حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

آہ! مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا


الحمد ﷲ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد خاتم النبیین وإمام المرسلین وقائد الغرّ المحجّلین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، وعلی کل من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین۔

خوش در خشید ولے شعلہ مستعجل بود الحمد للہ وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد!
آج سے تقریباً پچیس سال پہلے کی بات ہوگی کہ ہمارے دار العلوم کے ایک ہونہار نوجوان استاد مولانا اقبال صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ جو نوخیز علماء صاحب صلاحیت ہوتے ہیں، ہمارے ماحول میں ان کی قدر افزائی کا مطلوب اہتمام نہیں ہوتا، جس کے نتیجہ میں ان کی صلاحیتوں سے امت کو اتنا فائدہ نہیں پہنچتا جتنا پہنچنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ذکر کیا کہ جامعہ فاروقیہ سے ایک باصلاحیت عالم فارغ التحصیل ہوئے ہیں، اُن کا نام ”نظام الدین“ ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مضبوط علمی استعداد کے ساتھ جذبہ خدمت دین سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا ہے، وہ آپ سے کسی وقت ملنا بھی چاہتے تھے، میں نے عرض کیا کہ قحط الرجال کے اس دور میں ایسے حضرات تو گراں قدر نعمت ہیں مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوگی۔
چناں چہ ایک دن بعد ظہر میں دارالعلوم کے کتب خانہ کی قدیم عمارت میں”تکملة فتح الملہم“ کی تالیف کا کام کررہا تھا کہ مولانا اقبال صاحب اس نوجوان کو میرے پاس لے آئے، جنہیں آج ہم ”مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ“ کے نام سے جانتے ہیں، ان دنوں دارالعلوم کے کتب خانہ کی عمارت بڑی بوسیدہ اور خستہ حال تھی، الماریاں بھی انمل بے جوڑ قسم کی تھیں اور انہی الماریوں کے بیچ میں ایک چھوٹی سی دری بچھا کر میں نے اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا رکھی تھی، جس کے دونوں طرف تپائیوں کے ڈھیر رکھے ہوئے تھے، لہٰذا اس جگہ کسی مہمان کے خاطر خواہ اکرام کی گنجائش نہ تھی، مولانا نظام الدین صاحب مسکراتے چہرے کے ساتھ تشریف لائے اور میری خستہ حال نشست میں میرے ساتھ بے تکلفی سے بیٹھ گئے، مجھے ان سے ملاقات کر کے نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ ان کے انداز و ادا میں ایک درخشاں مستقبل جھلکتا نظر آیا، ان کی گفتگو تمام تر علمی مسائل سے متعلق رہی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ وہ کوئی علمی اور تحقیقی کام کرنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں انہوں نے مجھ سے مشورہ بھی کیا اور اپنی بساط کے مطابق میں نے انہیں کچھ مشورے بھی دیئے، یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔
بعد میں مولانا جامعہ فاروقیہ میں استاد، مفتی اور مصنف کی حیثیت سے سال ہا سال خدمت انجام دیتے رہے، غالباً ان کی سب سے پہلی کتاب مہدی منتظر کے بارے میں تھی، جس میں انہوں نے ان تمام احادیث کی تحقیق کی تھی جن میں امام مہدی کی تشریف آوری کی خبر دی گئی ہے، اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں یا مقالے میری نظر سے گذرے ہیں، ان کی یہ تالیف ان سب کے مقابلہ میں کہیں زیادہ محققانہ اور مفصل تھی اور میں نے اس سے بڑا استفادہ کیا بعد میں اس کے علاوہ بھی ان کے علمی کارنامے سامنے آتے رہے، اور ان کی بنا پر اپنے عہد کے قحط الرجال کے احساس میں کمی واقع ہوتی رہی۔
جامعہ فاروقیہ کے بعد مولانا جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون منتقل ہوگئے اور وہاں شیخ الحدیث اور صدر مفتی کے طور پر انہوں نے خدمات انجام دینی شروع کیں، اس دور میں خاص طور پر اجتماعی معاملات میں ان کی بے شمار خدمات سامنے آئیں اور ان کی معاملہ فہمی کی صلاحیت آشکار ہوئی، بنوں کے مولانا نصیب علی شاہ صاحب نے بنوں میں پہلی بار بڑے پیمانے پر ایک فقہی مذاکرہ ترتیب دیا، اس موقع پر میں نے پہلی بار ان کی مکمل تقریر سنی جو میرے سابق اندازوں سے کہیں زیادہ فصیح و بلیغ سلجھی ہوئی، پر مغز اور فکر انگیز تقریر تھی۔
اللہ نے اُن سے ملک و ملت کی خدمت کے بہت سے کام لیے، وہ ایک طرف حق گوئی اور حمایت دین کے معاملہ میں کسی مداہنت کے روادار نہ تھے اور دوسری طرف ملک و ملت کے مجموعی مصالح پر بھی ہوش مندانہ نظر رکھنے کے قائل تھے، اُن کی قابلیت اور خدمات نے بہت جلد اُنہیں عوام و خواص میں ہر دل عزیزی عطا کی اور بہت سے نازک اور کڑے مواقع پر حکومت اور بھپرے ہوئے عوام کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا، بالخصوص شاہراہِ ریشم کی بندش مفتی نظام الدین صاحب ہی کی ثالثی کی بنا پر کھل سکی۔
دارالعلوم میں مختلف فقہی مسائل کی تحقیق کے لیے مفتیانِ کرام کا جو اِجتماع منعقد ہوتا، مفتی نظام الدین صاحب اس کے رُکن رکین ہوتے، آخری بار ڈیجیٹل تصاویر کے موضوع پر جو اجتماع ہوا انہوں نے اس میں بڑے اہتمام کے ساتھ شرکت کی، مجلس کو کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے کے لیے ابھی ایک اور اجتماع کی ضرورت تھی، جس کے لیے ایک ذیلی مجلس بھی تشکیل دے دی گئی تھی، لیکن ابھی یہ اجتماع منعقد نہیں ہوپایا تھا کہ دہشت گردی کے عفریت نے اس قیمتی اور ہر دل عزیز شخصیت کو بھی ہم سے چھین لیا۔
میں صبح کے وقت صحیح بخاری کے درس میں مصروف تھا کہ استقبالیہ سے ایک پرچہ موصول ہوا کہ مولانا مفتی نظام الدین شامزئی صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا ہے، پرچہ دیکھتے ہی دل پر بجلی سی گری، ہسپتال لے جانے کی اطلاع سے کچھ اُمید بندھی تھی کہ شاید یہ حملہ پوری طرح کارگر نہ ہوا ہو، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ آس ٹوٹ گئی، معلوم ہوا کہ وہ شہادت سے سرخ رو ہو کر اپنے مالک کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں۔
میں جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون پہنچا تو وہاں ایک خلقت جمع تھی، اُن کے آخری دیدار کا موقع ملا، ظالموں نے اُن پر بے دریغ گولیاں برسائی تھیں، لیکن ان کے چہرے پر چھایا ہوا قابل رشک سکون زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ: فزت ورب الکعبة
مفتی نظام الدین صاحب شامزئی شہیدؒ ان پرستاروں کی طرح تھے جن کی عمر اگر چہ کم ہوتی ہے لیکن ان کی روشنی سے پورا ماحول نہال ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے مقاماتِ قرب میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل اور اجر جزیل سے نوازے اور حق کے جس مشن کی خاطر انہوں نے اپنی جان دی، اسے ہمیشہ سرفراز اور سر بلند رکھے۔ آمین ثم آمین!

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ : جمادی الاولی ۱۴۴۵ھ)

">