حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

تحریک تجدد کا پس منظر
اور اس کی فکری بنیادیں

(دوسری قسط)

فلسفوں کا تصادم
تحریک تجدّد کے پیدا ہونے کا دوسرا امکان اس وقت ہوتا ہے، جب دو فلسفے ٹکراجائیں، اور ہم نے ابھی عرض کیا کہ عالمگیر پیمانے پر یہ صورت اسلام کے ساتھ دومرتبہ پیدا ہوئی ہے،
ان میں سے پہلا موقعہ وہ تھا جب بنو عبّاس کے دور میں یونان کا فلسفہ عربی میں منتقل ہوا، اور ذہین طبقوں میں اسے ذوق وشوق کے ساتھ پڑھا گیا، یہ فلسفہ اپنی روح کے اعتبار سے اسلام سے یکسر منافی تھا، اور ’’عقلیّت‘‘ کا نظر فریب لبادہ اوڑ ھ کر اسلام کے مقابلے پر آیا تھا، جن لوگوں نے اسلام کی تعلیمات اور اس کے فلسفے کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا تھا، انہیں اس فلسفے میں بڑی جان اور اس کے نظریات میں بڑی دلکشی محسوس ہوئی، چنانچہ ان میں سے بعض نے تو پورے طور سے اس فلسفے کو قبول کرلیا، اور اسلام سے علی الاعلان خارج ہوگئے، اور بعض لوگوں کو یہ جرأت نہ ہوئی ، تو ان کی ذہنی کشمکش نے ’’تجدد‘‘ کی تحریک کو جنم دیا، اور یونانی فلسفہ اور اسلام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کاوشیں شروع ہوگئیں، یونانی فلسفے کی رُوسے اسلام پر جو اعتراضات وارد ہوتے تھے، ان سے بچنے کے لئے بہت سے لوگوں نے فلسفہ یونان پر آزاد تنقید کرنے کی بجائے خود اسلام کے نظریات میں ترمیم کرنی شروع کردی، جس کے نتیجے میں بیشمار کلامی فرقے پیدا ہوئے، معتزلہ ، جبریہ، قدریہ، مجسّمہ وغیرہ سب اسی ’’تجدد‘‘ کی پیدا وار ہیں۔
لیکن خدا کا پسندیدہ ابدی دین ان وقتی ہنگاموں سے مسخ ہونے والا نہیں تھا، اس دور کے علماء بیدار مغز، بلند حوصلہ، اور عالی ہمت تھے، انہوں نے پوری خود اعتمادی کے ساتھ تنقیدی نگاہ سے پورے فلسفۂ یونان کو کنگھالا، اس کے اصول اور نفسیات سے واقفیت حاصل کی، اور پھر اس کے ایک ایک مزعومے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں، ان حضرات کی یہی کاوشیں آج تک علم کلام کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں، امام رازیؒ کی تفسیر کبیر اور امام غزالی ؒ کی ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ اسی سلسلے کی وہ کڑیاں ہیں جنہوں نے یونانی فلسفے کے ایوانوں میں زلزلہ ڈال دیا تھا، چنانچہ کچھ دن اقتدار اور قوّت کے بل پر تو یہ فلسفہ زندہ رہا، مگر جب وہ اقتدار کی پشت پناہی سے محروم ہوا تو اس کی ساری عقلیت کا طلسم ٹوٹ گیا، اور اس نے جن فرقوں کو جنم دیا تھا، وہ اپنی موت آپ مرگئے۔ آج معتزلہ ، جبریہ، قدریہ اور جہمیہ کانام اور ان کے کارنامے ’’کتاب الملل والنّحل‘‘ میں تو نظر آتے ہیں ، مگر عملی دنیا میں ان کا ہر نقش باطل مٹ چکا ہے۔
یہ اسلامی فلسفے سے کسی دوسرے فلسفے کے تصادم کا پہلا تجربہ تھا، جو ہمارے اسلاف کی روشن خیالی، وسعت نظر اور معاملہ فہمی کی بناء پر سوفی صدی کامیاب رہا، اس کے بعد عالم اسلام کی مختلف جگہوں پر جزوی طور سے تجدّد کی تحریکیں پیدا ہوئیں، مگر وہ عالمگیر نہ تھیں، مثلاً ہندوستان میں اکبربادشاہ کے زمانے میں دین الٰہی کا فتنہ اٹھا، اور ابوالفضل اور فیضی جیسے لوگوں نے اسے اسلام کے مطابق ثابت کرنا چاہا لیکن حضرت مجدّد الف ثانی کی انتھک کوششوں نے اس فتنے کے بھی پرخچے اڑادئیے۔
لیکن آج ہم اسی قسم کے ایک دوسرے عالمگیر تجربے سے دوچار ہیں، اور وہ مغربی فلسفے کے اسلام سے ٹکرانے کی بناء پر پیدا ہوا ہے، جس طرح اسلام کے پاس اپنا فلسفہ اور تہذیب دونوں ہیں، اسی طرح آج ترقی یافتہ مغربی اقوام کے پاس بھی یہ دونوں چیزیں موجود ہیں، لہٰذا ان کی تہذیب ہماری تہذیب سے اور ان کا فلسفہ ہمارے فلسفے سے براہِ راست ٹکرا رہا ہے، اس ٹکراؤ سے پھر ’’تجدّد‘‘ کی تحریکیں نمودار ہوتی ہیں ، اور احساسِ کمتری میں مبتلا انسانوں کا ایک گروہ ایک بار پھر مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب سے ، اور مغربی فلسفے کو اسلامی فلسفے سے ہم آہنگ قرار دینے کی فکر میں ہے، اور ایک ایسا ’’اسلام‘‘ تیار کرنا چاہتا ہے جو مغربی طرز زندگی سے پوری طرح میل کھانے والا ہو، خواہ اس مقصد کے لئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہوجانا پڑے۔یہی ’’تجدّد‘‘ کا وہ رُجحان ہے جس کے بارے میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ وہ عالم اسلام کے ہر گوشے میں فتنے جگارہا ہے، اور مسلمانوں کا کوئی خطّہ اس کی شورش سے خالی نہیں۔
’’تجدّد‘‘ کی یہ نئی تحریک پہلی تمام تحریکوں سے زیادہ خطرناک ہے، اس لئے نہیں کہ اس کے نظریات میں واصل بن عطا معتزلی یا جارُ اللہ زمخشری کے نظریات سے زیادہ جان ہے، بلکہ اس لئے کہ ہم میں اس وقت کوئی ابواسحٰق اسفرائینی یا فخرالدین رازی نہیں پایا جاتا ، جو جدید فلسفے کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی عقلیّت کا طلسم توڑدے، دنیا کے سامنے اس کی سطحیّت کو بے نقاب کردے۔ اور اس کا ایک ایک انگ عریاں کرکے دنیا کو دکھادے کہ یہ ہے اس ’’عقل‘‘ کی حقیقت جس کے بلند بانگ دعوؤں نے تم پر دھاک بٹھا رکھی تھی۔
جدید مغربی تہذیب بیشک خطرناک ہے، مگر اس لئے نہیں کہ وہ ایران اور روم کی قدیم تہذیبوں سے زیادہ طاقتور یا دلکش ہے، بلکہ اس لئے کہ ہم میں کوئی سعد بن ابی وقّاص ؓ موجود نہیں جو اس تہذیب کے قالینوں کو اپنی خود اعتمادی کے نیزوں سے الٹ پھینکے۔
اس مقالے کے ذریعے ’’تجدّد‘‘ کی اسی تحریک کا اصلی رُخ دکھلانا منظور ہے، تاکہ آپ اس کے حقیقی پس منظر میں جھانک کر اس کی دکھتی ہوئی رگ کو پکڑ سکیں، اور آپ میں سے کسی سعید روح کو اللہ توفیق دے تو وہ صحیح طریقے سے اس تحریک کا مقابلہ کرسکے۔
سیاسی پس منظر
تجدّدکی یہ نئی تحریکیںجن حالات میں پیدا ہوئیں، ان کا تصور کرنے کے لئے آپ کو آج سے ایک صدی پہلے کے ماحول کا تصور کرنا ہوگا۔
یہ وہ وقت ہے جب مسلمان قوم -صدیوں تک دنیا پر اپنے جاہ وجلال کی دھاک بٹھانے کے بعد اپنے زوال کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، مسلمان حکمرانوں کے نشۂ عیش میں بدمست ہونے کے، سبب ان کی سیاسی عظمت کے پرچم ایک ایک کرکے سرنگوں ہورہے تھے، بڑی بڑی سلطنتیں جن پر مسلمان صدیوں سے حکومت کرتے آئے تھے، رفتہ رفتہ ان کے ہاتھوں سے چھن رہی تھیں، دوسری طرف عوام کی تن آسانیوں کی وجہ سے تحصیل علوم کی وہ تڑپ فنا ہورہی تھی جس نے دنیا کو جینے اور مرنے کے ڈھنگ سکھائے تھے، غرض جس پہلو سے دیکھئے ، ایک انحطاط اور زوال تھا جو مسلمانوں پر مسلط ہورہا تھا، ایک پستی تھی جس میں وہ گرے چلے جارہے تھے، اور ایک زبردست تھکن تھی جس نے ان کے اعضاوجوارح ، ذہن ودماغ اور قلب ونظر شل کرئیے تھے۔
دوسری طرف مغربی قومیں جو اب تک غاروں میں پڑی سورہی تھیں، ایک دم انگڑائی لے کر اٹھیں، تو انہوں نے میدان خالی پایا، ان کے دل میں تسخیر عالم کا ایک جذبہ پیدا ہوا، مسلمانوں کے زوال نے اس میں اور گرمی پیدا کی، اور وہ پوری تازہ دمی ، نشاط زندگی اور حرارت کے ساتھ آگے بڑھیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان پر چھا گئیں، اور یکایک دنیا کا نقشہ ہی پلٹ گیا، اب سیاست بھی انہی کی تھی، صنعت اور ہنر بھی انہی کے پاس تھا، تلوارپر بھی انہی کا قبضہ تھا ، اور قلم پر بھی۔
اس مرحلے پر جب کہ مسلمان اپنے زوال کے انتہائی دور سے گذر رہے تھے، انہیں بیک وقت دو محاذوں پر مغرب کے صبر آزما حملوں کا سامنا کرنا پڑا، ایک طرف تو مغرب کی نشّۂ فتح میں چُور تلوار تھی جو مکر وفن کی آڑ لے کر بڑھتی ہی چلی آرہی تھی، اور دوسری طرف اس کا قلم تھا جو برابر مسلمانوں کے عقائد اور اعمال اور ان کے افکار ونظریات کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔
اگر مسلمانوں میں قرونِ اولیٰ کا ایمان ویقین ، حوصلہ ، جرأت اور گرمی اعمال ہوتی تو ان دونوں محاذوں پر مقابلہ کوئی مشکل نہ تھا، مگر شومی اعمال سے قوم کا اکثر حصہ اسلاف کی اس مقدس میراث کو عیش وعشرت کی بھینٹ چڑھا چکا تھا۔ اس کے ذہن وفکر اور اعضا وجوارح سے وہ تاب وتواں رخصت ہوچکے تھے جو ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہر میدان میں شکست پر شکست کھاتے چلے گئے، اور اس زمانے میں جو نسلیں پیدا ہوئیں ، انہوں نے چاروں طرف مغرب ہی کا ڈنکا پٹتا دیکھا تو ان پر مغرب سے مرعوبیت کا ایک غیر معمولی احساس ایک کا بوس کی طرح مسلّط ہوگیا۔
لیکن ابھی تک مسلمان کے دل میں غیرت وحمیت کی ایک دبی ہوئی چنگاری باقی تھی، اسے کبھی کبھی یہ خیال آجاتا تھا کہ ہم بڑے عظیم اسلاف کی اولاد ہیں؟ اور ہمارا اصلی مقام یہ پستی نہیں جس میں ہم گر چلے ہیں، بلکہ وہ بلندی ہے جسے ہم نے اپنے ہاتھوں کھویا ہے ، اگرچہ وہ اپنے دین کو چھوڑ بیٹھے تھے مگر انہیں اب بھی ایک درجے میں اپنے دین اور اپنے تابناک ماضی پر فخر تھا، اور کبھی کبھی اس کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کا جذبہ ان میں بیدار ہوجاتا تھا۔
مغرب کو اس دبی ہوئی چنگاری سے خطرہ تھا کہ کہیں کسی وقت یہ بھڑک کر ایک شعلہ نہ بن جائے ، جو ہمارے اقتدار کی خوشنما عمارت کو جلاکر خاکستر کردے، چنانچہ اس نے اس موقعہ پر پوری مکاری کے ساتھ ایک اور کاری وار کیا ، جس سے مسلمانوں کی رہی سہی قوت پارہ پارہ ہوگئی۔
یہ کاری وار ’’نیا نظامِ تعلیم‘‘ تھا، جو پوری ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں کا ہمدرد بن کر ان پر مسلط کیا گیا ، اس نظامِ تعلیم میں چُن چُن کر اسلام سے بیزاری اور نفرت پیدا کرنے والے مضامین مسلمانوں کو پڑھائے جاتے تھے، اور ایک ایک قدم پر یہ رعایت رکھی جاتی تھی کہ مسلمان اپنی صحیح ذہنیت کھوبیٹھیں، وہ مسلسل اپنے افکار ونظریات، عقائد واعمال، اپنی تاریخ وروایات اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے دور ہوتے چلے جائیں، ان کے ذہن پر مغربی افکار کا غلبہ ہوتا چلا جائے،اور ان کے دل میں مغربی مفکّروںکی عظمت کا سکہ بیٹھتا جائے۔
اس مکّارانہ چال نے مسلمانوں کی خود اعتمادی کی گرتی ہوئی دیوار پر آخری ضرب کاکام کیا، یہ مغربی نظام تعلیم درحقیقت ایک قسم کی خاموش ’’نسل کشی‘‘تھی، جس کے مراکز اسکولوں اور کالجوں کے سنہرے نام سے عالم اسلام کے گوشے گوشے میں قائم کئے گئے، اور جہاں مسلمانوں کے نونہال بڑے ذوق وشوق کے ساتھ ہنسی خوشی اپنے دِل ودِماغ کا آپریشن کراتے رہے۔
اس نظام تعلیم کے ذریعے پڑھ کر جو نوجوان نسل تیار ہوئی ، وہ ایک طرف تو مغرب کی بالادستی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ، اور دوسری طرف پندرہ سالہ تعلیم کے دوران ان کا ذہن جس سانچے میں ڈھل کر نکلا تھا، اس نے ان کے دماغ میں یہ الفاظ بڑے نمایاں طور سے کندہ کردئیے تھے کہ ’’مغرب برتر ہے اور مشرق کمتر‘‘ ان کے ذہن میں اس کے برعکس مشرق کی برتری اور مغرب کی کمتری کا کوئی تصور آتاہی نہیں تھا، اور آتا کیسے؟ ان کے معلّموں نے انہیں مغرب کے تو بیشمار مفکرین ، سائنس دانوں اور فاتحین کے نام اور کارنامے یاد کرائے تھے، مگر کسی مسلمان مفکر، مصلح یا فاتح کا نام انہیں یاد نہ تھا، جو انہیں بتاتا کہ ع
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
اگر کسی کو اپنے اسلاف کے نام یاد بھی تھے تو اس کے پاس ان کے کارنامے مسخ شدہ شکل میںپہنچ سکے اور اگر کسی کو اپنے اسلاف کے کارناموں کا صحیح علم تھا تو اس کے ذہن میں ان کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی ، کیونکہ مغربی فلسفۂ زندگی اس کی ذہنیت پلٹ چکا تھا۔
اس کا جو نتیجہ ہونا تھا وہ ہوا، ان کے دِل میں یہ بات پوری طرح جم گئی کہ ہمارے زوال اور پستی کا سبب وہ فرسودہ تہذیب اور معاشرت ہے، جسے ہم تیرہ صدیوں سے اختیار کئے ہوئے ہیں، اگر ہم اپنی اس پستی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ، تو ہمیں تمام مغربی طور طریقوں کو بلاتنقید اپنا نا ہوگا ہمارے لئے ترقی کی راہ ہے تو بس یہی، اور وقت ہے تو بس اسی کا۔
بس یہی وہ مہلک جذبہ تھا جس نے سینکڑوں مسلمانوں کو دہریہ بنادیا، اور وہ لوگ جو اپنے مذہب سے محبت کے سبب ، یا ماحول کے طعنوں سے ڈر کر اسلام کو علی الاعلان خیر باد نہ کہہ سکے، اسی ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوگئے جو ایسے حالات کا لازمی خاصّہ ہے ، ایک طرف نئی تہذیب کی چمک دمک اختیار کرنے کے لئے ان کا دل مچل رہا تھا، اور دوسری طرف وہ جس ماحول میں بستے تھے، وہ مسلمان تھا، جن لوگوں کے ساتھ ان کی رسم وراہ تھی وہ مسلمان تھے، جس ملک میں وہ پیدا ہوئے تھے وہ مسلمانوں کا ملک تھا،اس لئے نئی تہذیب کواختیار کرنے کے لئے اس سوسائٹی کو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔
اس کشمکش سے چھٹکارا پانے کے لئے انہوں نے وہی ’’تجدّد‘‘ کی تحریک شروع کی، اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اپنا زور صرف کیا کہ مغربی طرز معاشرت اسلام سے چنداں مختلف نہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یہ تحریک چار فکری ادوار سے گذری جو پچھلی ایک صدی کی تاریخ میں یکے بعد دیگرے نمایاں نظر آتے ہیں۔

 جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ربیع الاول ۱۴۴۶ھ)