رمضان صبرکامہینہ(حصہ ساتواں )

(ساتواں حصہ)

الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک و
سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
صبر پورے دین کا خلاصہ ہے
گزشتہ بیانات میں یہ بات عرض کی تھی کہ صبر پورے دین کا خلاصہ ہے اور سارا دین،شریعت اور طریقت صبر میں سمٹا ہوا ہے،انسان درحقیقت وہی ہے جو خواہشات کاغلام نہ بنے بلکہ خواہشات کو اپنے قابو میں رکھے،اور اس بات کی پہچان رکھے کہ کونسی خواہش ایسی ہے جسے پورا کیا جائے اور کونسی خواہش ایسی ہے جسے پورا نہ کیاجائے،اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ عطا فرمایا جو {شہر الصبر} ہے، اور اس میں ہمیں صبر کی تربیت دی جارہی ہے۔
صبرکی کیفیت حاصل کرنے کیلئے اللہ والوں کی صحبت ضروری ہے
لیکن یہ ساری باتیں اور وعظ اس وقت کارآمد ہوگا جب کہ صبر کی کیفیت دل میں رَچ اور بس جائے،اور اس کیلئے کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرنا ضروری ہے، جس کے اندر یہ صفت موجود ہو ،عام طور سے کسی انسان کے اندر یہ صفت نہیں ہوتی بلکہ کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کر کے اسے حاصل کرنا پڑتا ہے۔
ایک نصیحت آموز واقعہ
ہمارے حضرت والاؒ نے ایک شخص کا عجیب سا قصہ لکھا ہے،ایک شخص کے پاس ایک بولنے والا طوطا تھا جس کو اس نے ذکر کے الفاظ سکھارکھے تھے ،جیسے اللہ، اللہ اور سبحان اللہ وغیرہ،جب اس طوطے کا انتقال ہوا تو ایک شخص نے جو نہ معلوم اس کا مالک ہی تھا یا کوئی اور تھا،دو شعر کہے اور اس میں اس طوطے کی تاریخِ وفات لکھی،وہ شعر یہ تھے:
میاں مٹھو جو ذاکرِ حق تھے
رات دن ذکرِ حق رَٹا کرتے
گُربۂ موت نے جو آ دابا
کچھ نہ بولے سوائے ٹیں ٹیں
یعنی اس کے مالک نے اسے ذکر کے کلمات سکھارکھے تھے،اور سارادن وہ یہی الفاظ کہتا تھا،لیکن جب موت کا وقت آیااور بلی نے دبوچ لیا تو ذکرِ حق کے کلمات سب بھول گیااور جیسے پہلے ٹیں ٹیں کرتا تھا اسی طرح چلانا لگا،کہتے ہیںکہ اس شعر سے اس کی تاریخِ وفات نکلتی ہے،واللہ اعلم۔
حضرت والاؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ قصہ بظاہر ایک مذاق کی سی بات ہے لیکن اس میں بڑی حکمت کی بات ہے،اور وہ بات یہ ہے کہ :
’’ جس تعلیم کا دل پر اثر نہیں ہوتا وہ مصیبت کے و قت کچھ کام نہیں آتی۔‘‘
اس لئے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اگر حافظِ قرآن کے دل میںبھی قرآن کی محبت نہ ہو تو وہ بھی دل میں آٹے دال کا بھاؤ لے کر مرے گا،اور قرآن کریم کے انوار و برکات اس کو حاصل نہیں ہوں گے،کیونکہ اس نے قرآن کو رَٹ رکھا تھا لیکن اپنے دل میں اس کو رچایا نہیں تھا۔
نفس پر زبردستی کرنے سے نفس کسی کام کا عادی ہوتا ہے
میں یہی عرض کر رہا تھا کہ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے صبرکی تربیت ہمیں دی ، یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس نعمت کو باقی رکھنے کیلئے دل میں رچانا اور بسانا پڑے گا،جس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تو اپنے نفس پر زبردستی کوئی طاعت کرنے کی عادت ڈالیں ،اور اگر دل میں کوئی غلط خواہش یا جذبہ پیدا ہوتو زبردستی اس کو رویں،کیونکہ جب تک زبردستی نفس کو کسی طاعت میں نہیں لگائیں گے یا اس کو کسی معصیت سے نہیں روکیں گے تو اس کے سامنے موم کی طرح ہو جائیں گے،اور نفس کی خواہشات جس طرف چاہیں گی آپ کو لے جائیں گی۔
