رمضان صبرکامہینہ(حصہ سوم)

(حصہ سوم)
الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
دنیاوآخرت کی کامیابی کامدارصبرپرہے
کئی دن سے صبرکے موضوع پربات چل رہی ہے اوراتفاق سے حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ کے جو ملفوظات میں پڑھاکرتاہوں،ان میں اس کاذکرایسے وقت آگیاجبکہ رمضان المبارک چل رہاہے جوکہ صبرکامہینہ ہے،اس لئے گذشتہ بیانات میں اس کے متعلق چندگذارشات پیش کی تھیں اورآج انہی کی کچھ تکمیل کرنامقصودہے۔
صبرکی صفت ہماری زندگی کیلئے ناگزیرصفت ہے،اس کے بغیرہم نہ دنیامیں ٹھیک زندگی گزارسکتے ہیں اورنہ آخرت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کاکوئی راستہ ہے۔
ایک حدیث میں آتاہے،نبیِ کریم ﷺنے فرمایاکہ :
{اَلْجَنَّۃُ حُفَّتْ بِالْمَکَارِہِ}
یعنی جنت ان چیزوں سے گھری ہوئی ہے جن کوانسان کانفس برا سمجھتا ہے۔اس جنت تک پہنچنے کیلئے وہ کام کرنے پڑیں گے جن کونفس اچھانہیں سمجھتا،کیونکہ نفس آرام اورلذت طلب ہے،اس لئے نفس کے خلاف کرنے میں صبرکرناپڑے گا، نبیِ کریم ﷺ نے دعامانگی:
{رَبِّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا وَّاجْعَلْنِیْ شَکُوْرًا}
اے اللہ! مجھے صبرکرنے والااورشکرکرنے والابنا!
صبرکی دُعامصیبت کی دُعانہیں ہے
لوگوں کے دِلوں میں چونکہ صبرکاایک محدودمفہوم ہے کہ کوئی تکلیف اور مصیبت ہوگی،یاکوئی صدمہ ہوگاجس پرصبرہوگاتوگویاصبرکی دعاکرنامصیبت کی دعا کرناہے، یا جیسے کوئی آدمی دعاکرے کہ یااللہ! مجھے صابربنادیجئے،تولوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چاہ رہاہے کہ اس پرکوئی مصیبتیں آئیں جن پروہ صبرکرے۔یہ بات درست نہیں، بلکہ صبرکابہت وسیع مفہوم ہے جس میں اصل صبریہ ہے کہ اللہ کیلئے خواہشات ِنفس کودَبادیا جائے،اوردعامیں یہی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایساصابربنادے کہ میں اللہ تعالیٰ کے اپنے نفس کی ناجائزخواہشات کو دبا سکوںاوران پرقابوپاسکوں۔
ایک دوسری حدیث میں نبیِ کریم ﷺکایہ ارشادہے:
{ مَآ اُوْتِیَ عَبْدٌ نِعْمَۃً اَوْسَعَ مِنْ صَبْرٍ}
کسی بندے کوکوئی نعمت صبرسے زیادہ وسیع عطانہیں فرمائی گئی۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں بے حدوبے شمارہیںلیکن فرمایاکہ صبرکے مقابلے میں کوئی نعمت زیادہ وسیع نہیں ہے۔وسیع کامطلب یہ ہے کہ جس کی ہرجگہ ضرورت ہے اور جس سے ہر جگہ فائدہ پہنچتا ہے، گناہوں سے یہ بچاتی ہے اور طاعات میں یہ معاون ہوتی ہے،تکلیفوں میں سہارادیتی ہے۔
صبرمشقت سے حاصل ہوتاہے
صبرکی یہ نعمت مشق کرنے سے حاصل ہوتی ہے،یعنی چاہے کتناہی ناجائزکام کا دل چاہ رہاہواورکتناہی انسان اس کاعادی ہولیکن تہیہ کرلے کہ اب میں اپنے آپ کواس گناہ سے بچاؤں گاچاہے مجھے اپنے اُوپرکتنی ہی زبردستی کرنی پڑے۔
بعض اوقات آدمی کسی غلط کام کااس قدرعادی ہوجاتاہے کہ وہ یہ سوچنے لگتاہے کہ اس گناہ کوچھوڑنامیرے بس میں نہیں ہے،لیکن اس کاعلاج یہی ہے کہ اپنے نفس کے ساتھ زبردستی کرے۔ایک مرتبہ زبردستی کرکے اگراپنے آپ کو بچالیا تو پہلامرحلہ سرکرلیا، دوسری مرتبہ پھرتقاضاہواتوپھرزبردستی کرلو، اس زبردستی کرنے اور مسلسل کرتے رہنے سے صبرکی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے اورپھررفتہ رفتہ آسان ہوجاتی ہے۔
صاحب ِقصیدہ بردہ ،علامہ بوصیریؒکاواقعہ
علامہ بوصیریؒ بڑے درجے کے بزرگانِ دین میں سے ہیں،انہوں نے نبیِ کریم ﷺکی شان میں قصیدہ کہاہے جوکہ ’’قصیدۂِ بردہ‘‘کے نام سے مشہورہے۔اس کاایک ایک شعرمحبت میں ڈوباہواہے اورحکمتوں سے لبریزہے۔بردہ چادرکوکہتے ہیں،جب انہوں نے حضوراکرم ﷺکی شان میں یہ قصیدہ کہاتھا،ان کوخواب میں نبیِ کریم ﷺ کی زیارت ہوئی کہ آپ (علامہ بوصیریؒ) نبیِ کریمﷺکووہ قصیدہ سنارہے ہیں۔ قصیدہ جب سناچکے توخواب میں حضورﷺنے ان کوایک چادرانعام میں عطافرمائی۔ اس لئے اس قصیدہ کو’’قصیدۂِ بردہ‘‘کہاجاتاہے۔
اوردیگربعض روایات جن کی مجھے تحقیق نہیں کہ وہ کس درجہ کی ہیں،ان سے معلوم ہوتاہے کہ علامہ بوصیریؒکوبطورکشف بیداری کی حالت میں زیارت ہوئی،اس وقت آپ ﷺنے وہ چادرعطافرمائی اورحقیقۃً وہ چادران کے پاس رہی۔
اس قصیدہ میں علامہ بوصیریؒنے ایک شعرکہاہے،جوکہ ایک مسلمان کی پوری زندگی کاحاصل ہوناچاہئے،فرماتے ہیں ؎
النفس کالطفل ان تھملہ شب علی حب الرضاع
و ان تفطمہ حب الرضاع ینفطم
دل کی مثال بچے کی سی ہے۔جب بچہ پیداہوتاہے توماں کی دودھ پیناشروع کرتاہے،ہروقت ماں کے دودھ کاعادی بناہواہے،اگرماں دودھ نہ دے توچیختااور چلاتاہے،لیکن ایک وقت ایساآتاہے کہ اس کووہ دودھ چھڑاناپڑتاہے۔اس میں اس بچے کی خیرخواہی ہوتی ہے۔چنانچہ بچہ چیختاچلاتاہے،اس وقت خواتین یہ تہیہ کرتی ہیں کہ چاہے روئے یاچلائے،رات کوجاگے یاکچھ کرے لیکن دودھ چھڑاناہے،چنانچہ خواتین اپنی چھاتیوں پرکچھ کڑوی چیزلگاکربچے کے منہ میں دیتی ہیں،جس کووہ کڑوا پاکر چھوڑ دیتاہے،پھردوبارہ خواہش ہوتی ہے ،توپھرکڑواپاکر چھوڑدیتا ہے، یہاں تک کہ بچہ دودھ بالکل ہی چھوڑدیتاہے۔
علامہ بوصیریؒ فرماتے ہیں کہ فرض کرو،اگرماں دودھ نہ چھڑائے تووہ بچہ ساری زندگی دودھ پینے کاعادی بنارہے گا،اس میں کبھی بھی روٹی کھانے کی طاقت پیدانہیں ہوگی۔لہٰذانفس کی مثال بھی بچے کی سی ہے،اگراس کوگناہوں کی عادت ڈالے رکھوگے تویہی عادت ساری زندگی کیلئے پختہ ہوجائے گی لیکن اگرگناہوں کی عادت چھڑانے کی کوشش کروگے توچھوڑبھی دے گا،پھرجیسے دوتین سال اگربچہ ماں کادودھ چھوڑکردوسری غذائیں استعمال کرے،پھراس کودوبارہ کوئی ماں کادودھ پلاناچاہے تواب اس کوماں کے دودھ میں کراہیت محسوس ہوگی،اسی طرح نفس بھی اگرکچھ عرصہ زبردستی سے گناہ چھوڑدے گاتوپھراس کوگناہ کرتے ہوئے کراہیت محسوس ہوگی۔
صحابۂِ کرامؓ کی تربیت
حضرات ِصحابہ کرامؓ کے حالات کاجائزہ لو،شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی،شراب سے اہلِ عرب کی محبت کایہ عالم تھاکہ اس کیلئے دوسولفظ استعمال ہوتے تھے، صبح کی شراب کاکوئی اورنام،رات کی شراب کااورنام،تھوڑاساپانی ملادوتونام اور ہے، کھجورسے بنائی ہوئی ہوتواس کانام دوسراہے،انگورکی شراب کانام دوسراہے،جوکی شراب کی نام الگ ہے۔اگرپک کرکچھ حصہ اُڑگیاتواس کانام کچھ اورہے۔کسی عرب کا شراب کے بغیرتصورتقریباًناممکن تھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کوشراب کاچھڑانامنظورتھا،اس لئے پہلے ذہن سازی فرمائی کہ اس کی برائی دل میں بٹھائی،اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کاذکرفرمایاکہ ہم نے تمہیں کھجوراورانگورکے باغات دئے ہیں جن میں سے تم اچھارزق بھی حاصل کرتے ہواورنشہ بھی حاصل کرتے ہو،اس میں اشارہ کردیاکہ نشہ اچھارزق نہیں ہے۔
پھرفرمایاکہ شراب میں کچھ فائدے بھی ہیں،لیکن اس کانقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے۔اس کے بارے میں حکم فرمایا:
{إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ} (المائدۃ: ۹۰)
یہ سب گندے کام اورشیطانی عمل ہیں،ان سے پرہیزکرو۔حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی،میں اس وقت ایک مجلس میں تھاجس میں،میں دوسروں کوشراب پلارہاتھا،اتنے میں حضورﷺکے منادی کی آوازآئی {اَلَااِنَّ الْخَمْرَ قَدْحُرِّمَتْ}خوب اچھی طرح سن لوکہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ مجلس جمی ہوئی ہے، شراب کے پیالے گردش میں ہیں،حضرت انسؓفرماتے ہیں کہ جس نے اپنے ہاتھ میں پیالہ لیاہواتھااورمنہ کی طرف لے جارہاتھا،اس نے یہ اعلان سن کراتنابھی گوارانہ کیاکہ کم ازکم یہ گھونٹ پی لے،بلکہ فوراًاس کواُلٹ دیا۔ ذرا تصورکریں کہ جس چیزکی اتنی شدت کے ساتھ عادت پڑی ہوئی ہے،اس کواس طرح زمین پرپٹخنے سے کیاکچھ دل پرقیامت گزری ہوگی،دل پرکیسے آرے چلے ہوں گے، لیکن چونکہ حضورﷺکی صحبت نے صبرکاعادی بنادیاتھااس لئے حرام ہونے کے بعد اب شراب کاکوئی قطرہ حلق میں نہیں جاسکتا۔ شراب کے بڑے قیمتی قیمتی مٹکے بھرے ہوئے تھے،ان کوانڈیلنے کاحکم آیا،وہ سب نالیوں میں بہادئے گئے،روایات میں آیاہے کہ کئی روزتک مدینہ منورہ کی نالیاں شراب سے بھری رہیں،جوبرتن شراب میں استعمال ہوتے تھے،وہ حرام کردئے گئے،یعنی ان برتنوں میں کوئی جائزاورحلال مشروب پینابھی جائزنہیں۔بعدمیں ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دیدی گئی تھی۔
اس میں تعلیم یہ دی گئی ہے کہ کسی بھی گناہ کوچھوڑنے کیلئے سب سے پہلے ارادہ ہو، پھراپنے نفس پرقابوپانااوراس پرزبردستی کرناضروری ہے اورتیسرایہ کہ جتنے بھی اس گناہ کی طرف لے جانے والے اسباب ہیں، ان کو بھی ختم کرناضروری ہے۔ جیسے کوئی آدمی کہیں جاکرگناہ کرتاہے تووہ وہاں جاناچھوڑدے،وہاں سے تعلقات ختم کردے، ان کے روابط منقطع کردے۔اسی طرح اگرکوئی کسی کی بری صحبت کی وجہ سے گناہ میں مبتلاہوتاہے تواس سے تعلق ختم کرے اوراس سے رابطہ منقطع کرلے۔
جنت اتنی سستی نہیں۔۔۔۔۔
اپنے نفس پرزبردستی کرناہی اس کاعلاج ہے،اس زبردستی کے نتیجے میں شروع میں دقت اورپریشانی ہوگی لیکن بعدمیں آسانی ہوجاتی ہے،اسی کوحضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ نے فرمایاکہ {صبرعن الشہوۃ} گوفی نفسہٖ دشوارہے،مگرآدمی جب اس کاارادہ کرلیتاہے توآسانی شروع ہوجاتی ہے،جنت اتنی سستی نہیں ہے کہ اتنی آسانی سے مل جائے:
{أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوْا أَنْ یَقُولُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ} (العنکبوت: ۲)
کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ بس اتناکہہ دیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اوراب سیدھاجنت میں چلے جائیں گے اورکوئی آزمائش بھی پیش نہیں آئے گی۔انسان کی آزمائش یہی ہے کہ وہ نفسانی خواہشات کی پیروی کرتاہے یااللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتاہے۔جنت کی اَبدی نعمتیں اورابدی زندگی کہ جس میں تکلیف کاگزرنہیںہے،جس میں غم کاشائبہ نہیں،اس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں،لذتیں ہی لذتیں اورراحتیں ہی راحتیں ہیں،جوکسی کے وہم وخیال اورگمان میں بھی ہوکرنہیں گزریں،ان کوحاصل کرنا اتنا آسان نہیں کہ اپنی خواہشات ِنفس کے پیچھے چلتے رہواوراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے رہو اور پھرسیدھے جنت میں بھی چلے جاؤ ؎
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
حرام اورناجائزکام بھی چاہواورپھرخداکوبھی چاہو،یہ محض ایک خیال ہے، ناممکن بات ہے اورپاگل پن ہے۔
بہرحال! یہ زبردستی توکرنی پڑے گی،اس کے بعدان شاء اللہ آسانی ہوجائے گی اوربعدمیں بچنامشکل نہیں ہوگا،اگرچہ بعدمیں بھی کچھ خیال وگمان وغیرہ آجائیں ،ان کامقابلہ کرنااتنادُشوارنہیںہوگا۔
خواہشاتِ انسانی کی دوقسمیں
انسان کے دل میں پیداہونے والی خواہشات دوقسم کی ہیں،ایک وہ ہیں کہ جن پر عمل کرنا بالکل ناجائز اور گناہ ہے،ان کو ہر حال میں ترک کرناضروری ہے۔دوسری قسم کی خواہشات وہ ہیں جن کوشریعت نے حرام نہیں کہالیکن اگران میں آدمی زیادہ منہمک ہوجائے تورفتہ رفتہ یہ بھی اس کوکسی وقت گناہوں میں مبتلاکرسکتی ہیں،جب انسان اپنی اصلاح کاارادہ کرے توان خواہشات کوبھی اعتدال میں لانا پڑتاہے،ان کے بارے میں حضرت حکیم الامت قد س اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ شہوت صرف عورتوں کے تعلق ہی میں منحصرنہیں ہے بلکہ لذیذغذاؤں کی فکرمیں رہنابھی شہوت ہے،عمدہ لباس کی دُھن میں رہنابھی شہوت ہے،ہروقت باتیں بگھارنے کی عادت ڈالنابھی شہوت ہے،اوران سب شہوتوں سے نفس کوروکنا{صبرعن الشہوۃ} میں داخل ہے۔
اگرکوئی غذاحلال اورجائزہے تواس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں،لیکن صبح سے شام تک اگرآدمی اسی چکرمیں لگارہے تویہ بات صحیح نہیں ہے۔ہمارے ایک بزرگ ایک صاحب کاقصہ سنایاکرتے تھے کہ وہ کھانے کے بہت شوقین تھے اوربہت کھاتے تھے،ان کاایک باورچی تھا،جس سے پوچھ پوچھ کرکھاناپکواتے تھے، دوپہر کو اپنی مرضی کا کھانا پکواکر خوب مزے لیکر کھانا کھارہے ہیں،اسی حالت میں اپنے باورچی کوبلاتے اورپوچھتے کہ تم شام کوکیاکھلاؤگے؟۔۔۔۔۔۔
تواس کادماغ اسی اُدھیڑبن میں ہے کہ صبح کوکیاکھاؤں گا،دوپہرکو کیا کھاناہے؟ اوررات کے کھانے میں کیاہے؟اگرچہ یہ حرام نہیں ہے لیکن اسی کی دُھن سوارکرلیناکسی وقت ناجائزلذت کی طرف بھی منتقل کرسکتاہے،اسی لئے یہ فرمایاگیاکہ {شبع}یعنی پیٹ کوبہت بھرلینا،اس سے منع فرمایاگیاہے،کیونکہ یہ انسان کے اندرغلط قسم کی خواہشات پیداکرتاہے،اس کوگناہ کی طرف لے جاتاہے اورآخرت سے غافل بناتاہے،اتنا کھاؤکہ سانس کی جگہ باقی رہے،کچھ پانی کی جگہ باقی رہے۔
ایک لطیفہ
ایک لطیفہ مشہورہے کہ کوئی مہمان کسی کے گھرکھاناکھانے کیلئے گیا،وہ کھانے کابہت شوقین تھا،میزبان نے دیکھاکہ یہ کھائے جارہاہے،کوئی چیزبھی نہیں چھوڑرہا، توایک مرحلے میں میزبان نے اس سے کہاکہ بھئی! ہم نے سناہے کہ کھانے کے درمیان میں پانی پی لینابھی فائدہ مندہوتاہے،اس نے کہاکہ ہاں فائدہ مندہوتا ہے، جب کھانے کابیچ آئے گاتب پئوں گا۔
ہروقت اچھے کھانے کی فکرصحیح نہیں
اگرکھانے پینے ہی میں آدمی منہمک رہے کہ اسی میں دل ودماغ لگے ہوئے ہیںتواس کوبراہِ راست حرام تونہیں کہہ سکتے لیکن یہ {مفضی الی الشہوۃ} ہے، جس سے صبرکرناضروری ہے،اسی لئے اصلاح کے مجاہدات میں ایک مجاہدہ ’’تقلیلِ طعام‘‘کاہے۔حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ اگرآج کل اس پرعمل کرواؤگے توسب لوگ بھاگ جائیں گے اورصحت کمزورپڑجائیگی تواس کیلئے یہ کیاجائے کہ کھانے کے دوران ایک مرحلہ ایساآتاہے کہ جب اس کے دل میں تردّدہوتاہے کہ آگے کھاؤں یانہ کھاؤں؟تواس وقت کھاناچھوڑدیناچاہئے۔
دوسرے یہ کہ ہروقت اچھے کھانے کی فکرمیں منہمک نہ رہو،بلکہ جب اللہ تعالیٰ توفیق دیں توشکراداکرکے کھالو،کبھی قدرت کے باوجودچھوڑبھی دوکہ آج فلاں چیزکودل چاہ رہاہے مگرآج نہیں کریں گے۔
ہروقت اچھے لباس کی فکرصحیح نہیں
اسی طرح لباس کے بارے میں فکرمیں رہناکہ اچھے سے اچھالباس پہنوں، کہیں معمولی سی شکن بھی نہ آجائے،اگرچہ یہ ناجائزاورحرام نہیں،لیکن ان چیزوں کو اپنی دُھن اورفکربنالیناکہ دن رات اسی میں مبتلاہے،یہ بات صحیح نہیں ہے۔
ہروقت باتیں بگھارنے کی عادت صحیح نہیں
اسی طرح باتیں بگھارنے کی عادت بنالینا۔بعض لوگوں کی عادت ایسی ہوتی ہے کہ جہاں وہ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں توچاہتے ہیں وہی بولیں اورپھربے تکان بولتے چلے جاتے ہیں،یہ بولنے کی شہوت ہے،ان کے بارے میں اگرچہ حرام اورناجائزہونے کا فتویٰ نہیں دیاجاسکتا،لیکن عین ممکن ہے کہ یہ بے تکان بولنااس کوحرام کی طرف لے جائے کہ کبھی اس سے جھوٹ نکل جائے گا،کبھی اس سے غیبت نکلے گی،کبھی بہتان نکلے گا،کبھی دل آزاری کاکلمہ نکلے گا۔
ہمارے حضرت والدصاحبؒکے پاس جب لوگ اصلاح کیلئے آتے توان کیلئے ایک اہم کام ’’قلت ِکلام‘‘ہوتاتھا،یعنی بات کم کرو،اورکروتواتنی بات کروجتنی ضرورت ہے۔ یہ وہ شہوتیں ہیں جن سے رُکنابھی {صبرعن الشہوۃ} میں داخل ہے۔
خلاصۂِ کلام
خلاصہ یہ ہے کہ دین پرعمل اورجنت تک پہنچ بغیرصبرکے ممکن نہیں ہے،صبرکا مطلب اپنی خواہشات ِنفس کوقابومیں رکھناہے،یہ نہ ہوکہ جس چیزکودل چاہاکرگزرے، پہلے تویہ دیکھوکہ اگروہ ناجائزبات ہے توناجائزبات سے تواپنے آپ کوزبردستی کرکے ہٹاناضروری ہے،چاہے کتنی ہی تکلیف ہواوراگروہ ناجائزبات نہیں ہے لیکن وہ مباحات میں ضرورت سے زیادہ انہماک ہے تواس سے بھی اپنے آپ کوبچانا،یہ پہلاقدم ہوگا گناہ سے بچنے کا۔
ان سب کیلئے توجہ اورفکرچاہئے اورپھراس کام کی مشق چاہئے،اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعاکرے کہ یااللہ! میں نے اپنی حدتک ارادہ بھی کرلیا،توجہ بھی کررہا ہوں اور صبرکی صفت اپنے اندرپیداکرنے کیلئے مشق بھی کررہاہوں،لیکن یااللہ! آپ کی توفیق کے بغیرکچھ نہیں ہوسکتا۔جب تک آپ اس میں توفیق اوربرکت عطانہیں فرمائیں گے توکچھ نہیں ہوسکتا،یااللہ! آپ مجھے بھٹکنے اوربہکنے سے بچالیجئے!
دوچیزیں اپنے پلے سے باندھ لو،ایک اپنی سی کوشش اوردوسری رجوع الی اللہ۔ ان شاء اللہ ،اللہ تبارک وتعالیٰ فضل فرمائیں گے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین