رمضان بندگی کاخاص موسم!
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ نے فرمایاکہ حدیث ِقدسی میں واردہے
{ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَ مَنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً }
یعنی اللہ جلّ جلالہ فرماتے ہیں کہ
’’جوشخص میری طرف ایک بالشت چل کرآتا ہے،میں اس کی طرف ایک ہاتھ چل کرجاتاہوںاورجومیری طرف ایک ہاتھ چلتاہے، میں اس کی طرف کھلے ہوئے دوہاتھ چل کرجاتاہوں اورجومیری طرف آہستہ چل کر جاتاہے،میں اس کی طرف دوڑکرجاتاہوں۔‘‘
حدیث ِقدسی کسے کہتے ہیں؟
یہ حدیث ِ قدسی ہے۔حدیث ِقدسی اس حدیث کوکہتے ہیں جس میں نبیِٔ اکرم ﷺکوئی بات اللہ جلّ جلالہ کی طرف نسبت کرکے بیان فرمائیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک وحی نازل فرمائی جو قرآنِ کریم کی شکل میںہمارے سامنے ہے،جونمازوں اور تراویح میں بھی پڑھی جاتی ہے اوردوسری وہ وحی ہے جواللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی لیکن اس کو قرآن کاحصہ نہیں بنایا،اس کوحدیث ِقدسی کہتے ہیں۔
حدیث کامطلب
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں بالشت، گز اور دوڑکرآناسمجھانے کیلئے ایک مثال ہے،مقصودیہ ہے کہ جواللہ تعالیٰ کی طرف ذرا بھی توجہ کرتاہے،اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوچنداورسہ چندتوجہ فرماتے ہیں۔
حق تعالیٰ کی معرفت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی عنایت ہے
یہ بات سچ ہے کہ اگرحق تعالیٰ اتنی توجہ نہ فرمائیںتوانسان کی کیامجال تھی کہ جواُن تک پہنچ سکتا۔آخرانسان کوخداسے نسبت ہی کیاہے؟وہ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہیں،انسان کاوہم وگمان بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا،جوذات اس قدربالاترہو،اس کی معرفت اورمحبت کامشاہدہ انسان خودکیونکرکرسکتاہے؟بس یہ انہی کی عنایت ہے کہ جو کچھ حصہ معرفت وغیرہ کاانسان کوعطاہوتاہے،وہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی عطاہے، ورنہ واقعی وہ مسافت توایسی ہے جس کے بارے میں کہاگیاکہ ؎
نہ گردد قطع ہرگز جادۂ عشق از دویدنہا
کہ می بالد بخود ایں راہ از قطع و بریدنہا
اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اورنیک کاموں کی توفیق
حضرت والاؒنے اس حدیث ِقدسی کی جوکچھ تشریح فرمائی ہے اس کاحاصل یہ ہے کہ ذراتوجہ کی دیرہے،بس انسان اللہ جلّ جلالہ کی طر ف توجہ کرلے،اس کی بندگی اوراطاعت کی طرف توجہ کرلے تواللہ تبارک وتعالیٰ اس کواورزیادہ توفیق عطافرماتے ہیں۔رمضان المبارک میں خاص طورپراس کامشاہدہ ہرمسلمان کوہوتاہے کہ رمضان المبارک میں بندوں کوان اعمال کی توفیق آسانی سے ہوجاتی ہے جن کاتصوررمضان المبارک سے باہرمحال نظرآتاہے،عام دنوں میں پانچ نمازوں کااداہوجاناہی اچھا خاصا مشکل لگتاہے چہ جائیکہ نمازِتراویح کی بیس رکعات پڑھے۔
اسی طرح آخری شب میں اُٹھناعام دنوں میں بہت بھاری لگتاہے لیکن رمضان المبارک میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے سحری کیلئے اُٹھناآسان فرمادیتے ہیں۔
یہ اس لئے ہوتاہے کہ رمضان المبارک کے شروع ہی سے انسان اپناذہن بنالیتاہے کہ رمضان کامہینہ آرہاہے،اس میں کچھ عام دنوں سے زیادہ کرناہے اوراپنی طرف سے کچھ ارادہ بھی کرلیا۔اس ارادے کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمت عطافرمادی،طاقت عطافرمادی،اس ہمت وطاقت کی وجہ سے وہ کام ہورہے ہیں جوعام دنوں میں نہیں ہوپاتے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک کے مہینے میں نہ جانے بندوں کیلئے کیاکیاحکمتیں اورکیاکیافوائدرکھے ہیں،ان میں سے ایک اللہ پاک یہ دِکھادیتے ہیں کہ اَرے! میری طرف ذراسادھیان توکرو! ایک آدھ قدم بڑھوتوسہی،تم ایک قدم بڑھوگے تومیں تمہیں ایسی توفیق اورہمت دوں گاکہ تم ایک ذراع بڑھ جاؤگے۔اگرتم ایک ذراع بڑھوگے توہم دوذراع کی توفیق دیں گے۔اگرتم کچھ چل کرہماری طرف آؤگے توہم اپنی توفیق تمہیں دوڑنے کی ہمت عطاکریںگے۔یہ اوربات ہے کہ ہم اس سے سبق نہیں لیتے اوررمضان المبارک گزرنے کے بعدپھراسی غفلت میں چلے جاتے ہیں۔حالانکہ ہمیں مشاہدہ کرایاجارہاہے کہ تم ذراسی توجہ اورذراساکام کروتوہم تمہیں اس سے بڑھ کرکرنے کی توفیق دیتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا} (عنکبوت: ۶۹)
جوہمارے راستے پرکچھ کوشش کرتے ہیں(کرینگے یاانہوں نے کی ہے)توہم ضروربالضرورانہیں اپنے راستوں پراُٹھاکرلیجائیں گے۔
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ نے ترجمہ فرمایا:
ہم ہاتھ پکڑکران کواپنے راستوں پرکھڑاکردیں گے۔
{ لَنَھْدِیَنَّھُمْ } میں ہدایت کی اضافت دوسرے مفعول کی طرف بغیرصلہ کے ہورہی ہے جیساکہ{ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } میںبھی اسی طرح ہے، اس وقت ہدایت اراء ۃ الطریق کے معنی میں نہیں ہوتی بلکہ ایصال الی المطلوب کے معنی میں ہوتی ہے۔
روزوں کی فرضیت کامقصد
اسی طرح قرآنِ کریم میں تمام روزوں کی علت،غایت ،حکمت اورفائدہ یہ بیان فرمایا:
{ یٰـأَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (بقرۃ: ۱۸۳)
روزہ کے ذریعے تقوٰی پیداکرنے کی تربیت دی جارہی ہے،اس کی مشق اس طرح کروائی جارہی ہے کہ دل میں خواہش ہورہی تھی کہ کھاؤں اورپئوں اور شدید گرمی کا موسم ہے،پیاس کے مارے حلق میں کانٹے پڑے ہوئے ہیں ،ٹھنڈاپانی گھر میں موجود ہے،آدمی کمرے میں اکیلاہے،کوئی دیکھنے والابھی نہیں ہے،مگراس وقت وہ پانی نہیں پیتا۔کوئی روزے دارمسلمان جس کے دل میں ایمان ہے،کیساہی گیا گزرا ہو، غفلت کا مارااورنادان ہووہ پانی نہیں پئے گا،صرف اس لئے نہیں پئے گاکہ اس نے اللہ تعالیٰ سے صبح کووعد ہ کرلیاتھاکہ آج میں روزہ رکھ رہاہوں،لہٰذاکچھ کھاؤں اور پیوں گانہیں۔اب اگرکچھ کھاپی لیاتومیراعہدٹوٹ جائیگا،پھرمیں اللہ تعالیٰ کوکیاجواب دوں گا؟اس پانی پینے کے تقاضے کواس نے اللہ تعالیٰ کی وجہ سے دبادیا،بس اسی کانام تقوٰی ہے،اسی کوفرمایا:
{ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیO فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی} (النّٰزعٰت: ۴۰،۴۱)
جوشخص اپنے پروردْگارکے سامنے کھڑے ہونے کادل میں خوف رکھتا ہو اور اس خوف کی وجہ سے اپنے نفس کو خواہشات سے روک دے تو
پھرجنت اس کاٹھکانہ ہے۔
ارادے اورذراسی ہمت پراللہ تعالیٰ کی توفیق
یہاں پروہی دل کاارادہ پایاجارہاہے کہ بندے نے روزہ رکھتے وقت اپناجی کڑاکرکے اپنے دل میں تہیہ کرلیاتھاکہ روزے کی حالت میں دن میںنہ کچھ کھاؤں گااورنہ پیوں گااورنہ ہی اپنی دیگرنفسانی خواہشات پرعمل کروں گاتواللہ تعالیٰ نے اس ارادے کی بدولت سارے دن میں اس کیلئے اس ارادے پرعمل کرناآسان کردیا، بھوک لگی مگراس نے کھانانہیں کھایا،پیاس لگی مگراس نے پانی نہیں پیا،جنسی خواہش ہوئی مگرپوری نہیں کی۔اسی طرح رمضان سے پہلے طرح طرح کی فکرتھی کہ رمضان آنے والاہے،روزے رکھنے ہیں،کھاناپینابندکرناہے،لیکن جب رمضان آگیاتوذرا سی ہمت سے اللہ جل جلالہ نے اسے پھولوں جیساہلکابنادیا۔
