بھائیوں میں حساب کتاب کی کیا ضرورت ہے؟

آج کل یہ وبا بھی عام ہے کہ چند بھائیوں کا مشترک کاروبار ہے، لیکن حساب کتاب کوئی نہیں، کہتے ہیں کہ ہم سب بھائی ہیں، حساب کتاب کی کیا ضرورت ہے؟ حساب کتاب تو غیروں میں ہوتا ہے، اپنوں میں حساب کتاب کہاں؟ اب اس کوئی حساب کتاب، کوئی لکھت پڑھت نہیں کہ کس بھائی کی کتنی ملکیت اور کتنا حصہ ہے؟ ماہانہ کس کو کتنا منافع دیا جائے گا؟ اس کا کوئی حساب نہیں، بلکہ الل ٹپ معاملہ چل رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ دنوں تک تو محبت و پیار سے حساب چلتا رہتا ہے، لیکن بعد میں دلوں میں شکوے شکایتیں پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں، کہ فلاں کی اولاد تو اتنی ہے، وہ زیادہ رقم لیتا ہے،فلاں کی اولاد کم ہے، وہ کم لیتا ہے، فلاں کی شادی پر اتنا خرچ کیا گیا، ہمارے بیٹے کی شادی پر کم خرچ ہوا، فلاں نے کاروبار سے اتنا فائدہ اٹھا لیا، ہم نے نہیں اٹھایا وغیرہ بس، اس طرح کی شکایتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے دور چلے گئے، یادرکھیے،ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اگر کوئی مشترک چیز ہے تو اس مشترک چیز کا حساب و کتاب رکھا جائے، اگر حساب و کتاب نہیں رکھا جا رہا ہے تو تم خود بھی گناہ میں مبتلا ہو رہے ہو اور دوسروں کو بھی گناہ میں مبتلا کر رہے ہو، یاد رکھیے! بھائیوں کے درمیان معاملات کے اندر جو محبت و پیار ہوتا ہے وہ کچھ دن چلتا ہے، بعد میں وہ لڑائی جھگڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور پھر وہ لڑائی جھگڑا ختم ہونے کو نہیں آتا، کتنی مثالیں اس وقت میرے سامنے ہیں۔ ملکیت میں امتیاز ہونا ضروری ہے، یہاں تک کہ باپ بیٹے کی ملکیت میں اور شوہر بیوی کی ملکیت میں امتیاز ہونا ضروری ہے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کی دو بیویاں تھیں، دونوں کے گھر الگ الگ تھے، حضرت والا رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میری ملکیت اور میری دونوں بیویوں کی ملکیت بالکل الگ الگ کر کے بالکل امتیاز کر رکھا ہے، وہ اس طرح کہ جو کچھ سامان بڑی اہلیہ کے گھر میں ہے وہ ان کی ملکیت ہے اور جو سامان طھوٹی اہلیہ کے گھر میں ہےوہ ان کی ملکیت ہے، اور جو سامان خانقاہ میں ہے وہ میری ملکیت ہے،آج اگر دنیا سے چلا جائوں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، الحمدللہ سب امتیاز موجود ہے۔ ﴿اصلاحی خطبات، ج۵،ص١۷۹﴾