شیطان اور نفس کے سامنے کمزور پڑنے سے یہ حاوی ہوجاتے ہیں
یہاں ایک بات سمجھ لیں کہ انسان کے دو دشمن ہیں،شیطان اور خواہشاتِ نفس کے فریب ،یہ دونوں بظاہر تو بہت خوفناک دشمن ہیں اورانسان کو ڈھانے اورچت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوںبہت ہی ذلیل اور کمینی چیزیں ہیں،کمینے کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کے سامنے ذرا بھی کمزوری دکھائی جائے تو وہ شیر ہوجاتاہے،اور اگر کوئی اس کے سامنے ڈٹ جائے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے تو وہ چھوئی موئی ہوجا تا ہے،کسی شاعر کا شعر ہے کہ:
إذا أَنْتَ أکرمْتَ الکریمَ ملکتَہ
وإنْ أَنْتَ أکرمْتَ اللئیمَ تمرَّدَا
اگر تم کسی شریف کا اکرام کروگے تو تم وہ تمہارا غلام ہو جائے گا، اور اگر کسی کمینے کے اکرام کرو گے تو وہ سرکش ہوجائے گا ۔
ایسا ہی کچھ حال شیطان اور نفسانی خواہشات کا ہے کہ اگر آپ ان کے آگے اپنے آپ کو بے بس اور کمزور پڑ گئے تو یہ آپ پر چھا جائیں گے،لیکن جس دن آپ نے یہ عزم کر لیا کہ میں ان کی بات نہیں مانوں گا اور ان کے سامنے ڈٹ گئے تو یہ کمزور پڑ جائیں گے،اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا} (النسائ: ۷۶)
بلاشبہ شیطان کا مکر کمزور ہے۔
یعنی جب ایک مرتبہ شیطان کے سامنے ڈٹ جائیں گے تو وہ کمزور پڑ جائے گا۔
اپنی سوچ کا رخ بدلیں
دوسری بات یہ کہ اپنی سوچ کا رخ بدلیں،کیونکہ انسان ہر وقت کسی نہ کسی خیال میں تو رہتا ہی ہے،تو اس خیال کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑدیں،مثلاً اللہ تعالیٰ کے انعامات کی طرف اپنی سوچ کا رخ موڑ لیں،اللہ تعالیٰ کا شکراداکرنے کی طرف موڑلیں ،آخرت کے بارے میں سوچیں،مرنے کے بعد کیا ہوگا،جنت ،جہنم کیسی ہوگی ،اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کے بارے میں سوچیں،لیکن خیالات کا رخ بدلنے کے لئے بھی اللہ والوں کی صحبت اختیار کرنی پڑتی ہے۔
ایک شیطانی دھوکہ
ہمارے والد ماجد قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ اس معاملے میں شیطان یہ دھوکہ بھی دیتا ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرنے کے لئے اللہ والوں کہ کہاں تلاش کریں،کوئی ملتا ہی نہیں،ہر ایک میں کوئی نہ کوئی کمی کوتاہی نظر آتی ہے،کسی پر اطمینان ہی نہیں ہوتا،حضرت فرمایاکرتے تھے کہ اگر کوئی یہ سوچے کہ آج کے زمانے میں اسے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ، جنید بغدادی ؒیا شبلیؒ کی صحبت میسر ہو جائے تو ایسا ہونا تو ممکن ہی نہیں ہے،لوگوں کے دلوں میں یہ خناس بیٹھ جاتا ہے کہ ان کی تربیت و اصلاح کیلئے ان حضرات سے کم کوئی نہیں ہونا چاہئے،لیکن جیسی روح ویسے فرشتے ، اس لئے جیسے تم ہو ایسا ہی تمہارا مصلح ہو گا، لوگ خود تو گویا اصلاح سے بالکل کورے ہوتے ہیں لیکن ان کو اپنی اصلاح کے لئے جنید بغدادیؒ یا شیخ عبد القادر گیلانیؒ سے کم کوئی منظور ہی نہیں ہوتا ،یہ حماقت کی بات ہے۔
صادقین قیامت تک ہر زمانے میں رہیں گے
یہ اللہ تعالیٰ کا نظام چلا آرہا ہے کہ جو چلا گیا سو چلا گیا،کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا،لیکن ہر زمانے میں اس زمانے کے اعتبار سے اصلاح کرنے والے موجود ہوتے ہیں اور قیامت تک رہیں گے،حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہ امام رازیؒ کی بات نقل فرماتے تھے جو انہوں نے تفسیرِ کبیرمیں اس آیت کے ذیل میں لکھی ہے :
{یٰٓـأیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ}(التوبہ:۱۱۹)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔
فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ سچے لوگ قیامت تک رہیں گے، کیونکہ قرآن کریم کا حکم قیامت تک باقی رہے گا،اس لئے اگر سچے لوگ نہ ہوں تو قرآن کا یہ حکم کہ سچے لوگوں کے ساتھ رہو’’تکلیف مالایطاق ‘‘ ہو گی،گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کو کسی ایسی چیز کا مکلف کردیا جو اسے میسرہی نہیں،اور ایسا ہوہی نہیںسکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسی بات پر عمل کرنے کو کہیں جو ناممکن ہو،اس لئے اس آیت میں اس بات کی خوشخبری ہے کہ صادقین قیامت تک رہیں گے،البتہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت والد صاحبؒ اس کی مثال یہ دیتے تھے کہ آج کل ملاوٹ کا دور ہے، گندم ،آٹا ،گھی چینی وغیرہ کچھ بھی خالص نہیں ملتا،لیکن کیا کسی نے آٹا خالص نہ ملنے کی وجہ سے آٹا کھانا چھوڑکر اس کی جگہ بُھس کھانا شروع کر دیا ،یا گھی کے خالص نہ ملنے کی وجہ سے اس کا کھانا چھوڑ کر گریس کا استعمال شروع کر دیا ،کسی نے ایسا نہیں کیا،بلکہ جب بھی ایسا موقع آتا ہے تو لوگ تلاش اور جستجو کرتے ہیں ،اور مختلف دوکانوں پر جاکر دیکھتے ہیں کہ خالص چیز کہاں ملے گی،جہاں سے خالص چیز ملتی ہے تو وہاں سے لے آتے ہیں۔
حضرت فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح ملاوٹ ہونے کی وجہ سے کسی چیز کا کھانا نہیں چھوڑا جاتا بلکہ خالص چیز تلاش کر لی جاتی ہے ،اسی طرح تلاش کرنے والے کو اس کی حیثیت کے مطابق صادقین آج بھی مل جاتے ہیں،اس لئے نیک لوگوں کو تلاش کر کے اپنی صحبت کو بدلنا چاہئے تاکہ صبر کی کیفیت دل کے اندر رچ بس جائے۔
اپنی صحبت کا جائزہ لیں
ہر انسان کو اپنے گردو پیش کا جائزہ لینا چاہئے کہ اس کی صحبت اور زیادہ میل جول کس قسم کے لوگوں کے ساتھ ہے،اگر ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کو بے فکری، غفلت ،دین سے دوری ،آخرت سے لاپرواہی کی طرف لے جارہے ہیں، اوردنیا کی محبت دل میں پیدا کررہے ہیںتو ایسی صحبت سے کنارہ کرنا چاہئے،اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیارکرنی چاہئے جو دل میں آخرت کی فکر پیدا کریں،اگر ایسا کرلو گے توان شاء اللہ یہ کیفیت دل میں رچنے بسنے لگے گی۔
آج کے بیان میں مزید دو باتیںعرض کرنی ہیں،ابھی میں نے عرض کیا تھا کہ ہر انسان کو اپنی سوچ بدلنی چاہئے،جس کا ایک طریقہ اہل اللہ کی صحبت ہے،اور ایک طریقہ ذکر ہے۔
ذکر کی تین قسمیں
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ ذکر تین قسم کا ہوتاہے:
(۱)۔۔۔ ذکر کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جس میں صرف زبان ہلتی ہے ،دل متوجہ نہیں ہوتا،مثلاً کسی نے ہاتھ میں تسبیح لی ہوئی ہے اور ذکر میں مشغول ہے لیکن دل و دماغ کسی اور طرف متوجہ ہے،اس کو ذکر ِلسانی کہتے ہیں،یعنی زبان کے ذریعہ ذکرکرنا۔
(۲)۔۔۔ ذکر کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جس میں زبان کے ساتھ ساتھ دل بھی متوجہ ہوتا ہے،مثلاً کوئی زبان سے سبحان اللہ کہہ رہا ہے تو اس وقت اسے یہ پتہ ہے کہ وہ سبحان اللہ کہہ رہا ہے،اور اس کا دھیان ذکر کے الفاظ یا معانی کی طرف لگا ہوا ہے۔
(۳)۔۔۔ تیسری قسم وہ ہے کہ زبان سے تو ذکر نہیں ہو رہا لیکن دل اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف متوجہ ہے،دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کی خشیت موجود ہے،اور دل میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استحضار ہو رہاہے،اس کو درحقیقت قرآن کی اصطلاح میں فکر کہتے ہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ عقل مندوں کی خوبی بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:
{وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ}(آلِ عمران:۱۹۱)
اور یہ لوگ آسمان و زمین کی تخلیق میں غور وفکر کرتے ہیں۔
زبان سے کیا ہوا ذکر بھی بے فائدہ نہیں ہے
حضرت والا فرماتے ہیں کہ ذکر کی پہلی قسم میںبھی کئی فوائد ہیں:
(۱)۔۔۔ ذکر کی یہ قسم درحقیقت مقصود تک پہنچنے کے لئے سیڑھی ہے اس لئے اس کو بھی بے کار نہ سمجھنا چاہئے،بعض لوگ جو حقیقت ناشناس ہوتے ہیںیہ کہہ دیتے ہیں کہ زبان سے طوطے کی طرح رٹنے کا کیا فائدہ ہے،جب کہ دل ہی متوجہ نہ ہو،لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ اس کا بھی بہت فائدہ ہے،لوگوں کے درمیان یہ شعر مشہور تھا کہ:
بر زباں تسبیح و در دل گاؤ خر
ایں چنیں تسبیح چہ دارد اثر
یعنی زبان پر تسبیح ہے لیکن دل میں گائے اور گدھے کا خیال آرہا ہے تو ایسی تسبیح کا کیا فائدہ ہے؟حضرت فرماتے تھے کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ:
بر زباں تسبیح و در دل گاؤ خر
ایں چنیں تسبیح ہم دارد اثر
یعنی یہ تسبیح بھی کچھ نہ کچھ فائدہ دیتی ہے،کیونکہ ذکر کے جو الفاظ زبان سے رٹے جارہے ہیں یہ کوئی معمولی الفاظ نہیں ہیں،ان الفاظ کی اپنی ایک تاثیر اور فائدہ ہے، اگرچہ ذکرکرتے وقت ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کہ سبحان اللّٰہ اور الحمد للّٰہ کے کلمات میں کونسی کائنات پوشیدہ ہے، اس کے اسرار و معارف کو ہم نہیں جانتے، لیکن ہمارے نہ جاننے کے باوجود اس میں بہت کچھ موجود ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ذکر کے کلمات میں سے کسی کے بارے میں فرمایا کہ اس سے میزانِ عمل کا آدھا پلڑا بھر جاتا ہے اور کسی کے بارے میں فرمایا کہ اس سے پورا پلڑا بھر جاتاہے،ہمیں آج اس کا ادراک نہیں ہے اور ہو بھی نہیںسکتا،لیکن جب اللہ کے حضور پہنچیں گے تو پتہ چلے گا کہ ان کلمات کا کیا فائدہ تھا،اور ان میں کیا اسرار پوشیدہ تھے۔
جنت کی ایک عظیم لذّت
امام ا لعصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرمایاکرتے تھے کہ جنت کی عظیم لذّتوں میں سے ایک لذّت یہ بھی ہو گی کہ ان کلمات کے اسرار کھل کر سامنے آجائیں گے،اس لئے اگر محض زبان سے بھی ذکر کی توفیق ہو رہی ہے تو اسے بے کار نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ زبان سے اداکرنے کی بھی اپنی ایک تاثیر ہے۔
(۲)۔۔۔ اس کے بعد حضرت حکیم الامتؒ ذکرِلسانی کا دوسرا فائدہ یہ بیان فرماتے تھے کہ اس کا کوئی اور فائدہ نہ سہی لیکن کم از کم جسم کا ایک عضو تو اللہ تعالیٰ کے ذکرمیں مشغول ہے،یعنی زبان۔
(۳)۔۔۔ تیسرا فائدہ یہ کہ جب تک انسان ذکر میں مشغول رہتا ہے اس کی زبان کسی غلط کام سے رکی رہتی ہے،اس لئے کہ اگر کوئی ذکر نہ کر رہا ہو تو اس کی زبان سے جھوٹ،غیبت یا کسی کی دل آزاری کی بات نکل سکتی ہے،لیکن ذکر نے ان سب چیزوں سے حفاظت کی ہوئی ہے،یہ فائدہ بھی کیا کم ہے؟
