خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم
ضبط وتحریر : حراء فاؤنڈیشن اسکول
ترتیب و ترقیم ————- ادارہ

جامع اور مؤثر نظام تعلیم کی ضرورت

۵؍ جمادی الثانیہ ۱۴۳۷ھ (۱۵ ؍مارچ ۲۰۱۶ء) پیر کے روز جامعہ دارالعلوم کراچی کے تعلیمی شعبے حراء فاؤنڈیشن اسکول میں طلبہ کے تکمیل حفظ قرآن کریم کے موقع پر "ادائے شکر” کے عنوان سے ایک باوقار تقریب کا اہتمام کیاگیا۔اس میں ممتاز علماء کرام اورماہرین تعلیم ومعاشیات نے بھی شرکت فرمائی۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم نے نظام تعلیم کے حوالے سے اس موقع پر جو خطاب فرمایاوہ بہت ہی جاندار، چشم کشا اور بصیرت افروز تھا ۔ جس میں حضرت نے راہنمائی کے لئے عمدہ خطوط کی نشاندہی فرمائی ہے ۔ یہ خطاب ان کی نظر ثانی اور مناسب ترمیم واضافہ کے بعد ذیل میں شائع کیا جارہاہے ۔حق تعالیٰ استفادے اور عمل کی توفیق عطافرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین۔

 

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا
الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم ! اما بعد!
حضرت رئیس الجامعہ مدظلہم ، حضراتِ اساتذئہ کرام اور معزز حاضرین و حاضرات!

السلا م علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے احساس ہے کہ آپ حضرات کافی دیر سے اس تقریب میں شریک ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان شاء اللہ جو وقت اس تقریب میں شرکت کا گذرا ہے وہ یقینا آپ حضرات کے لئے روح پرور ثابت ہوا ہوگا۔ اب وقت خاصا ہوچکا ہے، کھانے کا بھی انتظام ہے ، میں آپ کے صبر وبرداشت کا زیادہ امتحان لینا نہیں چاہتا لیکن بہت اختصار کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ حرا فاؤنڈیشن اسکول ،جس کی حفظ قرآن کریم کی تقریب میں آج ہم اور آپ شریک ہیں ، کا پس منظر کیا ہے ؟
یہ بات حضرت رئیس الجامعہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے مختلف نشستوں میں اور مختلف مواقع پر دہرائی اور مجھے بھی اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات کئی جگہ سنانے کی توفیق ہوئی ،حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہ نے ایک موقع پر پاکستان کے عمومی نظام تعلیم پر تبصرہ کرتے ہوئے ارکانِ حکومت سے فرمایا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں درحقیقت ایک نئے نظام تعلیم کی ضرورت ہے ۔ پاکستان بننے سے پہلے تین بڑے نظام ہندوستان کے اندر معروف تھے ۔ ایک دارالعلوم دیوبند کا نظام تعلیم ، ایک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا نظام ِ تعلیم اور ایک دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نظام تعلیم۔حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہ نے تقریباً ۱۹۵۰ ء میں ارشادفرمایا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد درحقیقت ہمیں ملکی سطح پرنہ علی گڑھ کے نظام تعلیم کی ضرورت ہے نہ ندوۃ کے نظام تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ دیوبند کے نظام تعلیم کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں ایک چوتھے نظام تعلیم کی ضرورت ہے ،جو اسلاف کی تاریخ سے مربوط چلاآرہاہے ، بظاہر سننے والوں کو یہ بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی تھی کہ دارالعلوم دیوبند کا مفتی اعظم اور دارالعلوم دیوبند کا ایک سپوت یہ کہے کہ ہمیں پاکستان میں ملکی سطح پردیوبند کے نظام تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ایک نئے نظام تعلیم کی ضرورت ہے ۔ یہ تین نظام تعلیم جو انڈیا میں رائج تھے ان کے بارے میں مرحوم اکبر الہ آبادی نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ ؎

قلب یقظاں ہے مثالِ دیوبند
اور ندوہ ہے زبان ہوشمند
اب علی گڑھ کی بھی تم تمثیل لو
اک معز ز پیٹ تم ا س کو کہو

حضرت والد ماجد قدس اللہ تعالیٰ سرہ نے جو بات ارشاد فرمائی وہ درحقیقت بہت گہری بات ہے اور اس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہمارے ہاں بڑی بڑی غلط فہمیاں پید اہوگئی ہیں۔
یہ تین نظام تعلیم جوہندوستان کے اندر جاری تھے وہ درحقیقت انگریز کے لائے ہوئے نظام کا ایک نتیجہ تھے انگریز کی لائی ہوئی سازشوں کا ردعمل تھے ورنہ اس سے پہلے اگر آپ مسلمانوں کے صدیوں پرمحیط نظام تعلیم پر غور کریں اور اس کو دیکھیں تو اس میں مدرسہ اور اسکول کی کوئی تفریق نہیں ملے گی وہاں شروع سے لے کر استعمار کے زمانے تک مسلسل یہ صورت حال رہی ہے کہ مدارس یا جامعات بیک وقت دینی تعلیم بھی دیتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور صورت حال یہ تھی کہ شریعت نے جوبات مقرر کی ہے کہ جہاں تک عالم بننے کا تعلق ہے ، توعالم بننا ہر آدمی کے لئے فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے یعنی اگر ضرورت کے مطابق کسی بستی میں کسی ملک میں علماء تیار ہوجائیں تو باقی سب لوگوں کی طرف سے فریضہ اداہوجاتا ہے ۔ لیکن دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنا ہرمسلمان کے ذمہ فرض عین ہے ۔
سابقہ ادوار میں قائم ان مدارس میں فرض عین کی تعلیم بلاامتیاز ہر شخص کو دی جاتی تھی البتہ جس کو علم دین میںاختصاص حاصل کرناہوتا اس کے لئے مواقع میسر تھے اورجو کسی عصری علم کے اندر اختصاص حاصل کرنا چاہتا ۔ اس کے مواقع الگ دستیاب تھے۔
میں گذشتہ سال مراکش گیا تھا اور برادر معظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم اس سال مراکش تشریف لے گئے تھے ۔مراکش آج جس ملک کو کہا جاتا ہے اس کو انگریزی میں Morroco کہتے ہیں اور عربی میں اس کو المغرب کہا جاتا ہے ۔ اس کے ایک شہر کا نام فاس ہے ۔ میں پچھلے سال اس شہر میںگیا تھا اور حضرت بھی اس سال وہاں تشریف لے گئے تھے وہاں جامع القرویین کے نام سے ایک ادارہ ہے جو آج تک کام کررہاہے۔ اگرہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی جامعات کا جائزہ لیں تو چاراہم اسلامی جامعات ہماری تاریخ میں نظر آتی ہیں ان میں سب سے پہلی جامعۃ القرویین ہے ۔دوسری تیونس کی جامعہ زیتونۃ ہے تیسری مصر کی جامعۃ الازھر ہے اور چوتھی دارالعلوم دیوبند ہے۔تاریخ کی ترتیب اس طرح ہے ۔
اس میں سب سے پہلی یونیورسٹی جامع القرویین جو فاس کے اندر قائم ہوئی وہ تیسری صدی ہجری کی یونیورسٹی ہے ۔اور اس تیسری صدی کی یونیورسٹی کے بارے میں تاریخ کے کتابچہ میں دعویٰ کیا گیا ہے اور ابھی تک اس کی کوئی تردید میرے سامنے نہیں آئی کہ یہ صرف عالم اسلام ہی کی نہیں بلکہ ساری دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے ۔ کیا معنی ؟ کہ اس وقت جامع القرویین کے اندر جو علوم پڑھائے جاتے تھے ان علوم میں اسلامی علوم ، تفسیر، حدیث ، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی ،تاریخ، فلکیات سارے علوم جن کو آج عصری علوم کہا جاتا ہے وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ابن خلدونؒ نے وہاں درس دیا ، ابن رشدؒ نے وہاں درس دیا قاضی عیاضؒ نے وہاں درس دیا، اسلاف کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے وہاں درس دیا اور ان کی جگہیں آج بھی محفوظ ہیں کہ یہ جگہ وہ ہے جہاں ابن خلدونؒ درس دیا کرتے تھے یہ جگہ وہ ہے جہاں ابن رشد ؒدرس دیا کرتے تھے یہ جگہ وہ ہے جہاں قاضی عیاضؒ نے درس دیا ہے یہاں ابن عربی مالکی ؒنے درس دیا ہے یہ سب جگہیں محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے ۔ مدارس تو چھوٹے چھوٹے ہر جگہ ہوں گے لیکن جامع القرویین ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں تمام عصری، دینی ودنیاوی علوم پڑھائے جاتے تھے اور اس میں آج بھی اُس زمانے یعنی تیسری صدی اور چوتھی صدی کی جو سائنٹفک ایجادات ہیں ان کے نمونے رکھے ہوئے ہیں کہ اس زمانے میں اسی جامع القرویین سے لوگوں نے جو ایجادات کی ہیں ، گھڑی وغیرہ ، ان ایجادات کے نمونے آج بھی وہاں موجود ہیں۔
تصور کیجئے کہ یہ تیسری صدی ہجری کی یونیورسٹی ہے اور اسلامی علوم کے بادشاہ بھی وہیں سے پیدا ہوئے ابن رشد فلسفی وہیں سے پیدا ہوئے اور وہیں سے بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے، تو ہوتا کیا تھا کہ جتنا علم فرض عین ہے وہ تو سب کو اکٹھا دیا جاتاتھا اور اس کے بعد اگر کسی کو علم دین کے اندر اختصاص حاصل کرنا ہے تو وہ علم دین کے دروس اسی جامع القرویین کے اندر پڑھے گا اور اسی میں ریاضی پڑھانے والا ہے تو ریاضی بھی وہاں پڑھارہا ہوگا۔طِب پڑھانے والا ہے تو طب بھی وہاں پڑھا رہا ہوگا یہ ساراکا سارا نظام اس طرح چلا۔
جامع القرویین اس طرح چلی ، جامع زیتونہ اسی طرح چلی اور جامع الازھر اسی طرح چلی، یہ تینوں یونیورسٹیاں ہی ہمارے قدیم ماضی کی یونیورسٹیاں ہیں ان میں اس طرح تعلیم دی گئی کہ دینی اور عصری دونوں چیزیں اس طرح ساتھ ساتھ چلیں کہ ایک ہی چھت کے نیچے سارے علوم پڑھائے جاتے تھے ۔
اس میں آپ یہ دیکھیں گے کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ جو حدیث اور سنت کے امام ہیں ان کا حلیہ دیکھ لیجئے ، اور ابن خلدونؒ جو فلسفہ وتاریخ کے امام ہیں ان کا حلیہ دیکھ لیجئے دونوں کو دیکھنے میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گاکہ یہ دین کا عالم ہے یہ دنیا کا عالم ہے۔ ان کا حلیہ ان کی ثقافت ، ان کا طرز زندگی ان کا طرزِ کلام سب یکساں ہے ،ہمارے جومشہور سائنسدان گذرے ہیں فارابی ، ابن رشد اور ابوریحان البیرونی ، ان سب کا حلیہ دیکھ لیجئے پھر محدثین اور فقہاء کا حلیہ دیکھ لیجئے دونوں کا حلیہ ایک جیسا ہی نظر آئے گا۔
اگر وہ نماز پڑھتے ہیں تو یہ بھی نماز پڑھتے ہیں اگران کو نماز کے مسائل معلوم ہیں تو ان کو بھی ضروری حدتک معلوم ہیں اگران کو روزہ کے مسائل معلوم ہیں تو ان کو بھی معلوم ہیں بنیادی تعلیمات جو ہر انسان کے لئے فرض عین ہیں وہ یہ ہر انسان جانتاتھا اور اس یونیورسٹی میں وہ ساری چیزیں پڑھائی جاتی تھیں۔
تفریق یہاں سے پیداہوئی کہ انگریز نے آکرایک سازش کے تحت ایک ایسا نظام تعلیم جاری کیا جس سے دین کو دیس نکالادے دیا گیا اس وقت ہمارے اکابر مجبور ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے دین کے تحفظ کے لئے کم ازکم جو فرض کفایہ ہے اس کا تحفظ کرلیں ۔اور ایسے علماء پیداکریں جو دینی علوم میں دسترس حاصل کرکے عام مسلمانوں کو دین سے آگاہ کریں۔اور جو کام عام درس گاہوں کے کرنے کا تھا ، وہ خود انجام دے کر مسلمانوں کے دین کا تحفظ کریں۔ اس کے لئے انہوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا جس نے الحمد للہ وہ عظیم خدمات انجام دیں جن کی تاریخ میں نظیر ملنی مشکل ہے ۔
تو اگر پاکستان صحیح معنی میں اسلامی ریاست بنتا اور صحیح معنی میں اس کے اندر اسلامی احکام کا نفاذ ہوتا تو اس صورت میں بقول والد ماجد ؒ ملکی سطح کے نظام تعلیم کے لئے ہمیں نہ علی گڑھ کی ضرورت تھی نہ ندوہ کی، نہ دارالعلوم دیوبند کی، ہمیں جامع القرویین کی ضرورت تھی ، ہمیں جامع زیتونہ کی ضرورت تھی جہاں سارے کے سارے علوم اکٹھے پڑھائے جائیں اور سب دین کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں ،چاہے وہ انجینئرہو،چاہے وہ ڈاکٹر ہو،چاہے کسی بھی شعبۂ زندگی سے وابستہ ہو وہ دین کے رنگ میں رنگاہوا ہو لیکن ایک ایسا نظام تعلیم لاکر ہم پر لاد دیا گیا جس نے ہمیں سوائے ذہنی غلامی کے کچھ نہ دیا ، اکبر الہ آبادی نے صحیح کہا تھا کہ ؎

اب علی گڑھ کی بھی تمثیل لو
اک معزز پیٹ تم اس کو کہو

صرف پیٹ بھرنے کا ایک راستہ نکالنے کے لئے یہ نظام تعلیم لایا گیا اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی پوری تاریخ ا ورورثہ تباہ کردیا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اس نئے نظام تعلیم کے ذریعے جو زبردست فرق واقع ہوئے ، ان میں ایک تو یہ کہ جو فرد اس نظام تعلیم سے پید اہورہا ہے اس کو دین کے بنیادی فرائض کا بھی پتا نہیں ہے وہ نہیں جانتا کہ فرض عین کیا ہے ؟دوسرے اس طرح کے افکار مسلط کردیے گئے کہ اگر عقل اور ترقی چاہتے ہو تو اس کے لئے صرف اور صرف مغرب کی طرف دیکھنا ہوگا۔تیسرے اس کی ثقافت بد ل دی گئی سب کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ اگر ترقی چاہتے ہو تو وہ صرف مغربی افکار میں ملے گی ، مغربی ماحول میں ملے گی ، مغربی انداز میں ملے گی اور افسوس یہ ہے کہ اس نئے نظام تعلیم سے جو لوگ گریجویٹ یا ڈاکٹر یا پروفیسر بن کر پیدا ہوتے ہیں وہ ہم جیسے طالب علمو ں پر روزانہ تنقید کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے ا جتھادکا دروازہ بند کردیا ہے ، یہ اجتہاد نہیں کرتے۔
اجتہاد فقہ، قرآن وسنت کے اندر تو بلاشبہ ممتاز علمی استعداد پر مبنی عجیب چیز تھی لیکن دوسری طرف ان عصری تعلیمی اداروں میںایک ایسی چیز ہے جس کے لئے اجتہاد کا دروازہ چاروں طرف چوپٹ کھلا ہواتھا، وہ تھی سائنس ،وہ تھی ٹیکنالوجی اور ریاضی ،وہ تھے علوم عصریہ ۔ ان میں تو کسی پر اجتہاد کا دروازہ بند نہیں تھا۔ علی گڑھ کے نظام تعلیم کے ذریعے اور اس نئے نظام تعلیم کے ذریعے آپ نے کیوں ایسے مجتہد پیدا نہیں کئے جو مغرب کے سائنسدانوں کا مقابلہ کرسکتے۔اس میں آپ نے ایسے مجتہد کیوں پیدا نہیں کئے جو سائنسی تحقیقات میںاجتہاد کرکے طب میں نئے راستے نکالتے جو فلکیات میں نئے راستے نکالتے۔ اجتہاد کا دروازہ جہاں چوپٹ کھلاہواتھا وہاں توآپ نے کوئی قابل ذکراجتہاد کیا نہیں، اور جہاں قرآن وسنت کی پابندی ہے کہ قرآن وسنت کے حدود کے اندر رہ کر ہی اجتہاد کرنا ہوتا ہے وہاں آ پ کو شکایت ہے کہ علماء کرام اجتہاد کیوں نہیں کرتے۔
ابھی کچھ دن پہلے مجھے کسی صاحب نے کلپ دکھایا جس میں ایک نو تعلیم یافتہ صاحب ایک عالم دین سے یہ سوال کررہے تھے کہ مولانا !یہ بتائیے کہ علماء کرام کی دینی خدمات اپنی جگہ لیکن یہ کیا بات ہے کہ مسلمانوں میں عالمی سطح کاکوئی سائنسدان پیدا نہیں ہوا، کوئی نئی ایجاد نہیں ہوئی ؟ علماء کرام کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟
بندئہ خدا !یہ سوال تو آپ اپنے آپ سے کرتے کہ ہمارے نظام تعلیم کے اندر آیاکوئی ایسا مجتہد ہوا جس نے کوئی نئی ایجاد کی ہو؟ لیکن وہاں تو دروازے اجہتادکے اس طرح بند ہیں کہ جو انگریز نے کہہ دیا ، یا مغرب نے کہہ دیا بس وہ نظریہ ہے ،اس نے جو دوا بتادی وہ دوادوا ہے ، اس نے اگر کسی چیز کو صحت کے لئے مضر کہہ دیا تو وہ مضر ہے ،ہرمعاملہ میں اسی کی بات حرف آخر ہے ۔اب انڈہ کی زردی کو سالہا سال سے کہا جارہاتھا کہ یہ کولیسٹرول پیدا کرتی ہے اور امراضِ قلب کے لئے مضر ہوتی ہے ۔لیکن آج ہر ڈاکٹر یہ کہہ رہا ہے کہ انڈے کی زردی کھاؤ اس سے کچھ نہیں ہوتا کیوں؟ اس لئے کہ اب مغرب سے یہ پیغام آگیا ہے اس لئے آپ نے اس کوقبول کرلیا۔
ہمارے اس ملک میں اندر بے شمار جڑی بوٹیاں پھیلی ہوئی ہیں ان پر بھی آپ نے تحقیق کی ہوتی ۔آپ نے کوئی نتیجہ نکالا ہوتا کہ یہ جڑی بوٹیاں کن امراض میں فائدہ مندہوتی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلونجی کے فوائد بیان فرمائے تھے اس پر کوئی تحقیق کی ہوتی، وہاں تو اجتہاد کا دروازہ مکمل بند ہے اور اس میں کوئی تحقیق کا راستہ نہیں ہے اور قرآن وسنت میں اجتہاد کا مطالبہ ہے ۔تو یہ ذہنی غلامی کانتیجہ ہے جس نے ہمیں اس نتیجہ تک پہنچایا ۔
اس نظام تعلیم کادوسرا نقصان یہ ہوا کہ اس میں تصورات بدل دیے ،پہلے علم کا تصور اعلیٰ تھا جس کا مقصد معاشرے کی خدمت تھی مخلوق کی خدمت تھی یہ اصل مقصود تھا اس کے تحت اگرمعاشی فوائدبھی حاصل ہوجائیں تو وہ ثانوی حیثیت رکھتے تھے لیکن آج معاملہ الٹا ہوگیا ہے ، علم کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے ، علم کا مقصد یہ ہے کہ اتنا علم حاصل کرلو جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جیب سے پیسے نکال سکو۔تمہاراعلم اس وقت کار آمد ہے جب تم لوگوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ کماسکو جو لوگ پڑھ رہے ہیں گریجویشن کررہے ہیں ، ماسٹراور، پی ۔ ایچ ۔ ڈی کی ڈگریاں لے رہے ہیں ان کے ذہن پڑھ کر دیکھو ، کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ کیرئیراچھا ہو ،اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ اچھی ملازمتیں ملیں۔ اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ پیسے زیادہ ملیں۔ تعلیم کی ساری ذہنیت بدل کر یہ کردی کہ علم کا مقصد پیسہ کمانا ہے ۔ معاشرے کی کوئی خدمت کرنی ہے ، مخلوق کی کوئی خدمت کرنی ہے اس کا کوئی تصور اس موجودہ نظام تعلیم کے اندر نہیں ہے ۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگاہواہے ، اس کو نہ وطن کی فکر ہے نہ ملک وملت کی فکر ہے ۔ نہ مخلوق کی خدمت کرنے کاکوئی جذبہ اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے بلکہ دن رات وہ اسی دوڑ دھوپ میں مگن ہے کہ پیسے زیادہ بننے چاھئییںالّا ماشاء اللہ نتیجہ یہ کہ بدعنوانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔مستثنیات ہر جگہ ہوتے ہیں ، یہاں بھی ہیں ، لیکن بحیثیت مجموعی موجودہ نظام تعلیم کے تحت جو لوگ تیار ہورہے ہیں بتایئے انہوں نے مخلوق کی کتنی خدمت کی ہے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے ، ہمیں تو پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تلقین فرمائی تھی کہ: اللھم لاتجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا ولاَ غایۃ رغبتنا "اے اللہ دنیا کو ہمارے لئے ایسا نہ بنائیے کہ دھیان دنیا ہی کی طرف رہے نہ ہمارے علم کا سارا مبلغ ، دنیا ہی ہوکر رہ جائے اور نہ ہماری ساری رغبتوں اور شوق کا مرکز دنیا ہوکر رہ جائے” لیکن اس نظام تعلیم نے کایا پلٹ دی ،تو درحقیقت حضرت والد ماجدنے جو بات فرمائی تھی اس کا منشا یہ ہے کہ استعمار کے بعد، انگریزکی غلامی کے بعد جوکایا پلٹی ہے اب اس کاعلاج یہ ہے کہ اس کو پلٹ کر دوبارہ اس طرف جائیں ، جو راستہ جامع القرویین نے دکھایا جو جامع زیتونہ نے دکھایا اور جو ابتدائی دور میں جامع ازھر نے دکھایا،ابتدائی دور کی بات اس لئے کررہا ہوں کہ اب ان اداروں کو بھی استعمار کے زہر نے متأثر کردیا ہے ۔
پاکستان میں چونکہ حکومتی سطح پر وہ نظام قائم نہ ہوسکا لہذا مجبوراً جو دارالعلوم دیوبند کا نظام تھا کہ کم ازکم علوم نبوت کا تحفظ تو ہو ،اس غرض سے مدارس الحمد للہ قائم ہوئے اور الحمد للہ انہوں نے نامساعد حالات میں عظیم خدمات انجام دیں۔جب تک ہمیں ان حکمرانوں پر اور نظام حکومت پر اور ان کے بنائے ہوئے قوانین پر بھروسہ نہیں ہوجاتا اور مستقبل قریب میں بھروسہ ہونے کی امید بھی نہیں ہے ۔اس وقت تک ہم ان مدارس کا تحفظ کریں گے اور ان مدارس کو اسی طرح برقرار رکھیں گے جس طرح ہمارے اکابر نے دیوبند میں ان کی بنیاد قائم کی تھی۔ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے کیونکہ مسلمانوں کے دین کا تحفظ ان پر موقوف ہوگیا ہے اس کے علاوہ اگرملک کا مجموعی تعلیمی نظام درست ہو بھی جائے ، تو اختصاصی تعلیم گاہوں کی حیثیت سے ان کی ضرورت واہمیت بہرحال برقراررہے گی لیکن ہم چاہتے ہیں کہ جو کام حکومتی سطح پر نہیں ہوسکا کہ عام نظام تعلیم میں دین سمویا ہواہو، وہ رفتہ رفتہ ہم اپنے مدارس کے ذریعے انجام دینے کی کوشش کریں ۔ اور انہی مدارس کے ماحول میں عصری مضامین اس طرح پڑھانے کی کوشش کریں جو دین کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں، الحمد للہ پاکستان کے اندر دینی مدارس کی تعداد بقدر ضرورت اچھی ہوگئی ہے لیکن یہ مدارس فرض کفایہ کی تعلیم دے رہے ہیں ان کا اگر تناسب دیکھا جائے تو مشکل سے ایک فیصد ہو گالیکن ننانوے فیصد قوم کی آبادی جس نظام کے تحت تعلیم پارہی ہے ، اس کی وجہ سے وہ ذہنی غلام بن رہی ہے میں حراء فاؤنڈیشن اسکول کے اساتذہ اور معلمات سے کئی مرتبہ خطاب میں یہ بات کہہ چکاہوں،اور کہتا رہتا ہوں کہ آپ کا اصل مقصد یہ ہے کہ خدا کے لئے ہماری اس نسل کو اس ذہنی غلامی سے نکالئے ، آپ کو بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانی ہے کہ ہم الحمد للہ ایک آزاد قوم ہیں ہم ایک آزاد سوچ رکھتے ہیں ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی سوچ رکھتے ہیں اور یہ جو ذہنی غلامی کا تصور پھیلایا گیا ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ مغرب سے آئے گا اور مغربی افکار اس میں پروان چڑھیں گے خدا کے لئے نئی نسلوں کے ذہنوں سے اس تصور کومٹائیے اور ان کے اندر اسلامی ذہنیت پیدا کیجئے اس مقصد کے لئے ہم نے یہ ادارہ قائم کیا۔ مغربی نظام میں کچھ چیزیں بری ہیں کچھ چیزیں اچھی ہیںاچھی چیزوں کو لے لو اوربُری چیزوں کو پھینک دو ، خُذْ مَاصَفَا وَدَعْ مَاکَدَرَ، اقبال مرحوم نے ایسے حسین تبصرے کئے ہیں جو قوم کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔مغرب کی جو ترقی کہیں سے کہیں پہنچی ہے ، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کئی شعر کہے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ :

قوّت مغرب نہ ازچنگُ و رباب
نے ز ر قص ِدخترانِ بے حجاب

مغرب کی طاقت نہ تو اس وجہ سے ہوئی کہ وہاں موسیقی کے آلات تھے نہ اس وجہ سے ہوئی کہ وہاں بے پردہ عورتیں رقص کرتی تھیں۔
نے ز سحرِ سا حر ا نِ لا لہ ُ ر و ست
نے ز عُریاں ساق ونے از قطعِ مُوست

نہ اس وجہ سے ہوئی کہ وہاں حسین عورتیں بہت پھرتی ہیں ،انہوں نے ٹانگیں ننگی کررکھی ہیں اور اپنے بال تراش رکھے ہیں ،ترقی اس وجہ سے نہیں ہوئی ۔
قوتِ افرنگ از علم وفن است
فرنگ کی اگر قوت ہوئی ہے تو وہ علم وفن میں محنت کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
ازہمیں آتش چراغش روشن ست
اسی آگ سے اس کا چراغ روشن ہے ۔
اور پھر آخر میں ایک خوبصورت شعر کہا ہے :
حکمت از قطع وبُرید جامہ نیست
یعنی کپڑوں کی قطع وبرید سے اور تراش خراش سے حاصل نہیں ہوتا کہ کوٹ پتلون پہن لیا تو ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہوگئے اور اگر شلوا ر قمیض پہن لیا تو پسماندہ اور ترقی سے دور ہوگئے ۔ کپڑوں کی تراش خراش سے حکمت نہیں آیا کرتی ۔
مانعِ علم وہُنر عمّامہ نیست
اگر عمامہ پہن لوگے تو اس سے علم وہنر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ، تم نے کن ظواہر کو یہ سمجھا ہوا ہے کہ مغرب کو قوت ان سے حاصل ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میںاپنی نسلوں کو ان کے پیچھے چلارہے ہو ۔

حقیقت میں مغرب کو ترقی علم وہنر میں محنت کرنے سے حاصل ہوئی ، تم اپنی دینی روایات کو برقراررکھتے ہوئے علم وہنر میں محنت کروگے ۔ تو تم بھی ترقی حاصل کرسکتے ہو، لیکن دنیا کا علم وہنر بے دین افکار پر موقوف نہیں ہے ، نہ اس بات پر موقوف ہے کہ تم اپنے طرز زندگی کو بھی پوری طرح مغرب کے سانچے میں ڈھال لو جیسا کہ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو ، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تم علم وہنر کے میدان میں بھی آزاد سوچ سے محروم ہو ۔ اسی حقیقت کو بھی اقبالؔ مرحوم نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔اس کے یہ اشعار ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونے چاھییں۔ وہ مغرب زدہ حضرات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

علمِ غیر آ مو ختی ، ا ند و ختی
روئے خویش ازغازہ اش افروختی

"تم نے دوسروں کا علم حاصل کرکے اپنا سارا ذخیرہ اسی کو بنالیا ہے اور اپنے چہرے کو انہی کے غازے (سُرخی) سے روشن کررکھاہے”۔
ارجمندی ازشعارش می بری
من نہ دانم ، تُو تُوئی یادیگری

"انہی کی امتیازی علامتیں اختیار کرکے فخر کرتے ہو، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تُم تُم ہو، یا کوئی اور ہو”۔
عقلِ تو ز نجیر ئی ا فکارِ غیر
درگلوئے تو نَفَس از تارِ غیر

تمہاری عقل دوسروں کے افکار کی زنجیر میں بندھی ہوئی ہے اور تمہارے گلے میں سانس بھی دوسروں کے تارسے آتاہے ۔
برزبانت گفتگوھا مستعار
د ر دِلِ تو آرزوھا مستعار

تمہاری زبان ر جو گفتگو آتی ہے ، وہ بھی دوسروں سے مانگی ہوئی ہے اور تمہارے دل میں جو آرزویں پیدا ہوتی ہیں ، وہ بھی مانگی ہوئی ہیں۔
آںؐ نگاہش سرِّ مَازَاغَ الْبَصَرُ
سوئے قومِ خو یش با ز آید اگر

وہ ذات گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) جس کی نگاہ کے بارے میں (قرآن نے فرمایا ہے کہ) وہ کبھی ٹیڑھی نہیں ہوئی ، اگر اپنی قوم کے پاس دوبارہ تشریف لے آئے ،
لَست منّی گویدت مولائے ماؐ
وائے ما، اے وائے ما، اے وائے ما

تو وہ ہمارے مولیٰ تمہیں دیکھ کر یہ فرمائیں گے کہ "تم میرے نہیں ہو” ہائے ہماری محرومی ، ہائے ہماری محرومی ، ہائے ہماری محرومی!
اس ہولناک انجام سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہمیں عصری علوم کی تعلیم کے لئے بھی ایسی درسگاہیں چاھییں جو ہر علم وفن کی اعلیٰ تعلیم دیں، لیکن مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوکردیں، اپنی دینی روایات کو برقرار رکھ کردیں۔

جامعہ دارالعلوم کراچی نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دارالعلوم ہی کے ماحول میں پہلے ایک اردو میڈیم اسکول حضرت والد صاحب قدس سرہ کے زمانے میں ہی قائم کردیاتھا،اور اب حراء فاؤنڈیشن اسکول کے نام سے انگلش میڈیم اسکول قائم کیا ہے ، اور اس کے نصاب ونظام کو مسلمانوں کی دینی ضروریات کے مطابق مرتب کیا گیا ہے ، اور نصاب ونظام میں مزید بہتری کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ اگرچہ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم ان کی مادری زبان میں دینی چاہئے ، لیکن چونکہ ایک وباچل پڑی ہے ، اور جو خاندان اس سے متأثر ہیں اور اپنے بچوں کو انگلش میڈیم ہی میں پڑھاناچاہتے ہیں ، ان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہم نے اسے انگلش میڈیم ضروررکھا ہے ، لیکن اس کے ساتھ الحمد للہ قرآن کریم حفظ وناظرہ کی تعلیم پورے اہتمام سے دی جارہی ہے ، جیسا کہ آپ نے بچوں کے مظاہرے میں دیکھا ، نیز عربی زبان بھی سکھائی جارہی ہے ، اور اردو کو بھی اچھے معیارکے ساتھ پڑھایا جارہاہے ، اس کے علاوہ بچوں کی دینی تربیت کا بھی اہتمام ہے ۔
عزیزم مولانا عمران اشرف سلمہ چونکہ میرے بیٹے ہیں ، اس لئے ان کے لئے تعریفی کلمات کہنے میں مجھے تکلف ہوتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دن رات کھپاکر انتہائی عرق ریزی کے ساتھ جس طرح دارالعلوم کے اس شعبے کے لئے محنت کی ہے ۔اور ان کے رفقاء ، بالخصوص مولانا نجیب صاحب نے ان کے ساتھ مل کر اسے پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر انہیں جزائے خیر عطافرمائیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہماری نیتوں میں بھی اخلاص پیدا فرمائے ہمارے طریقۂ عمل میں بھی اللہ تعالیٰ سلامتی عطافرمائے اور ہر طرح کے شرو فتنے سے ہماری حفاظت فرمائے اور اس کام کو اللہ تعالیٰ اپنی رضاکے مطابق آگے بڑھانے کی توفیق عطافرمائے ۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – جمادی الثانیہ/ رجب المرجب 1437 ھ)