کیا جھاڑ پھونک (دم) کا عمل سنت سے ثابت ہے؟

ہمارے زمانے میں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کے بارے میں لوگوں کے درمیان افراط و تفریط پائی جارہی ہے،بعض لوگ وہ ہیں جو سرے سے جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کے بالکل ہی قائل نہیں، بلکہ وہ لوگ اس قسم کے تمام کاموں کو ناجائز سمجھتے ہیں ، اور بعض لوگ تو اس کام کو شرک قرار دیتے ہیں ، اور دوسری طرف بعض لوگ ان تعویذ گنڈوں کے اتنے زیادہ معتقد اور اس میں اتنے زیادہ منہمک ہیں کہ ان کو ہر کام کے لیے ایک تعویذ ہونا چاہیے، ایک وظیفہ ہونا چاہیے، ایک گنڈا ہونا چاہیے، میرے پاس روزانہ بے شمار لوگوں کے فون آتے ہیں کہ صاحب بچی کے رشتے نہیں آرہے ہیں ، اس کے لیے کوئی وظیفہ بتادیں، روز گار نہیں مل رہا ہے، اس کے لیے وظیفہ بتادیں، میرا قرضہ ادا نہیں ہورہا ہے ، اس کے لیے کوئی وظیفہ بتادیں،دن رات لوگ بس اس فکر میں رہتے ہیں کہ سارا کام ان وظیفوں سے اور ان تعویذ گنڈوں سے ہوجائے، ہمیں ہاتھ پاؤں ہلانے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ دونوں باتیں افراط و یفریط کے اندر داخل ہیں ، اور شریعت نے جو راستہ بتایا ہے وہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیاں کے درمیان ہے، قرآن و سنت سے سمجھ میں آتا ہے ، یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ جھاڑ پھونک کی کوئی حیثیت نہیں، اور تعویذ کرنا، ناجائز ہے ، اس لیے کہ اگر چہ ایک روایت میں ان لوگوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے، لیکن خوب سمجھ لیجئے! کہ اس ہر قسم کی جھاڑ پھونک مراد نہیں، بلکہ اس حدیث میں زامانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کا جو طریقہ تھا ، اس کی طرف اشارہ ہے، زمانہ جاہلیت میں عجیب و غریب قسم کے منتر لوگوں کو یاد ہوتے تھے اور یہ مشہور تھا کہ یہ منتر پڑھو تو اس سے فلاں بیماری سے افاقہ ہوجائے، فلاں منتر پڑھو تو اس سے فلاں کام ہو جائے گا وغیرہ، اور ان منتروں میں اکثر و بیشتر جنات اور شیاطین سے مدد مانگی جاتی تھی، کسی میں بتوں سے مدد مانگی جاتی تھی ، بہر حال ان منتروں میں ایک خرابی تو یہ تھی کہ ان میں غیر اللہ سے اور بتوں سے اور شیاطین سے مدد مانگی جاتی تھی کہ تم ہمارا یہ کام کردو، اسی طرح ان منتوں میں مشرکانہ الفاظ ہوتے تھے۔ دوسری خرابی یہ تھی کہ اہل عرب ان الفاظ کو بذات خود موثر مانتے تھے ، یعنی ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ تاثیردے گا تو ان میں تاثیر ہوگی ، اور اللہ تعالیٰ کی تاثیر کے بغیر تا ثیر نہیں ہوگی ، بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان الفاظ میں بذات خود تاثیر ہے ، اور جو شخص یہ الفاظ بولے اس کو شفا ہوجائے گی ، یہ خرابیاں تو تھیں ہی ، اس کے علاوہ بسا اوقات وہ الفاظ ایسے ہوتے تھے کہ ان کے معنی ہی سمجھ میں نہیں آتے تھے ، بالکل مہمل قسم کے الفاظ ہوتے تھے ، جن کے کوئی معنی نہیں ہوتے تھے ، وہ الفاظ بولے بھی جاتے تھے ، اور ان الفاظ کو تعویذ کے اندر لکھا بھی جاتا تھا ، درحقیقت ان الفاظ میں بھی اللہ کے سوا شیاطین اور جنات سے مدد مانگی جاتی تھی ، ظاہر ہے کہ یہ سب شرک کی باتیں تھیں ، اس لیے نبی کریم ﷺ نے جاہلیت کے جھاڑ پھونک کے طریقے کو منع فرمادیا اور یہ فرمایا کہ جو لوگ اس قسم کے جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں میں مبتلا نہیں ہوتے، یہ وہ لوگ ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ بلا حساب و کتاب جنت میں داخل فرمائیں گے ، لہٰذا اس حدیث میں جس جھاڑ پھونک کو ذکر ہے اس سے وہ جھاڑ پھونک مراد ہے جس کا زمانہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ (اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۳۸) بہر حال یہ طریقہ جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا نبی کریم ﷺ نے اس کو منع فرمایا کہ اگر اللہ پر ایمان ہے ، اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان ہے تو پھر یہ شرکیہ کلمات کہہ کر اور فضول مہمل کلمات ادا کرکے شیاطین کے ذریعے کام کرانا شریعت میں ناجائز اور حرام ہے، اور کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی رسول کریم ﷺ نے اس قسم کے منتروں کے بجائے اور شرکیہ کلمات کے بجائے آپ نے خود اللہ جل شانہ کے نام مبارک سے جھاڑ پھونک کیا اور صحابہ :کرام کو یہ طریقہ سکھایا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص بیمارار ہو جائے تو یہ کلمات کہے اللھم ربنا اذھب الباس واشف انت الشافی لا شفا ء الا شفا ء ک شفا ء الا یغادر سقما۔ (ابو داود، کتاب الطب، باب فی التمائم) اور: اسئل اللہ العظیم رب العرش الکریم ان یشفیک کہہ کردم کردیا، اور اس طرح کے کچھ ذکر ہیں ان کو پڑھ کر دم کرنا تو حضور ﷺ سے ثابت ہے ، ان دعاوں کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جو سارے انسانوں کا پروردگار ہے یہ بیماری دور فرما، ’’انت الشافی‘‘ آپ ہی شفا دینے والے ہیں ’’لا شفاء الا شفائک ‘‘ آ پ کے سوا کوئی شفا نہیں دے سکتا، ’’شفا ء الا یغادر سقما‘‘ ایسی شفا دے دیجئیے جس کے بعد کوئی بیماری باقی نہ رہے، یہ حضور ﷺ سے ثابت ہے، ’’اسئل اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک‘‘ میں اس عظمت والے اللہ سے سوال کرتا ہوں جو سارے عرش کا مالک ہے کہ وہ آپ کو شفا دے دے ، اور بعض اوقات آپ ﷺ نے کلمات سکھا کر فرمایا کہ ان کلمات کو پڑھ کر تھو کو اور اس کے ذریعہ جھاڑو ، آپ نے خود بھی اس پر عمل فرمایا اور صحابی کرام کو اس کی تلقین بھی فرمائی ، یہ حضور ﷺ سے ثابت ہے تو حضور ﷺ نے بہت سی چیزوں کے لیے جھاڑ تو کی ہے، دم تو کیا ہے ، لیکن تعویذ لکھ کر کسی کو نہیں دیا ، نہ کسی صحابی سے کہا کہ تم اس کو لکھ کردے دو ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کا روزانہ کا معمول تھا کہ رات کو سونے سے پہلے معوذ تین پڑھتے اور بعض روایات میں ’’قل یا ایھا الکافروں‘‘ کا بھی اضافہ ہے، یعنی ’’قل یا ایھا الکا فروں ‘‘ اور ’’قل اعو ذ برب الفلق‘‘ اور’’قل اعوذبرب الناس ‘‘ان تینوں سورتوں کو تین تین مرتبہ پڑھتے ، اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک مارتے ، اور پھر پورے جسم پر ہاتھ پھیرتے ، یہ جھاڑ پھونک خود حضو ر اقدس ﷺ نے فرمائی، اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس عمل کے ذریعہ شیطانی اثرات سے حفاظت رہتی ہے ، سحر سے اور افضل حملوں سے انسان محفوظ رہتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ مرض وفات میں تھے اور صاحب فراش تھے اور اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ اپنا دست مبارک پوری طرح اٹھانے پر قادر نہیں تھے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے خیال آی کہ رات کا وقت ہے اور سرکار دو عالم ﷺ ساری عمر یہ عمل فرماتے رہے کہ معوذ تین پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم فرماتے تھے اور پھر ان ہاتھوں کو سارے جسم پر پھیرتے تھ ، لیکن آج آپ کے اندر یہ طاقت نہیں کہ یہ عمل فرمائیں ، چنانچہ میں نے خود معوذ تین پڑھ کر رسول کریم ﷺ کے دست مبارک پر دم کیا اور آپ ہی کے دست مبارک کو آپ کے جسم مبارک پھر پھیر دیا ، اس لیے کہ اگر میں نے اپنے ہاتھوں کو آپ کے جسم مبارک پر پھیرتی تو اس کی اتنی تاثیر اور اتنا فائدہ نہ ہوتا جتنا فائدہ خود آپ کے دست مبارک پھیرنے سے ہوتا ، اور بھی متعدد مواقع پر رسول کریم ﷺ نے یہ تلقین فرمائی کہ اگر جھاڑ پھونک کرنی ہے تو اللہ کے کلام سے کرو ، اور اللہ کے نام سے کرو،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نام میں یقیناًجو تاثیر ہے وہ شیاطین کے شرکیہ کلام میں کہاں ہو سکتی ہے ، لہٰذا آپ نے اس کی اجازت عطا فرمائی۔ روایات میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام کا ایک قافلہ کہیں سفر پر جارہا تھا ، روستے میں ان کا زادراہ کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا ، راستے میں غیر مسلموں کی ایک بستی پر اس قافلے کا گذرہوا، انہوں نے جا کر بستی والوں سے کہا کہ ہم مسافر لوگ ہیں ، اور کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا ہے ، اگر تمہارے پاس کچھ کھانے پینے کا سامان ہو تو ہمیں دے دو ، ان لوگوں نے شاید مسلمانوں سے تعصب اور مذہبی دشمنی کی بنیاد پر کھانا دینے سے انکار کردیا کہ ہم تمہاری مہمانی نہیں کرسکتے، صحابہ کرام کے قافلے نے بستی کے باہر پڑاو ڈال دیا ، رات کا وقت تھا ، انہوں نے سوچا کہ رات یہاں پر گذار کر صبح کسی اور جگہ پر کھانا تلاش کریں گے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس بستی کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا ، اب بستی والوں نے سانپ کے کاٹنے کے جتنے علاج تھے وہ سب آزمالیے ، لیکن اس کا زہر نہیں اتر تا تھا ، کسی نے ان سے کہا کہ سانپ کا زہر اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کی جاتی ہے ، اگر جھڑ پھونک جاننے والا ہوتو اس کو بلا یا جائے تا کہ وہ آکر زہر اتارے، انہوں نے کہا کہ بستی میں تو جھاڑ پھونک کرنے والا کوئی نہیں ہے ، کسی نے کہا کہ وہ قافلہ جو بستی کے باہر ٹھہرا ہوا ہے، وہ مولوی قسم کے لوگ معلوم ہوتے ہیں ، ان کے پاس جا کر معلوم کرو ، شاید ان میں سے کوئی شخص سانپ کی جھاڑ جانتا ہو ، چنانچہ بستی کے لوگ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا آپ میں کوئی شخص ہے جو سانپ کے ڈسے کو جھاڑ دے ، بستی کے ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا ہے ، حضرت ابو سعید خدریؓ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں جھاڑوں گا ، لیکن تم لوگ بہت بخیل ہو کہ ایک مسافر قافلہ آیا ہوا ہے ، تم سے کہا کہ ان کے کھانے پینے کا انتظام کردو ، تم نے ان کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں کیا ، بستی والوں نے کہا کہ ہم بکریوں کا پورا گلہ آپ کو دے دیں گے ، لیکن ہمارے آدمی کا تم علاج کردو۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدریؓ خود اپنا واقعہ سناتے ہیں کہ مجھے جھاڑ پھونک تو کچھ نہیں آتا تھا ، لیکن میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں یقیناًبرکت ہوگی، اس لیے میں ان لوگوں کے ساتھ بستی میں گیا ، اور وہاں جا کر سورہ فاتحہ پڑھ کردم کرتا رہا ، سورہ فاتحہ پڑھتا اور دم کرتا ، اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کا زہر اتر گیا ، اب وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور بکریوں کا ایک گلہ ہمیں دے دیا ، ہم نے بکریوں کا گلہ ان سے لے تو لیا ، لیکن بعد میں خیال آیا کہ ہمارے لیے ایسا کرنا جائز بھی ہے یا نہیں ؟ اور یہ بکریاں ہمارے لیے حلال بھی ہیں یا نہیں ؟ لہٰذا جب تک حضور اقدس ﷺ سے نہ پوچھ لیں ، اس وقت تک ان کو استعمال نہیں کریں گے۔ (بخاری ، کتب الطب ، باب النفث فی الرقیۃ) چنانچہ حضرت ابو سعید خدریؓ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا واقعہ سنایا اور پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اس طرح بکریوں کا قلہ ہمیں حاصل ہوا ہے ، ہم اس کو رکھیں یا نہ رکھیں ؟ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لیے اس کو رکھنا جائز ہے ، لیکن یہ بتاؤ کہ تمہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ سانپ کے کاٹنے کا یہ علاج ہے؟ حضرت ابو سعید خدریؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ! میں نے سوچا کہ بے ہو دہ قسم کے کلام میں تا ثیر ہو سکتی ہے تو اللہ کے کلام میں بطریق اولی تاثیر ہوگی ، اس وجہ سے میں سورہ فاتحہ پڑھتا رہا اور دم کرتا رہا ، اللہ تعالیٰ نے اس سے فائدہ پہنچا دیا ، سر کا ردوعالم ﷺ ان کے اس عمل سے خوش ہوئے اور ان کی تائید فرمائی اور بکریوں کا گلہ رکھنے کی بھی اجازت عطا فرمائی ، اب دیکھئے! اس واقعے میں حضوراکرم ﷺ نے جھاڑ پھونک کی نہ صرف تائید فرمائی ، بلکہ اس عمل کے نتیجے میں بکریوں کا جو گلہ بطور انعام کے ملا تھا ، اس کو رکھنے کی اجازت عطا فرمائی ، اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خود بھی عمل فرمایا اور صحابہ کرام سے بھی کرایا ، یہ تو جھاڑ پھونک کا قضیہ ہوا۔(اصلاحی خطبات ، ج ۱۵ ، ص ۴۳)