استقبالِ رمضان کاصحیح طریقہ

ہمارے ہاں کچھ ایسی رِیت سی پڑگئی ہے کہ جو خالصۃً اللہ جلّ جلالہ کیلئے عبادتیں ہیں،ان میں بھی رسموں کو داخل کردیاگیاہے،اوربہت سے رسمی کام ان عبادتوں کے نام پرشروع کردئے گئے ہیں،جن سے اس عبادت کی اصل روح مفقود ہوجاتی ہے،رمضان المبارک کے حوالے سے ہمارے عالمِ اسلام میں ’’استقبالِ رمضان‘‘کے حوالے سے کچھ تقریبات اور مجلسیں منعقد ہوتی ہیں،اس میں جلسہ ہوتا ہے،کچھ نظمیںوغیرہ پڑھ لی جاتی ہیں، کچھ کھاناپیناہوجاتاہے،کچھ عصرانہ یاعشائیہ ہوجاتاہے،اس تمام کارروائی کا نام ’’استقبالِ رمضان ‘‘رکھدیاجاتاہے،میں نے سب سے پہلے ’’استقبالِ رمضان‘‘کی تقریب مصرمیں دیکھی تھی،مصرمیں ایک بہت بڑامجمع اسی عنوان سے جمع ہواتھا،جلسہ ہوا، تقریریں ہوئیں،نظمیں وغیرہ پڑھی گئیں،اورکھانا پیناہوگیا،اس کے بعدعالمِ اسلام کے دوسرے حصوں میں اس قسم کی تقاریب منقعد ہونے لگیں۔

اپنی ذات میں اگرچہ یہ قابلِ تعریف اورقابلِ قدرجذبہ ہے کہ اس مقدس مہینے کا استقبال کیاجائے،ہمارے حضرت والا،حضرت حکیم الاُمت قدس اللہ سرہ نے ’’خطبات الاحکام‘‘میں رمضان سے پہلے کاجوخطبہ ہے،اس میں یہ جملہ بھی لکھاہے کہ {فَاسْتَقْبِلُوْہُ بِالشَّوْقِ وَ الْھَیْمَانِ}کہ رمضان کامہینہ آرہاہے،اس کاشوق اور اُمنگ کیساتھ استقبال کرو۔

اگرچہ یہ اچھی بات ہے،بشرطیکہ یہ خودکوئی رسم نہ بن جائے،کہ کھایاپیااوراُٹھ کرچلے گئے۔ ہمارے والدماجدقدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ شبِ قدر اس کام کیلئے تھی کہ بندہ اپنے رب سے تعلق قائم کرے اوراللہ تبارک وتعالیٰ سے رجوع ہو اورگوشۂ تنہائی میںاللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف اتنارجوع کرے کہ وہ ہو اوراس کااللہ کا ہو،لیکن جب شبِ قدرکوایک رسم بنایاگیاتواس میں چراغاں آگیا،اجتماعات منقعد ہورہے ہیں، جلسے ہورہے ہیں،تقریریں ہورہی ہیں،نظمیں پڑھی جارہی ہیں،قوالیاں ہورہی ہیں، دیگیں چڑھ رہی ہیں،کھانے پک رہے ہیں،کھانے پینے کی چیزیں اور سامان اِدھرسے اُدھرمنتقل کیاجارہاہے،اسی میں ساری رات گزرجاتی ہے،اللہ بچائے! جب شیطان کی عبادت کوبگاڑناچاہتاہے،تواس عبادت کے ساتھ ایسی چیزیں لگادیتاہے جن کاعنوان تواچھاہوتاہے،لیکن ان سے اس عبادت کی روح مفقودہوجاتی ہے۔
یہی حال ’’استقبالِ رمضان‘‘کی ان رسمی تقریبات میں ہورہاہے،جس سے خطرہ ہے کہ آگے چل کریہ بھی کوئی بدعت کی شکل اختیارنہ کرلے،اصل استقبال یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ یہ مہینہ جوآنے والاہے،اللہ جلّ جلالہ کاکتنابڑاانعام ہے،مجھے کیوں اور کس مقصدکے تحت بھیجاگیاہے؟اس مقصدکوحاصل کرنے کیلئے کیاکام کرنے چاہئیں، کیاتیاری کرنی چاہئے؟اس کیلئے پہلے سے اپنے ذہن کو،اپنے نظامِ عمل کوتیارکرنا درحقیقت اصل استقبال ہے۔
نبیِ کریم ﷺ دوماہ پہلے ہی رجب کاچانددیکھ کرفرمارہے ہیں

{ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَانَ }

پہلے سے اشتیاق ہے،انتظارہے، اوراشتیاق کے عالم میں یہ دُعافرمارہے ہیں کہ یااللہ! ہماری عمراِتنی کردیجئے کہ ہم رمضان تک پہنچ جائیں،رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ہمیں نصیب ہوجائیں،اس کیلئے ضروری ہے کہ رمضان المبارک کی حقیقت پرنظرڈال کراس کے مطابق اپنے آپ کوتیارکرنے کی فکرکی جائے۔