حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
تحریک تجدد کا پس منظر
اور اس کی فکری بنیادیں
(پہلی قسط)
ایک زمانے میں دارالعلوم کے اساتذہ کرام ہر جمعرات کو کسی ضرورت کے موضوع پر اپنا کوئی لکھا ہوا مقالہ اساتذہ اور طلبہ کے اجتماع میں پیش فرماتے تھے، حضرتِ والا نے ۱۹۶۴ء کے ایک ایسے ہی اجتماع میں اس اہم موضوع پر زیر نظر مقالہ پیش فرمایا تھا ، اجتماع کی صدارت حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی تھی۔افادہ عام کے لئے یہ وقیع مقالہ ان شاء اللہ قسط وار البلاغ میں شائع ہوگا چنانچہ پہلی قسط اس شمارے میں پیش خدمت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ) |
الحمد ﷲ وکفیٰ وسلام علی عبادہِ الذین اصطفیٰ
پچھلے ایک سو سال کے عرصے میں عالم اسلام جن طرح طرح کے فتنوں اور شورشوں کا شکار رہا ہے، ان میں شاید سب سے زیادہ خطرناک اور صبرآزما فتنہ’’تجدّد پسندی‘‘ کا فتنہ تھا، اس لئے نہیں کہ اس کے علمبردار وں کے پاس کچھ زیادہ معقول دلائل تھے، یا ان کی پشت پر کوئی ٹھوس فلسفہ تھا، بلکہ جس چیز نے اسے بہت خطرناک بنایا وہ اس کا جذباتی پہلو تھا، اس تحریک کا سنجیدہ تجزیہ کرنے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس تحریک کے پس منظر میں ’’کل جدید لذیذ‘‘ کا طفلانہ جذبہ کام کررہا تھا ، اور ہر نئی چیز کی طرف لپکنے کی خواہش نے اس میں نوجوانوں کے لئے بڑی کشش پیدا کردی تھی۔
آنے والے صفحات میں ہم اس تحریک کا ایک تاریخی تجزیہ پیش کررہے ہیں جس سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ تحریک کن حالات میں کس طرح پیدا ہوئی پلی اور بڑھی؟ کن اسباب وعوامل (factors) نے اسے پروان چڑھایا؟ اس کے پس منظر میں کونسے جذبات کارفرماتھے؟ اور ان جذبات کے ارتقاء (Evolution) سے یہ تحریک کتنے ادوار سے گذری؟ اور آج کس مرحلے میں ہے؟ اس کے بعد ہم اس تحریک کے افکار پر تنقید کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس تحریک کے فکر میں کیا بنیادی لغزشیں تھیں؟ واللّٰہ تعالیٰ الموفق والمعین
’’تجدّد‘‘ کا مفہوم
لیکن ان تمام چیزوں سے قبل ’’تجدّد‘‘ کا صحیح مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے، عربی لغت میں ’’تجدّد‘‘ کسی خارجی اثر کو قبول کرکے نئے ہوجانے کے ہیں ، یہ لفظ درحقیقت انگریزی لفظ (Modernism) کا ترجمہ ہے، اس صدی کی ابتداء سے مستشرقین استعمال کرتے رہے ہیں، اس کی اصطلاحی تعریف جارج ٹائرل(George Tyrrel) اس طرح کرتا ہے:
’’ تجدّد اس بات کی خواہش یا کوشش کا نام ہے کہ نئے حالات کی روشنی میں ایک تاریخی تنقید وتحقیق کے ذریعے کسی مذہب کا از سرِ نو تجزیہ کیا جائے۔‘‘
(Encyclopeadia Britannica V.15.P.638)
اس تعریف کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ : ’’نئے حالات سے متأثر اور مغلوب ہوکر مذہب میں تبدیلی کی کوشش کو تجدّد کہاجاتا ہے‘‘۔
تجدّد کی قدیم تحریکیں
تجدّد کی تحریکیں مختلف شکلوں اور نئے نئے لباسوں میں اسلام کی قرونِ وسطی سے سامنے آتی رہی ہیں، اور عام طور سے جب کوئی نیا فلسفہ یا نئی تہذیب علم وتحقیق کا لبادہ اوڑھ کر مذہب کے مقابل آکھڑی ہوتی ہے، تو ناپختہ ذہن اور سطحی علم رکھنے والے لوگ اکثر اس سے مرعوب ہوجاتے ہیں ، چونکہ ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ بلند بانگ دعووں کو دلائل کی کسوٹی پر جانچیں، اور ان کی گہرائی تک پہنچ کر ان کے حسن وقبح کا فیصلہ کریں، اس لئے ان کی نگاہیں محض جدّت کی عارضی چمک دمک پر فریفتہ ہوجاتی ہیں ، پھر ان میں سے بعض تو وہ ہوتے ہیں جو اس جدّت سے مرعوب ہونے کے بعد اپنے سابقہ عقائد ونظریات کو علی الاعلان بالکل چھوڑ دیتے ہیں، اور بعض وہ ہوتے ہیں،جو قدیم عقائد سے محبت کی بناء پر ، یا کسی اور مصلحت سے انہیں چھوڑنے کا اقدام نہیں کرناچاہتے، مگر ساتھ ہی نئے رجحان کو اپنا نے کے لئے بھی انکادل مچلتا رہتا ہے، اس مرحلے پر ان کے ذہن میں ایک کشمکش شروع ہوتی ہے ، ایک طرف اپنے سابقہ عقائد سے ایک فطری لگاؤ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ ان سے منسلک رہیں، دوسری طرف نئی تہذیب یا نئے فلسفے کی چمک دمک ان کی آنکھیں خیرہ کرتی ہے، اس مشکل کا حل یہ لوگ عام طور سے یہ نکالا کرتے ہیں کہ اپنے قدیم عقائد اور نئے رجحان کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بس یہیں سے ’’تجدّد‘‘ کی تحریک نمودار ہوجاتی ہے۔
یہاں ہم نے دو لفظ استعمال کئے ہیں ، ایک ’’فلسفہ‘‘ اور ایک ’’تھذیب‘‘ فلسفے سے مراد افکار ہیں جنکا تعلق عقائد اورنظریات سے ہے، اور تہذیب سے مراد زندگی گذارنے کا طریقہ ہے جس کا تعلق اعمال سے ہے، اسلام کا اپنا ایک فلسفہ بھی ہے، اور ایک تہذیب بھی ، لہٰذا اگر کوئی نیا فلسفہ اسلامی فلسفے سے ٹکراتا ہے تب بھی ’’تجدّد‘‘ کے پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں ، اور اگر کوئی تہذیب اسلامی تہذیب سے متصادم ہوتی ہے،تب بھی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو دومرتبہ نئے فلسفوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے، اور تین مرتبہ نئی تہذیبوں کا۔
تہذیبوں کا ٹکراؤ
جہاں تک تہذیب کا تعلق ہے، تو پہلی مرتبہ اسلام کو نئی تہذیب سے اس وقت سابقہ پڑا جب اسلامی فتوحات نے روم اور ایران کے ساتھ تعلقات پیدا کرئیے تھے، یہ دونوں تہذیبیں اس وقت قدیم دنیا کے علوم وفنون،ثقافت وادب اور تمدّن ومعاشرت کے ترقی یافتہ طریقوں سے مالا مال تھیں، اور مشرق ومغرب میں انہی کی شائستگی کا بول بالا تھا۔ لیکن جس وقت اسلامی تہذیب ان تہذیبوں سے ٹکرائی، اس وقت مسلمان تازہ دم ، طاقتور ، نشاط زندگی اور ترقی کی صلاحیتوںسے بھرپور تھے، ان کے دلوں میں تسخیرعالم کی امنگیں ابل رہی تھیں، اور ان کا ذہن اس یقین کی روشنی سے منوّر تھا کہ اگر اس دنیا میں کوئی صحیح نظریہ پایا جاتا ہے تو وہ ہمارا ہے، اور اگر کہیں کسی معقول ، شائستہ اور بہترین تہذیب کا وجود ہے تو وہ ہماری ہے، ہماری تہذیب کے مقابلے میں کوئی تہذیب نہیں ٹھہر سکتی اور ہمارے نظریات کے آگے کوئی نظریہ کا میاب نہیں ہوسکتا، اس اعتماد ویقین نے ان کے دل ودماغ کو ہر طرح کے احساس کمتری سے آزاد کیا ہوا تھا، ان کی حیثیت دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی فاتح قوم کی تھی، اور اس کے بالمقابل دنیا کی ہر قوم ایک مفتوح ومغلوب قوم کا درجہ رکھتی تھی، ــــــ اس لئے مسلمانوں نے پوری خود اعتمادی اور خود شناسی کے ساتھ اس تہذیب کا مقابلہ کیا، کسی ذہنی غلامی یا مرعوبیت کے بغیر اپنی ضروریات اور حالات کے مطابق اس تہذیب سے جائز حدود میں استفادہ بھی کیا، اور جس چیز کو چاہا ، پہلے اسے اپنے سانچے میں ڈھالا ، اور پھر اس کی صحیح جگہ میں اسے فٹ کردیا، لیکن آزاد اور غالب ہونے کی بنا ء پر یہ استفادہ اس معاشرے کی روح اور اس کی اخلاقی رفتار پر اثر انداز نہیں ہوسکا، مثلاً انہوں نے اپنی مقابل تہذیبوں سے جنگ کے بہت سے ہُنر بھی سیکھے، صنعت وتجارت میں ان کے مفید طریقوں کو اپنایا،مگر ان کو خالص اسلامی روح میں ڈھال کر جائز مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے جس چیز کو اسلامی مسلّمات کے خلاف سمجھا، اُسے بدل دِیا، مگر سابقہ اسلامی تعلیمات پر آنچ نہ آنے دِی۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کے اس ٹکراؤ سے کوئی ’’تجدّد‘‘ کی تحریک پیدا نہیں ہوئی۔
تہذیبوں کے ٹکراؤ کا دوسرا تجربہ اسلامی معاشرے کو اس وقت ہوا جب ساتویں صدی میں تاتاریوں نے عالم اسلام کے مرکز وں پر قبضہ کرلیا، اور مسلمان سیاسی طور پر ان کے مفتوح اور زیرنگیں ہوگئے، اس وقت اگرچہ مسلمانوں کی حیثیت فاتح کے بجائے مفتوح اور غالب کے بجائے مغلوب کی تھی ، مگر خوش قسمتی سے یہ مغلوبیت صرف سیاسی نوعیت کی تھی، انہیں اس وقت جس فاتح سے سابقہ پڑا، وہ علم وفن کے ہر میدان میں مفلس اور تہی دست تھا، نہ اس کے پاس کوئی فلسفہ تھا، نہ تہذیب، وہ تمدن وحضارت سے قطعی ناآشنا ایک صحرا نشین اور جنگجو قوم تھی جس نے کبھی تہذیب وتمدن کی شکل تک نہ دیکھی تھی، اس لئے یہاں بجائے اس کے کہ مفتوح قوم فاتح کا اثر قبول کرتی، الٹا فاتح نے مفتوح کا اثر قبول کیا، اور تاتاری قوم سیاسی طور پر غالب آجانے کے بعد کچھ ہی عرصے میں اسلام کے رنگ میں پوری طرح رنگ گئی ، یہاں تک کہ وہ اسلام کی پر جوش علمبردار بنی، اور ؎
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
نتیجہ یہ ہواکہ تہذیبوں کے تصادم کے اس دوسرے تجربے نے بھی اسلام کی دلکش عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، اور اس ٹکراؤ سے بھی تجدّد کی کوئی تحریک رونما نہیں ہوئی۔
تہذیبوں کے ٹکراؤ کا تیسرا تجربہ وہ ہے جس سے ہم آج تک گذر رہے ہیں، عالم اسلام میں ہر جگہ نئی مغربی تہذیب اسلامی طرزِ زندگی سے ٹکرارہی ہے، لیکن ہماری شومیٔ اعمال سے یہ تیسرا تجربہ پہلے دونوں تجربوں سے یکسر مختلف ہے، اس وقت ہمارے مقابلے پر جو قوم ہے اسے سیاسی میدانوں میں ہم پر بالادستی بھی حاصل ہے، اور اس کے پاس ایک نظر فریب اور بظاہردلکش تہذیب بھی ہے، اور اس کی پشت پر ایک غلط یا صحیح فلسفہ بھی، دوسری طرف نہ تو ہم خود اعتمادی ، ایمان اور یقین کا وہ جوہر رکھتے ہیں جو ہمارے اسلاف کو حاصل تھا، نہ ہمارے پاس وہ جوشِ عمل کی دولت ہے ، جس سے ہمارے بزرگ مالامال تھے، اور نہ ہمارے پاس وہ خارا شگاف تلوار ہے جس کی جھنکار نے کبھی قیصر وکسریٰ کے تخت وتاج الٹ کر اس فضائے بسیط کو توحید کے نعروں سے معمور کردیا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں ہمارے نوجوانوں کے ذہن مرعوب ہیں ، ان کے حوصلے پست ، ہمّتیں شکستہ اور ولولے سرد ہیں، اور ان کا دل ودماغ احساس کمتری کے اُس مہلک روگ میں مبتلا ہے جو کسی قوم کے زوال کی آخری علامت ہوتا ہے۔ چنانچہ کمتری کا یہ احساس آج سے ایک صدی پیشتر تجدّد کی تحریک کو جنم دے چکا ہے، جو وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ آکاس بیل کی طرح عالم اسلام پر چھاتی جارہی ہے۔ اور زیر نظر مقالے میں ہم اسی سے بحث کرنا چاہتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :صفر المظفر ۱۴۴۶ھ)