رمضان کے بعدبھی اللہ قریب ہے(حصہ دوم)

(حصہ دوم)

الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰیکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ Oوَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ
یَرْشُدُونَ } (البقرۃ: ۱۸۵،۱۸۶)
اختتامِ رمضان پر بشارت
رمضان المبارک کی تکمیل کے بعدیہ پہلی مجلس منقعدہورہی ہے،ہمارے شیخ ومربی حضرت عارفیؒقدس اللہ سرہ کی خدمت میں جب ہم عیدکے بعدحاضرہوتے تھے تووہ بڑی مسرت اوربشاشت کااظہارفرماتے تھے اوربڑی مسرت سے فرمایاکرتے تھے کہ یہ ہم سب کیلئے بڑی خوشی کاموقع ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشے بخشائے ہیں۔
یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں نبیِ کریم سرورِدوعالم ﷺنے یہ بیان فرمایاکہ جب مسلمان رمضان کے روزوں کی تکمیل کے بعدعیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں تواللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فرشتوں سے یوں خطاب فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو! اس مزدورکاصلہ کیاہوناچاہئے جس نے اپنے حصے کاکام پوراکرلیاہو؟فرشتے جواب میں کہتے ہیں کہ پروردْگار!اس مزدورکاصلہ یہ ہوناچاہئے کہ اس کی اُجرت اسے پوری پوری دیدی جائے۔
پھراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے اوربندیوں نے میرے فریضے (رمضان کے روزے) کوپوراکردیااورآج یہاں عیدگاہ میں میرے پاس مجھ سے دعائیں کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں،پھراللہ تعالیٰ اپنے عزت وجلال،اپنی کبریائی اوراپنی رفعت ِمقام کا ذکرفرماکراوراس کی قسم کھاکریہ فرماتے ہیںکہ میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاکریہ کہتا ہوںکہ میں ان سب کی دعائیں قبول کروں گااوران کواس حالت میں واپس بھیجوں گاکہ سب کی مغفرت کی جاچکی ہوگی اوران کی برائیوں کوبھی حسنات میں تبدیل کردوں گا۔
یہ عظیم بشارت نبیِ کریم سرورِدوعالم ﷺنے ارشادفرمائی،اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمارے حضرت قدس اللہ سرہ بڑی مسرت کے ساتھ فرمایاکرتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے ہمیں اُمیدہے کہ ہم سب بخشے بخشائے ہیں،کیونکہ مذکورہ حدیث میں الفاظ ہیں{ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّھُمْ}جب مسلمان عیدگاہ سے واپس جائیں گے توسب کی مغفرت ہوچکی ہوگی۔
قرآنِ کریم کاخاص اندازِبیان
قرآن کریم کی مذکورہ تلاوت کی گئی آیات میںاللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کا اوراشارۃً عیدکابھی ذکربڑے عجیب اندازمیں فرمایا۔پہلے رمضان المبارک کی فضیلت بیان فرمائی کہ
{ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاسِ
وَبَیِّنٰتٍ مِنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ }
پھرروزے کی فرضیت بیان فرمائی
{ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ }
اس کے بعدفرمایا
{ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ }
اگرتم میں سے کوئی شخص بیمارہویاسفرپرہوروزوں کی اتنی ہی گنتی دوسرے دنوں میں پوری کرلے۔
اس کے بعدفرمایا:
{ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ }
اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کامعاملہ کرناچاہتے ہیں،تم پرکوئی مشکل ڈالنانہیں چاہتے۔
پھرفرمایا:
{ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ } (البقرۃ: ۱۸۵، ۱۸۶)
تاکہ تم گنتی پوری کرلو۔
اللہ جل جلالہ کی عبادت کاحق کوئی بندہ ادانہیں کرسکتا،روزہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے،جس مقام اورجس مرتبے کاروزہ ہونا چاہئے وہ روزے ہم لوگ کہاں رکھتے ہیں،اس لئے اس آیت میںاس لفظ{ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ }سے شایداشارہ اس طرف ہے کہ روزے کی حقیقت کاتم کوکیاپتہ ؟لیکن بس اتناکرلوکہ گنتی پوری کرلو۔ اگر ہمارے حکم کی تعمیل کرتے ہوتے تم نے گنتی پوری کرلی توچاہے وہ روزے ہمار ی شایانِ شان نہ ہوں،تب بھی ہم قبول فرمالیںگے۔
اتباعِ امرِخداوندی اصل چیزہے
ہمارے نزدیک جس چیزکی قیمت ہے وہ ہمارے حکم کی اتباع ہے ،رمضان المبارک کے تیس دنوں میں تم نے ہمارے حکم کی وجہ سے کھاناپیناچھوڑدیاتوتم نے اپنے بس کاکام کرلیا،اب وہ ہمارے شایانِ شان توکیاہوگالیکن ہم اس گنتی کوتمہارے نامۂِ اعمال میں شمارکرکے ان شاء اللہ تمہیں وہی ثواب عطافرمائیں گے کہ جوہم نے روزہ دار کیلئے رکھاہے کہ{ اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ } روزہ میرے لئے تھااورمیں ہی اس کابدلہ دوں گا۔
میرے شیخ حضرت عارفی قدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے جوکہ حضرت حکیم الاُمت قدس اللہ سرہ کے مواعظ میں بھی دیکھاکہ یہ بات اس سیاق میں فرمائی کہ اگرکسی شخص نے بیماری کی وجہ سے روزے چھوڑدئے یاسفرکی وجہ سے چھوڑدئے تودونوں شرعی عذر تھے،ان کیوجہ سے روزے چھوڑے،بعض اوقات انسان کوافسوس ہوتاہے،حسرت ہوتی ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا،بلکہ خواتین کواپنی شرعی مجبوری کی وجہ سے کچھ نہ کچھ روزے چھوڑنے پڑتے ہیں،اس کی وجہ سے بھی ان کوحسرت رہتی ہے،ہماے حضرت والافرماتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے یہ اُمیدہے کہ اگرچہ یہ روزے رمضان کے دنوں میں چھوٹ گئے اوربعدکے دنوں میں ان کی قضا ہوگی،لیکن جب وہ سفروالے،بیماری والے یاخواتین کی شرعی مجبوری والے روزے قضاکروگے کہ اس دن ان شاء اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے سارے فضائل حاصل ہوںگے،کیونکہ حکم گنتی پوری کرنے کاہے اورروزے قضاکرکے بھی رمضان المبارک کی گنتی پوری کی جارہی ہے،توان شاء اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے فضائل بھی حاصل ہوں گے۔
اس کے بعدفرمایا:
{ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰیکُمْ }
یہ رمضان کے دن ہم نے اس لئے دئے ہیں تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی کبریائی اوراس کی بڑائی کااظہارکروکہ اس نے تمہیں ہدایت عطافرمائی ہے،یعنی رمضان المبارک کامہینہ ہدایت کامنبع ہے،کیونکہ قرآن مجیداس مہینے میں نازل ہوا،اس ہدایت کے ملنے پراللہ تعالیٰ کی کبریائی ،اس کی بڑائی اوراس کی حمدوثناء کرو۔
رمضان المبارک اوراللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی
رمضان کے سیاق میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے ذکرکے کئی پہلوہیں،ایک پہلویہ ہے کہ روزہ بذات ِخوداللہ تعالیٰ کی کبریائی کااعلان ہے،کیونکہ کوئی آدمی کسی جائزاور مباح کام کوچھوڑتاہے تواپنے کسی بڑے کی حکم کی تعمیل میں چھوڑتاہے،جب تم نے کھاناپیناچھوڑاتودرحقیقت تم نے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کااعتراف کیا،اللہ تعالیٰ کوبڑا قرار دیا کہ اس کائنات میں سب سے بڑی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
دوسرے یہ کہ رمضان المبارک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جوعبادتیںفرض یا سنت قراردی ہیں،ان میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کابیان ہے کہ ان عبادتوں کوانجام دیتے ہوئے بندہ جتنازیادہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرتاہے وہ اوردنوں میں نہیں ہوتی، مثلاً رمضان میں تراویح کی بیس رکعتوں میں فی رکعت کم ازکم چھ مرتبہ اللہ اکبرکے حساب سے (۱۲۰) مرتبہ اللہ اکبرزیادہ کہاجاتاہے۔
اسی طرح رمضان المبارک گزرجانے کے بعدجب عیدکی نمازآئی تواس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ شان رکھی ہے کہ عیدگاہ کے راستے میں جاتے ہوئے تکبیرکہتے ہوئے جاؤ
{اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُلَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُوَلِلّٰہِ الْحَمْدُ}
عیدکی نمازمیں عام دورکعتوں کی بہ نسبت چھ تکبیریں زیادہ ہوتی ہیں، پھرعیدکے بعدخطبہ میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ عیدکے پہلے خطبہ میںنومرتبہ تکبیریں (متواترنومرتبہ اللہ اکبر)کہہ کرخطبہ شروع کیاجائے۔اوردوسرے خطبہ میں سات مرتبہ تکبیریں کہی جائیں۔
حدیث میں نبیِ اکرم ﷺسے مروی ہے کہ جب آپ ﷺعیدکاخطبہ دیتے تھے تودرمیان مختلف جگہ یہ تکبیرپڑھتے تھے
{اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُلَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُوَلِلّٰہِ الْحَمْدُ}
اس کے بعدفرمایا{وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}رمضان المبارک میں عبادت کی توفیق ملنے پراللہ تعالیٰ کاشکراداکرو۔
رمضان کے بعدبھی اللہ قریب ہیں
رمضان المبارک کی فضیلت سے لیکرعیدتک کاذکران آیات میں ہوا۔اس کے بعدآیت ہے
{ وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ }
اللہ تعالیٰ حضورِاقدس ﷺسے خطاب فرماکرارشاد فرمارہے ہیں کہ اگرمیرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیںتوکہہ دیناکہ میں بہت قریب ہوں۔
{ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ }
جب کوئی پکارنے والامجھے پکارتاہے تومیں اس کی پکارکاجواب دیتاہوں۔
{ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ }
لہٰذاوہ بھی میری پکارکاجواب دیںاورمجھ پرایمان لائیں،تاکہ وہ راہِ راست پرآجائیں۔
