رمضان صبرکامہینہ(حصہ دوم)

(حصہ دوم)
الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
صبرپرجنت کادارومدارہے
حدیث مبارک میں رمضان کو{شھر الصبر} قراردیاگیاہے۔صبرایک ایسی صفت ہے جس پرجنت کادارومدارہے،اگربندہ اپنے اندرصبرکی صفت پیدانہ کرے تووہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے اورجنت میں داخل ہونے کاراستہ یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کوصبرکاعادی بنائے۔
صبرکامطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی نفس کی خواہشات پرقابوپائے،ان کواللہ کیلئے پامال کرے،اوراس بات کی عادت ڈالے کہ جوخواہش بھی اللہ تعالیٰ کی رضاکے خلاف ہوگی میں اس پرعمل نہیں کروں گا۔
جوشخص اپنی خواہشات ِنفس کوبے لگام چھوڑدیتاہے کہ جوبھی دل میں آرہاہے کررہا،حلال وحرام اورجائزوناجائزکی فکرنہیں ہے،مناسب نامناسب کی فکرنہیں ہے،قرآن کریم میں اس کاذکریوں فرمایا:
{فَأَمَّا مَنْ طَغٰیO وَآثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاOفَإِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَأْوٰیO} (النّٰزعٰت)
جوشخص سرکشی اختیارکرے اوردنیاوی زندگی کوترجیح دے (کہ زیادہ سے زیادہ مال مل جائے،زیادہ عیش وعشرت حاصل ہوجائے،زیادہ
لذّت مل جائے )تواس کاٹھکانہ جہنم ہے۔
اوردوسرے شخص کے بارے میں قرآن کریم میں فرمایا:
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیOفَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰیO} (النّٰزعٰت)
جوشخص اپنے رب کی بارگاہ میں جوابدہی کیلئے کھڑاہونے سے ڈرااوراس خوف کی وجہ سے اس نے اپنے نفس کوخواہشات کے پیچھے
چلنے سے روکاتواس کاٹھکانہ جنت ہے۔
خواہشات ِنفس سے اپنے آپ کوروکناہی صبرہے۔اس صبرپرآمادہ کرنے والی چیزتقوٰی ہے ۔
خواہشات کی دوقسمیں
خواہشات دوقسم کی ہوتی ہیں: ایک خواہشات وہ ہیں جن پرعمل کرناحرام ہے، مثلاًبدنظری،غیبت اورجھوٹ وغیرہ کی خواہش پیداہورہی ہے توان پرعمل کرنا حرام ہے،جبکہ دوسری وہ خواہشات ہیں کہ جن پرعمل کرنااگرچہ حرام نہیں ہے بلکہ اپنی ذات میں مباحات میں سے ہیں،لیکن جب آدمی ان کے پیچھے چلتاہے اور ان میں منہمک ہوتا ہے تواللہ بچائے! وہ کسی نہ کسی وقت حرام تک پہنچادیتی ہیں،ان دونوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔
نفس انسان کوکہتاہے کہ بھئی! ابھی تم جوان ہو،تمہاری عمرہی کیاہے؟اس جوانی کے مزے لے لو،جب بوڑھے ہوجاؤگے توتوبہ کرکے اپناحساب برابرکرلینا۔ شیطان اورنفس یہ دھوکہ دیتے رہتے ہیں،اسی دھوکے میں آکرآدمی خواہشات کی دَلدَل میں پھنستا چلاجاتا ہے، اس سے نکلنے کاراستہ نہیں ملتا،حالانکہ کسی کے پاس گارنٹی نہیں ہے کہ وہ کتنے دن زندہ رہے گا؟جوانی کے بعد بڑھاپا آئے گابھی یا نہیں؟اوربڑھاپاآبھی گیاتوکیاصحت باقی رہے گی یانہیں؟
کسی شخص کی تمام خواہشات پوری نہیں ہوسکتیں
ہم میں سے ہرشخص کوسوچناچاہئے کہ کیایہ ممکن ہے کہ آدمی کی تمام خواہشات پوری ہوجائیں، پوری تاریخِ انسانی میں یہ کبھی بھی نہیں ہوا،کوئی فردِبشردنیامیں ایسانہیں گزراکہ اس کے بارے میںیہ کہاجاسکے کہ اس کے دل میں جوآیاوہ کر گزرا یا جوخواہش بھی پیداہوئی وہ پوری ہوگئی،بڑے سے بڑاصاحب ِاقتداراوربڑے سے بڑے صاحبِ منصب چاہے فرعون ہویانمرود،یہ نہیں کہہ سکتاکہ میری تمام خواہشات پوری ہوگئیں۔
بزرگوں نے ایک قصہ لکھاہے کہ ایک مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عزرائیل علیہ السلام سے پوچھاکہ میں تمہیں لوگوں کی روح قبض کرنے کیلئے بھیجتاہوں،اورتم نے لاکھوں،کروڑوں انسانوں کی روح قبض کی ہے،کیاتمہیں کسی انسان کی روح قبض کرتے وقت کچھ افسوس بھی ہوا؟ عزرائیل علیہ السلام نے عرض کیاکہ یااللہ! آپ کے حکم سے ہی لوگوں کی روحیں قبض کرتارہاہوں،البتہ دوآدمی ایسے ہیں کہ جن کی روح قبض کرتے ہوئے میرادل بڑادُکھا،پوچھاکہ وہ کون ہیں؟ عزرائیل نے بتایاکہ ایک مرتبہ سمندرمیں جہازجارہاتھا،اچانک طوفان آیااورجہازسمندرمیں ڈوبنے لگا، لوگ ڈوب کرمرنے لگے،اُس پرایک حاملہ عورت تھی،اس کوکہیں سے ایک تختہ ملا،وہ اس تختے کے اُوپرآگئی، وہ تختہ تیرتاہوااس کوبیچ سمندرمیں لے جارہاتھا،اسی حالت میں اس کے ہاں بچہ کی ولادت ہوگئی،جب بچہ پیداہوگیاتوآپ کاحکم آیاکہ اس کی ماں کی روح قبض کرلو،اس وقت مجھے اس بچے پربڑارحم آیاکہ یہ بچہ ابھی پیداہواہے،اس کی ماں ہی اس کاواحدسہاراہے اوریہ سمندرکے بیچوں بیچ تختے کے اُوپرلیٹاہواہے،ماں کے مرنے کے بعداس بچے کاکیابنے گا؟لیکن آپ کاحکم تھا،اس لئے اس کی ماں کی روح میں نے قبض کرلی۔
اس کے بعددوسراشخص جس کی روح قبض کرتے ہوئے مجھے افسوس ہوا اوراس پررحم آیا،ایک بہت بڑابادشاہ تھا،اس نے ارادہ کیاکہ میں ایک جنت بناؤں، اوریہ ارادہ کرلیاکہ جب تک وہ جنت بن کرپوری نہیں ہوجاتی ،میں اس میں داخل نہیں ہوں گا، چنانچہ سالہاسال اس پرخرچ ہوتارہا،تعمیرہوتی رہی،پھل پھول لگتے رہے، یہاں تک کہ جب وہ بالکل تیارہوگئی توبادشاہ کے کارندوں نے بادشاہ کوکہاکہ جنت تیارہوگئی ہے،اب آپ چلئے! یہ بادشاہ بڑاخوش ہوکراس جنت میں جانے کیلئے روانہ ہوا،جنت میں داخل ہوتے وقت ابھی ایک پاؤں اندرتھااورایک پاؤں باہر تھا، اس وقت آپ کاحکم آیاکہ اس کی روح قبض کرلو،اس وقت مجھے اس پررحم آیا کہ اس نے اتنی محنت کی،اتناپیسہ خرچ کیا،اتنازیادہ انتظارکیا،کم ازکم ایک مرتبہ دیکھ ہی لیتا، لیکن چونکہ آپ کاحکم تھا،اس لئے میں نے اس کی روح وہیں قبض کرلی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاکہ درحقیقت تم نے ایک ہی آدمی پردومرتبہ ترس کھایا،درحقیقت یہ بادشاہ وہی بچہ تھاجوسمندرکے بیچوں بیچ اکیلارہ گیاتھا۔
اس میں عبرت یہ ہے کہ اس جنت بنانے والے بادشاہ جس کوشداد کہا جاتا ہے، اس کی خواہش تھی کہ اس میں رہوںلیکن سب کچھ جتن کرنے کے باوجوداس خواہش پرعمل نہیں کرسکا۔اسی طرح کسی بھی صاحب ِمنصب اورصاحبِ اقتدارکی ہر خواہش پوری نہیں ہوسکتی،حتی کہ انبیائِ کرام علیہم السلام کی بھی ہرخواہش پوری نہیں ہوسکتی،قرآن کریم میں صاف صاف فرمادیاگیاکہ
{إِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَشَآئُ} (القصص: ۵۶)
جب ہرخواہش پوری نہیں ہوسکتی تواب دوصورتیں ہیں،یاتواپنے آپ کو خواہشات سے مجبوری کی وجہ سے الگ کرو۔اس صورت میں خواہش سے رُکنانہ صبر کہلائے گااورنہ ہی اس پرکوئی اَجرہے۔اوراگریہی کام اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطرجان بوجھ کرکروتویہ صبرہے اوراس کاانجام جنت ہے۔
اپنے اختیارسے گناہ سے رُک جانا
اس کوایک مثال سے سمجھیں کہ آدمی اپنے گھرسے باہرنکلتاہے تواس کوچاروں طرف فتنے ہی فتنے نظرآتے ہیں،جابجاناجائزتصویریں لگی ہوئی ہیں،بے پردگی کاعام رواج ہے،نظروں کوپناہ نہیں ملتی،اب کسی منظرکودیکھنے کوجی چاہ رہاہے،کوئی اگریہ کہے کہ گناہ ہے مت دیکھنا،کیاکروں!میرادل توکسی طرح بھی مان نہیں رہا،میرے اختیارسے یہ معاملہ باہرہوگیاہے،شیطان اورانسان کانفس بھی یہی سجھاتاہے کہ یہ تیرے بس کاکام نہیں ہے،تواس سے رُک نہیں سکتا،لہٰذاانسان اپنے آپ کووہ ناجائزمنظردیکھنے پرمجبور پاتاہے،دل میں یہ آرہاہے کہ بعدمیں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرے توبہ کرلوں گا،مثلاًیہ منظرٹی وی میں سامنے تھا،ابھی دیکھنے کاارادہ ہی کیاتھاکہ بجلی چلی گئی۔اوردل کے مچلنے کی ساری کیفیت ایک آن میں ڈھیرہوگئی،یہ مجبوری میں رُکناہوا،اس محرومی کاکوئی اجراور کوئی ثواب نامۂِ اعمال میں نہیں لکھاگیابلکہ جوپکاارادہ کرلیاتھا،اس کے گناہ ہونے کابھی احتمال ہے۔
علماء کی ایک بڑی جماعت کاکہنایہ ہے کہ اگرانسان کسی گناہ کاایساعزم کرلے کہ اگرکوئی غیراختیاری سبب پیش نہ آئے تووہ کرہی گزرے تواس عزم پربھی گناہ ہوتاہے۔
اوراگراسی حالت میں دل میں یہ خیال آیاکہ مجھے اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں،میں ان کے سامنے جوابدہی کیلئے کھڑاہوناہے،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ:
{قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوافُرُوجَہُمْ}
(النور: ۳۰)
جب اس خیال اوراس غرض کی وجہ سے اپنی نظروں کوبچائیں گے توصبربن جائے گاجوکہ جنت میں لے جانے والاہے۔اس لئے جب کسی گناہ کیلئے دل مچلے توفوراً اس بات کاتصورکرلوکہ اگرفلاں واقعہ پیش آجائے تومیں اس خواہش کوپورانہیں کرسکوں گا۔لہٰذامیں اپنے اختیارسے ہی رُک جاتاہوں۔میرے حضرتؒ نگاہ کے بارے میں فرمایاکرتے تھے کہ اگرنگاہ کوغلط استعمال کرنے کی خواہش پیداہورہی ہے تو اس وقت یہ سوچ لوکہ میں جوحرام اورناجائزمنظردیکھناچاہ رہاہوںتواس وقت میرے والدبھی مجھے دیکھ رہے ہیں،میری والدہ بھی مجھے دیکھ رہی ہے،میری بیوی بھی مجھے دیکھ رہی ہے اور میری اولادبھی مجھے دیکھ رہی ہے،میں ان سب کی موجودگی میں یہ کام کررہاہوں، توکیااس وقت بھی نظرغلط جگہ اُٹھے گی؟ ہرگزنہیں! بلکہ ہمارے حضرت فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی یہ مراقبہ کیاکروکہ اگراللہ تبارک وتعالیٰ قیامت میں ہم سے یہ فرمائیں کہ دیکھوتم نے زندگی بھرجوگناہ کئے وہ ہم تمہیں معاف کردیں گے، لیکن ایک شرط ہے اوروہ یہ کہ ایک مرتبہ تمہارے سب گناہوں کی فلم سب کے سامنے چلائیںگے،تمہارے اُستاذ،تمہارے شیخ،تمہارے ماں باپ،تمہارے بہن بھائی، تمہارے بیوی ، بچے سب کودِکھائیں گے توکیاتم یہ بات مانوگے؟تویہی تصوراس گناہ کوکرتے وقت کرلو،اگروہ نہیں دیکھ رہے توان سے بڑارحیم وکریم ،رب ، پروردگار جس کی نعمتوں نے تمہیں نہال کیاہواہے،وہ تودیکھ رہاہے،جب بندہ اس تصورسے کسی برے عمل سے رُکتاہے تواس کانام صبرہے اوریہ {شہرالصبر} اسی کی تربیت کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھیجاہے۔
نفس پرزبردستی کرنا
گناہوں سے صبرکرنے کامقام ایساہے کہ جہاں آدمی کااصل امتحان ہوتاہے، بڑے سے بڑاعبادت گزاریہاں آکرڈگمگاجاتاہے،خواہشِ نفس اس کوگناہ کی طرف بلارہی ہے اوروہ پھسل کراس کی طرف چل پڑتاہے،اس کاعلاج ہمارے حضرت فرماتے ہیں کہ ایک ہی ہے اوروہ’’اپنے نفس پرزبردستی کرنا‘‘۔یہ طے کرلیناکہ چاہے کچھ ہوجائے، دل پرآرے چل جائیںیاکوئی بھی مصیبت اورمشقت معلوم ہولیکن میں اس گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا۔
ایک حالت وہ ہے جوغفلت کی حالت ہے کہ کسی چیزکی پروانہیں ہے،حلال وحرام اورجائزوناجائزکاکوئی خیال نہیں،نہ مرنے کاخیال آتاہے نہ جنت وجہنم کاخیال آتاہے اورنہ اللہ تعالیٰ کے راضی اورناراض ہونے کاخیال آتاہے،لیکن اس غفلت کے عالم سے جب آدمی تنبہ کے عالم کی طرف بڑھتاہے اوراپنی اصلاح کی کچھ فکر اس کودامن گیرہوئی توشروع میں آدمی کویہ نفس پرزبردستی بڑی دُشوارمحسوس ہوتی ہے،لیکن جب دل پرآراچلادوگے تو ؎
آرزوئیں خون ہوں یا حسرتیں برباد ہوں
اب تو اس دل کو بنانا ہے تیرے قابل مجھے
خواہشات ِنفس کوپامال کرنے کے نتیجے میں مقامِ صبرحاصل ہوجاتاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ ایسے شخص کواللہ تعالیٰ ایمان کی حلاوت عطافرماتے ہیں،جس کے آگے گناہ کی لذت ہیچ درہیچ ہے اورانسان جتنااس کوآگے بڑھاتاجائے گااتناہی اللہ تبارک وتعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتاچلاجائے گا اوراللہ تبارک وتعالیٰ کاقرب حاصل ہوتاچلاجائے گا۔اللہ تعالیٰ کی عظمت ،اللہ تعالیٰ کی محبت اوراللہ تعالیٰ کاخوف دل میں بیٹھے گی۔