میں رمضان سے پہلے یورپ میں تھا،وہاں سولہ سے سترہ گھنٹے کاروزہ تھایعنی صبح پونے تین بجے سحری ختم اورشام کوساڑھے نوبجے روزہ افطارہوتاہے،ساڑھے نوبجے افطارکے بعدان کوتراویح بھی اداکرنی ہے اورپھرسونابھی ہے اورپھراُٹھ کرسحری بھی کرنی ہے،یہ بڑامشکل لگتاہے،میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھاکہ تم کویہ روزہ کیسے لگتا ہے؟اس نے کہاکہ جی ! الحمدللہ پتہ بھی نہیں چلتا۔جب ارادہ کرلیتے ہیں کہ روزہ رکھنا ہے تواسی حساب سے اپنانظام بنالیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ یہ کروادیتے ہیں۔
سولہ سترہ گھنٹے کے روزے رکھنے والوں کاروزہ بھی آسان ہوجاتاہے اورہم لوگ جوبارہ تیرہ گھنٹے کاروزہ رکھتے ہیں،ہمیںبھی روزہ آسان ہوجاتاہے،یہ وہی بات ہے جواللہ تبارک وتعالیٰ حدیث ِقدسی میں بیان فرمارہے ہیںکہ جوہماری طرف ایک بالشت بڑھتاہے میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھ کرجاتاہوں،جب ایک مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کوراضی کرنے کیلئے ایک کام کرنے کاارادہ کرلیاتواللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں آگے بڑھ کرتمہیں پکڑلیتاہوں،یعنی تمہیں اس کام کی توفیق اور ہمت دیدیتا ہوں،اس کوتمہارے لئے آسان بنادیتاہوں۔
رمضان المبارک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ہرروزیہ منظردکھاتے ہیں،جتنی آسانی اورسہولت سے رمضان المبارک میں روزے رکھے جاتے ہیں اگررمضان سے باہر روزے رکھنے کاتصورکروتویہ بہت مشکل نظرآئے گا،لیکن جب ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطرارادہ کرلوگے تواللہ تعالیٰ اس کوآسان فرمادیںگے۔اسی کواللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰیO وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیOفَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰیO} (اللیل: ۵،۶،۷)
یعنی ہم اس کو آسانی کے ساتھ اس چیز کی طرف پہنچادیتے ہیںجو کہ یسرٰی ہے۔
دین میں توآسانی ہی آسانی ہے
اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب بات کی طرف اشارہ فرمادیاکہ دین کاکوئی بھی کام جس کاتم کومکلف کیاگیاہے،حقیقت میں مشکل نہیں،سب یسرٰی ہے چاہے نمازہو، روزہ ہو،حج ہو،زکوٰۃ ہو،{لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا} اور {مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ}اللہ تعالیٰ نے تمہارے اُوپردین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ {یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَایُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ}اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے،تمہیںمشکل میں ڈالنانہیں چاہتااور{اَلدِّیْن یُسْرٌ} حقیقت میں ساری شریعت اوردین کے سارے احکام آسان ہی ہیں،لیکن شیطان اور نفس اس کو مشکل دِکھاتے ہیں،اسی لئے فرمایا{اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ} نمازلوگوں کیلئے بہت مشکل ہے مگرجولوگ خشوع اختیارکرنے والے ہیںاوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں،ان کیلئے کوئی مشکل نہیں۔
دوقدم بڑھائیں توسہی!
اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تم ایک مرتبہ نفس اورشیطان کی مخالفت کرنے پرآمادہ ہوگئے اوراپنے آپ کواس راستے پرڈال دیاتوہم تمہارے لئے اس کوواقعۃً آسان کردینگے۔رمضان المبارک میں یہ درس دیاجارہاہے کہ دیکھو! ذراسی ہمت کرلو!آگے تمہیں ہم پکڑکرلیجائیں گے۔
ہمارے حضرت والاحضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ اس کی مثال یہ بیان فرماتے ہیں کہ جیسے کوئی چھوٹابچہ ہوتاہے ،جب چلناسیکھتاہے توچونکہ ابھی وہ قدم اُٹھاکرچلنے کے قابل نہیں،لیکن جب ذراکھڑاہوناشروع کرتاہے توماں باپ تھوڑی دورکھڑے ہوکراس کواپنی طرف بلاتے ہیں،وہ بچہ ماں باپ کی طرف ایک آدھ قدم بڑھانے کی کوشش کرتاہے،پھرلڑکھڑاکرگرنے لگتاہے،ماں باپ بلارہے ہیں کہ میری طرف آؤ،اب اگروہ اپنی جگہ پرہی کھڑارہے ،قدم بڑھائے ہی نہیں توبس وہیں کھڑاہی رہے گا،چلنانہیں سیکھ سکتا،لیکن اگروہ اپنی طرف سے کوشش کرکے ایک آدھ قدم بڑھائے ،پھرلڑکھڑاکرگرنے لگے توماں باپ لپک کراس کوگرنے سے بچالیتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا} (عنکبوت: ۶۹)
اس آیت کایہی مطلب ہے کہ تم قدم بڑھاؤ،ہم خودآگے بڑھ کرتمہیں گودمیں اُٹھالیں گے۔
بندے کے ارادہ کی حقیقت
حقیقت یہ ہے کہ توفیق توانہی کی طرف سے ہوتی ہے،بندے کی طرف سے جوکچھ ہوتاہے اس کی صحیح تشریح بھی ممکن نہیں،اس کوعلمائِ شریعت نے ’’کسب ‘‘کانام دیاہے کہ بندے کی طرف سے کسب ہوتاہے ورنہ خلقِ افعال اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اس کسب کی حقیقت کوبیان کرناہی ممکن نہیں ہے،اسی ارادہ کہ جس پراللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ تم ذراساارادہ توکرو،ہم تمہیں آگے لیکرچلے جائیں گے،خودو ہ ارادہ بھی ایسی چیز ہے کہ اس کی تعریف نہیں ہوسکتی،اس کاصحیح مطلب بیان کرنابھی مشکل ہے۔
حضرت بابانجم الحسن صاحبؒ کاقول
ہمارے ایک بزرگ تھے،حضرت بابانجمِ حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ،جو حضرت حکیم الامت ؒکے مجازِصحبت تھے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کولوگوں کی ہدایت کا ایک خاص طریقہ عطافرمایاتھا،وہ ایک بڑی عجیب بات فرمایاکرتے تھے کہ فرمایایہ گیاہے :
{قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ}
(ال عمران: ۳۱)
حضورِاکرم ﷺسے خطاب ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ اگرتم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہویاکرناچاہتے ہوتومیری اتبا ع کروجس کانتیجہ یہ ہوگاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔
حضرت فرماتے ہیں کہ{ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ} میںبات تویہ ہورہی تھی کہ بندہ چاہ رہاہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کروںتوکوئی ایساطریقہ بتاناچاہئے تھاکہ جس کے ذریعے بندہ اللہ سے محبت کرسکے جبکہ طریقہ یہ بتایاگیاکہ حضوراقدس ﷺکی اتباع کرو۔اس کے بعدیہ نہیں فرمایاکہ اس صورت میں تم مجھ سے محبت کرنے لگوگے ،بلکہ یہ فرمایاکہ اگرتم حضوراقدسﷺکی اتباع کروگے تواللہ تم سے محبت کرے گا۔
