حضرات صحابہؓ اور نیک کاموں کی حرص

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نیکیوں میں بڑے حریص تھے، اور ہروقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کس طرح ہمارے نامۂ اعمال میں نیکی کا اضافہ ہوجائے، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، تو انہوں نے ان کو یہ حدیث سنائی کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی نماز جنازہ میں شریک ہوتو اس کو ایک قیراط اجر ملتا ہے اور اگر اس کے دفن میں بھی شریک رہے تو اس کو دوقیراط ملتے ہیں ‘‘۔
’’قیراط‘‘ اس زمانے میں سونے کا ایک مخصوص وزن ہوتا تھا، آپ نے سمجھانے کے لئے قیراط کا لفظ بیان فرمادیا، پھر خود ہی فرمایا کہ آخرت کا وہ قیراط احد پہاڑ سے بھی بڑا ہوگا، مطلب یہ ہے کہ قیراط سے دنیا والا قیراط مت سمجھ لینا بلکہ آخرت والا قیراط مراد ہے، جو اپنی عظمت شان کے لحاظ سے احد پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا ہے، اور یہ بھی اس اجر کا پورا بیان نہیں ہے اس لئے کہ پورا بیان تو انسان کی قدرت میں بھی نہیں ہے، کیوں کہ انسان کی لغت اس کے بیان کے لئے ناکافی ہے،اس واسطے یہ الفاظ استعمال فرمائے، تاکہ ہماری سمجھ میں آجائے بہرحال! حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب یہ حدیث سنی تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا واقعتا آپ نے حضور اقدس ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خود یہ حدیث سنی ہے، اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا افسوس! ہم نے اب تک بہت سے قیراط ضائع کردیئے، اگر پہلے سے یہ حدیث سنی ہوتی تو ایسے مواقع کبھی ضائع نہ کرتے، تو تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا یہی حال تھا کہ وہ اس بات کے حریص تھے کہ کسی طرح کوئی نیکی ہمارے نامۂ اعمال میں بڑھ جائے۔

(اصلاحی خطبات جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 193)
********