بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین

"المدونۃ الجامعۃ "کی اشاعت

علماء اور محققین کے لئے ایک پر مسرت واقعہ
دارالعلوم کراچی میں تدوین احادیث کا جو اہم کام پچھلے پندرہ سال سے جاری تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پچھلے مہینے اس کا ایک اہم مرحلہ مکمل ہوکر "المدونۃ الجامعۃ للأ حادیث المرویۃ عن النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم” کے نام سے پہلی جلد کی شکل میں شائع ہوگیا ہے۔ اب تک دارالعلوم میں یہ کام الحمد للہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ کسی تشہیر کے بغیر جاری تھا، اور اسکا کوئی تعارف بھی شائع نہیں کیا گیا تھا۔ اب جبکہ اسکی پہلی جلد بفضلہ تعالیٰ منظر عام پر آگئی ہے، تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اہل علم کے سامنے اس منصوبیکا مختصر تعارف پیش کردیا جائے۔اس لئے ذیل میں اسکا پورا پس منظر اور اسکی تفصیل پیش خدمت ہے۔


اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس امت نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی احادیث کی جو خدمت کی ہے، اسکی کوئی نظیر کسی بھی مذہب وملت میں موجود نہیں ہے۔ احادیث کے سینکڑوں مجموعے مختلف اندازواسلوب سے تیار کئے گئے ہیں، جن میں سے ہر ایک افادیت کا حامل ہے۔ پھر احادیث کو ان مجموعوں میں تلاش کرنے کے لئے بھی ہر دور میں بڑی عظیم الشان خدمتیں انجام دی گئی ہیں جنکی تفصیل اہل علم کومعلوم ہے۔اور اب کمپیوٹر کے دور میں احادیث کو تلاش کرنے کے لئے بھی مختلف پروگرام وضع کئے گئے ہیں جنکی اہمیت ناقابل انکار ہے۔لیکن حدیث پاک کی خدمت ایک ایسا موضوع ہے جس میں نئے نئے گوشے اب بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
تقریباً پندرہ سال پہلے میرے ایک دوست نے (جو اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے) میرے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ کسی طرح تمام احادیث پر ایسے نمبر پڑجائیں جو عالمی طورپر مسلم ہوں۔ اس وقت اگر کسی حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، تو جس کتاب میں وہ مروی ہے، اسکے یا تو صفحات نمبر کا حوالہ دیا جاتا ہے، یا جن احادیث پر نمبر ڈالے گئے ہیں، اس کتاب کے لحاظ سے اسکا نمبر ذکر کیا جاتا ہے، لیکن نسخوں کے اختلاف سے بکثرت ان میں تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے، اس لئے وہ حوالہ بسااوقات حدیث نکالنے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔پھر احادیث کی تخریج کے وقت بہت سی کتابوں کا ذکر کرنا ہوتا ہے، پھر بھی بعض کتابوں کی روایت چھوٹ جاتی ہے۔ تجویز یہ تھی کہ بلا تشبیہ جس طرح قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دینے کے لئے سورت نمبر اور آیت نمبر کا حوالہ دیدینا کافی ہوتا ہے،اور یہ نمبر نسخوں کے اختلاف سے بدلتا نہیں ہے،اسی طرح کسی حدیث کا حوالہ دینے کے لئے صرف حدیث نمبر کا ذکر دینے سے اس حدیث کی تمام تفصیلات یکجا دستیاب ہوجائیں۔
مجھے ذاتی طورپر یہ تجویز پسند آئی، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر عمل کے لئے ضروری تھا کہ احادیث کا ایک نیا مجموعہ تیار کیا جائے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تمام احادیث کا استقصاء کر کے احادیث پر عالمی نمبر ڈالے جائیں۔اب تک احادیث کے جتنے مجموعے تیار ہوئے ہیں، ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس میں احادیث کی تمام روایتوں کا استقصاء کیا گیا ہے، اس لئے اس کام کی اہمیت کے ساتھ اسکا حجم اور اسکے متعلق مسائل اتنے زیادہ تھے کہ اسکے تمام پہلؤوں پر علماء کی کسی مجلس میں غور کرنا ضروری تھا۔ اس لئے جن صاحب نے یہ تجویز پیش کی تھی، انہوں نے چاہا کہ اس موضوع پر ان علماء کی ایک مجلس منعقد کی جائے جو علم حدیث اور فہارس کے کام کا تجربہ رکھتے ہیں، چنانچہ انہوں نے۵ اور۷ رمضان المبارک سن۱۴۲۲ہجری کو مکہ مکرمہ میں ایک اجتماع منعقد کیا جس میں راقم الحروف اور حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم کے علاوہ حضرت مولانا ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب، شیخ یوسف قرضاوی صاحب، ڈاکٹر عبدالملک بن بکر القاضی (صاحب دیوان السنن والآثار)، شیخ محمود الطحان، ڈاکٹر عبدالستار ابو غدہ اور شیخ نظام یعقوبی نے شرکت کی۔سب نے اس تجویز کو پسند کر کے اس کے مختلف پہلؤوں کا جائزہ لیا۔ اجتماع کے دوران کام کے مختلف طریقوں پر گفتگو ہوئی، متعدد تجویزیں سامنے آئیں۔آخر کار ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب کی تجویز پر یہ طے ہوا کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے بھر وسے پر دارالعلوم کراچی میں بندہ کی نگرانی میں سادگی سے شروع کردیا جائے۔
اس طرح دارالعلوم کراچی میں ایک مستقل شعبہ "موسوعۃ الحدیث” کے نام سے قائم کیا گیا، اور اسکے منہج عمل کو طے کرکے مولانا نعیم اشرف صاحب کو اس شعبے کا ناظم مقرر کیا گیا۔ دارالعلوم ہی کے قابل فضلاء پر مشتمل ایک مختصر جماعت تشکیل دی گئی، اور اس نے پندرہ سال پہلے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر محدود وسائل کے ساتھ کام شروع کردیا۔ شروع میں مختلف تجربات کے بعد یہ طے کیا گیا کہ اس مدوّنہ میں حدیث کی تمام دستیاب کتب کا احاطہ کیا جائے، تاکہ تمام دستیاب احادیث اور انکے مختلف طرق کو یکجا کرکے احادیث پر نمبر لگائے جا سکیں۔ چنانچہ کام کا منہج یہ مقرر کیا گیا کہ حدیث کی اسّی (۸۰) کتابوں سے تو انکی تمام احادیث سند اور متن کے ساتھ لی جائیں، اور انکے تمام طرق کو بھی ذکر کیا جائے، کیونکہ یہ اسّی کتابیں وہ ہیں جن کا حوالہ بکثرت آتا ہے، اور احادیث کا بیشتر ذخیرہ انہی کتابوں میں موجود ہے اور ان کے مؤلفین نے اپنی سند سے احادیث کو ذکر کیاہے۔ان اسّی کتابوں کے علاوہ بھی بہت سی کتب حدیث ہیں جن کے مؤلفین اپنی سند سے احادیث ذکر کرتے ہیں(ایسی کتب حدیث کی تعداد اب تک سات سو انیس ۷۱۹ تک پہنچ چکی ہے) ان کا بھی بالاستیعاب تصفح کیا جائے، اور ان کتب میں سے صرف وہ احادیث (افراد)منتخب کی جائیں جو مذکورہ بالا اسّی کتابوں میں موجود نہ ہوں۔ دونوں صورتوں میں مختلف طرق کے متن میں اگر کوئی اہم اختلاف ہو، تو اسے بھی ذکر کیا جائے۔ اور انکی اسنادی حیثیت کے بارے میں اگر متقدمین کی رائے دستیاب ہو تو اسے بھی بیان کیا جائے۔
مذکورہ سات سو ننانوے (۷۹۹)کتابوں کے مطبوعہ اور مخطوطہ نسخوں کی مراجعت کی گئی،بہت سی احادیث ایسی بھی ملیں جو ان کتابوں کے دستیاب نسخوں میں موجود نہیں ہیں، لیکن کتب تخریج، شروح حدیث یا تفسیر وغیرہ کی کتابوں میں وہ ان میں سے کسی کتاب کے حوالے سے منقول ہیں، اس لئے ایسی احادیث کو شامل کرنے کے لئے کتب تخریج، شروح حدیث یا تفسیر وغیرہ کا بھی فی الجملہ جائزہ لیا گیا، ایسی کتابوں کی تعداد ایک سو گیارہ (۱۱۱) ہے۔ اس طرح تمام وہ مصادر جن سے احادیث لی گئی ہیں، انکی مجموعی تعداد اس وقت تک نو سو دس (۹۱۰)ہے۔
اس پر غور کیا گیا کہ کتاب کو احادیث کے حروف تہجی کی ترتیب پر مرتب کیا جائے، یا ابواب کی ترتیب پر۔پھر یہ طے پایا کہ احادیث، اور خاص طورپر فعلی احادیث کے مختلف طرق کے متن چونکہ مختلف ہوتے ہیں، اس لئے حروف تہجی کی ترتیب مفید نہیں ہوگی۔ چنانچہ کتاب کو ابواب ہی کی ترتیب پر مرتب کیا جارہا ہے البتہ ابواب کے عنوانات قائم کرنے میں اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان پر کسی خاص فقہی یا کلامی مکتب فکر کی چھاپ نہ ہو۔ اور طریق کار یہ ہے کہ ہر باب کے تحت احادیث کے ایسے طریق کو "حدیث مختار” قرار دیا جاتا ہے جو سند کے اعتبار سے دوسرے طرق سے زیادہ قوی ہو، اور اسے پوری سند کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔اسکے بعد وہ حدیث اگر کسی طریق میں سب سے زیادہ جامع سیاق میں آئی ہو،اس کو "الطریق الأجمع” کے عنوان سے سند کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے جس سے بسااوقات اس حدیث کا پورا پس منظر سامنے آجاتا ہے۔ پھر جس صحابی سے وہ حدیث مروی ہے، اس کی روایات کے تمام طرق جس جس حدیث کی کتاب میں آئے ہوں، ان سب کو ذکر کیا جاتا ہے، اور اگر ان میں الفاظ کا کوئی اہم اختلاف ہو، تو اسے بھی بیان کیا جاتا ہے۔پھر "حدیث مختار”کو ایک عالمی نمبر دیدیا جاتا ہے۔ پھر بسااوقات ایک ہی حدیث کا متن ایک سے زیادہ صحابۂ کرام ؓ سے مروی ہوتا ہے، تو ان تمام صحابۂ کرام کی احادیث کو "شاہد” کے طورپر ذکر کرکے انکو ایک فرعی نمبر دیدیا جاتا ہے۔ مثلاًکتاب کو حدیث "إنما الأعمال بالنیات”سے شروع کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا سب سے صحیح طریق وہ ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے۔ چنانچہ اسے "حدیث مختار” قرار دیکر اسے سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، پھر اسکے جتنے طرق صحیح بخاری ہی میں دوسری جگہ یا حدیث کی دوسری کتابوں میں مروی ہیں، انہیں الفاظ کے اختلاف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح اس حدیث کے مختلف طرق کتابوں سے ذکر کئے گئے ہیں۔اور اس حدیث اور اسکے تمام طرق کو نمبر ایک دیا گیاہے۔ پھر یہی حدیث امام ابو نعیم ؒ کی حلیۃ الأولیاء میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے، اسے ایک فرعی نمبر دیکر1/1 قرار دیا گیا ہے، پھر یہی حدیث طبرانیؒ کی معجم کبیر میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، اسے2/1 نمبر دیا گیا ہے۔یہی حدیث ابن عساکرؒ کی تاریخ دمشق میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے، اسے3/1 نمبر دیا گیا۔ حاکمؒ کی تاریخ نیشاپور میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، اسے4/1 نمبر دیا گیا، محمدبن یاسر الجیانی ؒ نے یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے، اسے5/1 نمبر دیا گیا۔ تاریخ حاکمؒ میں یہ حدیث حضرت ہزال بن یزید اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اسے5/1 نمبر دیا گیا۔ ابن بکارؒ کی "أخبار المدینۃ” میں یہ محمدبن ابراہیم بن حارث ؒ سے مرسلاً مروی ہے، اسکا نمبر7/1 قرار دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث جتنے دستیاب مصادر میں جہاں کہیں مروی ہے، اسکی پوری تفصیل موجود ہے۔ اب اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے حدیث نمبر ایک کہدینا کافی ہے، اور اس مدوّنہ میں پہلے نمبر پر وہ اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ یکجا دستیاب ہو جائیگی۔
مجوزہ خاکہ کے مطابق جب اس کام کا ابتدائی حصہ تیار ہوا تو مناسب سمجھا گیا کہ اس کام کو مذکورہ بالا علماء کی مشاورتی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے لہذا اس مقصد کیلئے مولانا نعیم اشرف صاحب نے تیار شدہ کام کو اس کمیٹی کے اراکین کی خدمت میں پیش کیا جس کو ان حضرات نے پسند ومنظور کیا۔ البتہ اس موقعہ پر ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب نے یہ مفید مشورہ دیا کہ اس سارے کام کو ابھی سے کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے اس لحاظ سے بہت وقیع محسوس ہوئی کہ اس سے نہ صرف کام کے دوران مدد ملے گی بلکہ تکمیل کے بعد مختلف پلیٹ فارمز پر اس کی اشاعت آسان ہوجائے گی۔
چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی اس تجویز پر عمل در آمد شروع کردیاگیا اور مولانا نعیم اشرف صاحب نے احادیث کی ڈیٹا انٹری کے لئے ایک جامع کمپیوٹر سافٹ ویئر کا خاکہ تیار کیا جس کے ذریعہ اس منصوبے کے تمام مقاصد کو عمدہ طریقہ سے حاصل کیا جاسکے جن میں ڈیٹا بیس کی تیاری اور کتابی شکل میں اور مستقبل میں انٹر نیٹ پر اشاعت بھی شامل تھی۔
الحمد للہ دینی جذبہ سے سرشاربعض کمپیوٹر پروگرامرز نے (جن میں ماس آئی ٹی کے جناب محمد علی صاحب اور جناب محمد یاسر جسیم صاحب – اللہ تعالی انہیں جزائے خیر عطاء فرمائیں-سرفہرست ہیں) مولانا نعیم اشرف صاحب کے تیار کردہ خاکے اور ہدایات کے مطابق ایک جامع کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کردیا جس کی مدد سے اب یہ عظیم الشان کام انجام دیا جارہا ہے۔
الحمد للہ تعالیٰ اب تک مختلف ابواب کے تحت جن احادیث پر کام مکمل ہوا ہے،انکی تعداد سترہ ہزار دو سو بانوے (۲۹۲,۱۷)ہے، جن میں سترہ ہزار چار سو باون (۴۵۲,۱۷) شواہد ہیں، اور انکے مختلف طرق جنکا ذکر کیا گیا ہے انکی مجموعی تعداد تین لاکھ اڑتیس ہزار آٹھ سو پینتیس (۸۳۵,۳۸,۳) ہے ۔
اسکے بعد کام مسلسل جاری ہے، احادیث اور طرق کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن فی الحال کام کی پہلی جلد جو پوری "کتاب الایمان” پر مشتمل ہے جس میں موجود احادیث کی تعداد چار سو پینتالیس (۴۴۵) جبکہ شواہد کی تعداد پانچ سو سات (۵۰۷)اور طرق کی مجموعی تعداد نو ہزار دو سو چھیاسی (۲۸۶,۹) ہے ، بیروت کے نشری ادارے "دارالقلم” کے تعاون سے طباعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کردی گئی ہے، اور اب انشاء اللہ دوسری جلدیں بھی ممکنہ تیزرفتاری سے شائع ہونے کی امید ہے۔ جن باحثین اورمحققین نے مولانا نعیم اشرف صاحب کے زیر قیادت یہ خدمت انجام دی ہے، وہ سب دارالعلوم کراچی کے فضلاء ہیں، اور انکے نام یہ ہیں:
مولانا مکرم حسین اختر، مولانا محمد عباس دیروی، مولانا عبدالرحمن اویس مرغزی، مولانا محمود حسن کملائی، مولانا عنایت الرحمن وحید، مولانا عبدالرحمن حمیدی، مولانا عبدالعزیز سندھی، مولانا محمد تیمور مرغزی، مولانا عبیداللہ انور ملتانی، اور مولانا محمد طیب حسینی۔
ان حضرات نے جس لگن، عرق ریزی اور قناعت کے ساتھ یہ کام کیا ہے، اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ انکی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول عطا فرمائیں، اور اگلے کام کے لئے توفیق مزید سے نوازیں، آمین۔
راقم الحروف نے کام کی ایک ایک حدیث اور ایک ایک طریق کی مراجعت کی ہے، اور مشورے دئیے ہیں، اور اس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے یہ کام جو بڑی بڑی اکیڈمیوں کا کام تھا، سادگی کے ساتھ انجام پار ہا ہے۔ قارئین سے اس دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسے صدق واخلاص کے ساتھ بعافیت پایۂ تکمیل تک پہنچائیں، کیونکہ اب بھی جو کام باقی ہے، اسکا حجم بہت بڑا ہے، اور اندازہ یہ ہے کہ کام کی تکمیل کم ازکم چالیس جلدوں تک جائیگی، اور ہوسکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ۔ اس وقت پہلی جلد شائع کرنے کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ بہرحال یہ ایک بشرِی کوشش ہے، اوراس میںفِروگزاشتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اہل علم اور خاص طورپر علم حدیث سے مناسبت رکھنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ اس کوشش کا جائزہ لیکر اگر کوئی مفید مشورے ذہن میں آئیں، تو ان سے مطلع فرمائیں۔ فی الحال بیروت سے بہت محدود تعداد میں نسخے ہوائی جہاز کے ذریعے پہنچے ہیں، اور باقی بحری جہاز سے منگوائے جارہے ہیں جنکے پہنچنے میں ایک دو مہینے لگ سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس متواضع کوشش میں برکت عطا فرماکر اسے حدیث پاک کی خدمت کا ایک اہم سنگ میل بنادیں، اور یہ آنے والی نسلوں کے لئے حدیث کے جامع ترین مرجع کی حیثیت اختیار کرلے۔ آمین ثم آمین۔

محمد تقی عثمانی
۱۲ محرم الحرام ۱۴۳۹ھ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