ہمارے حضرت والاقدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ یہ خواہشات ِنفس تمہیں اس کام کیلئے دی گئی ہیںتاکہ ان کوجلاجلاکرتم ایمان اورتقوٰی کی شمع روشن کرو۔ مولانا رومیؒکاشعرہے ؎
شہوت ِدنیا مثالِ گلخن است
چوں ازو حمامِ تقوٰی روشن است
یعنی دنیاکی خواہشات کی مثال ایندھن کی سی ہے،تقوٰی کاحمام ان کوجلانے سے روشن ہوتاہے۔خواہشات کوجتنازیادہ جلاؤگے اتناہی زیادہ تقوٰی کاحمام روشن ہوگا، اتناہی نورپیداہوگا۔اقبال کابڑاخوبصورت شعرہے ؎
نہ بچا بچا کر تو رکھ اسے کہ یہ آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دل چوٹیں کھانے کیلئے بناہے
دل تواللہ تعالیٰ نے بنایاہی اس لئے ہے کہ اس کے اُوپرچوٹیں پڑیں،یعنی خواہشات ِنفس کوپامال کرنے کی چوٹیںپڑیں توپھریہ دل اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ عزیزہوتاہے۔
{اِنَّ اللّٰہ مَعَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ لِاَجِلِہٖ}
یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جن کے دل اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے ہوں۔یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطراپنی خواہشات ِ نفس کوپامال کیا،جس کی وجہ سے ان کادل ٹوٹا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں!
میں نے ایک شعرکہاتھا،جس کوحضرت حکیم اخترصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا پسند فرمایااوروہ باربارحوالہ بھی دیتے ہیں،وہ یہ ہے کہ ؎
دردِ دل دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
ہم اسی گھر میں رہیں گے جسے برباد کیا
یعنی جب یہ دل خواہشات کوپامال کرنے سے بربادہوگاتوہم اسی بربادگھر میں آکررہیں گے۔یہ کوئی معمولی چیزنہیں۔شروع میں آدمی یہ سمجھتاہے کہ گناہوں سے بچنامیرے اختیار سے باہرہے،حالانکہ بات اختیارکی نہیں بلکہ ہمت کی ہے کہ اپنے نفس پرزبردستی کرنے کی عادت ڈالیں۔شروع میں ہوسکتاہے کہ ایک دومرتبہ عادت ڈالنے کے بعدپھرپھسل گئے تومایوس ہونے کی بجائے پھرعزم تازہ کرلو، اگر پھر وہی کام ہوجائے توپھرعزم تازہ کرلو،بعض اوقات یہ کشتی کافی عرصہ چلتی ہے، لیکن اگر ہمت کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا،مایوس نہ ہوئے اوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنانہ چھوڑاتوان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ آخرمیں کامیابی تمہاری ہی ہے۔
یہی صبرہے اوررمضان المبارک میں اسی کی تربیت دی جارہی ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم اوراپنی رحمت سے ہمیں اس کی حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس راستے کی تمام رکاوٹوں کواپنے فضل وکرم سے دورفرمائے۔
و آخر دعوانا أن الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین