رمضان کاآخری جمعہ

الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک و
سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
بزرگانِ محترم اوربرادرانِ عزیز!
آج رمضان المبارک کا آخری جمعہ ہے اور اس کی بھی چند گنی چُنی ساعتیں ہی باقی رہ گئی ہیں ،آج کی مجلس میں اسی سے متعلق کچھ گزاشات کرنی ہیں۔
جمعۃ الوداع کے بارے میں ایک غلط فہمی کاازالہ
برصغیر میں عام طور سے رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے،یعنی رمضان کی رخصتی والاجمعہ ہے،اس کے بارے میں لوگوں میں بہت سی باتیں بھی مشہور ہو گئی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس جمعہ کو جمعۃ الوداع کہنا میں نے برصغیر پاک و ہند کے علاوہ کہیں اور نہیں سنا،اور لوگوں میں جو باتیں اس کے حوالے سے مشہور ہیں کہ اس دن کو عید کی طرح کا کوئی درجہ دیا جاتا ہے اور اس دن میں کوئی خاص عبادت کی جاتی ہے تو یہ باتیں بھی اس انداز میں درست نہیں ہیں،رسول اللہ ﷺ نے کبھی جمعۃ الوداع کا لفظ استعمال نہیں فرمایااور نہ ہی اس دن کے لئے کوئی خاص عبادت مقرر فرمائی اورحضراتِ صحابۂؓ کرام نے بھی اسی پر عمل فرمایا۔
البتہ اس دن کی اہمیت دوسرے دنوںکے مقابلے میں اس لحاظ سے یقیناً زیادہ ہے کہ یہ رمضان کے مہینہ میں آنے والا جمعہ ہے اور اس کے بعد اس سال رمضان میں کوئی اور جمعہ نہیں آئے گا،ویسے تو رمضان میں ہر جمعہ کا دن برکتوں والا ہوتا ہے لیکن اس دن کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے بعد آئندہ رمضان تک برکتوں والا جمعہ نصیب نہیں ہوگا، اس لحاظ سے اس کی اہمیت محسوس کرنی چاہئے اور جس قدر اس دن ہو سکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے،اللہ جل جلالہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے،لیکن اس عبادت میں بھی کسی خاص طریقہ کو متعین نہیں کرنا چاہئے۔
اب جب کہ رمضان رخصت ہورہا ہے تو دو کام ایسے ہیں جس کا ہر مسلمان کو اہتمام کرنا چاہئے۔
عبادت کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں
ایک کام تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا جائے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے رمضان کا مہینہ عطا فرمایا اور روزہ رکھنے اور تراویح کی توفیق بھی عطا فرمائی ،یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے ورنہ بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں کہ جن میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب رمضان آیا اور کب گزر گیا،غفلت کے ساتھ پورارمضان گزر جاتا ہے ،نہ ہی روزوں کی توفیق ہوتی ہے اور نہ ہی تراویح کی ،اورنہ ہی کسی خاص عبادت کی ،اس لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں میں شامل کرنے کی بجائے ایسے لوگوں میں شامل کیا کہ جن کے گھر میں رمضان آتا ہے،اور کچھ نہ کچھ عبادات کی توفیق بھی ہو جاتی ہے۔
عبادت کی ناقدری نہ کریں،اللہ کا شکر ا دا کریں
بعض لوگ انتہائی انکساری سے کام لیتے ہوئے رمضان میں کی ہوئی عبادات کے بارے میں حد سے گزر جاتے ہیں،اور اللہ کی طرف سے دی ہوئی توفیق کی ناقدری کرتے ہیں،کہتے ہیں کہ بھئی ہم نے کیا عبادات کیں،یہ تو فاقے ہو گئے ،یا ہم نے کیا نمازیں پڑھیں ،یہ نمازیں نہ ہوئیں بلکہ یہ تو ہم نے ٹکریں مار لیں،یہ ناقدری ہے۔
کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے عبادات کی توفیق عطا فرمادی تو اس پر شکر ادا کرنا چاہئے،اس لئے کہ خواہ عبادت کیسی ہی کیوں نہ کی ہو لیکن سجدے میں پیشانی تو اسی رب کی بارگاہ میںجا کر ٹکی ہے ،سجدہ تو اسی ایک اللہ کے لئے ہوا ہے:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اور:
قبول ہو کہ نہ ہو پھر بھی ایک نعمت ہے
وہ سجدہ جس کو تیرے آستاں سے نسبت ہے
لہٰذا اس مہینے اللہ جل جلالہ کی طرف سے عبادت کی توفیق مل جائے تو اس کو معمولی تصور نہیں کرنا چاہئے،بلکہ اس توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ا دا کرنا چاہئے کہ اس نے عبادات کی توفیق عطا فرمادی۔
اور یہ بات بھی اپنی جگہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ ان عبادات میں سے کوئی عبادت بھی ایسی نہیں ہے جس کو ہم نے پورے خشوع و خضوع اور آداب کے ساتھ اس انداز میں ادا کیا ہو جس طرح کہ اس کا حق تھا،اس لئے یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق شاملِ حال تھی لیکن ہماری طرف سے کوتاہیاںاور غلطیاں بھی تھیں۔
عبادت میں کوتاہیوں پر اللہ سے استغفار کریں
اس لئے دوسرا کام یہ ہے کہ استغفار کریںکہ یااللہ! آپ نے اپنے فضل و کرم ہمیں عبادت کی توفیق عطا فرمادی تھی لیکن ہم سے اس میں کوتاہیاں ہوئیں اور ہم عبادات کو صحیح طریقہ سے ادا نہیں کر سکے اس لئے ہمیں معاف فرمادے ۔
اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ بندہ جب بھی کوئی عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے استغفار کی بدولت اس کی غلطیوں کو معاف کر کے اس کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا مقام عطا فرما دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نیک مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{ کَانُوا قَلِیلًا مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ } (الذاریات:۱۷)
یہ ایسے لوگ ہیں جو رات میں کم سوتے ہیں اور سحری کے وقت میں استغفار کرتے ہیں۔
رات کو کم سونے کا مطلب یہ ہے کہ رات کے اکثر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں جس کی وجہ سے سونا کم ہوتا ہے،پھر صبح کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا یارسول اللہ! یہ لوگ تو ساری رات عبادت میںگزارتے ہیںپھر صبح کے وقت استغفار کیوں کرتے ہیں؟آپﷺ نے جواب میں فرمایا کہ رات میںکی جانے والی عبادت میں ان سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں اس کی وجہ سے استغفار کرتے ہیں،کہ یا اللہ! ہم آپ کی توفیق سے آپ کی بارگاہ میں عبادت کے لئے کھڑے تو ہو گئے تھے ،لیکن جس طرح عبادت کرنی چاہئے تھے اس طرح ہم کر نہیں پائے ،اس لئے آپ کی بارگاہ میں استغفار کرتے ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں نیک لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالْأَسْحَارِ } (آلِ عمران: ۱۷)
اور صبح کے وقت میں استغفار کرنے والے ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عبادت کا ایک ادب سکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر عبادت کی توفیق مل جائے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرو لیکن ساتھ ہی اس عبادت میں ہونے والی کوتاہی پر اس کی بارگاہ میںاستغفار بھی کرو،ان دو کاموں کے کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی اُمید ہے کہ اپنے بارگاہ میں اس عبادت کوقبول فرمالیں گے۔
رمضان کی ساعتوں کی قدر کریں
دوسری بات یہ کہ رمضان کا آخری وقت چل رہا ہے،اس وقت کی قدر کرنی چاہئے،اس لئے جس کو اس مہینے میں عبادات اور دیگر طاعات میں لگنے کی توفیق نہیں ہوئی اس کے لئے ابھی بھی دورازہ کھلا ہوا ،رمضان ختم ہونے میں تقریباً ڈیڑھ دن باقی ہے اور ڈیڑھ دن تو بہت بڑی بات ہے،اگر اللہ تعالیٰ چاہیںتو ایک لمحے میں بھی کسی کی کایا پلٹ سکتی ہے،اس لئے جس کو موقع نہیںملا وہ اس وقت کو غنیمت جان کراس موقع سے فائدہ ا ٹھالے ،اب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دروازہ کھلا ہوا ہے ،جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
{ یَآأیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا } (التحریم: ۸)
اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ کرلو ۔
سو مرتبہ بھی گناہ کر لو توبہ سے دُھل جاتے ہیں
اللہ تعالیٰ بڑے پیار سے فرمارہے ہیں کہ توبہ کرلو ،اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ اس وقت تک چوپٹ کھلا رکھا ہوا ہے جب تک نزع کی کیفیت طاری نہیں ہو جاتی،اس لئے جس وقت بھی کسی کو تنبہ ہو جائے تو اللہ کی طرف لوٹ کر ا س کے حضور توبہ کر لے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ:
بادا بادا ہر آنچہ ہستی بادا
گر کافر و گر بت پرستی بادا
این درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی بادا
’’ واپس آجاؤ! واپس آجاؤ!جیسے بھی ہو میری طرف لوٹ آؤ،یہاں تک کہ اگر کافر وبت پرست بھی ہو پھر بھی میری طرف لوٹ آؤ،ہماری یہ درگاہ نااُمیدی والی درگاہ نہیں ہے،اگر سو مرتبہ بھی توبہ توڑ چکے ہو تو بھی
میرے پاس آجاؤ۔‘‘
یہ ایک حدیث کا مضمون ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{ مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ، وَإِنْ عَادَ مِائَۃَ مَرَّۃً}
جو شخص اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا رہتاہے ،اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں پر اصرار کرنے والوں میں شمار نہیں فرماتے،اگر چہ اس نے ایک گناہ سو مرتبہ کیاہو۔
اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ سے رجوع کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے، اس کو گناہوں پر اصرار کرنے والوں میں شمار نہیں کیا جاتا،اس سے جب بھی گناہ ہوتا ہے تو اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے کہ یا اللہ! شیطان کے بہکاوے میں آکر مجھ سے گناہ ہو گیا ہے،میں اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں ،مجھے معاف فرمادیجئے۔
گناہوں کی وجہ سے مایوس نہ ہوں
کیا اللہ تعالیٰ کی طرح کوئی کریم ایسا ہو گا کہ ایک شخص ایک جرم مسلسل کئے جارہا، لیکن اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ سو مرتبہ بھی کر لو لیکن میری طرف توبہ کر کے آجاؤ تومعاف کردوں گا،اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ایسی کریم بارگاہ ہے کہ اس میں مایوسی کا بھی گزر نہیں ہے،ارشاد فرماتے ہیں:
{یٰـعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوْا عَلٰٓی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا } (الزمر: ۵۳)
اے میرے وہ بندوجنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا،بے شک اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف فرمادیتاہے۔
کیا کوئی ذات ایسی کریم ہے؟اسی طرح ارشاد فرمایا:
{مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ } (النسائ: ۱۴۷)
اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بنو اور ایمان لاؤ۔
لہٰذا جب ا یسی کریم ذات پکار رہی ہے تو اس سے مایوس ہونا بڑی ناقدری کی بات ہے ،لہٰذا رمضان کے جتنے لمحات باقی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جس قدر بھی ہو سکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کریں،کہ جو کچھ بھی ہو گیا سو ہو گیا لیکن آئندہ کے لئے توبہ کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی ذات سے اُمید ہے کہ رمضان میں جو بھی کوتاہیاں ہوئی ہوں گی ان کی تلافی ہو جائے گی۔
آخری عشرہ کی طاق راتوں میں رجوع الی اللہ کا خاص اہتمام کریں
خاص طور سے رمضان کے آخری عشرہ میں جو طاق راتیں آتی ہے ،یہ راتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اللہ سے عرض ونیاز کرنے کی ہیں،ان کو فضول مشاغل میں گزارنے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہئے،بعض لوگ ان راتوں کو عیدکی تیاری میں گزارتے ہیں،بازار کے چکر لگائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معصیت میں یہ راتیں گزر جاتی ہیں،بازار میں کہیں گانا بجانا ہے تو کہیں لڑائی جھگڑا ہے،یہ ناقدری ہے،اور اس کی مثال ایسے ہے جیسے اللہ تعالیٰ تو آسمان سے سونا برسارہے ہیں اور بندہ کہتاہے کہ مجھے یہ سونا نہیں چاہئے بلکہ زمین پر کنکر پڑے ہوئے ہیں میں ان کو لُوں گا۔
عید کی تیاری اپنی وسعت کے مطابق کریں
عید کے دن اچھا لباس پہننا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے، اچھا لباس پہننے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی وسعت اور استطاعت کے مطابق جو بھی لباس میسر آئے اسے پہن لیاجائے،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرض لے کر ،یا رشوت لے کر یا حرام کی آمدن کے ذریعہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا لباس تیار کیا جائے،اس لئے اگر کو ئی اپنی آمدن کے دائرہ میں رہ کر عید کے لئے جو بھی تیاری کر سکتا ہے ،اس کی اس کو اجازت ہے،اور اللہ تعالیٰ اس میں ہی برکت اور نورعطا فرمائیں گے۔
کیونکہ حلال اگر چہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو اس میں برکت اور نور ہوتاہے، لیکن حرام خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو اس میں بے برکتی ہی رہتی ہے اور اس سے نحوست ہی آتی ہے،حرام کبھی مصیبتیں ساتھ لاتا ہے تو کبھی بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر و استغار کریں اور سابقہ زندگی سے توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ یا اللہ! باقی ماندہ زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمادے ،اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو اپنی مرضی والی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین