اب ہمیں کیا کرنا چاہیے
۶/ستمبر سے لے کر ۲۲ ستمبر تک کے سترہ دن پاکستان کی تاریخ میں بالکل منفرد نوعیت کے حامل تھے، پچھلے اٹھارہ سال میں ہم پر اتنی صبر آزما، مبارک ومسعود، نازک اور پرمسرت گھڑی پہلے کبھی نہ آئی تھی۔ پاکستان پر بھارت کا اچانک حملہ بلاشبہ ہمارے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی، لیکن ایک ایسی آزمائش جو مسلمان کے لئے تشویش اور اضطراب کے بجائے مسرت اور شادمانی کا پیغام لاتی ہے، سالہا سال کے بعد زمین وآسمان کی نگاہوں نے یہ حسین منظر دیکھا تھا کہ توحید کے فرزند خالق کائنات کی عظمت کے نعرے بلند کرتے ہوئے کفر سے ٹکرا رہے تھے، اسی جذبہ ایمان ، اسی ذوق شہادت اور اسی شوق جانثاری کے ساتھ ایک بار پھر آگ اور لوہے کی چٹانوں نے طاقت نے نشے میں جھوم کر مسلمان کے جذبہ ایمان کو للکارا تھا۔ اور مسلمان کے جذبہ ایمان نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ میدان کارزار میں فتح کا دارومدار فوجوں کی کثرت، اسلحہ کی بہتات اور سازوسامان کی فراوانی پر نہیں ہوتا، اس کے لئے خدا پر مکمل ایمان اور بھروسے کی ضرورت ہے۔ دل میں امڈتے ہوئے بے تاب ولولوں کی ضرورت ہے اور اس ذوق شہادت کی ضرورت ہے جو انسان کو آگ میں کودنے اور خون میں نہانے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔
لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر ہمارے جانبازوں نے سرفروشی اور جان سپاری کی تاریخ میں ایک ایسے تابناک باب کا اضافہ کیا ہے جو رہتی دنیا تک اس حقیقت کی تائید کرتا رہے گا کہ
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اپنے سے پانچ گنی زیادہ فوج کے سامنے عزم واستقلال کے جن کارناموں پر آج پوری دنیا حیرت میں ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہماری یہ فتح اس قادر مطلق کا ایک غیبی انعام تھی جو تین سو تیرہ کو ایک ہزار پر فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ہمارا دشمن ہم سے کئی گنی زیادہ فوج، بہترین اسلحہ اور لاؤ لشکر کا مالک تھا اور ہماری ظاہری قوت اس سے کہیں کم تھی اور یہ خالص اﷲ تعالی کا کرم ہے کہ ایک طرف اس نے ہمارے جانبازوں کو آگ کے سمندر سے کھیلنے اور شعلہ بار توپوں کے سامنے کوہ گراں بن جانے کا حوصلہ عطا فرمایا۔ اور دوسری طرف ہمارے تمام باہمی اختلافات کو مٹاکر ہمیں ایک ہی جسم وجان کی طرح متحد کردیا اور جب صدر پاکستان اپنے دس کروڑ عوام کو لا الہ الا اﷲ کا واسطہ دے کر پکارا تو درہ خیبر سے لے کر قاسیا جنتا کے دامن تک پوری قوم ایک آہنی دیوار بن گئی جس سے ٹکرا کر دشمن خود اپنا سر پھوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہ کرسکا۔
یہ اﷲ تعالی کا وہ کرم ہے جس کی ہماری بد اعمالیوں کے پیش نظر کوئی توقع نہ تھی اور اگر ہمارا ہر رونگٹا زبان بن کر مدۃ العمر اس نعمت پرشکر ادا کرے تو حق شکر ادا نہیں ہوسکتا۔
اس فتح کے بعد جو اسلام کے ایک معجزہ سے کم نہیں ہے آج جنگ بند ہوچکی ہے، پاکستان نے سلامتی کونسل کی قرارداد منظور کرکے اسے مسئلہ کشمیر کے پر امن تصفیہ کا ایک اور موقع دیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ سکتے ہیں۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس وقت کو غنیمت سمجھ کر اپنی سرگرمیوں کو اور تیز کردیں اور خدا نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے جو فتح عطا فرمائی ہے اس پر شکر بجالاتے ہوئے اپنی زندگی میں ایک ایسا حسین انقلاب برپا کریں جو ہمیں اس کی مزید رحمتوں کا مستحق بنادے۔
ہم نے جنگ بندی کے بعد سے اپنی جدوجہد کے ایک نئے دور میں قدم رکھا ہے اور اس موقع پر اقبال کی روح ہم سے پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ سپر از دست میندار کہ جنگ است ہنوز۔
ہم نے ان سترہ دنوں میں جو جنگ لڑی ہے وہ ملک گیری کی ہوس اقتدار کی خواہش یا مال و دولت کی تمنا میں نہیں لڑی ہماری جنگ اسلام اور کفر کی جنگ تھی، حق اور باطل کی جنگ تھی، انصاف اور ظلم اور آزادی اور استبداد کی جنگ تھی، ہم حق پر تھے اور ہم نے ایک معقول اصول کی خاطر تلوار اٹھائی تھی، یہ جنگ آج بظاہر بند ہوچکی ہے لیکن درحقیقت اسلام اور کفر اور حق وباطل کی جنگ کبھی بند نہیں ہوتی، ہمارا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہے جو کسی اخلاقی اصول کا پابند نہیں ہے وہ ایک اژدہا ہے جس کے منہ کو ملک گیری کا خون لگ چکا ہے۔ ہر مرتبہ اپنے ایک نئے قطعہ زمین کو نگلنے کے بعد اس کی بھوک میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتاہے جنگ بندی کے معاہدے اقوام متحدہ کی قراردادیں اور دنیا بھر کی لعنت ملامت اسے شرم دلانے کے لئے کبھی کافی نہیں ہوتیں۔ ہم جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے بعد اس کی شرانگیزیوں سے مامون نہیں ہوئے اس لئے اب تک ہمارے ۵۰ لاکھ بھائیوں کو غلامی کے شکنجے میں کسا ہوا ہے جب تک ان پر سے غلامی کی یہ زنجیریں نہیں کٹ جاتیں ہمیں چین نہیں آسکتا اور حالات کے تیور یہ بتلاتے ہیں کہ ان زنجیروں کو کاٹنے کے لئے ہمیں ناحق تدبیر کے بجائے نوک شمشیر کو کام میں لانا پڑے گا۔
اس لئے ہماری ذمہ داری جنگ بندی کے اس معاہدہ پر ختم نہیں ہوجاتی، ہمارے جانباز مجاہدوں میں سے جنہوں نے خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں اور جنہوں نے ہمیں چین کی نیند سلانے کے لئے آگ اگلتی ہوئی توپوں کے سامنے سینہ سپر کئے ہیں ان کا ہم پر ایک حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ ہم ان کے خون کے ہر قطرے کو اپنے لئے چراغ راہ بنالیں اور اس کی روشنی میں اس منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں جس کی جستجو میں ان مقدس شہیدوں نے اپنے سردھڑ کی بازی لگائی ہے۔ گزشتہ سترہ دن کی جنگ نے ہمیں اتنے سبق دیئے ہیں کہ وہ پچھلے سترہ سالوں میں بھی حاصل نہیں ہوئے تھے۔ ان شہیدوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ اس جنگ سے حاصل ہونے والے سبق کو ایک باشعور قوم کی طرح اپنی آئندہ زندگی کی بنیاد بنائیں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔
پہلا سبق
اس جنگ کا دیا ہوا سب سے پہلا اور سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا سنگ بنیاد لا الہ الا اﷲ کا زمزمہ بار کلمہ ہے جس کا واسطہ دے کر ہمارے صدر محترم نے پشاور سے لے کر سلہٹ تک کے ایک ایک فرد کے خون میں حرارت پیدا کردی تھی۔ یہی کلمہ ہماری فتح وکامرانی، ہماری ترقی وسربلندی، ہماری خوشحالی وسرفرازی اور ہمارے نظم واتحاد کا راز ہے۔ ہم اس مقدس کلمہ سے جس قدر قریب ہوں گے اسی قدر ہماری قوت وشوکت میں اضافہ ہوگا اور جتنا اس سے دور ہوں گے اتنے ہی پستی اور زوال سے قریب ہوجائیں گے۔ ہماری تمام تر عظمتوں کا راز اسلام کی اس شاہراہ پر چلنے میں ہے جس وہمیں ہمارے آقائے نامدار سرکار دو عالم محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دکھائی تھی اسی شاہراہ پر چل کر ہم نے اس کائنات میں شوکت و عظمت حاصل کی اور عظمت وترقی کی یہی شاہراہ ہمیں افریقہ کے ریگستانوں اور اندلس کے مرغزاروں تک لے گئی۔
ہم اس جنگ کے دوران بار بار اپنے اسلام کے کارناموں کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔ ہم کہتے رہے ہیں کہ ہم ان بزرگوں کی اولاد ہیں جن کی تلواروں کی جھنکار اور تکبیروں کی گونج نے دنیا کی عظیم طاقتوں کو لرزہ براندام کردیا تھا۔ ہم بار بار یہ دہراتے ہیں کہ ہم خالد بن ولید، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، اور احمد شاہ ابدالی کی اولاد ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انکی حیرت انگیز فتوحات کا راز بھی یہی مقدس کلمہ تھا جسے انہوں نے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں رچاکر دنیا کی عظیم طاقتوں سے ٹکر لی تھی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی فتوحات ان کی تلوار سے زیادہ ان کے کردار کا نتیجہ تھیں۔ انہوں نے جہاں دنیا سے اپنی شہسواری اور بہادری کا لوہا منوایا تھا وہاں انہوں نے اپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کی عملی تفسیر بناکر تاریخ کے وہ عظیم کردار بھی پیش کئے تھے جن کی مثال دیکھنے کو آج نگاہیں ترستی ہیں۔
ہم اگر چاہتے ہیں کہ خدا کی جو رحمتیں ان کے شامل حال تھیں ان سے ہم بھی حصہ حاصل کریں تو ہمیں بھی اسلام کی اسی شاہراہ پر چلنا ہوگا جس پر یہ حضرات چلے تھے۔ اس راستے کو اختیار کئے بغیر ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان اسلاف کا نام لیں اور قدرت نے انہیں اپنے جن انعامات سے سرفراز کیا تھا ان کی توقع رکھیں۔
موجودہ جنگ میں اﷲ تعالی نے ہماری سابقہ بداعمالیوں کے باوجود ہم پر اپنے فضل وکرم کی جو بارش فرمائی ہے وہ ہمیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ کرے۔ یہ اﷲ تعالی کی ایک رحمت تھی لیکن یاد رکھئے کہ قدرت کسی ناشکرگزار قوم کو بار بار اپنے انعامات سے سرفراز نہیں رکھتی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خدا کی یہ رحمت برابر متوجہ رہے تو ہمیں اس نعمت پر شکر ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی کو یکسر بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنی زندگی کے ہر شعبے میں وہ خوشگوار انقلاب لانا ہوگا جو ہمیں خدا کی مزید رحمتوں کا مستحق بنادے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سترہ دنوں میں پوری قوم کے اندر ایک ایسا دینی جذبہ پیدا ہوگیا تھا جو شاید ہماری اٹھارہ سالہ تاریخ میں اپنی مثال آپ تھا۔ اس دوران خدا کی طرف ہمارا رجوع بڑھا ہماری تمام دینی اور اخلاقی صفات نے حیرت انگیز ترقی۔ رقص وموسیقی کے مراکز ویران ہوگئے۔ فحاشی وعریانی میں کمی آئی، تاجروں نے نہ صرف یہ کہ چور بازاری، گراں فروشی اور بددیانتی سے توبہ کرلی بلکہ قابل تعریف ایثار سے کام لیا۔ سرکاری دفاتر میں رشوت ستانی اور کام چوری ختم ہوگئی اور ہر فرد اپنے فرائض کو دل وجان سے ادا کرنے میں منہمک نظر آنے لگا جو ریڈیو صبح سے شام تک فلمی گیت سنایا کرتا تھا اب اس پر اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام اور مجاہدوں کے تذکرے سنائی دینے لگے۔ غرض ہمارے ہر شعبہ زندگی میں ایک نمایاں دینی تبدیلی پیدا ہوئی۔ یہ سراسر اس جہاد کی برکت تھی جس کی ایک رات کو سرکار دو عالم نے ستر سالہ عبادت سے افضل قرار دیا ہے لیکن اب ہمارا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ ہم اس دینی جذبے کو پروان چڑھانے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں اور جہدوعمل کی جس مقدس راہ پر ہم نے قدم بڑھایا ہے اس پر آگے بڑھتے چلے جائیں ایسا نہ ہو کہ یہ مقدس جذبہ جسے بم دھماکوں اور توپوں کی گھن گرج نے بیدار کیا ہے طاؤس ورباب کی تانوں میں کھوجائے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم نے اپنی زندگی کے ایک بالکل نئے دور میں قدم رکھا ہے اور ہماری تمام پچھلی برائیاں جہاد کی بھٹی میں سلگ کر ختم ہوچکی ہیں۔ اب ہمیں یہ چاہیے کہ اپنے ایک ایک فعل پر نظر ثانی کریں اور یہ دیکھیں کہ ان میں سے کوئی کام اس خدا کی مرضی کے خلاف تو نہیں ہورہا جس سے ہم فتح ونصرت کی امید رکھتے ہیں یہ ایک اہم ترین سبق ہے جو اس جنگ نے ہمیں دیا ہے اور اگر ہم نے ایک باشعور قوم کی طرح درس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی زندگی کے فرسودہ ڈھانچے کو بدل ڈالا تو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان شاء اﷲ زندگی کے ہر مرحلے پر ہم فتح ونصرت سے ہمکنار ہوں گے اور جس منزل کی طرف ہم نے قدم بڑھایا ہے وہ ہمیں مل کر رہے گی۔ اور ہم ترقی کی منزلوں کو تیز رفتاری سے طے کرسکیں گے اور اس سے ان شہیدوں کی روحوں کو قرار آئے گا جنہوں نے اپنے خون سے اس ملک کی آبیاری کی ہے خدا کا ہم سے یہ وعدہ ہے کہ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں
(باقی کل)<