بعض اوقات رمضان کے گزرنے کے بعدانسان کی کیفیت میں کچھ تبدیلیاں آنے لگتی ہیںاوراس کے دماغ میں یہ خیال آنے لگتاہے کہ رمضان کے مہینے میں تومیں اللہ تعالیٰ کے قریب تھا،اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بھی مضبوط تھا،اللہ تعالیٰ کی عبادتیں بھی انجام پارہی تھیں،اللہ تبارک وتعالیٰ میری دعائیںبھی سن رہے تھے،روزے کی حالت میں قبولیت ِدعاکی بشارت تھی،افطارکے وقت بشارت تھی،لیلۃُ القدرمیں بشارت تھی،اب رمضان کے بعدوہ بات نہ رہی تواللہ تعالیٰ نے اس خیال اورشبہ کاازالہ یوں فرمایاکہ ٹھیک ہے رمضان چلاگیالیکن یہ نہ سمجھناکہ اللہ تعالیٰ کہیں دورچلے گئے،بلکہ اللہ تعالیٰ رمضان میں بھی تمہارے قریب تھے اوررمضان کے بعدبھی تمہارے قریب ہیں، البتہ تمہارامعاملہ یہ ہے کہ تم رمضان میں میری طرف تھوڑاساقریب آجاتے ہواور رمضان کے بعدپھربھٹکنے لگتے ہو،اگرتم چاہوتوجیسے رمضان میں تمہیں میراقرب حاصل تھااسی طرح ہروقت میراقرب حاصل کرسکتے ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ } (ق: ۱۶)
ہم بندے کے اس کی رگ ِجان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
لیکن بندہ ہی اپنی غفلت اورنافرمانیوںاوراپنی لاپروائیوں سے دورچلاجاتا ہے۔ تورمضان کے بعدبھی مجھے قریب ہی پاؤگے بشرطیکہ تم خوداس قرب کااحساس اپنے اندرپیداکرنے کی کوشش کرو۔ایک فارسی شاعرنے کہاہے ؎
تو کہ از خویش بمن نزدیکی
ورنہ من از طرف خویش بغایت دور ام
یعنی آپ تواپنی طرف سے مجھ سے بہت قریب ہیں،لیکن میں اپنی طرف سے آپ سے بہت دورچلاگیاہوں۔مذکورہ آیت کورمضان کے سیاق میں لاکریہی بات سمجھائی گئی ہے،اس کاحاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ رمضان کے بعدتم مجھے بھلانہیں دینا۔ایسانہ ہوکہ رمضان گیاتواللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔تقوٰی بھی جاتارہا،گناہوں میں مبتلاہوگئے۔
البتہ رمضان میں ہم نے تمہیں کچھ زیادہ توفیق دی تھی اورکچھ حلال چیزوں سے بھی پابندی لگادی تھی،اب رمضان کے بعدوہ پابندی اُٹھائے دیتے ہیں،ان حلال چیزوں کواستعمال کرولیکن حرام سے بچو۔رمضان میں جیسے تم نے ہمارے کہنے کی وجہ سے حلال چیزیں چھوڑدی تھیں اب رمضان کے بعدحرام چھوڑدو۔
اسی طرح رمضان میں تراویح کوہم نے سنت قراردیاتھا،اب رمضان کے بعدبیس رکعات نہ سہی ،کم ازکم تہجدپڑھ لیاکرو۔بزرگوں نے فرمایاہے کہ اگرآخری شب میں اُٹھنے کی توفیق نہ ہوتو آدمی عشاء کی نمازمیں سنتوں اوروترکے درمیان کچھ رکعتیں صلاۃُ اللیل کی نیت سے پڑھ لے تووہ بھی صلاۃُ اللیل میں شمارہوتی ہیںاور آدمی تہجدکی فضیلت سے محروم نہیں رہتا۔
اسی طرح بعض اوقات رمضان گزرنے کے بعدحسرت ہوتی ہے کہ کاش!ہم رمضان میں فلاں دعابھی کرلیتے،شب ِقدرمیں فلاں دعامانگ لیتے،اب رمضان کا مہینہ توگزرگیا،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس وقت نہیں مانگاتھاتواب مانگ لو {اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ}جب مجھے پکارنے والاپکارتاہے تومیں اس کاجواب دوں گا یعنی اس کی دعاکوقبول کروں گا،یہ ضروری نہیں کہ رمضان ہی میں قبول کروں اس کے بعدقبول نہ کروں۔
قربِ خداوندی کابہترین راستہ
اس میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ پہلے فرمایاتھاکہ میں تم سے قریب ہوں لیکن تم خودہی دورچلے گئے ہو،اب تمہیں اپنے قریب آنے کاطریقہ اورراستہ بتلائے دیتے ہیںکہ مجھ سے کثرت کے ساتھ دعامانگنے کی عادت ڈالو۔مجھ سے ہرچیزکی دعامانگو۔
