غیبت کا کفارہ یا تلافی کس طرح ہو؟

البتہ بعض روایات میں ہے،جو اگر چہ ہیں تو ضعیف،لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہیں، کہ اگر کسی کی غیبت ہوگئی ہے تو اس غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس کے لیے خوب دعائیں کرو،اور استغفار کرو،مثلا فرض کریں کہ آج کسی کو غفلت سے تنبیہ ہوئی کہ واقعتہ آج تک ہم بڑی سخت غلطی کے اندر مبتلا رہے،معلوم نہیں کن کن لوگوں کی غیبت کرلی،اب آئندہ ان شاء اللہ کسی کی غیبت نہیں کریں گے،لیکن اب تک جن کی غیبت کی ہے،ان کو کہاں کہاں تک یاد کریں اور ان سے کیسے معافی مانگیں؟ کہاں کہاں جائیں؟ اس لیے اب ان کے لیے دعا اور استغفار کرو۔(مشکوۃ،کتاب الآ داب،باب حفظ اللسان) (اصلاحی خطبات،ج ۴،ص ۹۴)
جس کی غیبت کی تھی اگر وہ مرچکا ہوتو کیسے معافی مانگی جائے؟
یعنی جس شخص کی آپ نے غیبت کی تھی، اب اس کا انتقال ہو چکا ہے، تو اب اس سے کیسے معافی مانگی جائے؟ تو اس سے معاف کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے دعا واستغفار کرتے رہو،یہاں تک کہ تمہارا دل گواہی دے دے کہ اب وہ شخص تم سے راضی ہو گیا ہوگا۔
لہٰذا حقوق العباد کا معاملہ اگرچہ بڑا سنگین ہے کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے،اس وقت تک معاف نہیں ہوگا،اور اگر صاحب حق کا انتقال ہوگیا تو اور زیادہ مشکل،لیکن کسی صورت میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں،کسی بھی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مایاسی کا راستہ نہیں رکھا،کہ اب تیرے لیے معافی کا راستہ بند ہے۔(اصلاحی مجالس،ج ۱،ص۱۸۳)
بہر حال! مایوسی کا کوئی راستہ نہیں کہ چونکہ ہم سے حقوق العباد ضائع ہو گئے ہیں اور جن کے حقوق ضائع کیے ہیں ان کا انتقال ہو گیا ہے،لہٰذا اب ہماری مغفرت نہیں ہو سکتی،ایسا نہیں ہے، ابتدا میں تو حقوق العباد کا بہت اہتمام کرو،اور ان کے ضائع ہونے کو سنگین سمجھو،اور کسی اللہ کے بندے کے حق کو پامال نہ کرو،لیکن اگر کسی کا کوئی حق ضائع ہو جائے تو فورا معاف کرالو اور اگر معاف کرانے کا کوئی راستہ نہ ہو تو مایوس نہ،بلکہ اس کیلیے استغفار کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو کہ یا اللہ! اپنے فضل و کرم سے مجھ سے ان بندوں کو راضی کردیجیے جن کے حقوق میں نے پامال کیے اور یہ دعا کرتے رہو کہ یا اللہ! ان کے درجات بلند فرمایے،ان کی مغفرت فرمایے،ان کو رضائے کاملہ عطا فرمایے،یہ دعا کرتے رہو،یہاں تک کہ یہ گمان غالب ہو جائے کہ وہ راضی ہوگئے ہوں گے۔(اصلاحی مجالس،ج ۱،ص ۱۸۶)