خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم
ضبط وترتیب: مولانا محمد رضوان جیلانی،مولانا محمد طلحہ ہاشم

درس نظامی کی کتابیں کس طرح پڑھائی جائیں؟
(دوسری قسط)

مطالعہ اور درس کی تیاری
اس موضوع کی اہمیت کا اس وقت تک صحیح معنی میںادارک نہیںکیاجاسکتاجب تک مطالعہ اور اعدادالدرس کاصحیح مقصداورمطمح نظرذہن میںواضح نہ ہو،جوکچھ بزرگوںسے سنا اورجوکچھ تجربے میںبھی آیاہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مطالعہ اوردرس کی تیاری اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب انسان اس درس یااس مطالعہ کے لئے اپنے آپ کومعلم کی بجائے متعلم اور طالبعلم تصورکرے۔ غلطی یہاںسے لگتی ہے جب ہم اپنے آپ کو معلم سمجھ لیتے ہیںتواورطالبعلم ہونے کی حیثیت ذہنوںسے اوجھل ہوجاتی ہے۔ سب سے پہلے اس حقیقت کودل میںبٹھانے کی ضرورت ہے کہ ہم سب طالبعلم ہیں اوریہ جو مقولہ مشہورہے کہ طلب العلم من المھدالی للحد اس مقولہ کوعام طورسے حدیث کے طورپربیان کیاجاتاہے، حدیث کے طورپرتواس مقولہ کوبیان کرنادرست نہیںہے، لیکن معنوی اعتبارسے یہ بات بالکل درست ہے کہ جب تک انسان صحیح معنوںمیںاپنے آپ کوطالبعلم نہیںبنائے گااس وقت تک نہ وہ صحیح طورپرمطالعہ اور درس کی تیاری کرسکتاہے اورنہ تدریس کرسکتاہے، بلکہ واقعہ یوںہے کہ طلب علم کی حقیقت حاصل ہی تدریس کے زمانے میںہوتی ہے۔
طالبعلم استادکے علم میں اضافے کاسبب ہے
ہمارے ایک استادمحترم نے اپنے استادکامقولہ بیان فرمایا کہ جب انہوںنے پڑھاناشروع کیا تواس وقت فرمایا کہ آج سے میںنے پڑھناشروع کیاہے ،یعنی اب تک پڑھاتے رہے اوراب پڑھناشروع کیاہے، اب تک تو پڑھاتے رہے کامطلب یہ ہے کہ اب تک توہم استادکے علم میں اضافے کاسبب بنتے رہے، ہماری وجہ سے استادمحنت اورمطالعہ کرتاتھااورمحنت اورمطالعہ کے نتیجے میںاس کی معلومات میںاضافہ ہوتاتھا،اوراب ہم نے پڑھناشروع کیاکہ اب اپنے طلباء کے سامنے پڑھانا ہے توطلباء ہمارے پڑھنے کاسبب بن رہے ہیں۔
توبات بڑی حکیمانہ ہے کہ حقیقت میںپڑھناآدمی اس وقت ہی شروع کرتاہے جب پڑھانے کی نوبت آتی ہے اس سے پہلے وہ اس دھوکہ اور فریب میںہوتاہے کہ ہم نے علم حاصل کیاہواہے،حالانکہ حقیقت میںعلم کی ہوابھی لگی نہیںہوتی، لیکن جب سرپرپڑتی ہے اورپڑھانے کی نوبت آتی ہے تواس وقت پڑھنے کی حقیقت کھلتی ہے ۔
سب سے پہلامرحلہ یہ ہے کہ یہ بات ہمارے ذہنوںمیںواضح ہوکہ ہم جواس وقت مطالعہ کررہے ہیںوہ خوداپنے علم کے حصول اوراپنے لئے طالبعلم ہونے کی حیثیت سے کررہے ہیں۔
اپنے آپ کوطالبعلم سمجھنے کے دوفائدے
اپنے آپ کو طالب علم سمجھنے کے دوفائدے ہیںایک فائدہ تویہ ہے کہ انسان جب خود صحیح معنی میںطلب کے ساتھ لگے لگاتواس طلب کی برکت سے صحیح طورسے اللہ تبارک وتعالی اس کوعلم عطافرمائیںگے، دوسرافائدہ یہ ہوگاکہ جب انسان خود کوطالبعلم تصورکرکے درس کی تیاری کرے گاتووہ ممکنہ شبھات اور اعتراضات جوایک طالبعلم کے ذہن میںپیداہوسکتے ہیںوہ خودپیداکرے گااورجب وہ درس میںپہنچے گا تووہ طالبعلم کے ذہن سے پڑھائے گاکہ اس کاذہن کس بات کوسمجھنے کی اہلیت رکھتاہے اورکیاسوالات اس کے ذہن میںپیداہوسکتے ہیں وہ خودبخودان باتوں کو بیان کرے گا۔اس لئیسب سے پہلاکام یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو طالب علم بنائیں۔
امام بخاری ؒ کاامام ترمذی ؒ کے بارے میں ایک قول
ایک مقولہ امام بخاریؒ کامشہورہے کہ انہوںنے اپنے شاگردامام ترمذی ؒسے فرمایاکہ ما انتفعتُ بک اکثرمماانتفعتَ بی یعنی جتنافائدہ تم نے مجھ سے اٹھایااس سے زیادہ فائدہ میںنے تم سے اٹھایا۔یہ استادکہہ رہاہے اپنے شاگردسے،اس کاایک ظاہری مفہوم ہے اس پراشکال وارد ہوتاہے ،ظاہری مفہوم یہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے امام بخاری ؒ سے اتنے علوم حاصل نہیں کئے جتنے علوم کہ امام بخاری ؒنے امام ترمذی ؒ سے حاصل کئے ہیںیہ بات توواقع کے خلاف معلوم ہوتی ہے، اس وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس کی بہت سی توجیہات کی ہیںکہ اس کا کیامطلب ہے؟اب خلاف ِواقع بات تونہیںکہہ رہے ،بات توجودل میںہے وہی کہہ رہے ہیں،لیکن اس کا کیامقصدہے؟ تومجھے یہ سمجھ میںآتاہے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم کہ ان کامطلب یہ ہے کہ تمہاری شاگردی اختیارکرنے کے دوران مجھے تمہیںپڑھانے کے لئے جتنی محنت، ریاضت اور مطالعہ کرناپڑااس سے مجھے اتنافائدہ پہنچاہے کہ اتنا فائدہ تمہیں نہیں پہنچا ہوگا۔
تویہ حقیقت اگرہمارے ذہن میںہوکہ اب جوہم مطالعہ کررہے ہیںاس میں صرف اتنی بات نہیںہے کہ ایک وقت گزاری کے لئے طلباء کوبہلانے یاٹلانے کے لئے کچھ مطالعہ کریں،بلکہ اب حقیقت میںہماری طالبعلمی کاوقت آیاہے اور طالب علمی کاصحیح لطف اب حاصل ہوگاکہ بات کی حقیقت اورتہ تک ہم پہنچیں،اس کے بعدانسان کازوایۂ نگاہ اور طریق کارہی بدل جاتاہے پھروہ محض مطالعہ اس لئے نہیںکرتاکہ ایک گھنٹہ جاکرایک رٹاہواسبق جاکرسنادینا ہے، بلکہ وہ معاملات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے توسب سے پہلی چیزمطالعے کے لئے اپنے طالب علم ہونے کااستحضارہے اوراس طالبعلمی کے استحضارکے لئے سب سے اول شرط ہے طلب پیداکرناجواس کامادہ اشتقاق ہے ،جب تک طلب پیدانہیںہوگی اس وقت تک انسان کامطالعہ اوراس کی تیاری کبھی بھی کامیاب نہیںہوسکتی۔ طلب ایسی چیزہے کہ ایک مرتبہ پیداہوجائے اللہ تبارک وتعالی اپنے فضل وکرم سے ہم سب کے اندرپیدافرمادیں تو یہ راستہ خودکھولدیتی ہے اوریہ پیدانہ ہوتوبات محض رسمی خانہ پوری کی ہوکررہ جاتی ہے۔
طالبِ علم کی تعریف
میرے والدماجدقدس اﷲ سرہ پوچھاکرتے تھے کہ بتائوطالبعلم کی تعریف کیاہے؟ جس نے مدرسہ میںداخلہ لے لیااوررجسٹرحاضری میںاپنانام درج کرالیاوہ طالبعلم ہے!فرمایاکہ طالبعلم درحقیقت وہ ہے جس کے دماغ میںہروقت کوئی نہ کوئی علمی مسئلہ چکرکاٹ رہاہو۔ جس کے اندریہ صفت پیداہوگئی کہ وہ صرف درس اورمطالعے کے وقت نہیں، بلکہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اس کادل ودماغ کسی نہ کسی علمی مسئلے کوحل کرنے میںلگاہواہووہ ہے طالبعلم ۔
حضرت امام ابویوسف ؒ کا مرضِ وفات
حضرت امام ابویوسفؒ بسترمرگ پر ہیںاوران کا مرض وفات ہے، شاگردجاتے ہیںاورجاکرعیادت کرتے ہیںاورطبیعت پوچھتے ہیں،توطبیعت کی بات بھی ایک آدھ کرلی ہوگی، لیکن فوراً جوبات کہی وہ یہ کہ رمی جمارسوار ہوکر افضل ہے یاپیدل افضل ہے؟ توبسترمرگ پربھی یہ مسئلہ ذہن میںگھوم رہاہے اورمسئلہ بھی کوئی حلال وحرام کانہیں،بلکہ فضیلت کا کہسوار ہوکرافضل ہے یاپیدل افضل ہے؟تو لوگوںنے کہاکہپیدل افضل ہے توکہا کہ نہیں، کہا کہسوار ہوکرافضل ہے، کہا کہ نہیں، تو پوچھا کہ کیسے افضل ہے؟ جواب دیا کہ جمرہ عقبہ کی رمی سوار ہوکرافضل ہے اور باقی دونوںجمرات کی رمی پیدل افضل ہے،شاگرد فرماتے ہیںکہ ہم باہرنکلے اورتھوڑی دورہی چلے تھے کہ اندرسے رونے والوںکی آوازیں آئیں،معلوم ہواکہ روح پروازکرگئی۔
مفتی عزیزالرحمن صاحب ؒ کامرض وفات
حضرت والدصاحب قدس اللہ سرہ سنایاکرتے تھے کہ صاحب عزیزالفتاوی مفتی عزیزالرحمن صاحب قدس اﷲ سرہ کاجب انتقال ہواتواس وقت ان کے ہاتھ میںایک فتوی تھاکہ روح کے پروازکرنے کی وجہ سے وہ ہاتھ سے گرکرسینے پرجاپڑا۔توآخروقت میںبھی دل ودماغ اسی میںلگاہواہے۔
حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جودعاتلقین فرمائی ہے کہ اللھم اجعل وساوس قلبی خشیتک و ذکرک کہ دل میںخیالات آپ کی خشیت اورذکرکے آئیںاوریہ علم کی بات بھی خشیت اورذکرکاہی ایک شعبہ ہے۔
کل مطیع للّٰہ تبارک وتعالیٰ فھو ذاکر نیت صحیح رکھے تویہ سب ذکرہی کے شعبوںمیںداخل ہے کہ چلتے، پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے دماغ کے اندر علمی مسائل کے خیالات گھوم رہے ہوں۔
حضرت مولاناانورشاہ کشمیری ؒ کاشوقِ مطالعہ
حضرت والدماجدقدس سرہ فرماتے تھے کہ حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒجب دیوبندمیں مقیم تھے توایک مرتبہ بیمارہوئے تورات کے آخری حصہ میںیہ خبرمشہورہوگئی کہ ان کاانتقال ہوگیاہے، توفرمایاکہ بڑی تشویش ہوئی، لیکن یہ خیال ہواکہ رات کاآخری حصہ ہے پتہ نہیںاس میںتحقیق کرناصحیح ہوگایانہیںہوگا،بڑی مشکل سے صبح تک انتظارکیا،والدصاحبؒ فرماتے ہیں کہ نمازفجرکے بعد ہم سب حضرت شاہ صاحبؒ کے گھرپرپہنچے،مجھے دوصاحب یادہیںایک حضرت والدصاحبؒ اورایک علامہ شبیراحمدعثمانی صاحب ؒ، یہ حضرات حاضرہوئے تو معلوم ہواکہ الحمدللہ خبرغلط تھی اور الحمدللہ حضرت بخیرہیں۔جب دیکھاکہ طبیعت ٹھیک ہے اورخبرغلط تھی توخیال ہواکہ جب آئے ہیں توعیادت اور زیارت کرکے جائیں ،تواطلاع کروائی کہ حضرت حاضرہوناچاہتے ہیں، بلالیا،جاکردیکھاکہ ایک چھوٹاساکمرہ ہے،جس کوحجرہ کہتے ہیں، اس میںایک چوکی ہے اور اس چوکی پر مصلی بچھاہواہے اورچونکہ فجرکے متصل بعد جھٹپٹے کاوقت تھااورکمرہ اندر تھاتوروشنی ابھی تک آنی شروع نہیںہوئی تھی،حضرت وہاںمصلے کے اوپردوزانوںبیٹھے ہوئے ہیں،رانوںپرایک کتاب ہے اوراندھیرے کی وجہ سے اس کوجھک کراپنے بالکل قریب کرکیمطالعہ کررہے ہیں۔ توعلامہ شبیراحمدعثمانی صاحبؒ نے عرض کیاکہ حضرت ایک گذارش کرنی تھی ،فرمایا کہ کیا؟کہاکہ حضرت آپ نے ہمارے بہت سے مسائل حل فرمائے ،پتہ نہیںکتنے علمی مسئلے، کتنی مشکلات میںآپ نے ہماری رہنمائی فرمائی،لیکن ایک مسئلہ ایساہے جوابھی تک سمجھ میںنہیںآرہا وہ آپ ہمیںبتادیجئے۔ فرمایا کہ مسئلہ کیاہے؟فرمایا کہ وہ کون سامسئلہ ہے جوابھی تک آپ کی نظرسے نہیںگذرااورجس کامطالعہ کرنے کی ابھی تک نوبت نہیںآئی؟ اوراگرایساکوئی مسئلہ تھابھی توایسی کیاوقتی ضرورت پیش آگئی تھی کہ اس بیماری،تکلیف اور اندھیرے میں اسی وقت اس کوحل کرنا ضروری تھا؟اوراگرایساہی کوئی وقتی مسئلہ درپیش تھاتوہم لوگ کہاںمرگئے تھے کہ آپ ہم میںسے کسی کوحکم دے دیتے کہ اس مسئلے کی تحقیق کرکے بتادو۔یہ جوآپ اپنی جان پرظلم کررہے ہیںاوراپنی جان سے زیادہ پوری امت پرظلم کررہے ہیںکہ اس بیماری اوراس تکلیف میںمطالعہ فرمارہے ہیںآخراس کی کیاوجہ ہے یہ بات سمجھ میںنہیںآئی؟توحضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیںکہ مجھے آج تک وہ منظریادرہتاہے کہ حضرت شاہ صاحب ؒکے ہاتھ میںکتاب تھی،حضرت نے منہ اٹھاکے بڑی مسکینی کے عالم میں علامہ شبیر عثمانی صاحبؒ کی طرف دیکھااورفرمانے لگے کہ بھائی بات توٹھیک کہتے ہوبیماری میںمجھے یہ کام نہیںکرناچاہئیے مگرکیاکروںیہ بھی توایک بیماری ہے۔ دوسری بیماریوں کاعلاج توڈاکٹرسے کراسکتاہوںاس بیماری کاعلاج کس سے کرائوں۔
تو حضرت والدصاحبؒ کے الفاظ میںعرض کررہاہوںکہ جب تک طلب علم کی بیماری نہیںلگتی اس وقت تک حقیقت میںعلم کی ہوابھی نہیںلگتی ۔ جب تک بیماری کے طورپریہ روگ نہ لگ جائے اس وقت تک حقیقت میںکوئی شخص طالب علم نہیںبن سکتا۔
علم میں حرص مطلوب ہے
ہمارے دین میں دنیاکی ہرچیزمیںقناعت کی تعلیم دی گئی ہے، روپے پیسے میں،تنخواہ میںہرچیزمیںقناعت کی تعلیم دی گئی ہے کہ جواللہ تبارک وتعالی نے عطافرمایااس پرقناعت کرو اور حدیث شریف میں یہ دعابھی سکھائی گئی ہے کہ اللھم قنعنی بمارزقتنی وبارک لی فیہ، لیکن ایک چیزایسی ہے کہ جس میںقناعت مطلوب نہیں،بلکہ اس میںحرص مطلوب ہے اوروہ ہے علم، منھومان لایشبعان ،ان میںسے ایک وہ ہے جوعلم کاحریص ہواس میںقناعت مطلوب نہیںاس میںتومطلوب یہ ہے کہ سید الاولین و الآخرین، اولین و آخرین کے علوم کے جامع،ان سے بھی کہاجارہاہے کہ وقل رب زدنی علما کہ علم میں اضافہ کی دعاء کیجئے۔
یہ وہ چیزہے جس کی کوئی انتہاء اور منزل نہیںجس میںچلنا اور تھکنا ہی مقصودہے،اس علم میں منزل کبھی نہیںآتی تواس میںقناعت مطلوب نہیں، لیکن خرابی یہاںسے پیداہوتی ہے کہ ہم نے معاملہ الٹاکررکھاہے جہاںقناعت مطلوب تھی وہاںہم حرص میںمبتلاہیںاورجہاںحرص مطلوب تھی وہاںقناعت میںمبتلاہیں،قناعت کے اندریوں مبتلا ہیں کہ بس کل کوگھنٹہ نمٹاناہے،اس کے حساب سے ہم نے جوکچھ مطالعہ کرناہے وہ کرلیا باقی فی نفسہ اس معاملہ کوخودآگے بڑھاناہے مزیدعلم حاصل کرناہے اس کی فکربہت کم ہوگئی ہے تواگریہ فکرپیداہوجائے ،یہ جوہم مطالعہ کرتے ہیںیہ ہماری علمی عملی ہرقسم کی ترقیات کاذریعہ بن سکتا ہے ۔

توہی ناداںچندکلیوںپرقناعت کرگیا
ورنہ گلشن میںعلاج تنگیٔ داماںبھی تھا

تواگر حروف ونقوش کے اوپرقناعت کرکے بیٹھ جائیںتونہ ہمارامطلوب صحیح حاصل ہوسکتاہے نہ طالب علم کا،سب سے پہلامطالبہ مطالعہ اوراعدادودرس کاہے طلب کاپیداکرنااوراپنے آپ کوطالبعلم سمجھنا،محض اس لئے نہیںکہ ہمیںپڑھاناہے، بلکہ اس لئے کہ ہمیںاس بات کوسمجھنا اور اس کی تہ تک پہنچناہے اوراس کے معارف اور لوازم وہ سب ہمیں محفوظ کرنے ہیں،جب تک کہ استاداس نقطہ نظرسے مطالعہ نہیںکرے گا یقین رکھئے کہ وہ کبھی بھی طالبعلم کوبصیرت کے ساتھ نہیںپڑھاسکتا۔
طالبعلم اور استاد کی معلومات میں ایک خاص تناسب
یہ تجربہ آپ نے شروع سے کیاہوگاکہ طالبعلم اوراستادکے درمیان معلومات میںایک خاص نسبت ہوتی ہے، یہ نہیںہے کہ آج دورہ حدیث سے ایک طالبعلم فارغ ہواہے اور اس کو دورے میں استاد بنادیا گیا۔ بلکہ ابتداء سے اس کوپڑھانے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور درجہ اولی میں اس کوبٹھایاجاتاہے،،کیونکہ استاداورطالب علم کے درمیان معلومات کاایک خاص تناسب ہوناضروری ہے اوریہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ یہ نہیںہوسکتاہے کہ جوکچھ استادکے پاس ہے وہ سارے کاسارا طالب علم کی طرف منتقل کردے اورجتنامنتقل کیاہے وہ سارے کاسارامحفوظ رہ جائے، لہٰذاان چیزوںمیںتناسب ہوتاہے۔استادکی معلومات کاحجم بہت بڑاہوتاہے اوران معلومات میںسے ایک حصہ وہ جاکرطالب علم کو پڑھاتاہے،طالبعلم کوجوکچھ بتایاگیااس کے حجم میںاورجتنااستادکے پاس ہے اس کے حجم میںبڑافرق ہوتاہے ، تویہ نہیںہوسکتا کہ جتناحجم استادکی معلومات کاہے اتناہی طالبعلم کوپڑھادیاگیااورجتناطالب علم کوپڑھایاگیاوہ ساراکاسارایاداورمحفوظ ہوگیا۔یہ تجربہ اورمشاہدہ کی بات ہے، لہٰذاجب تک استادکی معلومات کاحجم اس کی تقریرکے حجم سے اس خاص تناسب سے زیادہ نہیںہوگااس وقت تک طالبعلم کوصحیح فائدہ نہیںپہنچے گااگرکوئی آدمی یہ چاہے کہ میںصرف اس درس کی تیاری کروںجومجھے پڑھاناہے تووہ اس گھنٹے کو نمٹاتودے گا،لیکن طالبعلم کوصحیح فائدہ نہیںپہنچا سکے گا۔
اس لئے مطالعے کے اندرصرف یہ بات کہ کل مجھے کیاپڑھاناہے ،یہ کافی نہیںجب تک کہ وہ اس کے ساتھ اپنی معلومات کے حجم کونہ بڑھائے اوراس معلومات کے حجم کوبڑھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مطالعے کے اندروسعت پیداکرے۔
تدریس کے دوطریقے
ہمارے ہاں تدریس کے دوطریقے ہیں،ہمارے ہاںسے مرادیہ ہے کہ تعلیمی اداروںمیںخواہ وہ ہمارے دینی ادارے ہوںیاجن کودنیوی ادارے کہاجاتاہے وہ ہوں،دو مختلف نقطہائے نظرتدریس کے پائے جاتے ہیں، تدریس کاایک نقطۂ نظریہ ہے کہ مقصودِاصلی علم اورفن پڑھانا ہے کتاب پڑھانانہیںاورایک نقطہ نظریہ ہے کہ مقصوداصلی کتاب پڑھاناہے ۔ان دونوںطریقوںپرعمل ہورہاہے ،عام طورسے جن کودنیوی تعلیم کے ادارے کہاجاتاہے ان میںپہلے راستے پرزورہوتاہے یعنی علم اور فن پر،کتاب پراتنازورنہیںہوتا کتاب کوئی بھی ہو،چنانچہ استادکتاب سامنے رکھ کردرس بہت شاذونادردیتاہے وہ ایک لیکچردیتاہے جو مختلف کتابوں کے مطالعے کانچوڑہوتاہے۔ اس نے جن مآخذسے وہ تقریرحاصل کی وہ مآخذطلبہ کے سامنے اس وقت نہیںہوتے اگرچہ طالبعلم کی رہنمائی کردی جاتی ہے اگروہ خودبھی مطالعہ کرناچاہے توکرسکتاہے ۔
دوسراطریقہ ہمارے ہاںدینی مدارس میں رائج ہے کہ اس میںکتاب سے ہٹ کرلیکچر نہیںہوتا،بلکہ کتاب سامنے ہوتی ہے کتاب سامنے رکھ کراوراس کے تابع ہوکراستادتقریرکرتاہے۔ یہ دومختلف طریقے رائج ہیں۔ حقیقت میںاگرایک طریقے کودوسرے سے جداکردیاجائے تودونوںطریقے مضرہیںنہ تنہاعلم اور فن پڑھانے پراکتفاء کرناکافی ہے نہ تنہاکتاب پڑھانے پراکتفاء کافی ہے۔
پہلی صورت میں جب ایک موضوع کومقصودبناکر ایک لیکچرکی صورت میں پڑھادیا گیاہو اور درس دیتے ہوئے کتاب سے طالبعلم کی مناسبت نہیںپیداکی گئی تواس کے نتیجے میں کچھ ہوائی اورکچھ غیرمرئی معلومات طالبعلم کے ذہن میںبے شک آجاتی ہیںجوامتحان پاس کرنے کے لئے کافی ہوسکتی ہیں،لیکن اس کے ذریعے اس علم وفن کے اصلی مآخذتک طالبعلم کی خودرسائی ہوجائے اوراس میںخوداتنی صلاحیت پیداہوجائے کہ وہ ان مآخذتک پہنچ کران سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوتویہ بات عموماًپیدانہیںہوسکتی کیونکہ کتاب کااپناایک اندازاور ایک اسلوب ہوتاہے جب تک اس اندازاوراسلوب سے مناسبت نہ ہواس وقت تک وہ آدمی اصل مآخذ تک رجوع نہیںکرسکتا،چنانچہ میںنے دیکھاکہ طالبعلم لیکچروںکویادضرورکرلیتاہے، لیکن جب خودکوئی ریسرچ اورتحقیق کرنے کی نوبت آتی ہے تواس کی صلاحیت اس کے اندربہت شاذونادرہی ہوتی ہے اس واسطے کہ اصل مآخذتک پہنچنے کی صلاحیت ہی اس کے اندرپیدانہیںہوتی ،یہ نقص تووہاںہے۔
ہمارے طریقہ ٔ کارمیںیہ فائدہ ہے کہ طالبعلم کوساتھ ساتھ کتاب سے اتنی مناسبت پیداکردی جاتی ہے کہ اس کے لئے اس کتاب کی مدد سے اس علم کی دوسری کتابوںتک پہنچناآسان ہوجاتاہے، لیکن یہاںخامی یہ ہے کہ کتاب پراتنازوردیدیاگیاکہ فن اور علم پیچھے چلاگیا۔ساری محنت اس کتاب کوحل کرنے میں،اس کی ترکیب میں،اس کی عبارت پرواردہونے والے اعتراضات میںاورغیرضروری جوابات میںاوراس عبارت کے مالہ وماعلیہ میںصرف ہوجاتی ہے اورا س سے تعلق نہیںرہتاکہ وہ علم وفن کیاتھااوراس کے مقاصدکیاتھے اس کی دومثالیں میںآپ حضرات کی خدمت میںعرض کرتاہوں:
ایک مثال تفسیربیضاوی کی ہے وہ ہمارے ہاںپڑھائی جاتی ہے اورظاہرہے کہ وہ تفسیر کی کتاب ہے اس کے پڑھنے سے طالبعلم کوتفسیرکے علم سے آگاہی حاصل ہونی چاہئے، لیکن جس طرح ہمارے ہاںاس کی تدریس کاطریقہ رائج ہے اس کانتیجہ یہ ہے کہ تفسیرکے سواسب کچھ آجاتاہے اس لئے کہ اس میںجوکچھ بحث ہے وہ نحووصرف اور بلاغت وغیرہ کی ہے، لیکن تفسیرکی بحث سے براہ راست کوئی تعلق نہیںہے۔ میںکئی سال سے یہ دیکھ رہاہوںکہ تفسیربیضاوی کے جو پرچے سالانہ امتحان میںآتے ہیںاگران میںسے یہ بات نکال دیںکہ یہ پرچہ تفسیربیضاوی کاہے تویہ پتہ چلانادشوارہے کہ یہ پرچہ کسی تفسیر کی کتاب کاہے یاکسی نحویابلاغت کی کتاب کاپرچہ ہے، سوال کے اندرکوئی تعلق بظاہرتفسیرکے حقیقی مسائل سے نظرنہیں آتا۔ توکتاب پرزورنے اس علم سے اتناپیچھے ڈال دیا۔
دوسری مثال میبذی کی ہے، میبذی فلسفے کی کتاب ہے اگرکوئی آدمی اول سے لے کرآخرتک پوری میبذی اچھی استعدادکے ساتھ پڑھ لے توبھی جوہمارے ہاںطریقہ ٔ تدریس رائج ہے اس کی وجہ سے سچی بات یہ ہے کہ اس کو اس کے باوجود علمِ فلسفہ سے مناسبت پیدا نہیں ہوتی ، معذرت کے ساتھ میبذی کے اعلی استعدادرکھنے والے طالبعلموںسے پوچھئے اورمعذرت کے ساتھ ان اساتذہ سے پوچھئے جومیبذی پڑھاتے ہیں کہ اس کتاب کاپس منظرکیاہے؟ اوریہ کیوںداخل درس کی گئی؟ اورجس فلسفے کااس میںبیان ہے وہ فلسفہ کیاتھا؟یہ کس دورکافلسفہ ہے؟ یہ یونانیین کافلسفہ ہے یامتکلمین کا؟ تومجھے یقین ہے کہ ننانوے فیصدافراداس سوال کاجواب نہیں دے سکیںگے کہ ان چارقسموں میں سے کون سی قسم میںیہ فلسفہ داخل ہے جو اس میں بیان کیاگیاہے۔ عام طورسے تصوریہ ہے کہ یونانی فلسفہ ہمارے ہاںپڑھایاجارہاہے، حالانکہ میبذی میں جومذکورہے وہ حقیقی یونانی فلسفہ نہیں ہے۔
تومیںیہ بات میبذی پڑھنے والوںسے نہیں بلکہ پڑھانے والوںسے کہتاہوںکہ انہیں بھی اس بات کاصحیح ادراک نہیںکہ یہ کس دورکافلسفہ ہے اوراس کی کیاحیثیت ہے؟ میبذی میںکیاعبارت لکھی ہوئی ہے،بس اس عبارت کوحل کرناہے اوراس عبارت سے جوکچھ مفاہیم نکلتے ہیںوہ طالبعلم کوسمجھانے ہیںاگراس پرکوئی اعتراض واردہورہاہے اس کاجواب دیناہے، لیکن علم وفن ہوامیںاڑگئے وہ صرف کتاب کی حدتک محدودہوکررہ گئے،وجہ اس کی یہ ہے کہ کتاب کومقصودبنالیاگیااورعلم وفن پیچھے چلاگیا۔اسی کانتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ مزاج پیداہوگیا ہے کہ چونکہ کتاب پڑھائی جارہی ہے، لہذاکتاب کے مصنف ؒ کادفاع ہرقیمت پرکرناہے اوراگراس کی عبارت میںکوئی جھول ہے ، کوئی اعتراض ہے تو اس کاجواب دے کراس کوصحیح کرنے کی فکرلازمی ہے اوراگربات کوئی غلط کہی گئی ہے تواس کوبھی کسی نہ کسی طرح صحیح کرناہے،اس کانتیجہ یہ ہے کہ کتاب توحل کرنی آجاتی ہے لیکن علم اورفن سے مناسبت پیدانہیںہوتی ۔دنیوی تعلیمی اداروں میںعلم وفن کی کچھ تھوڑی بہت ہوالگ جاتی ہے مگرکتاب حل کرنی نہیںآتی اوریہاںکتاب حل کرنی آجاتی ہے، علم اورفن کی ہوانہیں لگتی۔بسااوقات تواس کانتیجہ خرابی کی صورت میں ظاہرہوتاہے ۔
اصول الشاشی میں غیرمنطبق مثالیں
ہمارے مدارس میں اصول الشاشی پڑھائی جاتی ہے، اس کتاب میںاصول کی اتنی غیرمنطبق مثالیںہیںکہ اس کی کوئی حدو نہایت نہیںہے، یعنی جومثالیںاصول کے لئے لے کرآتے ہیںوہ صحیح معنی میںچسپاںہوتی ہی نہیںہیں۔اس کوبعض اوقات کہہ سکتے ہیںکہ نظیرہے مثال نہیںہے،کیونکہ وہ مثال کے طورپرممثل لہ پرمنطبق نہیں ہوتی ،لیکن چونکہ مزاج یہ بناہواہے کہ کتاب حل کرنی ہے اور کتاب کے مصنف کادفاع بھی کرناہے، لہذااس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان نہ چپکنے والی مثالوںکوزبردستی ممثل لہ پرچپکایا جاتا ہے اوراس کے نتیجے میںعلم کی بات صحیح طورسے طالبعلم کے ذہن میں نہیں آتی۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے اپنے متعدد ملفوظات میںاورمواعظ میںبھی یہ بات ذکرفرمائی ہے کہ ایسے مواقع پرکبھی بھی صاحب کتاب کادفاع نہ کیاجائے،بلکہ ایسے مواقع پرصاف صاف یہ بتادیاجائے کہ علمی اورفنی نقطہ نظرسے بات حقیقت میںیوںہے اوراتنی حد تک درست ہے اوراتنی حدتک صاحب کتاب سے اس میںتسامح ہواہے، تاکہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوجائے اور طالبعلم الجھن اورغلط فہمی میںمبتلا نہ ہونے پائے ۔ میںآپ سے سچ عرض کرتاہوںکہ اصول الشاشی عموماًجس طریقے سے پڑھی اورپڑھائی جاتی ہے اس کے نتیجے میںنہ صرف یہ کہ اصول فقہ کی بعض اصطلاحات صحیح طریقے سے معلوم نہیںہوتیں،بلکہ اس میںشدیدغلط فہمیاںباقی رہ جاتی ہیں۔تویہ استادکافرض ہے کہ وہ صحیح صورتحال سے طلبہ کو آگاہ کرے۔
جاری ہے……….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – رمضان المبارک 1437 ھ)