حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنید اشفاق اٹکی

سانحہ باجوڑ، المناک سانحہ اور اہل علم کی مظلومانہ شہادت

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

خطبۂ مسنونہ کے بعد فرمایا: میرے محترم بزرگو، بھائیو اور دوستو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کل ہم جن حالات میں جی رہے ہیں ،ان میں ہر شخص اپنے آپ کو پریشان اور غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ مختلف حادثات روز مرہ پیش آ رہے ہیں۔ کبھی سیلاب ہے ،کبھی زلزلہ ہے ،کبھی دہشت گردی کا عفریت ہے، جو ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، سیاسی طور پر قوم بٹی ہوئی ہے،سیاسی استحکام نہیں ، معاشی طور پر بُرا حال ہے، مہنگائی نے کمر توڑی ہوئی ہے ، ہم کافی عرصے سے ان سب حالات میںزندگی گزار رہے ہیں ۔اللہ تبارک و تعالی اپنے فضل و کرم سے ہمیں اس بحران سے عافیت کے ساتھ نکالے۔ لیکن پچھلے ہفتے باجوڑ میں جو سانحہ پیش آیا وہ انتہائی المناک ،درد ناک ،کربناک اور ایسا ہے کہ اس پر جتنا دکھ کا اظہار کیا جائے ،کم ہے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسّی افرادشہید ہو چکے ہیں ،جن میں سے بیشتر علماء تھے اور ان شہداء میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی داخل ہیں، بے شمار لوگ زخمی ہیں، بہت سوں کی حالت نازک ہے ۔ جس بے دردی کے ساتھ ان علماء کو شہید کیا گیا ہے ، اس کی مثالیں دہشت گردی کے پچھلے واقعات میں کم ملتی ہیں۔ دیکھنے والوں اور متعلقین سے ہم نے رابطہ قائم کیا، تو معلوم ہوا کہ لاشیں اس طرح بکھری ہوئی تھیں کہ دیکھنے والا بھی خوفزدہ ہو جائے ،بہت سے ایسے ہیں جن کے اعضاء بھی کٹ کٹ کر الگ ہوگئے اور ان کی پہچان مشکل ہو گئی، بعض ایسے ہیں کہ جن کو پہچاننے میں شدید دشواری پیش آئی ۔ایک صاحب کے بارے میں پتہ چلا کہ صرف ان کے جوتوں سے پہچانا گیا کہ یہ فلاں شخص ہے ،ورنہ جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں تھا۔ یہ بربریت، یہ سفاکی، ایسے لوگوں کی طرف سے ہوئی ، جو خود اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعویدار ہیں۔ نام اسلام کا ہے اور اس میں عام مسلمانوں کو بھی نہیں بلکہ ایسے اہل علم کو ،جو اللہ کے فضل و کرم سے اس ملک میں دین کا کلمہ بلند کرنے والے ہیں، ان کو نشانہ بنایا گیا ، اتنی بڑی تعداد علماء کی شہید ہوئی اور بے شمار لوگ ابھی تک زخمی ہیں ، ان کا علاج ہو رہا ہے۔ اللہ تعالی ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے ۔اللہ تبارک و تعالی شہداء کو اعلیٰ درجات سے نوازے آمین۔ سب مسلمانوں کو دعا کرنی چاہیے۔ ان شاء اللہ وہ تو اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ایک شہید کا جو مرتبہ ہوتا ہے وہ انبیاء اور صدیقین کے بعد سب سے بڑا درجہ ہوتا ہے۔اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ اللہ تعالی کی رحمت میں پہنچ کر خوش و خرم ہوں گے ان شاء اللہ تعالی۔ لیکن ان کے پسماندگان میں سے بعض خاندانوں کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ ان کا کوئی کفیل باقی نہیں رہا،چھوٹے چھوٹے بچے ہیں یا خاتون ہے ان کا کوئی یار و مددگار ،دیکھنے والا، وارث، ان کی ضروریات کو سمجھنے والااب کوئی باقی نہیں رہا ۔ان شہداء میں خود ہمارے دارالعلوم کے بہت سے فضلاء ہیں ،جو دارالعلوم سے پڑھ کر گئے ہیں ، ہمارے دارالعلوم کے فاضل مولانا حمید اللہ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ بھی شہید ہوئے، جو ابھی دو مہینے پہلے دارالعلوم کے فضلاء کے اجتماع میں پیش پیش تھے، اب ان کے گھر میں ان کی بیوہ اور معصوم بچوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ غرض!لوگوں کو شہید کرنے اور ان کے پسماندگان کو بے آسرا کرنے کا ایک طوفان برپا کیا گیاہے۔

یہ دہشت گردی کے واقعات ہمارے ملک میں بہت کثرت سے ہوتے رہے ہیں ، پچھلے دنوں بھی کوئی نہ کوئی واقعہ کبھی کوئٹہ ، کبھی پشاور اور کبھی کسی اور جگہ پیش آ جاتا تھا اوردو ، چار افراد کی شہادت تک محدود رہتا تھا،لیکن اتنا بڑا سانحہ ،جس میں اتنی بڑی تعداد شہید ہوئی ہو ،یہ ایک منفرد واقعہ ہے ۔آپ کو یاد ہو گا کہ ہماری فوج کے سکول کے بچوں پر جب حملہ ہوا تھا تو سارے ملک میں کہرام مچ گیا تھا ، سرکاری اور میڈیا کی سطح پر اس کی مذمت ، بُرائی اور ان کے کرنے والوں پر لعنت و ملامت کا ایک طوفان برپا ہوگیا تھا، ہمارے ان علماء کی شہادت پر جس طرح کا ردعمل ہماری حکومت یا ہماری سیکیورٹی کی طاقتوں کو دینا چاہیے تھا ،وہ اس درجے کا نہیں ہے جو اُس وقت دیا گیا تھا۔ حالانکہ علماء کے ساتھ یہ سفاکی کہیں زیادہ شدید ردعمل کی متقاضی تھی۔ اسّی (۸۰)عالم فوت ہو گئے، دنیا سے چلے گئے ،ہم ان سے محروم ہو گئے !!یہ وہ لوگ تھے جو اس ملک میں دین کا کلمہ بلند کرنے والی واحد طاقت ہے ۔لوگ علماء کی قدر نہیں پہچانتے،ان مدارس کے اندر جو لوگ علمِ دین حاصل کرتے ہیں ، لوگ ان کی قدر و قیمت نہیں پہچانتے کہ یہ اس امت کے لئے کتنی بڑی عظیم نعمت ہیں۔

آپ یہ بتائیے کہ جتنی تعلیمی درسگاہیں اس وقت ملک میں قائم ہیں ، چاہے وہ سرکاری سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہوں یا انگلش میڈیم ادارے ہوں، ان میں سے کون ہے جو دین کے بنیادی احکام کا علم دے رہا ہے؟تعلیم کا اتنا بڑا نظام ہے!اس کے لیے وزارت قائم ہے ، اس کے لئے اربوں روپے کے فنڈ مختص کیے ہوئے ہیں اور ادارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی شکل میں سارے ملک میں موجود ہیں، آپ سروے کر کے دیکھ لیجیے !کیا کسی ادارے میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ نماز کیسی پڑھنی چاہیے؟ کیا اس میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ کون سی صورت میں انسان کے لئے غسل واجب ہوتا ہے اور اس کے ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ کون سی جگہ یہ پڑھایا جاتا ہے کہ زکوۃ اللہ تعالی نے فرض کی ہے اورزکوۃ نکالنے کا کیا طریقہ ہے ؟کن چیزوں پر زکوۃ آتی ہے اور کن پرنہیں؟ کون سی خرید و فروخت جائز اور کون سی ناجائز ہے؟ اگر کسی آدمی کا انتقال ہو جائے تو اس کی میراث کس طرح تقسیم ہو گی؟ جن اداروں پر قوم کے اربوں روپے لگ رہے ہیں وہاں دین کی اتنی معلومات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں سے پوچھئے کہ نماز میں کیا فرائض ہوتے ہیں تو بالکل خاموش رہیں گے اورکوئی جواب نہیں دے سکیں گے،ان سے پوچھئے کہ زکوۃ کس پر فرض ہوتی ہے تو وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے، ان سے کہیں کہ سورۂ اخلاص پڑھ کر سنا دیں تو وہ بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکیں گے۔نماز جنازہ تو بہت ہوتی ہیں ،اس میں حکومت کے افراد ، وزراء اورفوجی حضرات کے رہنما بھی ہوتے ہیں، کتنوں کو نماز جنازہ آتی ہے کہ کس طرح نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے؟ سارے معاشرے میں تعلیم کا جتنا سرکاری انتظام ہے ، اس تعلیم کے نظام میں کوئی ایک حصہ ایسا کہ جس میں دین کی بنیادی باتیں سکھائی جائیں، وہ کہیں موجود نہیں ہے۔ قرآن کریم پڑھانے کا ،فرائض دین سمجھانے کا اور بنیادی ضروریات دین کو سمجھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اسلامیات کا ایک گھنٹہ بے شک ہے لیکن اس اسلامیات کے گھنٹے میں کچھ اجمالی باتیں بتا دی جاتی ہیں ، اس کو بھی غیر اہم سمجھ کرطالب علم اس کی طرف توجہ نہیں دیتے،اور اس کی وجہ سے امتحان کے نمبروں پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ حالت ہے ہمارے ہاں تعلیم کی!تو بتاؤ کہ اس ملک میں اگر مسجدیں آباد ہیں ،نمازیں پڑھی جا رہی ہیں ، دین کا کلمہ بلند کیا جا رہا ہے تو وہ کون سی مخلوق ہے جو یہ کام کر رہی ہے؟ وہ صرف ان مدرسوں کے اندر پڑھنے والے اور پڑھ کر فارغ ہونے والے لوگ ہیں۔ان کے دم سے اس ملک میں ابھی تک دین زندہ ہے الحمدللہ ۔ورنہ اس دین کے علم کی حفاظت کرنے والا پورے ملک میں کوئی ادارہ نہیں ہے سوائے ان مدرسوں کے جو قومی خزانے پر ایک پیسے کا بوجھ ڈالے بغیریہ خدمت کر رہے ہیں۔

عصری تعلیمی اداروں پر اربوں خرچ ہو رہے ہیں اور اربوں خرچ ہونے کے باوجود ایسے لوگ تیار نہیں ہو رہے ،جو ملک کو خود کفیل بنا سکیں۔ ایسے لوگ تیار نہیں ہو رہے جن کے پاس یہ مہارت ہو کہ ہمارے ہاں جو سونے کی کان نکلی ہے ، اس کان سے سونا برآمد کرنے کاطریقہ جان سکیں،ان کو ابھی تک یہ پتہ نہیں ۔لہٰذا غیر ملکوں سے معاہدے کرنے پر مجبور ہیں کہ ہماری کان ہے، تم نکالو!پچاس فیصد سونا تمہارا ہوگا پچاس فیصد ہمارا ہوگا۔ اتنی یونیورسٹیاں قائم ہونے اور اتنا اربوں روپیہ خرچ کرنے کے باوجود ابھی تک ہم یہ مہارت حاصل نہیں کر سکے کہ یونیورسٹیوں کے ذریعے اپنا سونا خود نکال سکیں۔ پیٹرول نکل رہا ہے، سونا نکل رہا ہے لیکن ہم خود اس قابل نہیں ہیں کہ وہ سونا ہم خود نکال کر اپنے ملک پر خرچ کر سکیں ۔ اتنی بڑی دولت سونے کی ہے اور اتنی بڑی دولت کا پچاس فیصد حصہ باہر کی کمپنی کو دینے پر مجبور ہیںکہ تم آکر نکالو، ہمیں نہیں آتاکہ سونا کیسے نکالا جاتا ہے، آپ یہ سمجھیے کہ سونے کا جو یہ منصوبہ شروع ہوا ہے ،یہ ایسا ہے کہ اگر پورا سونا ملک کو مل جائے تو ہمارے ہاتھ سے بھیک کا پیالہ ختم ہو جائے، لیکن اس سارے نظام تعلیم کے اتنے زور و شور کے باوجود ہم نے ایسے لوگ تیار نہیں کئے جو سونے کی کان سے سونا نکالنے کے قابل ہوں، لہٰذا غیروں کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ پچاس فیصد سونا تم لے جاؤ۔

اس مدرسے کے نظام میں ایک پیسہ بھی حکومت کا خرچ نہیں ہوتا۔ آپ ہر سال بجٹ دیکھتے ہیں کہ پورے ملک کا بجٹ بنایا جاتا ہے ، اس بجٹ میں ایک پیسہ بھی دینی تعلیم کے لیے موجود نہیں ہے۔ یہ مدرسے اللہ تعالی کے بھروسہ پر اور عام مسلمانوں کی غیرت اور حمیت کے تقاضے سے الحمدللہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں اور ایک پیسہ لیے بغیر خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ پوری تاریخ میں حکومت کی طرف سے کوئی ایک بھی مسجد تعمیر کی گئی ہو ۔جتنی مسجدیں قائم ہیں وہ سب مسلمانوں نے اپنے پیسے سے بنائی ہیں ،پھر ان مسجدوں کو آباد کرنے ، ان میں نمازیں پڑھانے اور اس میں دین کی کوئی بات وعظ کی صورت میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو نئے نظام تعلیم سے نکل کر آیا ہو اور اس نے آکر مسجد کا نظام سنبھالا ہو۔ مسجد کی نمازوں کا انتظام ،مسجد کے اندر جمعہ کا انتظام اور جمعہ کے اندر لوگوں کو دین سے باخبر کرنے کا انتظام ، یہ سب کچھ کہاں سے ہو رہا ہے؟ یہ خدمت صرف مدرسے انجام دے رہے ہیں ۔ان سے جو علماء بن رہے ہیں تنہا وہ ہیں جو اس ملک میں الحمدللہ دین کی حفاظت کر رہے ہیں ۔

ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے سوات کے علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا ،کچھ لوگوں کی دعوت تھی ، ہمیں ایک ایسی جگہ جانا تھا جہاں کا راستہ انتہائی دشوار گزار تھا ،پکی سڑک نہیں تھی ،پہاڑی علاقہ تھا ، پہاڑی علاقے میں بعض جگہ گاڑی پتھروں پرسے چل کر جا رہی تھی ۔ پورے راستے میں ہم نے دیکھا کہ کوئی بازار تھا نہ کوئی دکان تھی، نہ کوئی سکول تھا نہ کوئی ہسپتال تھا ، کچے پکے مکان بنے ہوئے تھے ۔یہ تقریباً چار، پانچ کلو میٹر کی پٹی ہوگی اور گاڑی میں بھی چلنا بڑا مشکل ہو رہا تھا ، بہت ہی دشوار گزار علاقہ تھا،میں نے دیکھا کہ اس پورے علاقے میں کوئی چیز نہیں تھی لیکن راستے میں دو مسجدیں تھیں اور ایک پر مدرسہ تعلیم القرآن کا بورڈ لگا ہوا تھا ۔اس جنگل میں، ان پہاڑوں پر اور ان علاقوں میں جہاں تعلیم کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا وہاں پر دو مُلاَّ بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو دین کا کلمہ پڑھا رہے ہیں۔اس علاقے میں کسی بھی قسم کی تعلیم کا انتظام نہیں تھا لیکن مسجدیں تھیں، مدرسہ کا مکتب تھا اوروہ مُلاَّبیٹھے اپنے علاقے کے بچوں کو قرآن پڑھا رہے تھے، ان کو دین کی بنیادی باتیں سکھا رہے تھے۔وہاںاور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں الف ،با ،تا بھی پڑھائی جاتی ہو، لیکن وہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے اپنے دین کی خدمت انجام دے رہے تھے۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر ،موٹا جھوٹا پہن کراور قربانیاں دے کر قرآن کی خدمت میں مشغول تھے۔ الحمدللہ سارے ملک میں یہ حال ہے۔ اس وقت ہم جس وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ ہیں ، دارالعلوم کراچی بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ اس وفاق کے پورے ملک میں تئیس ہزار مدرسے ہیں ، بلوچستان کے بالکل آخر ژوب اور لورالائی سے لے کر گوادر اور پسنی تک اور ادھر باجوڑ اور سرحدی قبائل سے لے کر کراچی اور کیماڑی تک ہر جگہ اور ہر بستی میں پھیلے ہوئے ہیں الحمدللہ۔ گورنمنٹ کا پیسہ ان پر خرچ نہیں ہوتا ، نہ ہم گورنمنٹ سے مانگتے ہیں نہ لیتے ہیں، اگر گورنمنٹ دے بھی تو نہیں لیں گے۔ یہ ساری خدمت کون انجام دے رہے ہیں؟ یہ مدرسے کے لوگ، ان مدرسے کے فارغ التحصیل اور ان میں پڑھنے والے جا کر دین کا کلمہ بلند کر رہے ہیں۔ ان کی قدر و قیمت اور ان کی عظمت آج دنیا والوں کے سامنے کچھ بھی نہ ہو لیکن جب یہ دنیا ختم ہوگی، ناپائیدار زندگی ختم ہوگی اور اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ یہ سب سے زیادہ اونچی گردنوں والے ہوں گے ۔
ہمارے اس ملک میں سوائے ان اہل علم کے، کوئی دین سکھانے والا موجود نہیں ہے ، لہٰذا جو اسلام ، پاکستان اور عالم اسلام کے دشمن ہیں، انہوں نے یا تو فوجی جوانوں کو نشانہ بنایا ہے جو جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں ، یا ان علماء کو جو ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں ان کے نزدیک فتنے کی جڑیہ ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ مُلاّ موجود ہیں اس وقت تک ہم اپنے بے دینی کے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے ،اس لئے انہوں نے طے کر لیا ہے کہ ان کو نشانہ بناؤ!ان کو بدنام کرو!ان کو مارو!ان کو قتل کرو!چنانچہ آپ ذرا سوچئے کہ اتنے بڑے علماء کے مجمع میں بم دھماکہ ہو رہا ہے اورکون کر رہا ہے؟جو اپنے دعوے کے مطابق اسلامی نظام قائم کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے علماء کو ختم کیا جا رہا ہے، علماء کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔یقین رکھو! یہ سب دشمنان اسلام کی سازش ہے ،وہ جانتے ہیں کہ جب تک یہ دین کا نام لینے والا مُلاّباقی ہے اس وقت تک ہم بے دینی کو فروغ نہیں دے سکتے، اس وقت تک ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے ،اس لئے ان کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ، ان کو جتنا ہو سکے بدنام کرو،یہ کہو کہ یہ مُلاَّمحض بسم اللہ کے گنبد میں رہتا ہے ، اس کو دنیا کی کچھ خبر نہیں ہے!کہو کہ اس کو اور کچھ نہیں آتا ،اس کو جدید تعلیم حاصل نہیں ہے ،یہ بیکار لوگ ہیں، جب یہ فارغ ہو کے جاتے ہیں تو ان کا کوئی مصرف نہیں ہوتا!طرح طرح بد نام کیا جاتا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے ان کو شہید کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ آپ ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ جتنی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اس میں کتنے بڑے بڑے علماء کو شہید کیا گیاہے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ تمہارا کیا بگاڑ رہے تھے؟نہ ان کا سیاست میں حصہ تھا اورنہ حکمرانی کا حصہ لینے کی کوئی آرزو تھی ، بیٹھے دین کی خدمت کر رہے تھے، لیکن کہاگیا کہ شہید کر دو اس کو!کیونکہ دین کا نام لے رہا ہے، اس کے گرد لوگ جمع ہیں اور لوگ اس کی بات سن رہے ہیں!!جامعہ بنوری ٹاؤن کے مولانا حبیب اللہ مختار صاحب اورجامعہ فاروقیہ کے مولانا عادل خان شہید صاحب ان سب کو نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے ۔کیوں؟؟ اس لئے کہ دین کا کلمہ بلند کرنے کے لیے انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھی ہوئی ہے تو جب تک یہ لوگ موجود ہیں ہم اپنے بے دینی کے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ،ایک ایک کر کے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب باجوڑ کے جن علماء کو شہید کیا گیا ہے یہ اپنے اپنے علاقوں کے اندر علم اور دین کا نور پھیلا رہے تھے ،ان کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہ بھی خوب یاد رکھو کہ یہ دشمنوں کی سازشیں کتنی بھی قوی سے قوی تر ہو جائیں لیکن اللہ جل جلالہ کی یہ سنت ہے کہ کبھی دشمنان اسلام اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔مار دو جتنے لوگوں کو تم مارنا چاہتے ہو!قرآن کریم اللہ نے نازل کیا ہے، حفاظت کرنے والا وہ خود ہے ،جلا دو اس کے نسخے!اگر تمہارے دل میں جوغیظ اور غضب ہے، اور اسلام کے خلاف تمہارے دل میں جو آگ بھڑک رہی ہے، اس اسلام کے خلاف بھڑکی ہوئی آگ کے نتیجے میں تم چاہے سارے نسخے جلا دو نعوذ باللہ ،لیکن اس مُلاَّ نے اللہ کا کلام ان بچوں کے سینوں میں محفوظ کر دیا ہے، اس مُلاَّنے بارہ سال کے بچوں کے سینوں میں محفوظ کر دیا ہے۔ سارے نسخے اگر جلا بھی دیے جائیں العیاذ باللہ ،تو بارہ سال کا بچہ ایک ایک لفظ پڑھ کر محفوظ کر لے گا ۔یہ کام کس نے کیا؟ کالج نے؟ یونیورسٹی نے؟ سکول نے؟ بلکہ ان مکتبوں نے!جو مسجد کے ساتھ قائم ہیں ،اس مُلاّ نے!جو اپنی ساری آسائشوں کو چھوڑ کر اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے کسی کونے میں بیٹھا ہوا ہے ،یہ کام اس مُلاَّ کا ہے ۔اور مُلاّ کو اللہ نے بھیجا ہے ، مُلاَّ کو اس کام کے لئے اللہ نے بٹھایا ہے ۔ تم مٹانے ،جلانے ،قتل کرنے،مارنے کی ہزار کوششیں کر لو، لیکن اللہ کا دین سلامت رہے گا، اللہ کے دین کے علمبردار سلامت رہیں گے، ایک کو مارو گے تو دوسرا اٹھ کھڑا ہو گا ،دوسرے کو مارو گے تو تیسرا اٹھ کھڑا ہو گا ،یہ کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں ان شاء اللہ، یہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے اس دین کے محافظ ہیں۔

میرے بھائیو!دل اس واقعہ پر صدمے سے چور اور اس واقعے کے اوپر انتہائی افسردہ ہے۔ لیکن یہ چند باتیں میں نے اس لیے عرض کی ہیں کہ انسان کو سمجھنا چاہیے کہ کیا اس کے حق میں بہتر ہے اور کیا اس کے حق میں نقصان دہ ہے ۔ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ اس مسلمان قوم کو اگر یہ کہہ کر بلایا جائے گا کہ تم اسلام چھوڑ دو تو یہ نہیں آئے گی ،اس کو اسلام ہی کے نام پر بہکاؤ،اس کو یہ کہو کہ ملک میں چونکہ اسلامی نظام نہیں ہے، لہٰذا ہاتھ میں ہتھیار اٹھا کر ایسی جنگ شروع کرو جس کو کہتے ہیں چھاپہ مار جنگ!کبھی کسی کو مارو!کبھی کسی کو مارو!کبھی کہیں چھاپہ مارو!کبھی کہیں چھاپہ مارو!تاکہ یہ آخر میں جا کے گھٹنے ٹیک دیں۔یہ اس لئے سکھایا ہے کہ اسلام کا نام تو ختم کرنے کی ان کے اندر طاقت نہیں، نہ مسلمان کو ختم کرنے کی طاقت ہے، لیکن اسلام کو اور مسلمانوں کو اسلام ہی کے نام سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔دوسری بات یہ کہ کسی زمانے میں مُلاَّ ایک بہت بڑا لقب ہوتا تھا ، یعنی مُلاَّ عظمت کا پیکر ہوتا تھا ۔جتنے بزرگ ہمارے سلف میں مُلاَّ کے نام سے گزرے ہیں ،ملا علی قاری ، ملا جامی وغیرہ ، یہ بڑا عظیم لقب ہوتا تھا، اس کو دشمنوں نے بد نام کیا اور بد نام کر کے مُلاَّ کا مطلب دماغوں میں یہ بٹھا دیا کہ یہ وہ شخص ہے، جسے سوائے اذان دینے کے کچھ نہیں آتا ۔ یاد رکھو! اگر صرف اذان دینا بھی آتا ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخرت میں سب سے زیادہ اونچی گردنیں اذان دینے والوں کی ہوں گی۔ لیکن اس مُلاَّ کے لفظ کو بد نام کر دیا اور یہ ایسا بد نام ہو گیا کہ جو واقعی مُلاَّ ہے وہ بھی اپنے ساتھ مُلاَّ لکھنے سے شرماتا ہے۔ کوئی مجھے مُلاَّ تقی نہیں کہتا ،مولانا تقی کہتا ہے ، مجھے اگر مُلاَّبھی کہے تو میں اس کو اپنے لئے سر کا تاج سمجھوں۔ لیکن مُلاَّکے لفظ کو بد نام کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جس کو اور کچھ نہیں آتا العیاذ باللہ۔ اقبال نے افغانستان کے بارے میں انگریز کی زبان سے کہا تھا کہ انگریز یہ کہتا ہے :

افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
مُلاَّ کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو

افغانی ہمارے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں تو ان کی غیرت کا علاج ایک ہی ہے کہ اس افغانستان سے مُلاَّکو ختم کر دو!جب تک یہ مُلاَّ بیٹھا ہے ،ہماری سازشیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ آج ہم ہمارے پاکستان کا بھی یہی حال ہے ،غیر مسلم طاقتیں کہہ رہی ہیں کہ مُلاَّکو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو اور اس کو نکالنے کے لئے جو حربہ چاہو، آزما لو!مارنا ہو تو مار دو!ختم کر دو!اور اگر ان کو بد نام کرنا ہو تو بد نام کر دو!ان کو ایسا رسوا کر دو کہ یہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں!یہ سازش ہمارے ہاں چل رہی ہے۔ خدا کے لئے ہم اس حقیقت کو سمجھیں کہ اگر اس ملک میں دین کا کوئی ذرہ باقی ہے تو وہ ان مُلاَّؤں کی وجہ سے ہے، جو مدرسے میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ،لیکن یہ جو حادثات ہو رہے ہیں یہ ایک آزمائش ہے اور اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْء ٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۵)

ہم تمہیں آزمائیں گے ،کبھی تمہارے اوپر کوئی خوف مسلط ہو جائے گا ،کبھی بھوک مسلط ہو جائے گی اور کبھی تمہارے چہیتے ،تمہارے محبوب لوگ فوت ہو جائیں گے ،لیکن مصیبت جب بھی آئے تو اللہ سے رجوع کرو، انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ دو ۔
آج ہم سب مل کر اللہ تبارک و تعالی سے ان شہداء کی درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں ، ان کے خاندانوں کی دستگیری کی دعا کریں اور ان کے جو زخمی ہیں ان کی صحت کاملہ عاجلہ کے لئے دعا کریں اور ساتھ میں یہ دعا بھی کریں کہ یا اللہ!ان دشمنان اسلام کے منصوبوں کو تہس نہس فرما دیجئے!ان کو تباہ و برباد فرما دیجیے! اور کلمۃ اللہ ھی العلیا کا آنکھوں سے نظارہ دکھا دیجیے!ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا !للہ کی رحمت سے ایسا ہی ہوگا!

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ : صفر ۱۴۴۵ھ)