حضرت فرماتے ہیں کہ دراصل اللہ تعالیٰ بتاناچاہ رہے ہیں کہ ارے!تم کیااللہ تعالیٰ سے محبت کروگے!تمہاری کیامجال کہ تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے لگو،وہ تواللہ ہے جوتم سے محبت کرنے لگے گا،جب اللہ تم سے محبت کرے گاتواس سے تم کواللہ تعالیٰ سے محبت کی کچھ توفیق ہوجائے گی ؎
مری طلب بھی انہی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اُٹھتے نہیں ہیں اُٹھائے جاتے ہیں
اگراللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق نہ ہوتی توہمیں کہاں سے ہدایت ملتی!نہ ہم روزہ رکھ سکتے اورنہ نمازپڑھ سکتے۔بندہ سے صرف ارادہ ہی مطلوب ہے اورارادہ بھی اپنی پوری حقیقت کے ساتھ نہیں بلکہ اس کاکوئی ایساعنصرہے جوبیان میں نہیں آسکتا۔
ارادہ بھی بندے کی طرف سے نہیں ہوتابلکہ فرمایا:
{ وَمَا تَشَآؤُوْنَ اِلاَّ ٓاَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ} (التکویر: ۲۹)
ایک بہت ہی خفیف سی چیزہے جس کو کسب یا اختیارسے تعبیرکیاجاتا ہے، بندے سے صرف وہ چیزمطلوب ہے۔
گذشتہ مثال میں بھی بچے نے کچھ توحرکت کی ،لیکن بندے کے ارادے میں اتنی حرکت بھی نہیں ہے،بلکہ ایک بہت ہی موہوم،مبہم ،مجمل ،ناقابلِ بیان چیزہے جس کو کسب سے تعبیرکیاجاتاہے،بندہ وہ کرلے تواللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم تمہیں آگے پکڑکر لیجائیں گے ۔ہمارے اندراسی ذراسی چیزکاگھاٹاہے۔
تصوف کی حقیقت
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ کاایک ملفوظ نجانے کتنی مرتبہ اپنے شیخ سے سنا…
یہ اس شخص کاملفوظ ہے جس کی ساری زندگی تصوف کی وادیوں کے پیچ وخم میں گزری ، حضرت اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ مجھے دوسرے علوم سے کچھ خاص مناسبت نہیں،(یہاں تک فرماتے ہیں کہ فقہ سے بھی نہیں،حالانکہ امدادالفتاوٰی پڑھ کردیکھیں کہ تفقہ کاکیاجہان نظرآتاہے!)ہاں! البتہ دوعلوم سے مناسبت ہے ،ایک تفسیر اورایک تصوف۔حضرت اپنی تواضع کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ مجھے اس فن سے کچھ مناسبت ہے ۔
… وہ فرماتے ہیں کہ
’’ وہ ذراسی بات جوحاصل ہے تصوّف کا،یہ ہے کہ جب کسی طاعت کی بجاآوری میں سستی ہوتواس سستی کامقابلہ کرکے وہ طاعت کرے اورجب کسی گناہ یامعصیت کے چھوڑنے میں سستی ہوتواس سستی کامقابلہ کرکے اس سستی سے بچے،اسی سے تعلق مع اللہ پیداہوتاہے،اسی سے تعلق مع اللہ میں ترقی ہوتی ہے،جس کویہ چیزحاصل ہوجائے پھراس کوکسی بات کی ضرورت نہیں۔‘‘
یعنی جب کسی طاعت کاوقت آیااوراس کے کرنے میں سستی محسوس ہوتواپنے آپ پرزبردستی کرکے اس طاعت کاارادہ کرلوتواس سے تعلق مع اللہ پیدابھی ہوگا اور اسی سے قائم بھی رہے گا،حفاظت بھی ہوگی اوراسی سے ترقی بھی کرے گا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوٹی سی نیکی کی توفیق کوبھی حقیرنہ سمجھیں
اس لئے اس نقطۂِ نظرسے رمضان کامہینہ گزارنے کی توفیق مانگنی چاہئے کہ ہم تربیت کے کورس سے گزررہے ہیں،لہٰذااس ماہ میں ہم اپنی ہمت کوکچھ بڑھاتے ہیں ، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کی توفیق دیدیتے ہیں،تراویح کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں،اکثروبیشتر مسلمان ایسے ہیں جنہیں گیارہ مہینے کبھی تہجدکی توفیق نہیں ہوتی، اس مہینے میں بہت سوں کویہ توفیق مل جاتی ہے،اسی طر ح عام دنوں میںقرآن شریف کی تلاوت کااہتمام نہیں ہوتا،جبکہ اس مہینے میں ہوجاتاہے،یہ سب اسی دھیان ، توجہ اورتھوڑے سے ارادے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی توفیق سے ہورہاہے۔اسی وجہ سے حدیث میں نبیِ کریم ﷺکاارشادہے :
{ لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا }
نیکی کی کسی بات کوبھی ہرگزحقیرنہ سمجھنا۔
اگرکسی وقت بظاہرمعمولی سی نیکی کرنے کادل میں کچھ خیال آگیاتواس کو حقیرسمجھ کرچھوڑنانہیں۔بعض اوقات کوئی چھوٹی سی نیکی کرنے کاخیال آگیامثلاً راستے سے گزررہے تھے،راستے میں کوئی کانٹاوغیرہ پڑاہواتھا،خیال ہواکہ چلواس کوراستے سے ہٹادوںتاکہ گزرنے والوں کوتکلیف نہ ہو۔شیطان بعض اوقات دل میں ڈالتاہے کہ ارے یار! اتنے سے کام سے کون سی جنت مل جائے گی؟میرے گناہوں کابوجھ اتناہے کہ یہ چھوٹاساکانٹاہٹاکرمیں کیاکروںگا؟سرکارِدوعالم ﷺفرماتے ہیں کہ یہ جونیکی کا خیال دل میں آیاہے اس کوہرگزحقیرمت سمجھنااورحقیرسمجھ کرنہ چھوڑنا۔ اس لئے کہ یہ چھوٹا ساخیال جودل میں آیاہے ،درحقیقت تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بالشت یاآدھی بالشت سفرشروع کیاہے اوراللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ تم ایک بالشت میری طرف آؤگے تومیں ایک ذراع بڑھ کرآؤں گا،اگرتم نے اس ایک بالشت کوچھوڑدیاتواس سے تم اللہ تعالیٰ کی طرف ایک ذراع کی پیش قدمی سے محروم ہوجاؤگے۔
اسی طرح مسجدمیں پہنچے ،جماعت میں کچھ وقت ہے،دل میں خیال آیاکہ چلو اتنا تحیۃ المسجدپڑھ لیتاہوں،شیطان کہتاہے کہ ساری زندگی تم نے پڑھی نہیں،ایک مرتبہ پڑھنے سے کیاہوجائیگا؟چھوڑو!تھوڑی دیربیٹھ کرآرام کرو!دل میں اس نیکی کاخیال آیا، اس کوکرگزرو،کچھ پتہ نہیںکہ اس وقت یہ نیکی کس جذبے اورکس اخلاص کے ساتھ انجام پاجائے جس کی بناء پربیڑاہی پارہوجائے۔بعض اوقات ایساہی ہوتا ہے کہ چھوٹاساعمل پتہ نہیں کس اخلاص کے ساتھ انجام پاتاہے،اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسی پر مغفرت فرمادیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تم میری طرف ایک بالشت بڑھوتومیں تمہاری طرف ایک ذراع بڑھ کرآؤں گا،اس کاایک معنی یہ بھی ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کوکھینچتی ہے،یعنی ایک نیکی کی توفیق ہوگئی تواس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کسی اور نیکی کی بھی توفیق دیدیں گے۔
اسی طرح گناہ گناہ کوکھینچتاہے،ایک گناہ (اللہ بچائے!) ہوجائے تودوسرے گناہ کی بھی جرأت پیداہونے لگتی ہے۔
نیکی کاخیال اللہ کی طرف سے مہمان ہے
میں نے اپنے شیخ حضرت مولانامسیح اللہ خان صاحب قدس اللہ سرہ سے سنا،وہ اپنے حضرت حکیم الامت ؒکی بات نقل فرماتے تھے کہ دل میں کسی وقت کوئی نیکی کرنے کاخیال آجاتاہے،اس کوصوفیائِ کرام ؒکی اصطلاح میں واردکہتے ہیں۔مثلاًکسی شخص کے حالات کی آپ کواطلاع ملی کہ وہ بہت پریشان ہے،بے روزگارہے،معاشی حالات تنگ ہیں،آپ کے دل میں خیال آیاکہ میں کچھ اس کوصدقہ کردوں؟اس کوواردکہتے ہیں۔
واردکے معنی ہیںمہمان،تونیکی کایہ خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مہمان ہوتاہے،لیکن یہ غیرت مندمہمان ہے،ایک مہمان وہ ہوتے ہیں کہ کسی کے درپرجاکر پڑگئے،اب وہاں سے اُٹھنے کانام ہی نہیں لے رہے،یعنی مان نہ مان!میں تیرامہمان! میزبان کوتکلیف اورپریشانی ہورہی ہے توہوتی رہے،یہ بے غیرت مہمان ہیں،حدیث میں ان کولٹیرے کہاگیاہے،حدیث میں آتاہے کہ جوشخص بغیرکسی کی اجازت اورخوشد ِلی کے اس کے گھرمیں جائے اوراس کی خوشد ِلی کے بغیردعوت کاکھاناکھائے تووہ درحقیقت چوربن کرداخل ہوااورلٹیرابن کرنکلا۔
ایک مہمان غیرت مندہوتاہے،وہ دیکھتاہے کہ یہ پوری خوشد ِلی کے ساتھ اورصحیح معنی میں قدرپہچان کر،محبت سے ،اکرام کے ساتھ میری خاطرتواضع کررہاہے توپھروہ اس کے ہاں ٹھہرے گا،لیکن اگراس کوایک لمحے کیلئے بھی پتہ چل جائے کہ میراوجوداس کے اُوپرکچھ بھاری ہورہاہے تووہ غیرت مندمہمان ایک لمحہ کیلئے بھی وہاں پرٹھہرناپسندنہیں کریگا۔
حضرت فرماتے ہیں کہ نیکی کاخیال بھی غیرت مندمہمان ہے،اگرتم نے اس کی خاطرتواضع کی، یعنی جونیکی کاخیال آیاتھاوہ کرگزرے تومہمان پھردوبارہ آئے گا اور اگر تم نے اس کی قدرنہ کی یعنی اس خیال کوعملی جامہ نہ پہنایاتووہ غیرت مندمہمان دوبارہ نہیں آئے گا۔جیسے اگرکوئی کسی کے گھرپرجائے اورسامنے گھروالامنہ چڑاکر بات کرے اور کوئی توجہ نہ دے توکسی کادل بھی دوبارہ اس کے گھرپرجانے کونہیں چاہے گا۔
اسی لئے آپ ﷺنے فرمایاکہ کسی بھی نیکی کے کام کومعمولی اورحقیرسمجھ کر ہرگز مت چھوڑو،کیونکہ ہوسکتاہے کہ اسی کی بدولت یہ مہمان باربارآئے اوراس پرعمل کرکے تم منزل تک پہنچ جاؤ۔یہ وہی بات ہے کہ تم اللہ کی طرف ایک بالشت بڑھوگے تواللہ تعالیٰ تمہاری طرف ایک ذراع بڑھ جائیں گے۔
رمضان میں تلاوت،ذکراورنوافل کاخصوصی اہتمام کریں
