شریعت کی روح دیکھنی چاہیے،ظاہر اور الفاظ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے

آج کل لوگوں کی زبانوں پر اکثر یہ رہتا ہے کہ شریعت کی روح دیکھنی چاہیے،ظاہر اور الفاظ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے،معلوم نہیں کہ وہ لوگ روح کو کس طرح دیکھتے ہیں، ان کے پاس کونسی ایسی خوردبین ہے جس میں ان کو روح نظر آجاتی ہے،حالانکہ شریعت میں روح کے ساتھ ظاہر بھی مطلوب اور مقصود ہے،سلام ہی کولے لیں کہ آپ ملاقات کے وقت السلام علیکم کے بجائے اردو میں یہ کہہ دیں کہ ’’سلامتی ہوتم پر‘‘ دیکھیے! معنی اور مفہوم تو اس کے وہی ہیں جو السلام علیکم کے ہیں لیکن وہ برکت وہ نور اور اتباع سنت کا اجر و ثواب اس میں حاصل نہیں ہوگا جو السلام علیکم میں حاصل ہوتا ہے۔ اس سے ایک اور بنیادی بات معلوم ہوئی،جس سے آج کل لوگ بڑی غفلت برتتے ہیں،وہ کہ احادیث کے معنی مفہوم اور روح تو مقصود ہے ہی،لیکن شریعت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے الفاظ بھی مقصود ہیں،دیکھیے السلام علیکم اور وعلیکم السلام دونوں کے معنی تو ایک ہی ہیں،یعنی تم پر سلامتی ہو، لیکن حضور اودس ﷺ نے حضرت جابر بن سلیمؓ کو پہلی ملاقات ہی میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ سلام کرنے کا سنت طریقہ اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہو،ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ اس ذریعہ آپ نے امت کو یہ سبق دے دیا کہ شریعت اپنی مرضی سے راستہ بنا کر چلنے کا نام نہیں ہے،بلکہ شریعت اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا نام ہے۔