تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کی شرائط

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے نام کے ذریعہ جھاڑ پھونک کا تعلق ہے ہ خود حضور اقدس ﷺ سے اور آپ کے صحابہ سے ثابت ہے، اس لیے وہ ٹھیک ہے لیکن اس کے جواز کے لیے چند شرائط انتہائی ضروری ہیں، ان کے بغیر یہ عمل جائز نہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ جو کلمات پڑھے جائیں، ان میں کوئی کلمہ ایسا نہ ہو جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو، اس لیے بعض اوقات ان میں ’’یا فلان‘‘ کے الفاظ ہوتے ہیں، اور اس جگہ پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام ہوتا ہے ، ایسا تعویذ، ایسا گنڈا ، ایسی جھاڑ پھونک حرام ہے جس میں غیر اللہ سے مدد لی گئی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اگر جھاڑ پھونک کے الفاظ یا تعویذ میں لکھے ہوئے الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی ہی معلوم نہیں کہ کیا ہیں؟ ایسا تعویذ استعمال کرنا بھی جائذ ہے، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی مشرکانہ کلمہ ہو اور اس میں غیر اللہ سے مدد مانگی گئی ہو ، یا اس میں شیطان سے خطاب ہو ، اس لیے ایسے تعویذ بالکل ممنوع اور ناجائز ہیں۔ ایسے تعویذ جس میں ایسی بات لکھی ہوئی ہو جس کا مطلب ہی سمجھ میں نہیں آتا، ایسا تعویذ حرام ہے، اگر اس میں کوئی ایسی عبارت لکھی ہوئی ہے، ایسی بات لکی ہوئی ہے، جس کا مطلب ہی سمجھ میں نہیں آرہا تو ایسا تعویذ استعمال کرنا ناجائز ہے ، بعض تعویذ ایسے ہوتے ہیں جس میں غیر اللہ سے مدد مانگی جاتی ہے، وہ چاہے نبی ہو، چاہے ولی ہو، اور چاہے کتنا بڑا بزرگ ہو،اللہ کے سوا کسی سے مراد نہیں مانگی جاتی اور وہ شرک کے قریب انسان کو پہنچا دیتی ہے، ایسے تعویذ بالکل حرام ہیں اور انسان کو شرک کے قریب پہنچا دیتے ہیں ، اسی لیے فقہا کرام نے فرمایا کہ تعویذ میں اگر کوئی ایسی بات لکھی ہوئی ہے جو ہم اورآپ سمجھتے نہیں ہیں تو کیا پتہ اس میں کوئی غیر اللہ سے مدد مانگ لی گئی ہو ،کوئی شرک کا کلمہ اس کے اندر موجود ہو ، اس واسطے ایسا تعویذ استعمال کرنا بالکل جائز نہیں ہے، لیکن اگر قرآن کریم کی آیات ہیں ان کو بھی ادب کے ساتھ استعمال کیا جائے یا کوئی ذکر ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کا، یا کوئی دعا ہے جو تعویذ میں لکھ دی گئی تھی تو وہ جائز ہے، لیکن اس میں کوئی ثواب نہیں ۔ بہر حال تعویذ اور جھاڑ پھونک کی یہ شرعی حقیقت ہے، لیکن اس معاملے میں افراط و تفریط ہورہی ہے، ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو اس عمل کو حرام اور ناجائز کہتے ہیں ان کی تفصیل تو عرض کردی۔(اصلاحی خطبات، ج ۱۵،ص۵۲)