حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
جو سب کے لئے رحمت ہیں
بحث چلی تھی کہ سرورِ کائنات کو قرآن کریم میں تمام کائنات کے لئے رحمت فرمایاگیا ہے بنی نوع انسان کے لئے وہ رحمت ہیں ، یہ تو بجا ، لیکن دیگر مخلوقات ، جمادات ، نباتات ، جنات اور حیوانات وغیرہ کے لئے بھی آپ رحمت ہیں ، اس کو اعتقاد تو بغیر کسی دلیل کے مانتا ہے لیکن عقل اس کو تسلیم کرنے کے لئے کچھ دلیلیں ڈھونڈتی ہے ۔
یہ مضمون جو ایک مقامی ماہنامہ میں تقریباً ۶۰ سال قبل شائع ہوا تھا ، یہ وقت مضمون نگار مولانا محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم کی تدریسی زندگی اور خامہ فرسائی کے آغاز کا وقت تھا، اس مضمون میں عقل سلیم کو کچھ دلائل مہیا کئے گئے ہیں جو چشم کشاہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادارہ
ہر مسلمان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ جو کچھ قرآن کریم میں خداوند ذوالجلال نے ارشاد فرمایا ہے ، بالکل حق اور صحیح ہے ، اس لئے کہ قرآن کوئی ایسی کتاب تو ہے نہیں جسے بشری ذہنیت نے جنم دیا ہو، اور بشری خواص کی وجہ سے اس میں غلطیوں کا احتمال رہے ، بلکہ یہ اس قادر مطلق کا کلام ہے جس کا علم کائنات کے ہر ذرّہ ذرّہ پر محیط ہے اسی کلیہ کے تحت قرآن کی وہ چھوٹی سی آیت بھی داخل ہوجاتی ہے جس میں خداوندِ ذوالجلال نے محسنِ انسانیت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے ، وَمَا اَرْسَلْٰنکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعٰلَمِیْنَ (سورۃ انبیاء :۱۰۷) ہم نے آپ کو تمام کائنات کے لئے باعث رحمت بناکر بھیجا ہے ۔
اس لئے ہر مسلمان اس پر ایمان لاتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات جمادات ، حیوانات ، نباتات اور جنات وغیرہ کے لئے باعث رحمت بن کر آئے ہیں ۔
لیکن جب کبھی اس پر غور کرنے کی نوبت آتی ہے تو بہت سے ذہنوں میں یہ اشکال کُلبلا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانوں کے لئے باعث رحمت ہونا تسلیم ، لیکن اس آیت کا ارشاد تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ کائنات کے ذرّے ذرّے کے لئے باعثِ رحمت ہیں ، جمادات ونباتات سے لے کر فلکیات وملکیات تک کے جتنے عالم ہیں ، وہ سب کے سب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرہونِ منت ہیں ، حالانکہ انسانوں اور جنات کو چھوڑ کر کائنات کی اکثریت کو بے عقل اور بے شعور سمجھا جاتا ہے ، ان کے لئے کسی کے باعث رحمت ہونے کا تصوّر ہی نہیں کیا جاسکتا ۔
اس اشکال کا جواب معلوم کرنے سے پیشتر چند چیزیں سمجھ لینا ضروری ہیں :
۱۔۔ سب سے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ کائنات کی ہر چیز میں کسی نہ کسی درجہ میں کچھ نہ کچھ حس اور شعور موجود ہوتا ہے یہ خیال سراسر غلط ہے کہ انسانوں اور جنات کے سوا تمام چیزیں بے شعور ہیں ، قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں ارشاد فرمایا ہے :
وَاِنْ مِّنْ شَئْیٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ (بنی اسرائیل :۴۴) کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتی ہو، مگر تم اُن کی تسبیح کونہیں سمجھتے۔
خداوندتعالیٰ کی یہ تسبیح وتقدیس اس وقت تک ناممکن ہے جس تک کہ کسی نہ کسی درجہ میں حِس وشعور موجود نہ ہو، اس کو آج کی سائنس اور تجربات ومشاہدات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہز چیز میں کچھ نہ کچھ حِس اور شعور پایاجاتا ہے ۔
۲۔۔ دوسرے یہ کہ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات قطعی فطری تعلیمات ہیں ، انسان فطرۃً انہی احکام اور تعلیمات کا محتاج ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ، عقل ، نقل اور تجربہ اس ناقابل انکار حقیقت کو ثابت کرچکے ہیں ۔
۳۔۔ کائنات کی ہر چیز طبعی طورسے اسی چیز کی طرف مائل ہوتی ہے جو فطری ہو ، یہ اور بات ہے کہ ماحول اور سوسائٹی اس کے اعمال اور ذہن کا رُخ کسی دوسری طرف موڑدیں ، اسی حقیقت کی طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : کل مولود یولدعلی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ ۔
ان تین حقائق کو پیش نظر رکھ کر اگر زیرِ بحث آیت پر غور کیا جائے تو مطلب واضح اور اشکال رفع ہوجاتا ہے ، کیونکہ جو پُر سکون نظام اور حکمت سے بھر پور تعلیمات حضور صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے وہ دینِ اسلام ہے ، لہٰذا اسلام فطرت کا عین تقاضا اور پسندیدہ نظام تھا ، کائنات کے ذرّہ ذرّہ نے فطری ہونے کی حیثیت سے اسی نظام کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ، اس سے پہلے کا نظام چونکہ بشری ذہنیت کا جنم دیا ہوا تھا ۔ اس لئے فطری نہ تھا ، اس میں وہ خامیاں موجودتھیں ، جو بشری خواص کے زیر اثر ہونی چاہئے تھیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ کائنات کی فطری چیزوں کے لئے ناپسندیدہ تھا اور اس کا عام رواج ان کے لئے ایک ذہنی عذاب بنا ہوا تھا ۔
