کیا اولاد کی نافرمانی پر حضرت نوح علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاو، درحقیقت اس میں ایک شبہ کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا جو شبہ عام طور پر ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ شبہ یہ ہے کہ آج جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کو بھی دین کی تعلیم دو، کچھ دین کی باتیں ان کو سکھاو، ان کو دین کی طرف لاو، گناہوں سے بچانے کی فکر کرو، تو اس کے جواب میں عام طور پر بکثرت لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اولاد کو دین کی طرف لانے کی بڑی کوشش کی، مگر کیا کریں کہ ماحول اور معاشرہ اتنا خراب ہے کہ بیوی بچوں کو بہت سمجھایا، مگر وہ مانتے نہیں ہیں اور زمانے کی خرابی سے متاثر ہو کر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کرلیا ہے اور اس راستے پر جا رہے ہیں، اور راستہ بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اب ان کا عمل ان کے ساتھ ہے، ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہے،اب ہم کیا کریں؟ اور دلیل میں یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی تو آخر کافر رہا اور حضرت نوح علیہ السلام اس کو طوفان سے نہ بچاسکے، اسی طرح ہم نے بہت کوشش کرلی ہے وہ نہیں مانتے تو ہم کیا کریں؟
چنانچہ قرآن کریم نے آیت میں"آگ" کا لفظ استعمال کرکے اس اشکال اور شبہ کا جواب دیا ہے، وہ یہ کہ بات ویسے اصولی طور پر ٹھیک ہے کہ اگر ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی ہے تو ان شاء اللہ ماں باپ پھر بری الذمہ ہو جائیں گے اور اولاد کے کیے کا وبال اولاد پر پڑے گا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی کوشش کس حد تک کی ہے؟ اور کس درجے تک کی ہے؟ قرآن کریم نے "آگ " کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کو گناہوں سے
اس طرح بچانا چاہیے جس طرح ان کو آگ سے بچاتے ہیں ۔
فرض کریں کہ ایک بہت بڑی خطر ناک آگ سلگ رہی ہے، جس آگ کے بارے میں یقین ہے کہ اگر کوئی شخص اس آگ کے اندر داخل ہو گیا تو زندہ نہیں بچے گا، اب آپ کا نادان بچہ اس آگ کو خوش منظر اور خوب صورت سمجھ کر اس کی طرف بڑھ رہا ہے، اب بتاو تم اس وقت کیا کرو گے؟ کیا تم اس پر اکتفا کرو گے کہ دور سے بیٹھ کر بچے کو نصیحت کرنا شروع کردو کہ بیٹا! اس آگ میں مت جانا، یہ بڑی خطر ناک چیز ہوتی ہے ،اگر جاو گے تو جل جاو گے اور مر جاو گے؟ کیا ماں باپ صرف زبانی نصیحت پراکتفا کریں گے؟ اور اس نصیحت کے باوجود اگر بچہ اس آگ میں چلا جائے تو کیا وہ ماں باپ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائیں گے کہ ہم نے تو اس کو سمجھا دیا تھا، اپنا فرض ادا کر دیا تھا، اس نے نہیں مانا اور خود ہی اپنی مرضی سے آگ میں کود گیا تو میں کیا کروں؟ دنیا میں کوئی ماں باپ ایسا نہیں کریں گے، اگر وہ اس بچے کے حقیقی ماں باپ ہیں تو اس بچے کو آگ کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر ان کی نیند حرام ہو جائے گی، ان کی زندگی حرام ہو جائے گی اور جب تک اس بچے کو گود میں
اٹھا کر اس آگ سے دور نہیں لے جائیں گے اس وقت تک ان کو چین نہیں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہیں کہ جب تم اپنے بچے کو دنیا کی معمولی سی آگ سے بچانے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہیں کرتے تو جہنم کی وہ آگ جس کی حدونہایت نہیں، اور جس کا دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا، اس آگ سے بچے کو بچانے کے لیے زبانی جمع خرچ کو کافی کیوں سمجھتے ہو؟ لہذا یہ سمجھنا کہ ہم نے انہیں سمجھا کر اپنا فریضہ ادا کر لیا یہ بات آسانی سے کہنے کی نہیں ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی جو مثال دی جاتی ہے کہ ان کا بیٹا کافر رہا، وہ اس کو آگ سے نہیں بچاسکے، یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ یہ بھی تو دیکھو کہ انہوں نے اس کو را ہ راست پر لانے کی نوسو سال تک لگاتار کوشش کی، اس کے باوجود جب راہ راست پر نہیں آیا تو اب ان کے اوپر کوئی مطالبہ اور کوئی مواخذہ نہیں، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ایک دو مرتبہ کہا اور پھر فارغ ہو کر بیٹھ گئے کہ ہم نے تو کہہ دیا، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ان کو گناہوں سے اسی طرح بچاو جس طرح ان کو حقیقی آگ سے بچاتے ہو، اگر اس طرح نہیں بچا رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فریضہ ادا نہیں ہو رہا ہے، آج تو یہ نظر آرہا ہے کہ اولاد کے بارے میں ہر چیز کی فکر ہے،مثلاً یہ تو فکر ہے کہ بچے کی تعلیم اچھی ہو ، اس کا کیرئیر اچھا بنے، یہ فکر ہے کہ معاشرے میں اس کا مقام اچھا ہو، یہ فکر تو ہے کہ اس کے کھانے پینے اور پہنے کا انتظام اچھا ہو جائے، لیکن دین
کی فکر نہیں۔

(اصلاحی خطبات، ج ۴، ص۲۷)