کیا مذاق اور خوش طبعی کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے؟

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ اسی وقت نا جائز اور حرام ہے جب وہ سنجیدگی سے بولا جائے اور مذاق میں جھوٹ بولنا جائز ہے، چنانچہ اگر کسی سے کہا جائے کہ تم نے فلاں موقع پر یہ بات کہی تھی وہ تو ایسی نہیں تھی، تو جواب میں وہ کہتا ہے کہ میں تو مذاق میں یہ بات کہہ رہا تھا ، گویا کہ مذاق میں جھوٹ بولنا کوئی بری بات ہی نہیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایسا ہونا چاہیئے کہ اس کی زبان سے خلاف واقعہ بات نکلے ہی نہیں،حتی کہ مذاق میں بھی نہ نکلے، اگر مذاق اور خوش طبعی حد کے اندر ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں،شریعت نے خوش طبعی اور مذاق کو جائز قرار دیا ہے، بلکہ اس کی تھوڑی سی ترغیب بھی دی ہے، ہر وقت آدمی خشک اور سنجیدہ ہو کر بیٹھا رہے کہ اس کے منہ پر کبھی تبسم اور مسکراہٹ ہی نہ آیے یہ بات پسندیدہ نہیں، خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاق کرنا ثابت ہے لیکن ایسا لطیف مذاق اور ایسی خوش طبعی کی باتیں آپ سے منقول ہیں جو لطیف بھی ہیں اور ان میں کوئی بات خلاف واقعہ بھی نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا نہ چھوڑے اور بحث و مباحثہ نہ چھوڑے،چاہے وہ حق پر ہو،اس حدیث میں دو چیزیں بیان فرمائیں کہ جب تک آدمی ان دو چیزوں کو نہیں چھوڑے گا اس وقت تک آدمی صحیح تور پر مومن نہیں ہو سکتا، ایک یہ کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اور دوسرے یہ کہ حق پر ہونے کے باوجود بحث و مباحثہ میں نہ پڑے۔ ہم لوگ محض مذاق اور تفریح کے لیے زبان سے جھوٹی باتیں نکال دیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاق میں بھی جھوٹی باتیں زبان سے نکا لنے سے منع فرمایا ہے،چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ افسوس ہے اس شخص پر، یہ سخت الفاظ میں اس کا صحیح ترجمہ یہ کر سکتے ہیں کہ اس شخص کے لیے درد ناک عذاب ہے جو محض لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔ ﴿اصلاحی خطبات،ج ١۰، ص١۲١، ١۲۲﴾