علاوہ بریں ایک چیز کا غلط استعمال اس چیز کے لئے ایک مستقل عذاب ہوتا ہے ، سب کو معلوم ہے کہ ہر چیز ایک خاص کام اور مخصوص مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے ، کوئی شخص اگر گھوڑے کا کام بیل یا گدھے سے لینا شروع کردے تو یقینا وہ ان کے لئے عذاب ہوجائے گا، صحیح نظام تو وہی ہوگا جس میں جو کام گھوڑے کا ہے وہ گھوڑے سے لیا جائے ، اور جو کام بیل اور گدھے کا ہے وہ اُن سے لیا جائے ، اگر اس کے خلاف کیا جائے گا تو کام لینے والے اور کام کرنے والے دونوں کے لئے ایک مستقل عذاب ہوجائے گا اور جو شخص اسے اس عظیم عذاب سے نجات دلائے گا اس سے بڑا محسن اور باعثِ رحمت کون ہوسکتا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تقریباً ہر چیز کا استعمال غلط تھا ، کوئی پتھروں کو پوجتا تھا ، کوئی جانوروں کو ، کسی نے نباتات کو معبود بنالیاتھا کسی نے جمادات کو ، کوئی ماہ ونجوم کا پرستار تھا ، تو کوئی آگ ہی کو خالق سمجھ بیٹھا تھا، حالانکہ یہ تمام چیزیں دوسرے مقاصد کے لئے پیدا کی گئی تھیں ۔
پھلوں کو خالق کل نے اس لئے پیدا کیا تھا کہ انسان انہیں کھا کر اپنے آپ میں قوّت ونشاط پیدا کرے ، مگر لوگوں نے ان کا استعمال غلط طریقوں سے کیا ، ان کو گلا سڑا کر شراب بنائی ، اور صحت واخلاق پر ہتھوڑا چلا دیا ۔
قادر مطلق نے انسان کے دل میں جنسی خواہش اس لئے پید ا کی تھی کہ وہ اپنی طبعی رغبت سے بقاء نسل کی نوعی خدمت انجام دے مگر لوگوں نے اس خواہش کو غلط جگہوں پر استعمال کرکے جنسی امراض اور اخلاقی جرائم کو جنم دیا ۔ کیا مذکورہ معصوم اور فطری چیزوں کا یہ غلط استعمال ان کے لئے تکلیف دہ عذاب نہ تھا ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فطری اور پرامن نظام کور واج دیا ، اس میں یہ تمام جاہلانہ باتیں معدوم تھیں، اس میں کائنات کی ہر ہر چیز کو اپنے اپنے مرتبہ پر رکھ کر ان تمام غلط استعمالات کا قلع قمع کردیا گیا تھا جو ہر فطری چیز کے لئے ایک جرم کا درجہ رکھتے تھے ، جو نظام کائنات کے کسی ذرے کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا ، اس کی بیخ کنی بلاشبہ ایک زبردست احسان اور بے پایاں رحمت تھی ، یہ نیلگوں آسمان جس کے فراخ سینے پر ہزار ہا انقلابات کی خونچکاں داستانیں نقش ہیں ، جس نے قوموں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے ، اس سے کوئی پوچھے کہ تجھے وہ وقت حسین معلوم ہوتا تھا ، کہ جب عرب کے قبیلوں کے قبیلے محض ایک چُوزے کی خاطر چالیس سال تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہتے تھے ، یا وہ منظر زیادہ دل رُباتھا جبکہ تین سو تیرہ نہتّے ایک فطری نظام رائج کرنے کے لئے ایک ہزار مسلح سورماؤں کا منہ پھیر رہے تھے ۔
اگر اس آسمان میں زبان ہوتی تو بخدا وہ یہ ہی جواب دیتا کہ بلاشبہ میرے لئے میدانِ بدر کا معرکہ بڑا باعثِ رحمت تھا۔
یہ چمکتے ہوئے تارے اور گردش کرتے ہوئے سیارے جنہوں نے ہمیشہ کافر اور مسلمان دونوں پر یکساں طورسے روشنی ڈالی ہے ، ان سے کوئی پوچھے کہ تمہیں اس غیر فطری نظا م کے علمبرداروں پر روشنی ڈالنے میں زیادہ مزہ آتاتھا یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب پر ؟ ۔۔۔ اگر ان چاند ستاروں میں بات کرنے کی صلاحیت ہوتو بخدا وہی یہی کہیں گے کہ جو لُطف محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو راہ دکھا نے میں محسوس ہوتا تھا وہ کبھی حاصل نہ ہوا تھا ، غرضیکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام حیات فطری ہونے کے سبب کائنات کے ہر ذرّے کے لئے سکون کا حامل اور باعث رحمت تھا ، اور چونکہ اس نظام کو پیش کرنے اور دُنیا میں رائج کرنے کا اہم کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا ، اس لئے نتیجۃً آپ تمام کائنات کے لئے باعث رحمت ہوئے لہٰذا سرورِ کائنات کا رحمۃ للعالمین ہونا ثابت ہوگیا۔
جب بات چل ہی نکلی ہے تو ایک نظر اس عظیم نظام پر بھی ڈال لیجئے جسے کائنات کے ذرّے ذرّے نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے لئے باعث رحمت تصور کیا، یہاں تک کہ خدائے ذوالجلال نے اس نظام کے پیغامبر کو "رحمۃ للعالمین” کے خطاب سے نوازا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اس نظام کی خوبیاں ، اس کے بنیادی تصورات ، ایسا موضوع ہیں جو اس مختصر سے مضمون میں تمام وکمال نہیں سماسکتا، لوگوں نے اس پر ضخیم ضخیم کتابیں لکھی ہیں ، ہم اہم چیزوں پر اکتفا کریں گے ۔
دنیا کاکا لاقانون
اہلِ یورپ ، جو دنیا کی ہر ایجاد اور ترقی کو یورپ سے منسوب کرنا چاہتے ہیں ، نے قانون کی ایجاد کا سہرا بھی یورپ ہی کے سر باندھا ہے ان کے متبعین بھی معلومات کی کوتاہی یا محض کورانہ تقلید کی بنا پر یورپ والوں کو قانون کا موجد تصور کرتے ہیں ۔ حقیقت اس کے خلاف ہے ، مذکورہ مقنین کی پیدائش سے ہزاروں سال قبل آسمانی قانون عملی جامہ پہن چکا تھا ، اسی کے مطابق دنیا کا انتظام ہوتا تھا ۔ حضرت آدم پر دس صحیفے ، حضرت شیث بن آدم پر پچاس صحیفے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفے نازل ہوئے جن کا ذکر تاریخ کی معتبر کتابوں میں ملتا ہے ، اور خود انسانی قوانین کی تاریخ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ قانون کا مأخذ الہامی اور آسمانی قانون ہے ۔
تورات جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی ، اس کے لغوی معنی ہی قانون ہیں ، اس میں مفصل قانونِ حیات وحکومت موجود ہے ، پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو قانون اہل دنیا کے لئے بھیجا گیا ، وہ اپنے بنیادی اصولوں،اور اساسی تصورات کے لحاظ سے اس قانون سے قطعی ہم آہنگ ہے جو پیشرو انبیاء علیہم السلام پر نازل کیا گیا تھا ، گویا جو نظام رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ، وہی نظام تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل کیا گیا ۔
اسی لحاظ سے دنیا کے تمام قوانین پر عصری اولیت کا شرف بھی اسی نظام کو حاصِل ہے ۔ زمانی اولیت کے بعد دیکھئے کہ اس نظام کو مرتبے کے لحاظ سے بھی اولیت حاصل ہے ، اور کیوں نہ ہو جبکہ یہ کسی بشری ذہنیت کا جنم دیا ہوا نظام نہیں بلکہ اس ذات کا بنایا ہوا ہے جو کائنات کے ہر ذرے کی خالق ہے ، اس کے بنائے ہوئے تمام قوانین حکیمانہ ہونے ہی چاہئیں۔
ہمہ گیری
اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے قوانین انسانوں نے بنائے وہ سب کے سب ایک خاص وقت تک زمانے کا ساتھ دیتے رہے لیکن چونکہ وہ ایک مخصوص مقام ، مخصوص ماحول ، اور مخصوص زمانے کو ملحوظ رکھ کر بنائے گئے ، اس لئے آئندہ زمانے کے حالات اور ان کے تقاضوں نے انہیں ایسا نابود کردیا کہ ان کا نام ونشان بھی کم ہی ملتا ہے ۔
انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں جو قانون سب سے پہلے بنایاگیا ہے ، اس کا بانی بابل کے کلدانی خاندان کا بادشاہ حمورابی ہے جس نے ۲۰۰۰ ق م میں ۲۸۲ دفعات پر مشتمل قانون مرتب کیاتھا ، آج کی دنیا میں گنے چنے لوگ ہوں گے جو اس کے نام اور کام سے واقف ہیں ، اور ۱۹۰۲ء سے پہلے تو شاید کوئی بھی اس کا نام نہ جانتا ہو ، مذکورہ سن میں ایک وفد موسیوسورگی کی قیادت میں وہاں جاپہنچا تھا ، اس نے خط سماری میں ایک حجری ستون کا انکشاف کرکے اس کے عہد کے تمام قوانین پیش کئے ۔
اس کے بعد جو قانون معروف ہوا وہ قانون روما ہے ، یہ قانون ایک زمانے تک حکمران رہا ، لیکن اس کے بعد زمانے کے نئے حالات نے اسے بھی فنا کے گھاٹ اُتار دیا ۔اب دنیا کے کسی خطے میں اس پر عمل نہیں کیا جاتا ، اگر چہ اس کا نام آج بھی خاصا مشہور ہے لیکن اس کے نظریات ودفعات کے عالم اب بھی بہت تھوڑے ہیں ، اس طرح کے بہت سے قوانین مختلف اقوام اور ممالک نے اپنائے ، لیکن خدا کا فیصلہ تو اٹل ہے کہ :
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران :۱۹)۔ بلاشبہ قابلِ قبول دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔
یہ تمام قوانین غیر فطری تھے ، انسان کی محدود عقل لا محدود علم کا احاطہ نہیں کرسکتی تھی ، اس لئے جتنے قوانین انسانی عقل نے بنائے سب کچھ دیر زندہ رہے مگر نئے نئے حالات انہیں ختم کرتے رہے ،لیکن وہ قانون جو ان تمام قوانین سے پہلے بنا تھا ، اور جسے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے ، وہ جوں کا توں قائم ہے ، اس کے بنیادی اصول بھی وہی ہیں ، اس کے نظریات بھی اسی طرح قائم ہیں ، اور وہی ہے جو اتنا زمانہ گزرنے پر بھی پُرانا نہیں ہوا ، اب بھی دنیا کے بہت سے خطوں میں اس پر عمل ہوتا ہے اور غیر جانبداری سے سوچاجائے تو یہی ایک ایسا نظام ہے جو آج بھی عالمی مشکلات کا واحد حل ہے ۔
تمام قوانین کے ختم ہونے اور اسلامی نظام کے باقی رہنے کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ قوانین کوئی خود کار مشین تو ہوتے نہیں جو از خود چلتے رہیں ۔ ان کو چلانے والے بھی انسان ہی ہوا کرتے ہیں ، اگر یہ چلانے والے اپنے فرضِ منصبی کو ٹھیک ٹھیک انجام نہ دیں تو قوانین کیسے چل سکتے ہیں ؟اس لئے قوانین کے رائج رہنے کی سبیل صرف یہ ہے کہ انہیں استعمال کرنے اور رائج کرنے والے اخلاقی اعتبار سے مکمل ہوں ، ان کے دلوں میں ادائے فرض کا احساس ہو۔۔۔۔ اسلام نے اسی دکھتی رگ کو پکڑا اور اپنے قانون میں دوجزرکھے ۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی اخلاقی حالت سدھاریں ، اللہ سے ڈر کر کسی طرح انسان بنیں اور اپنے فرائض کو محسوس کریں اس کے لئے اس نے لوگوں کو ان کے خالق ومالک کی یاد دلائی اور بتایا کہ تم صرف کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے تمہاری تخلیق کا ایک عظیم مقصد ہے ہر چند کہ کائنات کا ہر ذرہ تمہاری خدمت کے لئے پیدا ہوا ہے مگر تمہارے ذمہ بھی ایک خدمت اور کام ہے ۔؎
ابر وباد و مہ وخو رشید و فلک در کا ر اند
تاتونانے بکف آری وبغفلت نہ خوری
کھانا ، پینا ، پہننا اوڑھنا تو دوسرے حیوانات بھی کرلیتے ہیں ، اور بہت سے حیوانات تم سے اچھی طرح کھاتے ہیں ، اگر تمہارا مقصد زندگی بھی یہی ہوتا تو تمہیں مخدوم کائنات بننے کا کیا حق ہے ؟ تم اپنے ہم جنسوں سے اشرف ہوتو صرف اس لئے کہ اپنے اس وعدے کو پورا کرو جو تم نے اپنے خالق سے روزالست میں کیا تھا ۔
یہی وہ برحق تصور تھا جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں میں اچھی طرح راسخ فرمادیا تھا ، اور اسی تصور کا نتیجہ تھا جو فطری نظام حیات آپ لے کر آئے تھے وہ لوگوں کے لئے نہ صرف قابلِ عمل بلکہ ان کی فطرتِ ثانیہ بن گیا ۔
اس تصور کے ساتھ ساتھ آپ نے "عقیدئہ آخرت” کو راسخ فرمایا اور یقین دلایا کہ جس خالق نے تمہیں اس دنیا میں ایک مقصد کے لئے بھیجا ہے وہ تمہیں ہر وقت دیکھتا ہے ، تمہاری ہر بات سنتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں ایک دن لوٹ کر جانا ہے ، اسی دن تمہیں اس کی بارگارہ میں ایک ایک عمل کا جواب دہ ہونا ہے ، ایک ایک بات کا حساب دینا ہے ، اگر تم نے یہاں وہی کام کئے جو تمہارے سپرد کئے گئے تھے تو تمہارے لئے جنت ہے ،عیش وآرام ہے ، اور اگر تم نے خدائی احکام کی خلاف ورزی کی تو یاد رکھو کہ تمہارے لئے جہنم ہے ، عذاب ہے ، دہکتی آگ ہے جس سے خلاصی کی کوئی شکل نہیں ، وہاں نہ تمہار مال کام آئے گا کہ اسے دے کر چھٹکارا پالو ، نہ اولاد اور اعزہ واحباب کام آئیں گے کہ ان کی سفارش سے نجات ملے ، اگر وہاں کے عذاب سے بچنے کی کوئی شکل ہے تو صرف یہ کہ تم اس دنیا میں جو کام کرو ، سوچو کہ یہ کہیں تمہاری آئندہ زندگی کے لئے مضر تو نہیں اور ہر اس فرض کو بجالاؤ جو تمہیں سونپا گیا ہے ۔
اگر یہ عقیدہ نہ ہوتو ایک مجرم دن کی روشنی اور رونق میں تو جرم سے باز رہ سکتا ہے اور رات کی تاریکی اور جنگل کی تنہائی میں پولیس کا خوف جرم سے نہیں روک سکتا ۔
قیاس کی ضرورت نہیں ، تجربہ بتلاتا ہے کہ یہی وہ عقیدہ ہے جو قوانین میں پختگی اور ہمہ گیری پیدا کرتا ہے ، جو حکم اسلام نے اپنے پیرووں کو دیا باقی رہا اور جو دوسرے قوانین نے دیا ، نئے نئے حالات کے ہاتھوں مٹ گیا۔
۱۹۲۲ء میں دانشورانِ امریکہ نے محسوس کیاکہ شراب صحت واخلاق کے لئے سخت مضر ہے ، چنانچہ اس کے خلاف اخبار واشتہار میں تحریک اٹھائی گئی ، یہاں تک کہ شراب نوشی قانونی جرم قرار پاگئی ۔۔۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ شراب کے کارخانے اور بھٹیاں علانیہ تو بند ہوگئیں ، مگر خفیہ طورسے برابر کام کرتی رہیں ، اور چونکہ اس وقت ان کا کام نجی طورسے حکومت کی سرپرستی کے بغیر تھا اس لئے صفائی کا پورا اہتمام نہ ہوسکا، اور صحت کے لحاظ سے جتنی مضرتیں پہلے لوگوں کو اٹھانی پڑتی تھیں ، اب اس کے نقصانات کہیں زیادہ ہوگئے ، اس لئے کہ عوام شراب چھوڑنے پر کسی طرح راضی نہ تھے ، کچھ ہی دنوں بعد جب حکومت نے لوگوں کی یہ روش دیکھی تو اپنا قانون منسوخ کردیا ، اور سابقہ قانون کی اس طرح مٹی پلید ہوئی ۔
اب اسی حکم کو دیکھئے کہ جب اسلام نے شراب چھوڑنے کا حکم دیا تو لوگوں کا ردّعمل کیا ہوا۔
اہلِ عرب شراب کے بلانوش تھے ، اس کے اتنے متوالے کہ ان کی زبان میں شراب کے ڈھائی سو مختلف نام ہیں ، شراب ان چندچیزوں میں سے ایک تھی جن کے اہلِ عرب عاشق ہوتے تھے
اسلام نے ان کی اس عادتِ بد چھڑا نے کا حکیمانہ اسلوب یہ اختیار کیا کہ دفعۃً اس کو حرام نہیں کردیا بلکہ پہلے اس کے خلاف اخلاقی ترغیب دینی شروع کی ، پہلے انہیں بتایا کہ اس میں بلاشبہ کچھ منافع ہیں مگر اس کے نقصانات منافع سے بہت زیادہ ہیں ، پھرایک حکم یہ نازل ہوا کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھا کرو، اس کے کچھ عرصے کے بعد جب لوگوں کو اپنی اس غلط کاری کا احساس ہوگیا تو اس وقت صراحۃً شراب کو حرام کردیا ، اس کا ردّعمل یہ ہوا کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں جس وقت حرمتِ شراب کا حکم نازل ہوا ، اس وقت ایک مجلس میں شراب کا دور چل رہا تھا اور میں اس مجلس میں ساقی کی خدمت انجام دے رہا تھا، لیکن جونہی ہمارے کانوں میں منادی کی آواز پڑی کہ شراب حرام ہوگئی ہے تو میں نے دیکھا کہ جام وسبو اور شیشہ ومینا ٹوٹنے لگے ، جس شخص کے منہ میں جام لگا ہوا تھا ، اس نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آخری گھونٹ ہی پی لے ، بھرئے ہوئے جام کو فوراً پٹخ دیا، صحابہؓ کا بیان ہے کہ ہم نے کئی دن تک شراب کو مدینے کی گلیوں میں بارش کی روکی طرح بہتے دیکھا ۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ ایک صاحب شراب کی تجارت کیاکرتے تھے ، جس زمانے میں شراب کا حکم نازل ہوا وہ شام سے بہت سی شراب لے کر آرہے تھے لیکن مدینہ کے دروازے پر جب سنا کہ شراب حرام ہوگئی ہے تو بغیر کسی تذبذب کے فوراً تمام مشکیزے چاک کردیئے ۔
کیا عقل مان سکتی ہے کہ ان حضرات نے اپنی اس محبوب چیز کو پولیس یا فوج کے ڈر سے چھوڑا ہو ؟ اس وقت تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی تعزیری قانون کا اعلان بھی نہ فرمایا تھا!
اسلامی قانون کا اہم ترین جزیہی تھا کہ پہلے لوگوں کو صحیح معنیٰ میں انسان بنایا جاتاتھا ، ان کے اخلاق وکردار کو فطری سانچے میں ڈھالا جاتا تھا ، تاکہ جوقانونِ فطرت عائد ہو اسے ان کی طبیعت بصد خوشی قبول کرلے۔
اور اگر کسی میں اتنی صلاحیت ہی نہ ہوتی کہ وہ اتنے آسان اور فطری قوانین پر عمل کرے اس کی طبیعت انسانی ہونے کے بجائے شیطانی ہوتی تو پھر اس کے لئے قانونی تعزیرات بھی تھیں ، اور وہ اسی وقت کارگر بھی ثابت ہوتی تھیں۔
لیکن ایسے لوگ جو صرف قانونی تعزیرات ہی سے باز آتے ہوں ، بہت قلیل تعداد میں تھے ، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عصرِ مبارک میں جرائم کی شرح بہت معمولی رہی ، زنا کے واقعات صرف دو ہوئے اور دونوں مجرموں سے یہ حرکت سرزد ہوئی تو خود بخود آکر اپنے اوپر حد جاری کروائی ، چوری کے واقعات بھی اسی کے لگ بھگ ہوئے ، جبکہ اس زمانے میں پولیس وغیرہ کا کوئی باقاعدہ انتظام بھی نہ تھا اور آجکل جبکہ انسدادِ جرائم کے لئے مستقل محکمے اور بڑے بڑے عملے موجود ہیں ، قانون کو لوگوں تک پہنچانے کے ذرائع بھی بہت زیادہ ہیں ، لیکن ؎
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
جرائم کی شرح روز بڑھ رہی ہے اور تمام دنیا بے امنی اور بے چینی کا شکار ہے ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قانون کا دوسرا جز تو بہت زور شور سے جاری ہے لیکن اس کے پہلے اور اہم جز کی طرف کوئی توجہ نہیں، یہ ایک بنیادی امتیاز تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے آسمانی قانون اور انسان کے ایجاد کردہ قانون کے درمیان حدّفاصل قائم کرتا ہے۔
مساوات
شریعتِ اسلامی کے نزدیک جس کی بنیادہی جمہوریت وحریت انسانی پر ہے اور جس کا مقصدِوحید انسان کو ذات وپستی سے نکال کر عزت وسربلندی کے اوجِ کمال تک پہنچانا ہے ۔ یہ بالکل ناممکن تھا کہ ایک انسان ، جماعت ، قوم یا قبیلے کو اسی جیسے دوسرے پر صرف اس لئے ترجیح دی جاتی ہے کہ اس کی گزشتہ نسلیں اپنے اعمال وکردار یا مال ودولت کے لحاظ سے فائق رہ چکی ہیں ، اس لئے اس میں کسی ایسے نظام کی گنجائش نہیں جس میں پاپائیت ، یا نسل ووطن کا کوئی امتیاز ہو۔
اسلام تمام نسلوں اور قوموں کے باہمی ارتباط واتحاد سے ایک فطری ملّت "امت مسلمہ” پیدا کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد اسلاف کی روایاتِ پارینہ اور "پدرم سلطان بود” کے غرور باطل کے بجائے افراد کی ذاتی اصلاح ، احتساب نفس اور خشیت خدا پر ہو جس کے مذہب کے بنیادی اصول وآئین ، فطرتِ انسانی پر مبنی ہوں ، کسی خاص قوم کی خصوصیاتِ نسلی پر نہیں اور جس کا مقصد اس مذہب کے عالمگیر اصولوں کی شدت کے ساتھ پابندی ہو نہ کسی کی نسل یا جغرافیائی اتحاد پر، یہی وجہ ہے کہ گھر کے ابوجہل ، اور ابولہب رسول کے دشمن اور باہر کے بلال حبشیؓ اور صہیب ؓ رومی ان کے دوست ہیں ۔
چونکہ قبل از اسلام نسل وقبیلہ کا بت تمام عرب کا معبود تھا ، اس لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے کہ مبادا میرے بعد ٹوٹا ہوا بت پھرجڑجائے ، متعدد مواقع پر ملتِ اسلامیہ کو مساواتِ انسانی قائم کرنے اور بتانِ رنگ وبو کو توڑنے پر زور دیا ، حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق میں آپ نے فرمایا ۔
"اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے ، کس عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر کوئی فضلیت نہیں ، اور نہ کسی کالے کو گورے پر نہ گورے کو کالے پر مگر تقوے کے ساتھ ۔”
مساواتِ انسانی کی جو عدیم النظر تعبیر اسلامی شریعت نے پیش کی ہے اس کے نظری اور عملی احوال صفحاتِ تاریخ پر پوری طرح اُجاگر ہیں ، مگر ٹھہریئے ! ممکن ہے اب بھی بعض حضرات اس غلط فہمی میں مبتلاہوں کہ نظریۂ مساوات کا رل مارکس نے بھی پیش کیا ہے ، اور اس کے نظریئے میں جو اشتراکیت ہے وہ اسلامی نظریۂ مساوات سے بڑھ چڑھ کر ہے (نعوذ باللہ ) اس نے سرمایہ دارانہ نظام اور طبقاتی امتیازات کو ختم کرنے کے لئے بے زر معاشیات Moneyless Economics کو رائج کیا جس کی رو سے یہ شخص اپنی ضروریات کے مطابق حکومت کی دکانوں سے کپڑا اور کھانے کا راشن حاصل کرلے ۔اس لئے ہمیں ایک مختصر سے جملے میں یہ بیان کرنے کی اجازت دیجئے کہ نظام اشتراکیت جس قدر دلکش اور خوشنما معلوم ہوتا ہے اسی قدر بلکہ اس سے کہیں زیادہ غیر فطری اور ناقابلِ عمل ہے ۔
کیوں ؟ اور کیسے ؟ اس سوال کے جواب میں اگر ہم اس کی عقلی اور فطری وجوہ بیان کرنے لگیں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے ، اور ممکن ہے کہ اس پر بعض لوگوں کو بحث وتمحیص کا موقع مل جائے، اس لئے ہم یہاں ان دلائل کو چھوڑ کر صرف اتنا عرض کریں گے کہ تجربہ کی کسوٹی ،جس نے کسی ملمع ساز کے ساتھ رعایت نہیں کی ، اس چمکدار کھوٹ کا راز کبھی کی فاش کرچکی ہے ۔
مارکسی نظام اس قدر غیر فطری اور ناقابلِ عمل بنیادوں پر مبنی تھا کہ یہی تحریک اپنے قرنِ اول سے بھی نہ گزرنے پائی تھی کہ اس کی تمام تر آ ہنی زنجیریں خودبخود ٹوٹ کے گرپڑیں ، آج جس حیثیت سے اشتراکیت روس میں کارفرماہے اور مستقبل قریب کی جو شکل دکھائی دے رہی ہے اس کو کسی نظری تحریک سے تعبیر کرنا محض ایک فریب ہے ۔
جب ابتداء ً اشتراکیت روس میں نافذ ہوئی تو لینن نے کسانوں اور مزدوروں سے وعدہ کیا کہ کارخانوں اور کھیتوں میں جو کام لیا جائے گا وہ کسی کی طاقت اور اہلیت کار سے بڑھ کر نہ ہوگا۔ اور اس کے بدلے میں جو معاوضہ دیا جائے گا وہ ہر لحاظ سے اس کی ضروریات زندگی کی پوری کفالت کرسکے گا ، اس وقت بالشویکیوں کا مقولہ تھا کہ "ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق ، ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق” ۔۔۔ یہ خالص اشتراکی نقطۂ نظرروس میں ایک دن بھی نہ چل سکا اور دو سال بعد قانوناً بھی تبدیل کردیا گیا ، اب روس کے ایوانِ حکومت سے آواز آئی ۔ "ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق ہر ایک کو اس کی قوتِ کارکردگی کے مطابق "لیکن پھر سوال پیدا ہوا کہ کیا بڑھئی کو بھی وہی تنخواہ دی جائے گی جو ایک آرٹسٹ یا ڈائرکٹر کو ؟ ۔۔۔۔۔ جو چیزیں روس کا مقتدر طبقہ الاؤنسوں اور بالائی آمدنیوں کے ذریعہ حاصل کررہا تھا اسے باقاعدہ کرنے کے لئے ایک پُرغرض طبقے نے بہت جلد اس قاعدے کو بھی بدل ڈالا ، اب قرارپایا کہ :
"ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق ہر ایک کو اس کی نوعیتِ کار کے مطابق”
اس اصول کی شہ پاکر مزدوروں اور کسانوں میں آدمی کے ہزاروں معیار مقرر ہوگئے اور معاشی اعتبار سے روسی معاشرہ ہر اس طبقے میں بٹ گیا جس کی بیخ کنی کے لئے بالشویک میدان میں اترے تھے ، کچھ لوگ اپنی محدود آمدنی کی وجہ سے مفلوک الحال تھے ، کچھ متوسط کچھ خوشحال اور کچھ امیر وکبیر بلکہ سرمایہ دار ۔
اب یہ دیکھا جانے لگا کہ کمانے والا حکومت کے خزانے اور دولت کے لئے کس قدر کار آمد ہے ، اگر پورے خاندان میں ایک ہی فرد کمانے والا ہے تو حکومت اس ایک فرد ہی کی کفالت کرتی ہے خواہ اسے اپنے خاندان میں بیس افراد کے پیٹ پالنے ہوں، اُجرتوں اور تنخواہوں کی مساوات جو اشتراکیت کے دام ہمرنگ زمین میں پھنسنے والوں کے لئے سب سے زیادہ دلکش پیغام تھا ، محض ایک خواب نکلا جو ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوکر رہ گیا ہے ، ایک فرانسیسی بالشویک کامریڈوون COMRADE YVON نے ماہانہ آمدنی کے جو مختلف معیار پیش کئے ہیں ان کے مطالعہ سے آپ اندازہ کرسکیں گے کہ وہاں مارکس اور اینجلز کے فکری نظریات سے کس قدر مخالف طبقاتی امتیاز پیدا ہوچکا ہے :
کم سے کم اجرتیں | زیادہ سے زیادہ اجرتیں |
عام مزدور پیشہ لوگ ۸۰ ؍روبل | ۴۰۰ ؍روبل |
معمولی ملازمین ۸۰ ؍روبل | ۳۰۰ ؍روبل |
ذمہ دار حکام ومنتظمین ۱۵۰۰؍ روبل | ۱۰۰۰۰ ؍روبل |
بڑے افسر ، مصنف ، آرٹسٹ ۲۰۰۰۰؍ روبل | ۳۰۰۰۰ ؍روبل |
پھر اس جو روستم کے باوجود وہاں کا مزدور اس ظلم کے خلاف احتجاج کی آواز تو درکنار ، اشتراکی سرمایہ داروں کے دیواستبداد کے آگے اُف نہیں کرسکتا ، جب پریس حکومت کا ہے ، رائے عامہ کی مالک حکومت ہے ۔ نشرواشاعت کے تمام ذرائع پر حکومت قابض ہے ۔۔۔۔ دولت وثروت کے خزانوں پر اشتراکی سرمایہ دار سانپ بن کر بیٹھے ہیں تو یہ جرأت کون کرتا ۔؎
وہی قاتل ، وہی شاہد ، وہی منصف ٹھہرے
اقرباء میرے کریں خون کا د عویٰ کس پر؟
مارشل اسٹالن نے اپنے دورِ حکومت میں جس استبداد اور آمریت کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہٹلر ، مسولینی اور چنگیز خان کی ڈکٹیٹر شپ سے کم نہیں ، ان تمام واقعات وتجربات کو پیش نظر رکھ کر غیر جانبدارانہ انداز میں سوچاجائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ روس میں مارکس کے نظریات کی روشنی میں جس دلکش عمارت کو کھڑا کیا گیا تھا ، وہ چند ہی دنوں بعد گھٹنوں کے بل گرپڑی ۔
اگر ہم اس واقعہ کو محض بخت واتفاق کا نتیجہ قراردیں تو یقین کیجئے کہ یہ ہماری غلطی ہوگی ، کیونکہ اشتراکیت کا مزاج ہی ایک شدید ترین "ڈکٹیٹر شپ” کا مقتضی ہے، اس نظام میں حکومت تمام چھوٹے چھوٹے سرمایہ داروں کو نگل کر خود ایک بڑا سرمایہ داربن بیٹھتی ہے ، اور یہ بڑا سرمایہ دار لطیف انسانی جذبات کے اس اقلِ قلیل حصے سے بھی کورا ہوتا ہے جو چھوٹے سرمایہ داروں میں پائی جاسکتی ہے ، وہ بالکل مشین کی طرح انسانوں سے کام لیتا ہے اور ایک بے حِس مشین کی طرح پورے استبداد کے ساتھ ان کے درمیان وسائل حیات بانٹتا ہے ، اس شدید استبداد کے بغیر نظام اشتراکی نہ قائم ہوسکتا ہے نہ رہ سکتا ہے ، کیونکہ افراد کی فطرت اس ظلم وجور کے خلاف آمادئہ پیکار رہتی ہے ، اگر انہیں ہمیشہ استبداد کے شدید ترین شکنجوں میں کس کرنہ رکھاجائے تو وہ اشتراکی نظام کے تمام "دلکش” تاروپود بکھیر کر رکھ دیں ، یہی وجہ ہے کہ روسی حکومت دنیا کی سب سے زیادہ مستبداور جابر حکومت ہے ۔
اسلامی آئیڈیا لوجی اشتراکیت کے اس ناقابل عمل اور غیر فطری تصور کو اپنے پُر امن وپر سکون نظامِ حیات میں کوئی جگہ نہیں دیتی ، اور ساتھ ہی ساتھ سرمایہ داری کا ۔۔۔۔ جس نے اشتراکیت کو ردّعمل کے طورپر جنم دیاتھا۔ یکسر خاتمہ کردیتی ہے ، اس نے ان تمام جگہوں پر بند باندھ دیئے ہیں مگر جہاں سرمایہ داری کا سیلاب داخل ہوسکتا تھا ، اس نے اپنے پیرووں کو ایسے ایسے احکام دیئے ہیں جن پر عمل کیاجائے تو دولت ایک جگہ جمع ہی نہیں رہ سکتی اسے زکوٰۃ ، صدقات ، عشر ، خراج کے احکام جاری کئے اور فرمایا:
کَیْ لَایَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ (سورۃ الحشر : ۷)
تاکہ وہ مال تمہارے سرمایہ داروں کے درمیان دائر ہوکر نہ رہ جائے ۔
سود ، قمار، سٹے سے روکا اور انہیں بدترین جرم قراردیا ان تمام احکام کے ذریعہ اس نے دولت کو سمٹ کر ایک جگہ جمع نہیں ہونے دیا کہ سرمایہ داری پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں اشتراکیت کا کوئی تصور ابھر نکلے ۔ ( ہم نے بہت اختصار کے ساتھ چند اہم نکتے عرض کئے ہیں ، اسلام کے معاشی اور سیاسی نظام سے بحث کرنے والی کوئی کتاب آپ کے ذوق کی پوری تسکین کرسکتی ہے )۔
ہاں ایک شبہ سر اُبھار سکتا ہے، اور وہ یہ کہ عدیم المثال نظام حضور صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے وہ ان کے لئے تو باعث رحمت ہوسکتا ہے جو اسے سچ اور صحیح جان کر اس پر عمل پیر اہوں لیکن وہ کفّار اور مشرکین جنہوں نے اس برحق اور فطری نظام کو سرے سے مانا ہی نہیں ان کے لئے تو یہ نظام رحمت نہ ہوا ۔
کافروں کے لئے رحمت
اس شبہ کا جواب بھی مشکل نہیں ، تھوڑا سا غوروفکر کیجئے سمجھ میں آجائے گا۔۔۔۔ آنحضور کاکافروں کے لئے رحمت ہونا بچند وجوہ صحیح ہے :
سب سے پہلے تو یہ کہ خدا کی عادت ہمیشہ سے کچھ اس طرح جاری رہی ہے کہ جب لوگوں میں روحانی امراض پھیلتے ہیں اور لوگ صحیح نظام کو بھول بیٹھتے ہیں تو ایک ہادی اور مصلح بھیجا جاتا ہے جو انہیں سیدھی راہ کی طرف بلائے اور ان کا بھولاہوا سبق انہیں پھر سے یاددلادے ، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام اسی مقصد کے لئے دنیا میں مبعوث کئے گئے جو مختلف اوقات میں جلوہ افروز ہوئے اور دنیا کو ان آلائشوں سے پاک کرگئے جن کے ساتھ انسانیت کا دامن الجھا ہوا تھا ۔
لیکن جو احمق ایسے ہادیوں کا کہا نہیں مانتے تھے اور انہیں روشنی کے باوجود اندھیرا ہی زیادہ بھلالگتا تھا تو پھر اس پر دنیا ہی میں سخت سخت عذاب نازل ہوتے تھے عاد، ثمود اور قوم لوط کی بستیاں آج بھی کھنڈرات کی صورت میں درس عبرت دے رہی ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک کس شان سے ارشاد فرماتا ہے ۔ سبحان اللہ
فَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ بَعْدِھِمْ اِلاَّ قَلِیْلًا وَکُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِیْنَ(القصص : ۵۸)
(دیکھ لو) وہ ان کے مسکن ہیں جو ان کے بعد آباد نہ ہوسکے مگر بہت کم ، اور ہم ہی تو ان سب کے وارث ہیں ۔
غرضیکہ جس جس قوم نے اتمام حجت کے باوجود نافرمانی کی ہے ان پر اللہ نے عذاب نازل کیا ہے ۔
مگر یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا امتیاز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر خداوند قدوس نے صاف اعلان فرمادیا:
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ (سورۃ الانفال : ۳۳ )
اور اللہ تعالیٰ ان پر آپ کے ہوتے ہوئے کوئی (عام) عذاب نازل نہ فرمائے گا۔
چنانچہ ہوا بھی یہی کہ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس امت پر کوئی عام عذاب نہیں آیا۔ اگرچہ اس امت سے خطاکاریاں اور نافرمانیاں بے شمار سرزد ہوئیں ۔ کیا یہ بے پایاں رحمت نہیں ۔
غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ اسلام میں
دوسرے یہ کہ خود وہ نظام بھی غیر مسلموں کے لئے رحمت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے کیونکہ غیرمسلموں کو جو حقوق اسلامی حکومت میں دیئے گئے ہیں ان کی مثال مذاہب عالم میں کوئی نہیں ملتی۔
اسلامی اسٹیٹ میں افراد کے عام مدنی اور شہری حقوق بالکل یکساں ہیں، اسلامی پروگرام کو ماننے یا نہ ماننے کی بناپر اسٹیٹ میں کسی فرد کو دوسرے فرد پر آزادی کے لحاظ سے ترجیح نہیں ہے حکومت ہر فرد کی آزادی کی کفیل ہے ، اسلامی قانون کی روسے اگرا یک مسلمان کسی غیر مسلم (ذمّی) کو قتل کرڈالے تو وہ واجب القتل ہے ،مسلم ریاست میں غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے ۔ جب تک (وہ) سچائی کے ساتھ امن وصلح کے ساتھ رہیں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچائی جاسکتی ۔
اور پھر جنگ وپیکار کے مواقع پر بھی اسلامی قانون کی روسے بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں پر تلوار اٹھانا بالکل ناجائز ہے ۔ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی لشکر روانہ کیا ہے اُسے یہی تلقین فرمائی ہے کہ کمزور بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھانا اور بسا اوقات نوجوانوں کو بھی معاف کردیا گیا ہے ۔
اس سلسلہ میں فتح مکہ کا واقعہ اسلام کی مروّت ورواداری کا کھُلا ثبوت ہے ، مکّہ کے باشندے وہی تھے جنہوں نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیاتھا ، صرف اس جُرم کی پاداش میں کہ وہ پتھر کے بُت کیوں نہیں پوچتے ، ان کو عرب کے تپتے ہوئے ریگزاروں میں برہنہ لٹایا جاتا تھا ، ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے ، مہینوں تک بھوکے پیاسے رکھے جاتے تھے، مدینہ پہنچ کر بھی مسلسل جنگوں سے بدامنی پھیلائی جاتی تھی ان کی عفت مآب خواتین کو خطاب کرکے ان سے تشبیب کی جاتی تھی ۔
لیکن محمد مصطفی رحمۃ للعالمین ۔۔۔ فداہ ابی وامی ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسی مکہ کو فتح کرنے آتے ہیں تو صاف اعلان فرمادیتے ہیں :
لاتثریب علیکم الیوم ، اذھبوا فأنتم الطلقاء من دخل دار ابی سفیان فھو آمن ، من أغلق بابہ فھو آمن، ومن دخل المسجد الحرام فھو آمن ۔
تم پر آج کوئی گرفت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو ، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے وہ مامون ہے اور جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے وہ مامون ہے ۔
کیا دنیا کی تاریخ کوئی مثال پیش کرتی ہے کہ کسی فاتح نے مفتوح کے ساتھ یہ سلوک کیا ہو۔
یورپ اور امریکہ کے "امن پسند” چور کے ہاتھ کاٹنے اور زانی کو سنگسار کرنے پر بہت چیں بہ جبیں ہوتے ہیں کہ یہ وحشیانہ سزائیں ہیں ، مگر ان سے بیساختہ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے ؎
اتنی نہ بڑھاپاکی ٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ان "رحمدل ” حضرات کو چوروں کے ہاتھوں پر تو بہت رحم آتا ہے مگر ہیروشیما کے وہ لاکھوں بیگناہ ، بوڑھے، بچے اور عورتیں ان کی نگاہ میں بڑے ظالم تھے ، جنہیں اس "پرامن”ایٹم بم نے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے، وہی بات کہ ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے
یہ "بالغ نظر”لوگ اسلام کی اس مروّت کی طرف نہیں دیکھتے جو فتح مکہ کے موقع پر ظاہر ہوئی ۔ اگر کوئی اور ہوتا تو مکہ معظمہ آدمیوں کے خون سے لالہ زار بن جاتا ، ہولناک مظالم کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے جاتے اور فتح کے نشے میں نہ جانے کیا کیاجاتا لیکن رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سلوک فتح کے بعد ان کے ساتھ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔
اور اسی کا نتیجہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد اسلام کا خوب بول بالاہوا اور اسی کے کچھ عرصے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کو ایسا انسان بناکر تشریف لے گئے جو تمام انسانی اوصاف کے اعتبار سے مکمل اور نرالے تھے انہیں دیکھ کر غیر مسلم اسلام قبول کرتے تھے ۔
وہ ابوسفیان ،عکرمہ بن ابی جہل اور خالدبن ولید جو کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف امیر لشکر بن کر آتے تھے اسلام کے فطری نظام کے محافظ اور حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار خادم بنے اور انہوں نے اس فطری مذہب کو قبول کرلیا جس کے خلاف آمادئہ جنگ رہتے تھے ۔
غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے ہر ذرّے کے لئے رحمت ثابت ہوئے اور غیر مسلموں کے لئے بھی کیونکہ آپ نے انہیں انسان ہونے کی حیثیت سے وہ تمام حقوق عطاکئے جو مسلمانوں کو ملتے تھے اور اُس خدائی عذاب سے نجات کا سبب بنے جو سابقہ اقوام کی طرح اس امّت پر دنیا میں نازل ہوسکتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