رمضان صبرکامہینہ(حصہ ششم)
(حصہ ششم)
الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
اللہ تعالیٰ نے جائزخواہشات سے منع نہیں فرمایا
رمضان المبارک {شھر الصبر}ہونے کے حوالے سے گذشتہ کئی روز سے حضرت والاحکیم الامت قدس اللہ سرہ کے ایک ملفوظ کی تشریح کرنے کی کوشش کررہاہوں،اللہ تعالیٰ اسے صحیح طورپرسمجھنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، حاصل اس کایہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پرقابوپائے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کامکلف نہیں بنایاکہ تم اپنی ہرخواہش کودبادو،بھوک لگ رہی ہے توکھانانہ کھاؤ، پیاس لگ رہی ہے توپانی نہ پیو،جنسی خواہش ہے توجائزطریقے سے بھی پوری نہ کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ :
{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ} (البقرۃ: ۱۸۵)
اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کرناچاہتے ہیں مشکل کرنانہیں چاہتے۔
{وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ} (الحج: ۷۸)
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔
{لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا} (البقرۃ: ۲۶۸)
اللہ تعالیٰ کسی نفس کوایسی بات کامکلف نہیں فرماتے جواس کی وسعت سے باہرہو۔
اللہ تعالیٰ نے خواہشات پرمکمل پابندی نہیں لگائی،لیکن یہ فرمادیاکہ چندچیزیں ایسی ہیں جن کی طرف تمہارادل مائل ہوگا،بس ان سے اپنے آپ کوبچالینا،اس کانام ’’صبر‘‘ہے،اسی کانام ’’تقویٰ‘‘ہے ۔اوراس کااُلٹ ہے ’’اتباعِ ہویٰ‘‘یعنی خواہشات ِنفس کے پیچھے چل پڑنا،حلال وحرام ،جائزناجائزاورمناسب ونامناسب دیکھے بغیرجو کچھ دل میں آرہاہے ،آدمی وہ کرتاجارہاہے،ساراقرآنِ کریم اتباعِ ہویٰ کی مذمت سے بھراہواہے،فرمایا:
{وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللّٰہِ} (ص: ۲۶)
تم خواہشات ِنفس کے پیچھے مت چلناکہ وہ تم کواللہ کے راستے سے بھٹکادے گی۔
اورایک جگہ فرمایا:
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیOفَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی} (النّٰزعٰت: ۴۰، ۴۱)
حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت حواء علیہاالسلام کے بارے میں فرمایاکہ
{وَکُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ}
(البقرۃ: ۳۵)
یعنی جنت میں سے جہاں سے چاہو،جوچاہوتم کھاؤ اورپیو،لیکن اس درخت کے قریب مت جانا۔توجائزخواہشات کی چھوٹ بھی دیدی اورکچھ چیزوں کی ممانعت بھی کردی۔شیطان نے آکربہکادیاکہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائی دورمیں یہ پابندی لگائی تھی، اس وقت تمہارامعدہ اس کے قابل نہیں تھا،اس لئے تمہیں روک دیاگیاتھا،اب تم جوان ہو،جنت کی نعمتوں سے سرفرازکئے جاچکے ہو،اب تمہاری قویٰ بھی متحمل ہیں، اس کو کھالو، اس کافائدہ یہ ہوگاکہ کبھی بھی تم جنت سے نکلوگے نہیں۔
چنانچہ آدم علیہ السلام کے دل میں اس کوکھانے کی خواہش پیداہوئی اورپھر کھا بھی لیاتواللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پربھیج دیااورتمام انسانوں کیلئے پیغام دیدیاکہ اب تم دنیامیں رہوتویہ تمیزکرکے رہوکہ کون سی خواہش جائزہے اورکون سی خواہش ناجائزہے؟ سارادین اسی میں سمٹاہواہے،فرمایا:
{وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَہْوَآئَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْأَرْضُ} (المؤمنون: ۷۱)
اگرحق ان کی خواہشات کے پیچھے چل پڑے توآسمان وزمین میں فسادپھیل جائے۔
نصوص کے مقابلے میں عقل استعمال کرنابھی ’’اتباعِ ہوٰی‘‘ ہے
قرآنِ کریم میں جہاں بھی لفظ{ھوٰی}استعمال ہوا،وہ جہاں نفس کی ناجائز خواہشات پردلالت کرتاہے،وہیں اس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیںکہ یہ جو لوگ آج کل اپنی عقلِ مجردکے پیچھے وحی کی راہنمائی کے بغیرچلتے ہیں،آج کل بہت سے روشن خیال کہلانے والے اورہرچیزکی Logic تلاش کرنے والے جب نصوص کے مقابلے میں عقل چلاتے ہیں تویہ طرزِ عمل بھی درحقیقت{ھوٰی}ہے،عقل تووہ ہے جوشریعت کے تابع ہو۔اس لئے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ پیغمبرکوبھیجتے ہیں توجہاں وہ کتاب کی تعلیم دیتاہے وہیں حکمت کی تعلیم بھی دیتاہے،اگرحکمت عقل سے سمجھ آسکتی توپیغمبرکوسکھانے اورتعلیم دینے کی کیاضرورت تھی؟معلوم ہواکہ حکمت اورعقل کی بات وہ ہے جواللہ اوراس کارسول بتائے۔اگرتم نے اپنی عقل کے گھوڑے کوبے لگام چھوڑ دیاکہ یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاترہے،اس کی توکوئی Logic ہی نہیں ہے، سود اور میوزک کوحرام قرار دینے کاکوئی Reason سمجھ میں نہیں آتا ،یہ طرزِ عمل انسان کو گمراہی کے ایسے راستے پر ڈالدیتاہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔
عقل پرست اہلِ مغرب کاحال
اہلِ مغرب کویہ Logicہی اس بات کی طرف لے گئی کہ اگرکوئی مردوعورت اپنی رضامندی سے ایک دوسرے سے لذّت حاصل کریں تواس میں کیاحرج ہے؟یہ دروازہ چوپٹ کھلاتواب ہم جنس پرستی تک پہنچ گئے،پہلے تواگرکوئی یہ خبیث جرم کرتا بھی توچھپ کراوردوسروں سے شرمندہ ہوکرکرتاتھا،اب توڈنکے کی چوٹ پراورجلوس نکال کر،انجمنیں بناکر،مطالبے کرکے ،پارلیمنٹ میں اس کے حق میں بل پاس کرواکر یہ گناہ کیاجارہاہے۔اسی کوقرآنِ کریم میں فرمایاکہ :
{وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَہْوَآئَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْأَرْضُ} (المؤمنون: ۷۱)
اگرحق ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چل پڑے توزمین وآسمان میں فسادبرپاہوجائے۔
یہ درحقیقت گندی اورذلیل خواہشات ہیں جس کوانہوں نے دھوکے سے عقل سمجھ لیاہے۔اس لئے اگرسارے دین کاخلاصہ نکالناچاہوتووہ یہی ہے کہ خواہشات قابومیں آجائیں،شریعت کے تابع بن جائیں۔
ان خواہشات کودبانے کاطریقہ یہ ہے کہ اپنی سوچ کارُخ بدلیںاوردوسرے یہ کہ کسی اللہ والے کی صحبت اختیارکریں۔بعض لوگوں کوپرواہی نہیںہے،بس جوجی میں آرہاہے وہ کررہے ہیں،جب ہم کسی اللہ والے کے پاس عقیدت اورمحبت کے ساتھ یہ سوچ کرجاتے ہیں کہ ان کی فکراورسوچ اورعمل کی نقل اُتارنے کی ہم اپنی زندگی میں کوشش کریں گے،تواس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ واقعۃً سوچ کی سمت بدلنی شروع ہوجاتی ہے، جس اللہ والے کے پاس ہم گئے ہیں وہ اپنی باتوں،اپنی اداؤں،اپنے اندازسے اورکبھی ڈانٹ ڈپٹ سے وہ ہماری سوچ کارُخ تبدیل کرتاہے۔
زمانۂِ جاہلیت میںاہلِ عرب کی تمام برائیوں کی جڑ
زمانۂِ جاہلیت میں جتنی خرابیاں پائی جاتی تھیں،ان سب کاخلاصہ بھی یہی تھا کہ سب لوگ اپنی خواہش کے پیچھے چل رہے تھے،دل چاہاتوشراب پی لی،دل چاہا تو زِنا کرلیا،دل چاہاتوکسی کوقتل کردیا،کوئی پوچھنے والانہیں۔حضورِاقدس،نبیِ کریم ﷺ تشریف لائے،حضرات ِصحابہ کرامؓآپ ﷺکی صحبت سے فیضیاب ہوئے،اس صحبت کی برکت سے ان کی خواہشات اس طرح قابومیں آئیںکہ اس سے ایک انقلاب پیدا ہوگیا،کئی سال کی مدت میں پورے جزیرۂِ عرب پرجوحیرت انگیزتبدیلی رونما ہوئی، اس کودیکھ کرانسان دَنگ رہ جاتاہے کہ جہاں پرفحاشی کاایسابازارگرم تھا۔۔۔۔ جس کی ایک جھلک امرؤالقیس کاقصیدہ ہے جوکعبہ میں لٹکاہواتھا،اس کوفحاشی کاشاہکار ہی کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔
حضرت مرثدابن ابی مرثدؓکاواقعہ
حضرت مرثدابن ابی مرثدؓایک صحابی ہیں،اسلام لانے سے پہلے ان کے ایک عورت سے ناجائزتعلقات تھے جس کا نام ’’عناق‘‘ تھا، جاہلیت کے اس دورمیں زناکاری،بدکاری کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی تھی،اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی توفیق دیدی،حضوراقدسﷺکی صحبت عطافرمائی،ایک دن کہیں جارہے تھے کہ وہ عورت مل گئی۔۔۔۔۔
عورت سے تعلقات کافتنہ سب سے بڑافتنہ ہے،رسولِ کریم ﷺنے فرمایا:
{مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَآئِ}
اپنے بعدمیں نے مردوں کیلئے کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان دہ نہیں چھوڑا۔
یعنی مردکی عورت کی طرف طبیعت جومائل ہوتی ہے اوراس میں خواہش پیدا ہوتی ہے،مردوں کیلئے اس سے زیادہ خطرناک فتنہ میں نہیں چھوڑا۔اس سے بچنابہت مشکل اورصبرآزماکام ہے۔۔۔۔
اندازہ لگائیے کہ ایک عورت سے مدتوں کے محبت وعشق کے تعلقات ہیں،وہ آکرحسبِ معمول گناہ کی دعوت دیتی ہے،مگرمرثدؓاب مسلمان بھی ہوچکے اورسرکارِدو عالم جناب رسول اللہ ﷺکی صحبت سے فیضیاب بھی ہوچکے،وہ جواب میں کہتے ہیں کہ اے عناق! اب میں مسلمان ہوچکاہوں،اب مجھ سے اس قسم کے تعلقات کی توقع مت رکھنا!عناق کہتی ہے کہ تمہیں کیاہوگیا؟تم وہی مرثدہو، لیکن حضرت مرثدؓنے صاف طور پر انکارفرمادیا،آخرکارعناق نے کہاکہ میں توتمہارے بغیرزندگی نہیں گزار سکتی، اس لئے اگرتم مجھ سے ویسے تعلقات نہیں رکھ سکتے تومجھ سے نکاح کرلو،حضرت مرثدؓنے فرمایاکہ ہاں! یہ ہوسکتاہے،لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ ابھی تک تم مسلمان نہیںہو،کیااس حالت میں میراتمہارے ساتھ نکاح کرناجائزہے یانہیں؟میں حضورِاقدسﷺکے پاس جاؤںگا،آپ سے پوچھوں گا،اگرآپ نے اجازت دیدی توپھرنکاح کرلوں گا۔
اس سے معلوم ہواکہ ان کے دل میں خواہش موجودتھی،اگرخواہش ہی نہ ہوتی تونکاح کی پیشکش کوقبول ہی نہ فرماتے،بلکہ دل میں خواہش تھی،پرانے تعلقات کی یادیں بھی ہیں،اس کی وجہ سے دل مائل بھی ہے،لیکن پھربھی اس خواہش کودبایا اور کہاکہ حضورﷺسے پوچھ کربتاؤں گا،چنانچہ یہ حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ ! اس طرح قصہ ہے،میں اب کیاکروں؟ حضوراکرم ﷺنے فرمایاکہ اس بارے میں ابھی کوئی صریح حکم نہیں آیا،وحی کا انتظارکرناپڑے گا،چنانچہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام آیت لیکرنازل ہوئے کہ:
{وَلَا تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکَۃٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ} (البقرۃ: ۲۲۱)
یعنی مشرک اوربت پرست عورتوں سے نکاح نہ کرو۔اورایک مسلمان باندی بہت بہترہے کسی مشرک بت پرست عورت کے مقابلے میں
چاہے وہ مشرک عورت تمہیں کتنی ہی پسندآرہی ہو۔
اس خواہش کے پوراہونے کاجوایک امکان پیداہواتھاوہ بھی ختم ہوگیا، اِدھر آیت نازل ہوئی اوراُدھرمرثدؓاورعناق کے درمیان دیوارحائل ہوگئی،پھردونوں کے درمیان کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
توعرض یہ کررہاتھاکہ صحبت کے نتیجے میں سوچ کارُخ اس طرح بدلتاہے کہ پہلے تو خواہشات کے پیچھے بگٹٹ دوڑے جارہے تھے،اوراب سوچ کازاویہ ہی کچھ اور ہے، وہی متکبرلوگ جوناک پرمکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے،کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے تھے،وہ ایسے پست ہوئے کہ تواضع کی حدہوگئی۔
حضرت ابوہریرہؓکاواقعہ
حضرت ابوہریرہؓقبیلۂِ دوس کے فردتھے،روایت میں آتاہے کہ ایک دن ناک میں ریزش آگئی توہاتھ میں ایک کتان(سوت )کاکپڑاتھا،اس سے ناک صاف کرلیا، لوگوں کی مجلس بیٹھی ہے،فرماتے ہیں :
{بخ بخ یا اباھریرۃ }
واہ واہ ابوہریرہ!اب تم یہاں تک پہنچ گئے کہ اب تم اس کتان کے کپڑے سے ناک صاف کررہے ہو،ذراوہ وقت یادکروجب تم مسجد ِنبوی کے دروازے پرلیٹے ہوئے ہوتے تھے،بھوک کے عالم میں تمہارے اوپردورہ پڑاہواہوتاتھااورلوگ تمہاری گردن پرپاؤں رکھ رکھ کرجاتے تھے کہ اس کومرگی کادورہ پڑاہے،حالانکہ مرگی نہیں تھی بلکہ بھوک کی وجہ سے اس طرح بیہوش ہوجاتے تھے۔
کتان کے کپڑے سے ناک صاف کرتے وقت اپناپراناوقت یادکررہے ہیں کہ کہیں ایسانہ ہواس حالت میں میرے اندرتکبرپیداہوجائے۔
حضرت فاروقِ اعظمؓکاواقعہ
حضرت فاروقِ اعظم ؓجن کاجلال مشہورتھا،ان کی شوکت وہیبت لوگوں کے دِلوں پرطاری تھی،انہیں جب حضورﷺکی صحبت ملی توانہوں نے اپنے آپ کوایسا مٹایاکہ ایک بڑھیاکھڑے ہوکرکہہ رہی ہے کہ اے خطاب کے بیٹے!تمہاری بات مانیں یا قرآن کی بات مانیں؟اندازہ لگائیے کہ حضرت فاروقِ اعظم ؓامیرالمؤمنین ہیں، خلیفۂِ ثانی ہیں،عشرۂِ مبشرہ میں سے ہیں،آدھی دنیاسے زیادہ پران کی حکومت ہے،ان کے سامنے بڑھیایہ الفاظ کہہ رہی ہے ،پوچھاکہ کیابات ہے؟ اس نے کہاکہ آپ نے کہاتھا کہ عورتوں کے زیادہ مہرنہ باندھاکرو،آئندہ اگرکوئی زیادہ مہرباندھے گا تو میں ضبط کرلوں گا، جبکہ قرآن کریم نے مہرکوقنطار(ڈھیر)سے تعبیرکیاہے توآپ کون ہیں جوزیادہ مہرسے روک رہے ہیں؟
حضرت فاروقِ اعظم ؓکے دل میں نہ تویہ خیال آیاکہ اس بڑھیانے میری توہین کردی،میرے علم کوچیلنج کردیا،بلکہ فرمایاکہ ہائے! بوڑھی عورتیں بھی خطاب کے بیٹے سے زیادہ عالم اورفقیہ ہیں،یہ بڑھیاٹھیک کہتی ہے۔
اندازہ لگائیے،وہ ابنِ خطابؓجس کانام سن کرلوگ لرزتے تھے،جب غصہ قابومیں آیاتوایساآیاکہ اپنے آپ کومٹاکررکھ دیا۔
حضرت فاروقِ اعظم ؓاپنے ہمراہیوں کے ساتھ جارہے ہیں،ایک پہاڑ کے نیچے سے گزرتے ہیں،وہاں جاکررُکتے ہیں،خوداپنے نفس سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
{قف یا ابن الخطاب }
اے خطاب کے بیٹے ! ذراٹھہر! یہ وہ پہاڑہے جس کے نیچے تواُونٹ چرایا کرتا تھااورتیرے پاؤں گھٹنوں تک اُونٹ کے پیشاب میں لت پت ہواکرتے تھے اور آج توآدھی سے زیادہ دنیاکاحکمران بناہواہے۔یہ انقلاب نبیِ کریم،سرورِدوعالم ﷺ کی چند دنوں کی صحبت کاصدقہ ہے۔
اس لئے ہمارے بزرگ یہی کہتے چلے آئے ہیں جوکہ حقیقت میں اپنے آپ پرکنٹرول کرنے کاطریقہ ہے کہ ٹھیک ہے کہ سرکارِدوعالم ﷺکی صحبت کوکون پاسکتا ہے؟لیکن دین اللہ تعالیٰ نے ہم جیسے لوگوں کیلئے بھی رکھاہے،ہم جیسوں کیلئے ہم جیسوں کی صحبت درکارہے،ہمارے اندروہ ظرف نہیں تھاکہ ہم سرکارِدوعالم ﷺکی صحبت کے حق کاکوئی پاسنگ بھی اداکرپاتے،بعض اوقات بیوقوفی اورحماقت کاخیال آنے لگتاہے کہ کاش! ہم حضورﷺکے زمانے میں ہوتے! پتہ نہیں ہم اس وقت کس صف وقطارمیں ہوتے؟وہ توصحابۂِ کرامؓکاظرف تھاکہ انہوں نے نہ صرف حضورﷺکی صحبت کافیض اُٹھایابلکہ اس کیلئے قربانیاں بھی دیں۔
ہمارے لئے موجودہ دورکے اللہ والوں کی صحبت سے بھی سوچ کارُخ بدلتا ہے اور خیالات کی رُومیں انقلاب آتاہے،یہ محض قصہ کہانی اوردِلاسہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔
ذاتی تجربے کی بات
میں آپ کواپنے ذاتی تجربے کی بات بتاتاہوں،الحمدللہ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے دارالعلوم میں پڑھنے کی توفیق عطافرمائی،اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امتحانات میں اچھی کامیابی حاصل ہوتی رہی،اساتذہ ممتازطلبہ میں شمارکرتے رہے،فارغ ہونے کے بعد پڑھانا شروع کردیا۔الحمدللہ! تدریس کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے کامیاب فرمایا،طلبہ فائدہ محسوس کرتے تھے اورخوش رہتے تھے،کتابوں کے مطالعہ کا بہت شوق تھا،اس وقت تک مختلف اعمال کے جوفضائل ہوتے ہیں ،ان کے بارے میں احادیث کویادرکھنے یاان کی طرف التفات کی فکرہی نہیں ہوتی تھی،اگرہوئی توبس اتنی کہ الحمدللہ! ایک اچھی حدیث علم میں آگئی،کہیں وعظ کہیں گے تواس میں لوگوں کو سنائیں گے تووعظ میں جان پڑجائے گی،لیکن یہ بات کہ یہ چیزخودمیرے عمل کرنے سے بھی متعلق ہے،اس کی طرف دھیان شاذونادرہی جاتاتھا،اپنے والدماجد ؒکے گھرمیں پیداہونے کی برکت سے کچھ چیزیں توگھٹی میں پڑی ہوئی تھیں ،وہ ایک گھر کاسلسلہ چلاآرہاتھاتوہم بھی اس میں شامل ہوگئے،لیکن اپنے اختیارسے کوئی چیزمعلوم ہوئی کہ اس کایہ ثواب ہے چلوکرلیتاہوں، تواس طرف کوئی خاص التفات نہیں تھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ڈاکٹرعبدالحی عارفی قدس اللہ سرہ کی خدمت میں حاضری کی توفیق عطافرمادی،وہاں پروہی احادیث، وہی بشارتیں ،وہی فضائل سننے کوملے،لیکن پہلے جب خودپڑھاکرتے تھے تودماغ میں آکرگزرجاتے تھے، شوق پیدا نہیں ہوتاتھا،لیکن اس صحبت کی برکت سے کچھ شوق پیدا ہونے لگاکہ یہ فضائل تو ہمارے لئے بھی ہیں،یہ عجیب بات ہے کہ ہم دوسروں کوسنائیں اورخوداس سے محروم رہیں۔چنانچہ اب شوق پیداہواتوکبھی نہ کبھی ان شاء اللہ تعالیٰ عمل کی بھی توفیق ہوگی۔ صحبت کی وجہ سے جوبے رغبتی سی تھی وہ شوق میں بدل گئی۔
حضرت عارفیؒکاواقعہ
ایک مرتبہ ہم حضرت والا،حضرت عارفی قدس اللہ سرہ کے ساتھ ایک دعوت میں تھے،کھاناسامنے آیاتوہم نے بسم اللہ کی اورکھاناشروع کردیا،حضرت نے فرمایاکہ کھاؤ تو ضرور،لیکن ذراتوجہ کروکہ اس ایک کھانے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتنی نعمتیں جمع ہیں؟ کتنے لوگ ہیںجن کوکھانابھی میسرنہیں آتا،ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے کھانا عطا فرمایاتواس پرشکراداکرو{اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ}
پھرکھانامزیداربھی ہے،بعض دفعہ بھوک ہوتی ہے لیکن کھانامزیدارنہیں لگتا،بس بھوک کے مارے کھالیتے ہیں، توکھانے کامزیدارہونادوسری نعمت ہے توکہو {اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ}
لذیذکھاناموجودہے،اللہ تعالیٰ نے بھوک بھی عطاکی، اگربھوک نہ ہوتی کھانے کی طرف رغبت ہی نہ ہو،یہ بھی اللہ کی نعمت ہے،کہو{اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ}
پھرکھانالذید بھی موجودہے،بھوک بھی ہے لیکن کوئی بیماری ایسی ہے کہ ڈاکٹرنے اس کھانے سے منع کررکھاہے،
۔۔۔۔حضرت تھانویؒنے اپنے مواعظ میں فرمایاکہ میں نے ایک نواب کودیکھاکہ ساری دنیاکی نعمتیں اس کے گھرمیں جمع میں ہیں،لیکن بیماری ایسی تھی کہ طبیب نے کہہ رکھاتھاکہ اورکچھ کھاسکتے سوائے اس کے کہ آدھاپاؤگوشت کاقیمہ لیکراس کوململ کے کپڑے میں رکھیں اورپھراس کاجوس نکلے تواس کوپی لو۔۔۔۔۔۔
تواگرکوئی بیماری ایسی ہوتی کہ اس میں پرہیزہوتاتویہ کھانااچھا،لذیذہونے کے باوجوداور بھوک ہونے کے باوجود نہیں کھاسکتے،یہ بھی اللہ کی نعمت ہے ،کہو {اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ}
پھرکھانااچھااورلذیذ،بھوک بھی ہے اورکوئی پرہیزبھی نہیں،لیکن اچانک کوئی خبرایسی سنی کہ دماغ اسی کی فکرمیں لگ گیا،اب یاتوکھاناچھوڑکرجلدی سے جائیں گے یاجلدی جلدی کھاکرجائیں گے،دونوں صورتوں میں کھانے کامزہ نہ رہا،تواللہ تعالیٰ نے اطمینان کی حالت عطافرمائی،یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے،اس پرکہو{اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ}
اب کھانابھی اچھاہے،بھوک بھی ہے،پرہیزبھی نہیں،حالت ِاطمینان بھی ہے،لیکن کھلانے والاذلیل کرکے کھلارہاہے،احسان جتلاکرکھارہاہے،اب بتائیے ایسا کھانے میں کیامزہ رہ گیا؟اب کھاناکھلانے والامحبت سے کھلارہاہے،عزت سے کھلارہا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے،اس پربھی کہو{اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ}
غورکروکہ اس ایک کھانے میں اللہ تعالیٰ نے کتنی نعمتیں جمع کررکھی ہیں،اب یہ کھاناکھاؤ،اس کی لذت لواورہرایک نعمت کی الگ الگ لذّت لو۔جب تک حضرت والاؒنے اس طرف متوجہ نہیں کیاتھا،اس وقت تک توصرف بسم اللہ پڑھ کرکھاپی کرہاتھ دھوکرچلے آتے،لیکن صحبت کی وجہ سے فکرکازاویہ بدل گیا۔
ایک مرتبہ ایک صاحب نے سخت گرمی میں حضرتؒکی مجلس میں کہہ دیاکہ بڑی سخت گرمی پڑرہی ہے،حضرت ؒنے فرمایاکہ واقعی گرمی توہورہی ہے،لیکن یہ سوچوکہ اس گرمی سے کیاکیافائدہ مل رہے ہیں؟فاسدجراثیم مررہے ہیں،جسم کی فاسدرطوبتیں خشک ہورہی ہیں،غرض گرمی کے بہت سے مثبت پہلوکی طرف ذہن کومتوجہ کروادیا۔
میری ایک عزیزہ کے دانتوں میں تکلیف تھی،اس کی وجہ سے کبھی ایک دانت نکل جاتاتوکبھی دوسرا۔ایک دن وہ حضرت والدماجدؒسے کہنے لگیں کہ اباجی! دانت بھی عجیب چیزہیں کہ یہ آتے وقت بھی تکلیف دیتے ہیں اورجاتے وقت بھی تکلیف دیتے ہیں،یعنی بچے کے دانت نکلتے ہیں تواس وقت اس کومختلف بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، کبھی دست لگ گئے،کبھی بخارآگیا،اسی طرح جب دانت بڑی عمرمیں جاکرٹوٹنے لگتے ہیں توبھی کبھی مسوڑہ پھول گیا،کبھی وَرم آگیا،کبھی کوئی تکلیف توکبھی کوئی تکلیف۔حضرت والدماجدؒ نے فرمایاکہ اللہ کی بندی تمہیں ان دانتوں کی یہی دو تکلیفیں یادرہیں کہ انہوںنے آتے ہوئے بھی تکلیف دی اورجاتے ہوئے بھی تکلیف دی اورجوچالیس پچاس سال تم نے اس چکی کواستعمال کرکے جولذّتیں حاصل کیں،وہ سب بھول گئیں؟
یہ ہے سوچ کارُخ تبدیل کرنا۔ہمارے والدماجدؒنے میرے بڑے بھائی مولانامحموداشرف صاحب کے والدکے انتقال کے وقت جب اپنے پوتے پوتیوں کو خط لکھاتو۔۔۔۔جن حالات میں ان کاانتقال ہوا،اس کاتصورکرنابھی آسان نہیں،۔۔۔۔اس وقت حضرت والدماجدؒنے لکھاکہ اصل میں ہمیں جوپریشانی اورتکلیف ہوتی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم واقعات کواُلٹاپڑھتے ہیں،یعنی ان کے منفی پہلؤوں کی طرف دِھیان جاتاہے،اگران کوسیدھاپڑھیں یعنی اس کے جومثبت پہلوہیں وہ سامنے لائیں تواللہ تبارک وتعالیٰ کے شکرکے سواکوئی بات دل میں نہیں آئے گی۔یہ سوچ اللہ والوں کی صحبت سے حاصل ہوتی ہے۔
لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے وقت بدلے کی نیت نہ رکھو
لوگوں کوآج کل شکایتیں ہوتی ہیں،لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں،حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کے ساتھ کسی بھلائی کاکام کروتووہ اللہ کیلئے کرو،بدلے کیلئے نہ کرو:
{لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شَکُوْرًا} (الدھر: ۹)
جب یہ نیت کرلی توسامنے والااگربدلہ نہیں دے رہایابرابدلہ دے رہاہے تواس سے کوئی سروکارہی نہیں۔
’’خادم‘‘کاعہدہ
حضرت ؒکی ایک اوربات یادآئی،فرماتے تھے کہ آج کل لوگ عہدوں،منصبوں اور اعزازات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں،حالانکہ دنیاکے جتنے بھی عہدے اورمنصب ہیں،ان کواختیارکرناانسان کے بس اوراختیارسے باہرہے،اگرکوئی اختیاربھی کرلے تو اس پرحسدکرنے والے بھی بہت ہیں،بہت سے ٹانگیں کھینچنے کی فکرمیں رہتے ہیں، دنیا کے تمام عہدوں کایہی حال ہے،میں تمہیں ایک ایساعہدہ بتاتاہوں جس کوحاصل کرنا اپنے اختیارمیں ہے اوراس کولینے کے بعداس پرکوئی حسدکرنے والابھی نہیںہے اور کوئی اس کوچھیننے والابھی نہیں،وہ ہے ’’خادم‘‘کاعہدہ۔
یہ عہدہ ایساہے کہ اس کیلئے کوئی مقابلہ اورکوئی الیکشن نہیںہوتا،اس پرکوئی حسدبھی نہیں کرتااورکوئی چھیننے کی کوشش بھی نہیں کرے گا،بس یوں سمجھوکہ میں خادم ہوں،اپنے گھروالوں کاخادم ہوں، اپنے ملنے جلنے والوں کاخادم ہوں،اپنے دوست احباب کا خادم ہوں،اپنے عزیزواقارب کاخادم ہوں،البتہ خدمت کے عنوان مختلف ہوتے ہیں، جسمانی خدمت بھی ہوتی ہے،کسی کی ضرورت پوری کرنابھی خدمت ہے، اولادوغیرہ کی تعلیم وتربیت کاانتظام بھی خدمت ہے،دوست احباب اورعزیزواقرباء کوان کی خیرخواہی اورہمدری کرتے ہوئے اچھامشورہ دینابھی خدمت ہے۔اس خدمت کانتیجہ یہ ہوگاکہ کبھی تکبرنہیں آئے گا،کبھی اپنی بڑائی دل میں نہیں آئے گی،اورجوکچھ ہورہاہوگاوہ اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے ہونے کیوجہ سے عبادت شمارہوگا۔
اللہ والوں کی صحبت سے سوچ کارُخ اس طرح سے تبدیل ہوتاہے،جب ان کی صحبت سے بات سمجھ میں آنے لگتی ہے تواللہ تبارک وتعالیٰ دل کے دریچے بھی کھول دیتے ہیں،اللہ تبارک وتعالیٰ نگاہوں کوبھی وسعت عطافرمادیتے ہیں،ان کے فیض وبرکت سے اللہ تعالیٰ ہمار ے دلوں میں بھی ایسی باتیں ڈال دیتے ہیںجس سے سوچ کارُخ بدلتا ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کواس کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری خواہشات کے رُخ کوموڑکراپنی رضاکی طرف کردے،یہی صبر ہے اوریہی سارے رمضان کاحاصل ہے۔
وآخردعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین