دعا! تعویذ جھاڑ پھونک وغیرہ سے بدر جھا افضل اور بہتر ہے

ہاں! نبی کریم ﷺ دعا ضرور فرماتے تھے ، اس لیے کہ سب سے بڑی اور اصل چیز دعا ہے ، اگر براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگو ، اور دورکرت صلوۃ الحاجت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ یا اللہ ! اپنی رحمت سے میرا یہ مقصد پورا فرما دیجیئے، یا اللہ ! میری مشکل حل فرما دیجئے، یا اللہ ! میری یہ پر یشانی دور فرما دیجئے ، تو اس دعا کرنے میں ثواب ہی ثواب ہے، حضور اقدس ﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی حاجت پیش آئے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرو ، اور اگر دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھ کر دعا کرو تو زیادہ اچھا ہے ، اس سے یہ ہوگا کہ جو مقصد ہے وہ اگر مفید ہے تو ان شا ء اللہ حاصل ہوگا ، اور ثواب تو ہر حال میں ملے گا ، اس لیے کہ دعا کرنا چاہے دنیا کی غرض سے ہو وہ ثواب کو موجب ہے، اس لیے کہ دعا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’الدعا ء ھو العبادۃ‘‘ یعنی دعا بذات خود عبادت ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو ساری عمر جھاڑ پھونک کا طریقہ نہ آئے، تعویذ لکھنے کا طریقہ نہ آئے ، لیکن وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو یقیناًاس کا یہ عمل اس تعویذ اور جھاڑ پھونک سیت بدرجہا افضل اور بہتر ہے ، لہٰذا ہر وقت تعویذ گنڈے میں لگے رہنا یہ عمل سنت کے مطابق نہیں ، جو بات نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے جس حد تک ثابت ہے اس کو اسی حد پر رکھنا چاہیے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے ، اگر کبھی ضرورت پیش آئے جس حد تک ثابت ہے اس کو اسی حد پر رکھنا چاہیے ، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے، اگر کبھی ضرورت پیش آئے تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر وقت اس کے اندر انہماک اور غلو کرنااور اس کو اپنا مشغلہ بنا لینا کسی طرح بھی درست نہیں ، بس تعویذ گنڈوں کی یہ حقیقت ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ (اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۵۸)