رمضان المبارک میں خاص طورپراس حدیث کویادرکھناچاہئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہروقت اس کانظارہ بھی کروارہے ہیں۔لہٰذاہمیں کوشش اس بات کی کرنی چاہئے کہ رمضان المبارک میں ہمارے زیادہ سے زیادہ اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف پیش قدمی میں گزریں۔اوّابین،اشراق،تہجدکااہتمام کرنے کی کوشش کریں۔تلاوت ِقرآنِ مجیدکو رمضان المبارک سے خاص مناسبت ہے،جتنازیادہ سے زیادہ ہوسکے قرآن کریم کی تلاوت کریں۔اللہ جل جلالہ کاذکرچاہے زبان سے ہو یا دل سے یا دونوں سے ہو،زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔
ذکرکی خاص تعدادہی مطلوب نہیں
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ذکرکی خاص تعدادہی مطلوب ہیںجیسے کہاجاتاہے کہ {سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ} سومرتبہ پڑھناحدیث میں آیا ہے، یا{ لَآاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ}اس کی دس مرتبہ ،چالیس مرتبہ اورسومرتبہ کی فضیلت آئی ہے۔اپنے معمول میں ایک عددمقررکرکے اس کے مطابق اس معمول کوپوراکرنا چاہئے لیکن اس معمول کے بعدذکرکی کوئی حدنہیں،چلتے پھرتے ،اُٹھتے بیٹھتے،زبان سے، دل سے اللہ تبارک وتعالیٰ کاذکرکرتے رہنے کی عادت ڈالنی چاہئے،خاص طور سے رمضان المبارک میں اس کااہتمام بہت زیادہ کرناچاہئے،ان شاء اللہ اس کے اثرات رمضان المبار ک کے بعدبھی باقی رہیں گے۔کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے دلوں میں فضول خیالات ختم ہوجائیں اوراللہ تعالیٰ کاذکرجاگزیں ہوجائے۔دماغ کسی وقت خیال سے خالی نہیں ہوتا،اب چاہوتواس کوغلط رُخ پریعنیفضول باتیں ،گناہ کی باتیں ،ناجائزباتیں ، بے فائدہ اُمورمیں لگادواورچاہوتواللہ تعالیٰ کے ذکروفکرمیں لگادو ۔حضوراکرم ﷺنے دعامانگی ہے:
{اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ}
اے اللہ! میرے دل کوخیالات کواپنی خشیت اورذکربنادیجئے۔
یعنی دل میں یہ خیال آتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسی کیسی نعمتیں عطا فرمائیں!آنکھ، کان،زبان غرض ہرعضوبہت بڑی نعمت ہے،گھرمیں جاتاہوںتو گھر والے نعمت ہیں،کھاناپینانعمت ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کیلئے جوجنتیں بنارکھی ہیں،ان کاتصورکرتے رہیں۔خلاصہ یہ کہ تصوراورخیالات کوبے مہارچھوڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے ذکروفکرمیں لگاؤ،اورکچھ نہیں تو{سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ}دل ہی دل میں کہتے رہو۔غرض چلتے پھرتے،اُٹھتے بیٹھتے ہروقت زبان ودل سے اللہ تعالیٰ کاذکرجاری رہے۔اس کا مطلب یہ ہوگاکہ کچھ نہ کچھ ہم نے لڑھکتے پھڑکتے آگے بڑھناشروع کیا،اس طرح سے بھی آگے بڑھیں گے توان کی طرف سے ان شاء اللہ تعالیٰ سنبھالاہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کی توفیق عطافرمائیں۔آمین
وآخردعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین