خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

زبان اور رنگ کے بدبو دار نعرے چھوڑ دو

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ الحمد للّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدیہ اللّٰہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ہادی لہ و اشھد ان لا الہ اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان سید نا و سندنا و نبینا و مولانا محمدا عبدہ و رسولہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا اما بعد فاعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللّٰہ علی ما ھداکم و لعلکم تشکرون و اذا سألک عبادی عنی فإنی قریب أجیب دعوۃ الداعی إذا دعان فلیستجیبوا لی و لیؤمنوا بی لعلھم یرشدون آمنت باللّٰہ و صدق اللّٰہ مولانا العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم و نحن علی ذلک من الشاھدین و الشاکرین و الحمد للّٰہ رب العالمین۔

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا واجب ہے:
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس عید کو ہم سب کیلئے پورے ملک و ملت کیلئے عالمِ اسلام کیلئے اور پوری امتِ اسلامیہ کیلئے برکتوں اور رحمتوں کی عید بنائے آمین، حقیقت تو یہ ہے کہ اس پر اللہ جل جلالہ کا جتنا شکر ادا کرنا چاہیں اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں رمضان کا مقدس مہینہ عطا فرمایا اور اس مہینہ میں اپنے فضل و کرم سے روزے رکھنے کی، تراویح پڑھنے کی اور قرآن کریم کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائی۔
انعام کی رات
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ عید کا دن رمضان کی عبادتوں کے انعام کے طور پر مقرر فرمایا ہے، عید کی جو رات گذری ہے اسے حدیث میں ’’لیلۃ الجائزۃ‘‘ قرار دیا گیا ہے یعنی یہ انعام کی رات ہے، اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور نبی کریم سرور دو عالم ا کے امتیوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور حضور نبی کریم ا کی سنت کی اتباع میں رمضان کا جو مہینہ گذارا اللہ تعالیٰ اس عبادت کے صلہ میں اس رات مؤمنوں کو انعام عطا فرماتے ہیں۔
محنت کا صلہ
مسلمان جب عید گاہ میں عید کی نماز کیلئے جمع ہوتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو!یہ بتاؤ اگر کسی مزدور نے اپنا کام پورا کرلیا ہو تو اس کا کیا انعام ہونا چاہئے، فرشتے جواب میں کہتے ہیں کہ یا اللہ! جس مزدو نے اپنی محنت پوری کرلی اپنا کام پورا کرلیا اس کا صلہ یہ ہونا چاہئے کہ اس کی جو اجرت ہے وہ پوری کی پوری اس کو ادا کی جائے، تو اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیکھو یہ عیدگاہ کے اندر جو مسلمان جمع ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ میں نے ان کے ذمہ جو عبادت فرض کی تھی اِنہوں نے وہ عبادت مکمل طور پر ادا کردی اور آج یہاں اس میدان عید میں یہ لوگ میرے پاس جمع ہوئے ہیں اور مجھ سے دعائیں مانگیں تو پھر فرماتے ہیں کہ ’’و عزتی و جلالی و کبریائی و رفعتی مکانی‘‘باری تعالیٰ قسم کھاتے ہیں کہ میں اپنی عزت کی قسم کھاتا ہوں، میں اپنے جلال کی قسم کھاتا ہوں، میں اپنی کبریائی(بڑائی) کی قسم کھاتا ہوں، میں اپنی رفعت مکان (بلندی) کی قسم کھاتا ہوں کہ آج میں ان سب کی دعائیں قبول کروں گا اور جب یہ عیدگاہ سے واپس جائیں گے تو اس طرح جائیں گے کہ ان سب کی مغفرت کی جاچکی ہو۔
اللہ تعالیٰ گناہوں کو اچھائیوں سے بدل دیتے ہیں
اللہ تعالیٰ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فرماتے ہیں کہ ان کی جو سیئات ہیں یعنی ان کی جو خطائیں ہیں ان کو بھی میں اچھائیوں سے بدل دوں گا اور جب یہاں سے واپس جائیں گے تو ان کی مغفرت ہوچکی ہوگی اتنی عظیم بشارت (خوشخبری) ہے اتنا عظیم انعام ہے جو اللہ جل جلالہ اس عید کے موقع پر اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں، ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رمضان کا مہینہ مکمل کرنے کے بعد ہمیں عید گاہ میں اپنی ساری نا اہلیوں کے باوجود اپنی ساری خطاؤں کے باوجود اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں ان کی رحمت کے مناسب انعام لینے کیلئے جمع کیا، ہم اپنی ذات میں کسی انعام کے مستحق نہیں ہم کیا ہماری عبادتیں کیا، ہمارے روزے کیا، ہماری تراویح کیا، ہمارا ذکر و تسبیح کیا لیکن یہ ان کی رحمت ہے کہ اپنے فضل و کرم سے وہ فرماتے ہیں کہ میں ان کی سیئات کو بھی حسنات یعنی نیکیوں میں تبدیل کردوں گا۔
عمل میں کوتاہی بھی نیکی سے بدل دی جائے گی:
علماء کرام نے فرمایا کہ یہاں سیئات سے مراد گناہ بھی ہوسکتے ہیں اور سیئات سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روزے رکھنے میں، تراویح پڑھنے میں، قرآن کریم کی تلاوت میں جو کوتاہیاں ہوئیں، جو غلطیاں ہوئیں، جو حق تلفیاں ہوئیں اللہ تبارک و تعالیٰ ان ساری حق تلفیوں کو معاف فرما کر ان کو حسنات یعنی نیکیوں کے دائرے میں لکھ دیں گے ’’یبدل اللّٰہ سیئاتھم حسنات‘‘ تو عید کا دن ہمارے لئے بڑی ہی خوشی کا بڑی ہی سعادت کا اور بڑی خوش نصیبی کا دن ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں انعام عطا کرنے کیلئے عید گاہ میں جمع فرماتے ہیں۔
اس موقع پر دو تین باتیں ہیں جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے پہلی بات تو یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ رمضان کا مہینہ اور اس کے بعد عید کا دن اس کام کیلئے عطا فرمایا ہے کہ سارے سال گیارہ مہینے تک ہم نے اپنے وجود میں جو گندگیاں جمع کی تھیں جو نجاستیں جمع کی ہوئی تھیں اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس رمضان کی بھٹی ( کی مشقتوں)سے ہمیں گذار کر ان ناپاکیوں کو ان گندگیوں کو صاف فرماتے ہیں اور عید کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ یہ فرما کر کہ میں ان سب کی مغفرت کرکے واپس بھیجوں گا وہ ہم کو اس طرح بنا دیتے ہیں جیسے کہ آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں۔
اپنے ستھرے وجود پر گناہوں کا داغ نہ لگنے دیں
اللہ تعالیٰ بندوں کو اس طرح بنا دیتے ہیں جیسے ایک میلا کپڑا ، بوسیدہ کپڑا وہ کسی دھوبی کے گھر (پاس)جانے کے بعد پاک صاف اور ستھرا، چٹا ہوجاتا ہے اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ عید کے دن مسلمانوں کو اس طرح پاک صاف اور چٹا بنا دیتے ہیں تو اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کپڑا جتنا صاف ہو، جتنا دھلا ہوا ہو، جتنا چمکدار ہو اس پر کوئی داغ لگے وہ داغ اتنا ہی برا لگتا ہے اگر ایک کپڑا میلا ہے اس پر دس ہزار (بہت سے)داغ لگے ہوئے ہیں ایک داغ اور لگ جائے وہ اتنا برا نہیں لگے گا، لیکن اگر ایک کپڑا ایسا ہے جو ابھی دھل کر آیا ہے اور نیا اور صاف اور چٹا کپڑا ہے اس کے اوپر ایک چھوٹا سا داغ بھی لگ جائے گا تو وہ داغ بہت برا لگے گا۔
’’عید‘‘ زندگی کے ایک نئے انقلاب کا دن
تو آج ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو ہماری ایک نئی زندگی شروع ہورہی ہے ایک نیا دور شروع ہورہاہے زندگی کا ایک انقلاب عید کے دن سے شروع ہورہا ہے تو ہمیں اس بات کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس پاک صاف اور سفید چٹے وجود کے اوپر گناہوں کے داغ نہ لگیں، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے داغ نہ لگیں اور ہم جس طرح رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خاطر اپنا کھاناہم نے چھوڑ دیا تھا، پینا چھوڑ دیا تھا، جنسی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں باقی ماندہ زندگی میں بھی اگرچہ اس نے کھانا حلال کردیا، پینا حلال کردیا لیکن جو چیزیں گناہ ہیں، نافرمانی ہیں، معصیتیں ہیں ان کو اپنی آئندہ زندگی میں اسی طرح چھوڑیں گے جیسے کے روزہ کی حالت میں ہم اللہ کے حکم کی خاطر کھانا پینا چھوڑے ہوئے تھے ایک تو عظیم سبق یہ ہے جو ہمیں عید کے دن ملتا ہے۔
امت ِمسلمہ مسائل کے جال میںپھنسی ہوئی ہے
دوسری بات جو عید کے ماحول میں بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ بڑی درد مندی کے ساتھ میں آپ حضرات کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے رمضان عطا فرمایا اور عید کی نماز کیلئے اس عید گاہ کے میدان میں مغفرت کرنے کیلئے، دعائیں قبول کرنے کیلئے جمع فرمایا یہ اس کا فضل و کرم ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارا رمضان اس حالت میں گذرا ہے اور یہ ہمارے اوپر ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ پر عید ایک ایسی حالت میں آرہی ہے کہ جب ہمارا شہر، ہمارا ملک، پورا عالمِ اسلام اور پوری امت ِمسلمہ مسائل کے جال میں پھنسی ہوئی ہے، مشکلات کے جال میں پھنسی ہوئی ہے، دشمنوں نے ہمارے لئے طرح طرح سے سازشوں کے جو جال تیار کئے ہیں ان میں خود ہم اپنی بداعمالیوں کی وجہ،اپنی نادانیوں کی وجہ سے، اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے، اپنی حماقتوں کی وجہ سے، اپنی ہوس پرستیوں کی وجہ سے، اپنی مفاد پرستیوں کی وجہ سے ہم ان جالوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ رمضان جیسے مقدس مہینے کے اندر بھی وحشت اور بربریت اور درندگی کے وہ مناظر سامنے آئے ہیں ایسے مناظر جو کبھی مسلمانوں سے تصور نہیں کئے جاسکتے تھے، مسلمان نے مسلمان کو ذبح کیا ہے، اس کے ہاتھ پاؤں، ناک کان کاٹے ہیں۔
کافروں کو بھی مثلہ کرنے سے منع فرمایا گیا
جس بات کو نبی کریم سرور دوعالم ا نے کافروں کے بارے میں بھی، جہاد کے دوران بھی جس کو منع فرمایا تھاجب بھی آپ کوئی جہاد کا لشکر بھیجتے تھے تو مستقل طور پر یہ ہدایات ہوتی تھیں کہ ’’لا تقتلوا ولیدا و لا إمراۃ و لا شیخا فانیاو لا تمثلوا ولا تغدروا‘‘ ’’خبردار کسی بچے کو نہ مارنا، خبردار کسی عورت کو قتل مت کرنا، کافر عورت کو، دشمنوں کی عورت کو، دشمنوں کے بچے کو، خبردار کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، اور اگر کسی جوان کو جو تمہارے مقابلے پر آیا ہوا ہے اس کو اسے قتل کرنے کی نوبت آئے تو کبھی مثلہ نہ کرنا، یعنی اس کے ہاتھ پاؤں، اس کے کسی عضو کو، ناک کان کو، اس کے کسی عضو کو کاٹنا تمہارے لئے حرام ہے؛ کافر جو کہ دشمن ہیں، جو تلوار لے کر مسلمانوں پر ظلم و ستم پر اترے ہوئے ہیں، ان کے بارے میںبھی حکم یہ تھا کہ ان کو مثلہ نہ کرنا ان کے ہاتھ پاؤںنہ کاٹنا، ان کے ناک کان کو نہ کاٹنا، ہدایات یہ ہوتی تھیں جہاد تو کافروں کے ساتھ وہ کافر جو مسلمانوں کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے اس کے ساتھ جہاد کرنے کے دوران بھی نبی کریم سرور دو عالم ا کی ہدایت یہ تھی ۔
مسلمان کا قتل ایک اجتماعی گناہ، ایک اجتماعی جرم
کافروں کے ساتھ تو یہ حکم تھا آج اس مقدس رمضان کے مہینے میں ہم شرم سے اگر ڈوب مریں تو بھی کم ہے کہ مسلمان نے مسلمان کا مثلہ کیا، مسلمان نے مسلمان کو ذبح کیا،مسلمان نے مسلمان کو گولیوں سے چھلنی کیااور اس کو مثلہ کرکے بوریوں میں بند کر کے لا کے اس کی لاشیں پھینکیں، یہ دشمنوں کی سازش تھی جس کا ہم شکار ہوگئے اور اس قدر شکار ہوگئے ہیں کہ اس برائی کی برائی دل سے مٹ رہی ہے، انسانی جان کو مکھی مچھر سے زیادہ بے حقیقت قرار دے دیا گیا ہے، مکھی مچھر کو مارتے ہوئے بھی انسان کو کبھی خیال آجاتا ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق ہے لیکن انسانوں کو قتل کرتے ہوئے انسانوں کے بچے مارتے ہوئے، ان کی عورتوں کو قتل کرتے ہوئے، مریضوں اور بیماروں کو قتل کرتے ہوئے، بوڑھوں کے اوپر حملہ کرتے ہوئے کوئی رگ حمیت نہیں پھڑکتی کوئی غیرت نہیں جاگتی، انسانیت کا کوئی خیال دل میں پیدا نہیں ہوتا اس حالت میں ہم نے یہ رمضان گذارا ہے اور نہ جانے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے کتنے خاندان اجڑے ہیں جن کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے وہ اس لئے کہ ہم نے ایک دوسرے کے آگے مقابل آکر اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کیا ہے کہ ایک مسلمان کو کافر کے ساتھ بھی، حربی کے ساتھ بھی، دشمن کے ساتھ بھی ایسا معاملہ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی یہ اتنا بڑا اجتماعی گناہ ہے اتنا بڑا اجتماعی جرم ہے کہ جس کی سزا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں معاف فرما دے ورنہ یہ جو کچھ عذاب نظر آرہا ہے یہ در حقیقت ہماری ان بد اعمالیوں کی سزا ہے ۔
کوئی رنگ و نسل والا دوسرے رنگ و نسل کے اوپر فوقیت نہیں رکھتا
ہم لوگ نبی کریم سرور دو عالم محمد مصطفی اکے ارشادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی، سیاسی، متعصبانہ، رنگ و نسل پر مبنی خیالات اور جذبات کے اندر بہے ہوئے ہیں، ایک ایسا ہی عید کا دن تھا یہ عید الفطر ہے وہ عید الاضحی کا دن تھا حضور نبی کریم سرور دو عالم محمد مصطفی ااپنے آخری حج میں تشریف لے گئے حجۃالوداع کے موقع پر عید کا دن آیا جس کو یوم النحر کہا جاتا ہے اور اس وقت آپ منٰی میں تشریف فرما تھے۔
عام طور سے حج کے ارکان میں سے ایک بہت بڑا رکن یہ ہے کہ میدان عرفات میں جو امیر حج ہوتا ہے وہ خطبہ دیتا ہے اور نبی کریم سرور دو عالم ا نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے میدان میں بھی ایک خطبہ دیا تھا وہ بھی بڑا عظیم خطبہ ہے انسانیت کا منشورِ اعظم نبی کریم سرور دو عالم انے پیش کیا تھا اور اس میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جاہلیت کی تمام رسمیں میں نے آج اپنے پاؤں تلے روند دی ہیںاور میں تم کو آج یہ بات بتانا چاہتا ہوں ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مجمع ہے اور آپ اس میں یہ فرما رہے ہیں کہ اے مسلمانو! میری بات غور سے سنو مجھے تم پر اس بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ تم دوباہ بت پرستی میں مبتلا ہوجاؤ گے اللہ نے تمہیں بت پرستی سے نجات دی، توحید کی نعمت عطا فرمائی، اسلام کی دولت بخشی، مجھے اس بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ تم میرے جانے کے بعد بت پرستی میں مبتلا ہوجاؤ گے، بتوں کے آگے جھکنا شروع کردو گے لیکن مجھے تم پر ایک بات کا اندیشہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے آپس میں تلوار چل جائے اور ایسا نہ ہو کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، آج میں یہ بات اعلان کرتا ہوں اور اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات سن کر ان تمام مسلمانوں تک پہنچا دیں تو اس وقت موجود نہیں ہیں، کیا بات ہے! کہ آج سے اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے تمام نعروں کو میرے پاؤں تلے روند دیا، اور میں تم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نزدیک کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔
سرکارِ دو عالم ا عرب تھے (حجاز تھے) عرب کے اعلیٰ ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ نے فرمایا کہ آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں، تم سب ایک ہی آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے، آدم کے بیٹے ہو تم سب بھائی بھائی ہو، ہاں اگر فضیلت ہے کسی کو ’’الا بالتقویٰ‘‘ تقویٰ کی وجہ سے تم میں سے جو شخص زیادہ تقویٰ رکھنے والا ہوگا، اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوگا، اللہ کے حکموں پر زیادہ چلنے والا ہوگا وہ تم میں زیادہ فضیلت رکھتا ہے لیکن کوئی عربی کسی عجمی پر فوقیت نہیں رکھتا، کوئی رنگ و نسل والا دوسرے رنگ و نسل کے اوپر فوقیت نہیں رکھتا اور یہ فرماکر آپ نے آسمان کی طرف نگاہِ مبارک اٹھائی اور فرمایا ’’اللّٰھم ھل بلغتُ/ اے اللہ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا‘‘ میرا فرض یہ تھا کہ میں ان لوگوں کو آگاہ کردوں تو اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا، ’’اللّٰھم ھل بلغتُ/ اے اللہ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا‘‘’’اللّٰھم ھل بلغتُ/ اے اللہ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا‘‘ تین مرتبہ آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔
یوم النحر کا خطبہ
عرفات کے دن حجۃ الوداع میں آپ نے یہ بات ارشاد فرماچکے تھے دوسرا خطبہ اس سے اگلے دن دس ذی الحجہ منٰی کے دن دیا ہے اور وہ عید کا دن تھا عید کے دن یعنی یوم النحر میں حج کے ارکان میں کوئی خطبہ نہیں ہوتا، عرفات کے دن ہوتا ہے، عید کے دن عید کا خطبہ تو ہوتا ہے لیکن کوئی خطبہ الگ سے حج کا نہیں ہوتا لیکن سرور دو عالم ا کو جو دن رات فکر سوار تھی اپنی امت کی جو فکر تھی اس کی وجہ سے عید کے دن آپ نے دوبارہ لوگوں کو جمع کیا، اور دوبارہ جمع کرکے لوگوں سے پوچھا کہ ذرا مجھے بتاؤ! آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا ’’اللہ و رسولہ اعلم‘‘ آپ نے فرمایا کہ کیا آج عید کا دن نہیں ہے یوم النحر نہیں ہے؟ صحابہ نے فرمایا ہاں یوم النحرہے، اچھا یہ جگہ کونسی ہے؟ یہ شہر کونسا ہے؟ لوگوں صحابہ نے بتایا کہ یہ حدود حرم کا علاقہ ہے (منٰی حدود حرم میں ہے)، کہا کہ یہ مہینہ کونسا ہے؟ لوگوں صحابہ نے کہا ذوالحجہ کا مہینہ ہے ، آپ ا نے فرمایا کہ ذو الحجہ کا مہینہ اشہر حرم میں داخل ہے حرمت والے مہینوں میں داخل ہے،تو آج یہ دن بھی حرمت والا، یہ جگہ بھی حرمت والی، یہ مہینہ بھی حرمت والا آج میں تم سے کھلم کھلا یہ بات کہتا ہوں کہ تم مسلمانوں میں ہر ایک کی جان، اس کا مال اس کی آبرو وہ اتنی ہی حرمت رکھتی ہے جتنی حرمت آج کے دن کی ہے، جتنی حرمت آج اس جگہ ’’حدود حرم‘‘ کی ہے، جتنی حرمت اس مہینہ ذو الحجہ کی ہے، لہٰذا خدا کیلئے اس حرمت کو پامال نہ کرنا، کسی کے جان پر، کسی کے مال پر، کسی کے آبرو پر حملہ آور نہ ہونا، دوبارہ آپ نے اور پھر فرمایا ’’الا فلیبلغ الشاھد الغائب‘‘ جو لوگ میری یہ بات سن رہے ہیں وہ میری یہ بات دوسروں تک پہنچا دیں، یہ آخری حج کے موقع پر اتنی تاکید کے ساتھ آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔
رنگ و نسل کے فتنے سے بچیں
خطرہ بت پرستی کا نہیں خطرہ اس کا ہے کہ شیطان تمہارے دلوں میں رنگ و نسل کے فتنے پیدا کرے گا بھائی کو بھائی سے لڑائے گا اور کہے گا کہ تم فلاں قوم سے تعلق رکھتے ہو تم فلاں قوم سے تعلق رکھتے ہواور ان کے درمیان آپس میں جنگ و جدال پیدا کرے گا، فرمایا کہ جزیرۂ عرب میں شیطان اپنی عبادت سے مایوس ہوچکا، اب شیطان کی عبادت یہاں پر نہیں کی جائے گی، لیکن شیطان ایسے فتنے ڈالے گا کہ تمہارے اندر یہ فتنے پیدا کرے گا کہ تم اردو بولنے والے ہو، تم پشتو بولنے ہو، تم سندھی بولنے والے ہو، تم بلوچی بولنے والے ہو، لہٰذا ان کے درمیان آپس میں رنجشیں پیدا کرکے شیطان آپس میں لڑائی پیدا کرے گا۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کا کفن ہے
(اقبال)

ایک مسلمان کے جان کی حرمت بیت اللہ سے بھی زیادہ ہے
ایک اور حدیث حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ص روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم سرور دو عالم ا کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا، آپ بھی طواف کررہے تھے میں بھی طواف کررہا تھا طواف کرتے کرتے سرکار دو عالم ا نے بیت اللہ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے اللہ کے گھر! اے بیت اللہ! ’’ما اکرمک، ما اعظم حرمتک او کما قال ا‘‘ اے بیت اللہ! تو کتنا مقدس ہے، اے بیت اللہ تیری عزت اور عظمت کتنی بڑی ہے دو تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، حضرت عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں سن رہا تھا کہ آپ بیت اللہ سے خطاب فرما رہے ہیں کہ تیری عزت بہت بڑی ہے، تیرا تقدس بہت بڑا ہے، تیری عظمت بہت بڑی ہے، لیکن ساتھ ہی پھر فرمایا اے بیت اللہ! ایک چیز ایسی ہے جس کی حرمت جس کا تقدس جس کی عزت اے بیت اللہ! تجھ سے بھی زیادہ ہے اے بیت اللہ جس کی عزت حرمت تقدس تجھ سے بھی زیادہ ہے اور فرمایا حضرت عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ اس کائنات میں کون سی چیز ایسی ہوگی بیت اللہ سے بھی زیادہ جس کی حرمت ہو اس کا تقدس ہو تو سرکار دو عالم ا نے فرمایا کہ ہاں ایک چیز ایسی ہے جس کی عزت حرمت تقدس بیت اللہ سے بھی زیادہ ہے اور وہ ایک مسلمان کی جان، اس کا مال، اس کی آبرو ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی جان پر، اس کے مال پر، اس کی آبرو پر ناحق حملہ کرتا ہے تو وہ اس شخص سے زیادہ بد بخت ہے اس سے زیادہ گناہ گار اور مجرم ہے جو معاذ اللہ بیت اللہ کو ڈھانے کی کوشش کرے۔
ہر مسلمان بیت اللہ کا محافظ ہے
آج ذرا سوچیں تو صحیح آج اگر کسی مسلمان کے سامنے خدا نہ کرے یہ بات آئے کہ کوئی بد بخت بیت اللہ کی طرف بری نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور اس کو خدا نہ کرے منہدم کرنے کی فکر میں ہے کیا کوئی مسلمان کتنا ہی گیا گذرا کیوں نہ ہو، وہ برداشت کرے گا؟ وہ اپنی جان قربان کردے گا اپنی اولاد کو قربان کردے گا لیکن بیت اللہ کی حرمت پر حرف نہیں آنے دے گا(جس سے ہم آج دوچار ہیں)۔
در مندانہ نصیحت
میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا واسطہ دے کر جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ و من یقتل مؤمنا متعمدا فجزاء جہنم خالدا فیہا/جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا‘‘ اورسرکار دو عالم ا کے ارشادات کا واسطہ دے کر آپ سے انتہائی درمندی کے ساتھ، انتہائی دلسوزی کے ساتھ یہ اپیل کرتا ہوں کہ خدا کیلئے دشمنوں کی سازشوں سے خبردار ہوں، اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانیں۔
سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں
جو لوگ مسلمانوں کے درمیان نسلی تعصبات کو زبان کی بنیاد پر تعصبات کو ہوا دے رہے ہیں ان کی بات پر کسی وقت کان نہ دھریں، اور ان سے اپنی برأت کا اظہار کریں، سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں،کوئی زبان بولنے والا ہو، کسی جگہ کا رہنے والا ہو، کوئی رنگ و نسل رکھتا ہو وہ سب اللہ کے بندے ہیں سب محمد رسول اللہ ا کے امتی ہیں، مسلمانوں تو درکنار اسلام نے، شریعت نے جو غیر مسلم ہمارے معاشرے میں امن کے ساتھ رہتے ہیں ان کی جان کو بھی حرمت عطا کی ہے ان کو مارنا اور ان کو قتل کرنا بھی حرام قرار دیا ہے، مسلمانوں کا معاملہ اور زیادہ سخت ہے۔
ایک نئی زندگی کا آغاز کیجئے
خدا کیلئے ہوش میں آئیے! اس سے سوائے دشمنوں کے،سوائے دشمن طاقتوں کے کسی اور کو اس کا فائدہ نہیں پہنچے گا، عید کے دن ہم رمضان گذارنے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کیلئے جمع ہوتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کیلئے جمع ہوتے ہیں، اپنے گناہوں سے مغفرت مانگنے کیلئے جمع ہوتے ہیں، عید کے دن یہ سمجھیں کہ ہماری ایک نئی زندگی کا آغاز ہورہا ہے، آج ہم ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، (آج یہاں پر جتنے لوگ موجود ہیں الحمد للہ! اس میدا ن میں لاکھ سے زیادہ افراد موجود ہیں)، بہت سے لوگ ہوں گے جن کا تعلق مختلف گروہوں سے، مختلف جماعتوں سے اور مختلف انجمنوں سے ہوگا، مختلف ان کے حلقۂ اثر و رسوخ ہوں گے، میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ میدانِ عید گاہ سے یہ عہد کرکے اٹھیں، کہ اب ہم ان دشمنوں کی سازشوں کا جو مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا رہی ہیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، اور جب آپ نے یہ عزم کرلیا جس دن عوام نے، مسلمانوں نے یہ عزم کرلیا کہ ہم ان دشمنوں کی سازشوں کا حصہ نہیں بنیں گے یقین رکھیئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد آئے گی ’’ان تنصروا اللّٰہ ینصر کم و یثبت اقدامکم‘‘اگرتم اللہ کے دین کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کرے گا تمہیں ثابت قدم رکھے گا، جانیں تو جارہی ہیں مفت جارہی ہیں بے مقصد جارہی ہیں کسی قوم کے بغیر جارہی ہیں محض دشمنیوں میں جارہی ہیں، لیکن اگر کوئی جان اس راستے میں چلی جائے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کو نافذ کرنا ہے تو وہ جان در حقیقت بڑی قیمتی ہے۔
ایک اپیل ’’امن و امان کی فضا پیدا کیجئے‘‘
میرے بھائیو اور دستو! آج میں آپ سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ اللہ کے نام پر یہ عہد کرلیں کہ ان باہمی نفرتوں کو ختم کریں گے، ان کے اسباب کا ازالہ کریں گے اور امن و امان کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، اور جو لوگ اس امن و امان کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ کسی طرح کا تعاون نہیں کریں گے، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنی رحمت سے ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – ذیقعدہ 1432 ھ)

٭٭٭