حدیث میں آتاہے کہ اگرجوتے کاتسمہ بھی ٹوٹ جائے تواللہ تعالیٰ سے مانگو، یہ اللہ تعالیٰ کے قریب آنے کابہترین نسخہ ہے جونبیِ کریم ﷺنے تلقین فرمایا، بظاہریہ خیال آتاہے کہ جوتے کاتسمہ اگرٹوٹ گیاتوآدمی کسی موچی کے پاس جائے یاخودکچھ کوشش کرکے اس کوٹھیک کرے،لیکن حضورﷺنے تعلیم یہ فرمائی کہ موچی کے پاس بعد میں جاؤ،پہلے اللہ تعالیٰ سے دعامانگوکہ یااللہ! میرے جوتے کاتسمہ ٹوٹ گیااس کوٹھیک کرانے کے اسباب مہیافرمادے۔
گویاتعلیم یہ دی گئی ہے کہ دنیاکی کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹی یابڑی سے بڑی حاجت دل میں پیداہوتووہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگا ہ میں پیش کرکے پہلے دعامانگ لو،پھرکوئی اورتدبیراختیارکرو۔مثلاًگرمی شدیدہے تودعامانگ لوکہ یااللہ! گرمی لگ رہی ہے موسم اچھاکردیجئے۔یااللہ !بھوک لگ رہی ہے اچھاکھاناعطافرمادیجئے۔یااللہ! پیاس لگ رہی ہے ٹھنڈاپانی عطافرمادیجئے۔یااللہ! فلاں تکلیف محسوس ہورہی ہے اپنی رحمت سے دورفرمادیجئے۔جومسئلہ اورجوحاجت بھی درپیش ہو،و ہ اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ یہی اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کاراستہ ہے کہ اپناتمام دُکھ سکھ اللہ تعالیٰ سے کہاکرو۔ جتنازیادہ دعامانگوگے اتناہی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے چلے جاؤگے۔
ہمارے حضرت عارفی قدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ یہ ایک ایسانسخہ ہے کہ اگرکوئی شخص اس کوپلے باندھ لے اوراس پرعمل کرناشروع کردے توپہلے زمانے میں جوبات بڑے بڑے مجاہدوں اورریاضتوں سے حاصل ہواکرتی تھی،وہ اس معمولی سے عمل کے ذریعے حاصل ہوجائیگی۔پہلے زمانے میں لوگ اولیاء اللہ کی خدمت میں جاکرتعلق مع اللہ حاصل کرنے کیلئے ریاضتیں اورمجاہدے کیاکرتے تھے،بڑی بڑی مشقتیں اُٹھاتے تھے،ہمارے حضرت والافرماتے تھے کہ اب وہ ریاضتیں اورمجاہدے کون کرے گا؟اب نہ و ہ شوق رہا،نہ وہ قوی رہے اورنہ وہ ظرف رہا،لہٰذااب اللہ تعالیٰ سے تعلق اورقرب کابہترین راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کثرت سے ہربات کہنے کی عادت ڈالو،ہمارے حضرت والا(حضرت عارفی قدس اللہ سرہ)فرمایاکرتے تھے کہ اللہ میاں سے باتیں کیاکرو،زبان سے کہویادل سے ہو،اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے قرب کااحساس دل میں پیداہوگااوراللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوگا۔
پھراللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ چونکہ میںسب کی دعائیں قبول کرتاہوںاس لئے {فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ} میرے بندوں کوبھی توچاہئے کہ میری بات کوقبو ل کریں،یعنی جن باتوں کامیں نے حکم دیاہے،ان باتوں پرعمل کریںاورجن باتوں سے روکاہے ان سے بازآئیں{ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ}اورمجھ پرپکاایمان رکھیں کہ جوکچھ میرے اللہ نے کہاہے وہی مجھ پرواجبُ التعمیل ہے اوروہی میری دین ودنیاکی صلاح وفلاح کاواحدراستہ ہے، اگریہ کام کرلیاتو{لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ} سب راہِ راست پر آجائیں گے۔
یہ شروع میں پڑھی گئی آیات ِکریمہ کی مختصرتشریح ہے،ان کی روشنی میں ہمیں جوسبق مل رہاہے اللہ تعالیٰ ہمیں وہ حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
رمضان المبارک تربیت کازمانہ ہے
رمضان المبارک کی صورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے تربیت کازمانہ ہمیں اورآپ کوعطافرمایاہیتاکہہمارے دل میں تقوٰی کی کچھ شمع روشن کرنے کاراستہ نکلے۔روزوں کی فرضیت کامقصدبھی تقوٰی کاحصول ہے۔کیساہی گیا گزرامسلمان ہولیکن الحمدللہ! رمضان میں اس کے دل میں کچھ احساس پیداہوجاتاہے کہ اس مہینے میں روزے رکھوں،تراویح پڑھوں اورگناہ نہ کروں،عام دنوں کے مقابلے میں اس میں تلاوت زیادہ کروں،اللہ تعالیٰ کاذکرزیادہ کروں۔اگرکوئی مسئلہ آتاہے تواس کے دل میں کھٹک بھی پیداہوتی ہے کہ کہیں اس سے روزہ ٹوٹ تونہیں گیا،جیسے بہت سے لوگ رمضان میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ قے آگئی تھی کیامیراروزہ تونہیں ٹوٹا؟ اگرقے خودبخودآئے توروزہ نہیں ٹوٹتا،اگرجان بوجھ کرقے کی ہوتوروزہ ٹوٹ جائے گا۔
رمضان المبارک میں ہرمسلمان کے دل میں ایک احتیاط اورکھٹک پیداہوجاتی ہے،اب ہم سے مطلوب یہ ہے کہ یہی احتیاط اورکھٹک رمضان کے بعدبھی برقراررکھو، یعنی جوعمل بھی کرو،اس بات کی احتیاط کے ساتھ کروکہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسند ہوگایاناپسند،اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے یانہیں؟رمضان سے پہلے جوغفلت اوربے پروائی تھی،حلال وحرام اورجائزوناجائزکی کوئی فکرنہیں تھی،یہ طرزاب ختم کرواور رمضان کے مہینے میں جوتربیت دی گئی تھی،اس کی روح کوبرقراررکھو۔اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمارے دِلوں میں اس کوپیدافرمادے توان شاء اللہ تعالیٰ رمضان کافائدہ بھی حاصل ہوگااوررمضان کے جانے کے بعدبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے اُمیدہے کہ وہ ساری برکتیں اوررحمتیں جواللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں رکھی تھیںوہ سب ہمیں حاصل ہو ںگی۔
رمضان المبارک کانظم
اس چیزکوحاصل کرنے کیلئے ایک مختصرسانظم عرض کرتاہوں،اللہ تعالیٰ ہم سب کواس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمادے۔
نمازباجماعت کااہتمام
مردوں میں اس بات کااہتمام ضروری ہے کہ نمازباجماعت مسجدمیں اداہو،جبکہ عورتیں نمازکواپنے صحیح اوراوّل وقت میں اداکرنے کی کوشش کریں، نمازکوتمام کاموں پرمقدم سمجھیں۔حضرت فاروقِ اعظم ؓنے اپنے تمام گورنروں کو جو تقریباًآدھی دنیامیں پھیلے ہوئے تھے،باقاعدہ شاہی فرمان جاری فرمایا تھا جومؤطاامام مالک میں مذکورہے کہ:
{ اِنَّ اَھَمَّ اُمُوْرِکُمْ عِنْدِیَ الصَّلٰوۃُ }
میرے نزدیک تمہارے سارے کاموں میں سب سے زیادہ اہم کام نمازہے۔
یہ امیرالمؤمنین کی طرف سے سارے گورنروں کے نام شاہی نامہ ہے کہ ذاتی کام ہوں یاسرکاری کام ہوں،سب سے زیادہ اہم کام نمازہے۔جوشخص اس نمازکی حفاظت کرلے گاوہ اپنے دین کی حفاظت کرلیگا۔
{ وَ مَنْ ضَیَّعَھَا فَھُوَ لِمَا سِوَاھَا اَضْیَعُ }
اورجواس نمازکوضائع کردے(یاتوالعیاذباللہ پڑھے ہی نہیںیاناقص طریقے سے پڑھے،مثلاًاگرمردمسجدکی بجائے گھرمیں پڑھتاہے تویہ ادائِ ناقص ہے،یایہ کہ نمازکے ارکان وآداب کوٹھیک طریقے سے ادانہیں
کرتا)تواورکام اس سے زیادہ بربادہوں گے۔
تلاوت ِقرآنِ کریم کااہتمام
دوسری چیزیہ کہ نمازِفجرکے بعدکچھ تلاوت ِقرآن کریم کامعمول ہرشخص بنائے،کوئی دن بھی قرآنِ کریم کی تلاوت سے خالی نہ ہو۔قرآنِ کریم میں سات منزلیں ہیں،پہلے زمانے میں ایساہوتاتھاکہ ہرروزایک منزل کی تلاوت کامعمول لوگوں کاتھا اورسات دن میں پوراقرآنِ کریم ختم کرلیاجاتاتھا،ہم لوگ کمزورہیں شایداتناتحمل نہ کر پائیں ،لیکن جتناہوسکے ضرورکریں،چاہے ایک پارہ ہو،آدھاپارہ ہو،بلکہ حکیم الامت قدس اللہ سرہ نے فرمایاکہ اگرکسی سے آدھاپارہ بھی مشکل ہوتاہے توپاؤپارہ پڑھ لے یادوتین رکوع کامعمول بنالے لیکن کوئی دن قرآنِ کریم کی تلاوت سے خالی نہ گزرے۔
مسنون دعاؤں کااہتمام
اسی طرح روزانہ حضوراکرم ﷺسے منقول وماثوردعائیں ہیںجیساکہ حکیم الامت قدس اللہ سرہ کی ’’مناجات ِمقبول ‘‘میںوہ دعائیں مذکورہیںتوکوئی دن ان کی ایک منزل پڑھنے سے خالی نہ جائے،وہ دعائیں حضوراقدسﷺکی تعلیم فرمود ہ دعائیں ہیں،ایسی دعائیں ہیں کہ دنیاوآخرت کی ساری بھلائیاں اس میں جمع ہیں، اگر وہ قبول ہوجائیں تودنیاوآخرت کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی،حضوراقدسﷺ نے جس طرح جودعائیں مانگی ہیں،ہم اورآپ اس کاتصوربھی نہیں کرسکتے۔
اللہ تعالیٰ کاذکرکرنے کااہتمام
اسی طرح روزانہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاذکرکرنے کی عادت ڈالیںجیسے:
{ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ}
اور
{سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ}
اور
{اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ}
اور
{اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ}
اوردرودشریف ۔
روزانہ فجرکی نمازکے بعدتلاوت،ایک منزل مناجات ِمقبول اورمذکورہ چار تسبیحات ہرشخص اس کامعمول بنالے۔اورچلتے پھرتے ،اُٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی عادت ڈالیں۔
گناہوں سے بچنے کااہتمام
اسی طرح دل میں یہ کھٹک پیداکرلیں جورمضان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیداکی تھی کہ میں یہ کام کرنے جارہاہوں ،کہیں اس سے میرے ایمان کے تقاضے تومجروح نہیں ہورہے،جہاں کہیں گناہ کاداعیہ پیداہونے کاخدشہ ہوتوان کے اسباب سے اپنے آپ کوبچانے کی کوشش کرے۔اگردوبارہ داعیہ پیداہورہاہے تواللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے کہ یااللہ! نفس اورشیطان مجھے غلط راستے کی طرف ڈالناچاہ رہے ہیں،اے اللہ! اپنی رحمت سے مجھے بچالیجئے!
یہ چنداعمال ہیں،اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُمیدہے کہ اگرہم ان کی پابندی کرلیں گے تواللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے رمضان المبارک کے بعدبھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کانزول جاری رہے گا،اللہ تعالیٰ کاہماری طرف جس طرح قرب ہے،ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپناتعلق مضبوط رکھ سکیں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کوتوفیق عطافرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین