رمضان کے بعدبھی اللہ قریب ہے(حصہ اوّل)

(حصہ اوّل)
الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
{ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰیکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ Oوَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ
لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ } (البقرۃ: ۱۸۵،۱۸۶)
بزرگانِ محترم اوربرادرانِ عزیز!
قرآنِ کریم کاایک عجیب انداز
یہ شوال کامہینہ ہے جورمضان المبارک کے فورابعدآتاہے،قرآن کریم میں رمضان المبارک کی تکمیل کے سلسلے میں ایک عجیب اندازسے یہ آیت بیان فرمائی ہے۔اس آیت سے پہلے قرآن کریم نے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کاحکم بیان فرمایاکہ ہم نے تم پرروزے فرض کئے{اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ}جوکہ گنتی کے کچھ دن ہیں۔
پھریہ فرمایاکہ اگرتم میں سے کوئی شخص بیمارہواورروزہ نہ رکھ سکتاہویاسفرپرہو تو اس کیلئے جائزہے کہ روزے قضاکرلے اوربعدمیں جب تندرست ہوجائے یااپنے وطن واپس پہنچ جائے تواس وقت ان چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاکرلے۔
اس کے بعدفرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے،تمہیں مشکل میں مبتلاکرنانہیں چاہتا۔بیماری اورسفرمیں روزہ چھوڑنے کی چھوٹ اس لئے دی ہے تاکہ تمہارے لئے آسانی پیداہو۔
گنتی پوری کرلو!
اس کے بعدپھرتلاوت کی گئی آیت ذکرفرمائی،یعنی ہم نے یہ روزے اس لئے فرض کئے ہیں تاکہ جتنے روزے ہم نے تم پرفرض قراردئے تھے{ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ} ان کی گنتی پوری کرلو۔بظاہران الفاظ کامطلب یہ ہے کہ جہاں تک روزوں کاحق ادا کرنے کاتعلق ہے وہ شایدتم سے نہ ہوسکے۔روزہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اورکوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کاحق ادانہیں کرسکتا۔اس لئے جتنی گنتی کے روزے ہم نے فرض قراردئے ہیں،تم صرف وہ گنتی پوری کرلو۔یعنی اصل چیزہم نے یہ دیکھنی ہے کہ تم ہمارے حکم کی کتنی اطاعت کرتے ہو؟ہم نے تم سے کہاکہ تھاکہ تیس دن تک دن کے وقت کھاناپینانہیں،اگرتم نے ہمارے حکم کی تعمیل میں یہ گنتی پوری کرلی توچاہے اس کاحق اداہواہویانہ ہواہوہم اسے تمہاری طرف سے قبول کرلیں گے،کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے،تمہیں مشکل میں ڈالنانہیں چاہتا۔لہٰذاتم سے کوئی بہت ہی اعلیٰ قسم کی عبادت مطلوب نہیں کہ تم ایسی عبادت کروجیسے فلاں پیغمبرنے کی تھی،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تم کمزورہو۔یہ ہمارے لئے بڑی تسلی کی بات ہے جواللہ تعالیٰ نے آیت ِکریمہ میں بیان فرمائی ہے۔
یومِ عیداللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی کامظہرہے
جب یہ تیس دن کی گنتی پوری کرلی تواب{ وَلِتُکَبِّرُواللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ } اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو، اللہ اکبرکہو۔علمائِ کرام نے فرمایاکہ یہ نمازِعیدکی طرف اشارہ ہے،کیونکہ عیدکی نمازمیں چھ تکبیریں زائدکہی جاتی ہیںاورعیدکے خطبہ میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے خطبہ میں نودفعہ تکبیرہواوردوسرے میں سات تکبیریں ہوں۔نبیِ اکرم ﷺ خطبۂِ عیدکے دوران کثرت سے یہ پڑھاکرتے تھے :
{ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ }
عیدکادن اللہ تعالیٰ نے اپنی کبریائی کے اعلان کادن قراردیا۔
آگے فرمایا{ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}تاکہ تم شکراداکرو۔کہ یااللہ! آپ نے رمضان کامہینہ عطافرمایا۔آپ نے روزوں کی توفیق عطافرمائی۔اپنے حکم کی تعمیل میں گنتی پوری کرنے کی توفیق عطافرمادی۔
رمضان کے بعدبھی اللہ قریب ہے
یہاں تک رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل کاذکرتھا،اس کے بعدجو آیت اللہ پاک نے ذکرفرمائی ،وہ بہت معنی خیزہے،رمضان،روزوں کی گنتی اورعید کے ذکر کے فوراًبعدفرماتے ہیں
{ وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ } (البقرۃ: ۱۸۵،۱۸۶)
اللہ تعالیٰ نبیِ کریم ﷺسے فرمارہے ہیں کہ اگرمیرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں توان کوبتادیناکہ میں قریب ہوں،جب کوئی بھی پکارنے والامجھے پکارتا ہے تومیں اس کی بات سنتاہوں،اس کی دعاقبول کرتاہوں۔
بظاہراس ترتیب میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ مت سمجھناکہ رمضان گیاتواللہ میاں بھی گئے اوراللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بھی گیااوراللہ تعالیٰ کی عبادت بھی گئی،اللہ تعالیٰ کاقرب بھی گیا،ان سے دعائیں مانگنے کاجذبہ بھی گیا،بلکہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ میں توتمہارے قریب ہوںچاہے رمضان ہویاغیررمضان۔تمہاری دعائیں سنتاہوں۔
دل میں جوخیال آتاہے کہ رمضان چلاگیااوراس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو ایک تعلق قائم ہوا تھا، وہ ختم ہوگیا،اب اگر دعا مانگیں گے تو وہ دعائیں قبول نہیں ہوںگی۔(معاذاللہ!)
یااب ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اوراللہ تعالیٰ سے اپناتعلق برقراررکھنے کااس درجہ اہتمام نہیں کرناچاہئے جتناکہ رمضان میں کرتے تھے تواس غلط فہمی کافوراً ازالہ فرمایاکہ جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں توکہدیناکہ میں قریب ہوں،لہٰذا {فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ} بندوں کوچاہئے کہ میری بات قبول کریں یعنی رمضان کے بعدبھی میرے احکام کی اطاعت کاسلسلہ جاری رہناچاہئے اور مجھ پرایمان رکھیںکہ اللہ تعالیٰ ہماراخالق ومالک ہے،پروردْگارہے اوروہ ایک ہے اوراسکے تمام احکام واجبُ الاطاعت ہیں،جب یہ مانیں گے تو {لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ} وہ سیدھے راستے پرآجائیں گے۔
اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ رمضان میں توشیطان قیدتھا،رمضان کے بعدآزاد ہوگیا توپہلے ہم رمضان میں جونیک کام کررہے تھے اورکسی حدتک گناہوں سے بچنے کااہتمام بھی کررہے تھے اب وہ ختم کردیںاوراللہ بچائے ! اُلٹے پاؤں واپس چلے جائیں۔
رمضان کے بعدبھی اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھیں!
ٹھیک ہے کہ رمضان میں زیادہ عبادت کااہتمام تھا،تراویح کی بیس رکعات تھیں،اب رمضان کے بعدوہ نہیں ہیںتودیگرنوافل ہیں،بعض بزرگوں نے فرمایاکہ اگرعشاء کے وترسے پہلے چندرکعات صلاۃُ اللیل کی نیت سے پڑھ لے توپڑھنے والا تہجدکی برکت سے محروم نہیں ہوتااوریہ ایک حدیث سے بھی ثابت ہے کہ عشاء کے فرض کے بعدجونمازنفلی طورپرپڑھی جائے وہ صلاۃُ اللیل یعنی تہجدمیں شمارہوگی۔اسی طرح رمضان میں تلاوت کی مقدارزیادہ تھی،اب اتنی نہیںتوکچھ کم ہی سہی،لیکن رمضان المبارک کے بعدتمام معمولات کویکسرختم کردیناصحیح نہیں،بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے تعلق برقراررکھنے کیلئے نفلی عبادتوں کااہتمام رمضان کے بعدبھی ہوناچاہئے۔
اسی طرح گناہوں سے بچنے کااہتمام بھی کریں۔دعاکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایاکہ رمضان کے بعدیہ مت سمجھناکہ اب دعاقبول نہیں ہوگی بلکہ جب بھی تم اخلاص کے ساتھ اوردعاکے آداب کے ساتھ دعامانگوگے توان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ دعاقبول فرمائیں گے۔گویاان آیات میں رمضان المبارک کے بعدایک لائحہ عمل کی طرف اشارہ فرمایا۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم اوراپنی رحمت سے ہم سب کوان ہدایات پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
و آخردعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین