جب تقدیر میں سب کچھ لکھا ہوا ہے تو تدبیر کی کیا ضرورت؟

اور یہ تقدیر عجیب و غریب عقیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب ایمان کو عطا فرمایا ہے، اس عقیدہ کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ طرح طرح کی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ کسی واقعہ کے پیش آنے سے پہلے تقدیر کو عقیدہ کسی انسان کو بے عملی پر آمادہ نہ کرے،مثلا ایک انسان تقدیر کا بہانہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور یہ کہے کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ کر رہے گا،میں کچھ نہیں کرتا،یہ عمل حضور اقدس ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جس چیز کے حاصل کرنے کی جو تدبیر ہے،اس کو اختیار کرو،اس کے اختیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو۔
دوسری بات یہ ہے کہ تقدیر کے عقیدے پر عمل کسی واقعہ کے پیش آنے کے بعد شروع ہوتا ہے، مثلا کوئی واقعہ آچکا،تو ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ یہ سوچے کہ میں نے جو تدبیریں اختیار کرنی تھیں وہ کرلیں،اور اب جو واقعہ ہماری تدبیر کے خلاف پیش آیا،وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے ہم اس پر راضی ہیں،لہٰذا واقعہ پیش آچکنے کے بعد اس پر بہت زیادہ پر یشانی،بہت زیادہ حسرت اور تکلیف کا اظہار کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں تدبیر اختیار کر لیتا تو یوں ہو جاتا،یہ بات عقیدہ کے خلاف ہے،ان دوا نتہاوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ اعتدال یہ بتادی کہ جب تک تقدیر پیش نہیں آئی،اس وقت تک تمہارا فرض ہے کہ اپنی سی پوری کوشش کرلو،اور احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرلو،اس لیے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ تقدیر میں کیا لکھا ہے؟(اصلاحی خطبات،ج (۷،ص۲۰۷