تکبر اور عزت نفس میں کیا اور کس طرح فرق کیا جائے؟

دل میں عزت نفس کا داعیہ پیدا ہونا کہ میں لوگوں کے سامنے ذلیل نہ ہوں اور بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان کے میری عزت ہونی چاہیے،اس حد تک یہ جزبہ قابل تعریف ہے،یہ جذبہ برا نہیں ہے،کیونکہ شریعت نے ہمیں اپنے آپ کو ذلیل کرنے سے منع فرمایا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان کے دل میں عزت نفس کا جذبہ بالکل نہ ہو تو وہ انسان دوسروں کے ہاتھ میں کھلونا بن کررہ جائے،جو چاہے وہ اس کو ذلیل کر جائے، لیکن اگر عزت نفس کا جذبہ حد سے بڑھ جائے اور دل میں یہ خیال آئے کہ میں سب سے بڑا ہوں، میں عزت والا ہوں اور باقی سب لوگ ذلیل ہیں اور حقیر ہیں تو اب یہ دل میں تکبر آگیا،اس لیے کہ تکبر کے معنی ہیں اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنا۔ آپ کو بے شک یہ حق حاصل ہے کہ آپ یہ چاہیں کہ میں دوسروں کی نظر میں بے عزت نہ ہوں،لیکن کسی بھی دوسرے شخص سے اپنے آپ کو افضل سمجھنا کہ میں اس سے اعلی ہوں اور یہ مجھ سے کمتر ہے، یہ خیال لانا جائز نہیں،مثلا آپ امیر ہیں،آپ کے پاس کوٹھی بنگلے ہیں، آپ کے پاس بینک بیلنس ہے،آپ کے پاس دولت ہے اور دوسرا شخص غریب ہے،ٹھیلے پر سامان بیچ کراپنا پیٹ پالتا ہے،اپنے گھر والوں کے لیے روزی کماتا ہے،اگر آپ کے دل میں یہ خیال آگیا کہ میں بڑا ہوں اور یہ چھوٹا ہے، میری عزت اس کی عزت سے زیادہ ہے، میں اس سے افضل ہوں اور یہ مجھ سے کمتر ہے،اس کا نام تکبر ہے، یہ عزت نفس کا جزبہ اپنی حد سے آگے بڑھ گیا، اب یہ جذبہ اتنا خبیث بن گیا کہ اللہ تعالیٰ کو تکبر سے زیادہ کسی جزبے سے نفرت نہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین جذبہ انسان کے اندر تکبر ہے، حالانکہ عزت نفس قابل (تعیف چیز تھی لیکن جب وہ حد سے بڑھ گئی تو اس کے نتیجے میں وہ تکبر بن گئی اور تکبر بننے کے نتیجے میں وہ مبغوض بن گئی۔ (اصلاحی خطبات، ج ۱۵،ص ۹)