہ دہشت گرد ہیں۔ اگر فلسطین کے مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سرزمین ہماری ہے، اس پر یہودی زبردستی آ کر قابض ہوئے ہیں، ہمیں ان سے آزادی چاہیے تو انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
امنِ عالم کےنام نہاد علمبرداروں کی فلسطین میں دہشت گردی
ہمارے ذہنوں کو اس طرح مسموم کیا گیا ہے کہ ہمارے لیے امن کا مطلب ہی غلامی بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں مغرب کی طرف سے امن کا جو درس دیا جاتا ہے ،اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے غلام بنے رہو، کبھی ہمارے خلاف آواز مت اٹھانا، کبھی ہمارے خلاف کوئی جنگی کارروائی مت کرنا،کبھی ہمارے خلاف ہتھیار مت اٹھانا۔ اگر ہمارے غلام بن کر رہتے ہو تو ہم تمہیں سمجھیں گے کہ تم پُرامن ہو اور صحیح معنی میں انسان ہو (اگرچہ صحیح معنی میں انسان پھر بھی نہیں سمجھتے۔) لیکن خود اپنا طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم جس پر چاہیں حملے کر دیں، جس زمین پہ چاہیں قبضہ کر لیں، یہ ہمارا اختیار ہے، یہ ہمارا حق ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے فلسطین کے اندر انسانیت کی ادنیٰ سے ادنیٰ قدر کو پامال کر کے 35 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ بچوں کو، عورتوں کو، بیماروں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور پھر بھی وہ امن کے علمبردار ہیں۔ دنیا کے سامنے یہ کہتے ہوئے انہیں بھی شرم نہیں آتی کہ ہم دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔
غزہ کی پکار اورمیڈیا و مسلم حکمرانوں کی بے حسی
مجھے افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی دینی غیرت، دینی حمیت، قومی غیرت، قومی حمیت، ایسا لگتا ہے کہ فنا ہو چکی ہے۔ پوری دنیا کے اندر ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان نظارے دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کے بچوں پر، عورتوں پر، بیماروں پر کس طرح ظلم ڈھایا جا رہا ہے ،لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا، کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہا۔غزہ پکار رہا ہے کہ میری مدد کو آؤ، لیکن کوئی اس کی پکار سننے کو تیار نہیں ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہمارا میڈیا ،ہمارے ذرائع ابلاغ بھی وہاں کی صحیح صورتحال سے لوگوں کو باخبر کرنے سے گریزاں ہیں۔ پتہ نہیں وہ ڈرتے ہیں یا پھر وہ بھی اپنے آپ کو مغرب کا غلام سمجھ کر وہاں کی خبریں لوگوں تک نہیں پہنچنے دیتے۔ کسی عام آدمی سے، عام مسلمان سے پوچھیں کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟ تو شاید اجمالی طور پر وہ یہ کہہ دے کہ وہاں اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے، لیکن روزانہ کیا صورتحال بدل رہی ہے؟ حالات کس طرح کروٹ لے رہے ہیں ؟اس کی کسی کو خبر نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں اور ہمارے اخبارات میں اس کا ذکر اس طرح نہیں آرہا جس طرح آنا چاہیے تھا۔
فلسطین کی موجودہ دردناک والمناک صورتحال
آج صورتحال یہ ہے کہ غزہ کی وہ پٹی جسے اسرائیل کے ظالموں نے حصار میں لیا ہوا تھا، انہوں نے پہلے اس کے شمالی علاقے پر بمباری کی اور بمباری میں ہزارہا لوگوں کو شہید کیا، اور محض اپنا چہرہ چھپانے کے لیے اعلان کر دیا کہ ہم شمال پر جا کر بمباری کریں گے، لہٰذا یہاں کے لوگ جنوب کے ایک شہر رفح -جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے- وہاں منتقل ہوجائیں، تاکہ ہم یہاں حماس کے ٹھکانوں پر بمباری کرسکیں۔ چونکہ اس میں عام شہری نشانہ بن سکتے تھے، تو اپنا ایک چہرہ چھپانے کے لیے یہ اعلان کر دیا کہ اگر شہری ہمارے حملوں سے بچنا چاہتے ہیں تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کر دور کے علاقے رفح میں چلے جائیں۔ چنانچہ تقریباً ۱۲ لاکھ افراد ان کے کہنے پر اپنے گھروں اور اپنے علاقوں کو چھوڑ کر رفح کے اندر منتقل ہوگئے۔وہاں خیمہ بستیاں لگائی گئیں، وہ بیچارے عرصہ دراز سے ان خیمہ بستیوں میں مقیم تھے، جہاں پانی کا انتظام نہیں تھا، کھانے کا انتظام نہیں تھا، دواؤں کا انتظام نہیں تھا، اور وہ لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔
ان حالات میں وہ خیمہ بستیاں وہاں رفح میں قائم ہوئیں، لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ رفح کو چھوڑو ہم یہاں رفح پر بمباری کریں گے۔ہم یہاں اپنی زمینی فوجیں داخل کریں گے، لہٰذا رفح کو چھوڑ کر واپس شمالی علاقے میں جاؤ، جمالیہ کے علاقے میں جاؤ۔وہ بیچارے مصیبت زدہ شہری جو بمشکل تمام یہاں آ کر آباد ہوئے تھے، اب رفح کو چھوڑ کر اپنے خیمے کندھوں پر اٹھائے جمالیہ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں ۔ مصر کی سرحد سے ملنے والے رفح کے علاقے سے ان کو امداد پہنچانے کا جو راستہ تھا اور وہاں سے کھانے کی، پینے کی، دواؤں کی جو کچھ امداد وہاں پر پہنچ رہی تھی- اگرچہ اس پر بھی انہوں نے پابندیاں لگائی ہوئی تھی- لیکن کسی درجے میں پہنچ رہی تھی۔ اب آ کر دشمن نے رفح کی اس گزرگاہ کو بھی بند کر دیا ہے تاکہ وہاں سے کوئی امداد نہ پہنچ سکے۔
اہل فلسطین کا ایمانی جذبہ اور حماس کی کارروائیاں
اس طرح اسرائیل نے چاروں طرف سے حماس کو اور فلسطینیوں کو اپنے محاصرے میں لے رکھا ہے، لیکن یہ اللہ تبارک و تعالی کا فضل و کرم اور اس کی رحمت و قدرت کا عظیم معجزہ ہے کہ حماس کےمجاہدین ابھی تک ان کے سامنے اس طرح ڈٹے ہوئے ہیں کہ رفح کے اندر جب ان کی فوجیں داخل ہو رہی ہیں تو پہلے سے انہوں نے منصوبے بنائے ہوئے ہیں، اور صرف کل کے دن ( ۱۶ مئی ۲۰۲۴ ء) میں انہوں نے اسرائیلی فوجوں پر ۲۰ حملے کیے ہیں۔ اور اسرائیل کا یہ کہنا ہے کہ کل کا دن اس پوری جنگ میں ہم پر سب سے زیادہ سخت دن گزرا ہے۔ چالیس پچاس کے قریب ان کے آدمی مارے گئے، بہت سے ٹینک ختم ہو گئے ، ان کے بہت سے آلیات کو کتائب القسام اور سرایا القدس نے نشانہ بنایا۔
وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی شخص بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ ہم پر مصیبت آگئی ہے اور ہم اگر اسرائیل کی غلامی قبول کر لیتے تو ہمیں یہ مصیبت نہ دیکھنی پڑتی۔ کوئی نہیں کہتا، بچہ بچہ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہیں۔ وہ پیغامات بھیج رہے ہیں کہ کہاں ہیں ایک ارب سے زیادہ مسلمان! کہاں ہیں وہ عرب جو اپنی بہادری پر اپنی شجاعت پر فخر کیا کرتے تھے!وہ آواز دے رہے ہیں، لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ۔اب آ کر مصر نے کچھ تھوڑی سی حرکت کی ہے اور اس گزرگاہ کو کھولنے کے سلسلے میں اس نے بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ لیکن اگر بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو سارا عالم اسلام سویا ہوا ہے۔
حکمرانوں کو اور عام مسلمانوں کو جہاد کے فریضے کی یاددہانی
اس موقع پر میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جہاد بھی شریعت کا کوئی حکم ہے، اور یہ اصل میں تو ان حکمرانوں کا فریضہ ہے جو غزہ کے حالات سے بے خبر ہو کر اپنے محلات میں سوئے ہوئے ہیں،لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کے ذمے بھی جہاد فرض ہے ۔میں پہلے بھی یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ فرض اس معنی ہے کہ اگر مسلمانوں کے کسی خطے پر کوئی غیر مسلم حملہ آور ہو تو اس خطے کے ہر مسلمان پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، اگر وہ کافی نہ ہوں تو برابر والے لوگوں پر فرض ہو جاتا ہے، اگر وہ کافی نہ ہوں تو ان سے آگے کے لوگوں پر فرض ہوجاتا ہے۔ جہاں جہاں تک مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں تک جہاد کی فرضیت کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا رہے گا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ حکمرانوں نے جو کچھ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے ،وہ تو اپنی جگہ ہے۔ان کیلئے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی ان کو ہدایت دے، اللہ تعالی ان کے دل میں رحم و کرم اور دین کی غیرت و حمیت پیدا فرما دے ،لیکن عام مسلمانوں کے اندر بھی اس موقع پر جو جذبہ ہونا چاہیے تھا وہ جذبہ نظر نہیں آ رہا ۔ہر انسان کے دل میں یہ ٹیسیں اٹھنی چاہئیں کہ میرے مسلمان بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس کے دل میں یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ کاش میں بھی وہاں جا کر اپنی خدمات انجام دے سکتا، میں بھی جہاد میں شریک ہو سکتا۔اور اگر وہاں جا کر خدمات انجام نہیں دے سکتا تو جتنی کچھ مدد پہنچا سکتا ہوں وہ تو پہنچا ؤں ،چاہے وہ مالی اعتبار سے ہو یا ان کیلئے آواز اٹھا کر مددپہنچا ئی جائے ۔
اس وقت حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اللہ تعالی غیر مسلموں سے وہ کام لے رہے ہیں جو مسلمان نہیں کر پا رہے۔ یورپ میں امریکہ میں، امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ فلسطین کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں، لیکن یہاں حرکت نظر نہیں آتی۔ کچھ لوگ ہیں جو مختلف جگہوں پر تھوڑی بہت اپنی آواز اٹھا دیتے ہیں، مگر وہ بھی خطرے میں رہتے ہیں اور ان پر بھی پکڑ دھکڑ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔اس وقت بھی کچھ لوگوں نے اسلام آباد میں ڈی چوک پر مظاہرہ کیا ہوا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنا فریضہ ادا کرے۔
مسلم حکمرانوں کیلئے امتِ مسلمہ کا حق ادا کرنے کا بہترین وقت
اس موقع پر جبکہ فلسطینیوں کی جان پر بنی ہوئی ہے، جب یہ دشمن مسلمانوں کو ختم کرنے کی اپنی ساری طاقت آزما رہا ہے، اس وقت ہر شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کم از کم حکمرانوں کو توجہ تو دلائے اور حکمرانوں کو متوجہ کر کے اس بات پر مجبور تو کرے کہ وہ اپنا فریضہ ادا کریں۔ نئے نئے میزائلوں کے تجربے ہو رہے ہیں ،الحمدللہ! اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ قوت عطا فرمائی کہ آپ نے نیا میزائل جاری کردیا۔ لیکن کیا یہ صرف نمائش کیلئے ہے یا کہیں استعمال بھی ہوگا؟ اگر امن کا وہ مطلب لے لیا جو مغرب ہمیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم غلام بنے رہو، تو بے شک اس میزائل کو اپنے لیے تیار رکھو اور جب امریکہ کا حکم ہو، اس وقت نکال لینا۔ لیکن اگر یہ میزائل تم نے امتِ مسلمہ کے لیے تیار کیا ہے تو امتِ مسلمہ کا حق ادا کرو اور امتِ مسلمہ کا حق ادا کرنے کا اس وقت سب بہترین اور سب سے مقدم ذریعہ فلسطین ہے۔
فلطین سے متعلق عام مسلمانوں کے فریضے
حکمرانوں سے کرنے کی بات تو حکمرانوں سے کی جائے گی اور میں وہاں پر کر بھی چکا ہوں، لیکن اس وقت تو میرے مخاطب یہ عام مسلمان ہیں۔تم بتاؤ کہ کیا تمہارے دلوں میں کوئی درد پیدا ہوتا ہے؟ کوئی ٹھیس اٹھتی ہے؟ کوئی جذبہ بیدار ہوتا ہے کہ میں بھی اس کام میں کسی طرح شریک ہو جاؤں؟ ٹھیک ہے تمہارا جانا وہاں پر ممکن نہیں ہے ،لیکن تم ان کی مالی مدد تو کر سکتے ہو۔ تم ان کے حق میں دعائیں تو کر سکتے ہو۔ تم جہاں مجلسوں میں بیٹھو ان کا تذکرہ تو کر سکتے ہو، تاکہ جہاد کا موضوع مرنے نہ پائے، زندہ رہے، لوگوں کی زبانوں پر رہے، لوگوں کے دلوں میں رہے، لوگوں کے دماغوں پر رہے، اتنا تو کر سکتے ہو؟
قرآں کہتا ہے جہاد جان سے بھی ہوتا ہے اور مال سے بھی ہوتا ہے۔ اگر جان سے نہیں کر سکتے تو مال سے کرو ۔اگر مال سے نہیں کر سکتے تو زبان سے کرو ،زبان سے نہیں کر سکتے تو قلم سے کرو ۔غرض جو ذرائع اللہ نے تمہیں عطا فرمائے ہیں ان کو مجاہدین کی امداد میں استعمال کرو۔ یہ ہے آج کے وقت کا ہم سے سب سے بڑا تقاضا ، جس کی میں بار بار یاد دہانی کی کوشش کرتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص شریعت کی رو سے اس وقت اس بات کا پابند ہے کہ وہ مجاہدین کے حالات سے باخبر بھی رہے، ان کے حق میں جو جو دعائیں ہو سکتی ہیں وہ دعائیں بھی کرے، اور جو روپیہ وہ خرچ کر سکتا وہ روپیہ بھی خرچ کرے۔
اہلِ فلسطین کیلئے روزانہ دس منٹ ضرور نکالیں
پچھلے جمعہ کو میں نے عرض کیا تھا کہ ہرآدمی اپنی روزانہ کی زندگی میں سے دس منٹ دعاؤں کے لیے ضرور نکالے اور ان دس منٹ میں آیت کریمہ پڑھ کر اللہ تبارک و تعالی سے مانگے۔ پھر دیکھو اللہ تعالی کیسے دروازے کھولتاے ہیں۔آج تقریباً سات مہینے ہو رہے ہیں اور یہ مٹھی بھر لوگ پوری قوت سے اتنے بڑے طوفان کا مقابلہ کر رہے ہیں، یہ اللہ تعالی کی نصرت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ نصرت تو ان شاءاللہ ہوگی اور اللہ کی رحمت سے مجھے پوری امید ہے کہ ان شاءاللہ یہ فتح یاب ہوں گے۔ اسرائیل مٹے گا اور اسرائیل کا نام و نشان مٹے گا ان شاءاللہ ۔ لیکن جو لوگ آج خاموش بیٹھے ہیں انہیں اس وقت جو حسرت ہوگی ، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ تعالی ہم سب کو برے انجام سے محفوظ فرمائے۔(آمین)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :ذوالحجہ ۱۴۴۵ھ)