(۴)۔۔۔ ذکرِ لسانی کا چوتھا فائدہ یہ ہے کہ جب زبان سے ذکر ہو رہا ہوتو اگرچہ دل متوجہ نہیں ہوتا،لیکن اس کی کثرت کی وجہ سے ایک نہ ایک دن دل بھی متوجہ ہو جائے گا،اللہ تعالیٰ زبان سے ذکر کرنے کی وجہ سے یہ نعمت بھی عطا فرمادیتے ہیں۔
حضرت گنگوہیؓ کا واقعہ
ایک واقعہ میں نے اپنے والدِ ماجد قدس ا للہ سرہ سے سنا ،ان کو حضرت گنگوہیؒ نے سنایا تھا،اور نہ جانے کس حالت و کیفیت میں سنایا تھا،فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت گنگوہیؒ اپنے مریدین کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے،ان سے فرمانے لگے کہ تم لوگ میرے پاس کہاں آگئے! میرے پاس کچھ نہیں رکھا، کسی اللہ والے کے پاس جاؤ، میں تو کچھ بھی نہیں،اور پھر ایک قصہ سنایاکہ ایک شخص ڈاکو تھا اس کا پیشہ ہی ڈاکے ڈالنا تھا،اس کا ایک مرتبہ کسی پیر صاحب کی خانقاہ کے پاس سے گزر ہوا ہو اس نے دیکھا کہ پیر صاحب تسبیح ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں،مریدین کا حلقہ ہے،کوئی ان کے ہاتھ چوم رہا ہے،کوئی ان کے پاؤں دبا رہا ہے،اور ہدیے نذرانے آرہے ہیں، ان کے قدموں میں لاکر رکھے جارہے ہیں،ڈاکو نے سوچا کہ میں نے خوامخواہ ڈاکے مارنے کا پیشہ اختیار کر لیا ہے،اس میں محنت بھی زیادہ ہے اورجان بھی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے،اس سے اچھا تو پیر ی مریدی کاپیشہ ہے،بس پیر بن کر بیٹھ جاؤ اور اپنے ذکر وغیرہ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلو تو دنیا کی سب نعمتیں قدموںمیں ڈھیر ہو جائیں گی۔
چنانچہ وہ ڈاکے مارنے کا پیشہ چھوڑ کر کسی جنگل میں جابیٹھا،ایک تسبیح ہاتھ میں لے لی،اور درویشوں والا حلیہ بناکر بیٹھ گیا،جیساکہ لوگوں کا لوگوں کا حال ہے کہ جب بھی ایسے حلیے میں کسی کو دیکھتے ہیں تو اس کو بہت بڑا ولی اللہ سمجھنے لگتے ہیں اور تحقیق نہیں کرتے کہ حقیقت کیا ہے،اس لئے اس کے پا س بھی پہلے ایک آدمی آیا،پھر دوآئے اور رفتہ رفتہ اس کے مریدین میںاضافہ ہونے لگا،اور ہدیے نذرانے آنے لگے اور اس کا مقصد حاصل ہونے لگا،اور یہ اپنے ذکر میں مشغول رہا۔
اس کے پاس آنے والے لوگوں میں بہت سے لوگ اخلاص کے ساتھ بھی آئے تھے، چونکہ یہ ذکر کرتا تھا اس لئے سب کو اس نے ذکر پر لگا دیا کہ تم بھی یہ کام کرو، اب جو لوگ اخلاص کے ساتھ ذکر کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی بدولت ان کو بلند مقام تک پہنچا دیا،جب ان کواللہ کی طرف سے کچھ مقام عطا ہو گیا تو انہوں نے سوچا کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تھوڑا بہت عطا فرمادیاہے ،ہمیں اپنے شیخ کا حال بھی معلوم کرنا چاہئے کہ وہ ولایت کے کس مقام پر ہے،چنانچہ انہوں نے مراقبہ کیا اور اپنے شیخ کا مقام معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا مقام ملتا ہی نہیں تھا،کیونکہ کوئی مقام تھا ہی نہیںبلکہ شیخ کی طرف سے تو دھوکہ بازی ہو رہی تھی، مریدین بڑے حیران ہوئے کہ کیا معاملہ ہے،لیکن انہوں نے یہ خیال کیا کہ ہمارا شیخ ولایت کے اس مقام پر ہے جہاں تک ہماری پہنچ ہی نہیں ہے۔
ایک دن انہوں نے اپنے شیخ سے کہا کہ حضرت ! خدا کے لئے ایک بات بتادیجئے ،ہم نے جتنے بھی طریقے پڑھے ہیں ان کے مطابق بہت کوشش کر لی لیکن آپ کے مقام کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ کہاں پہنچے ہوئے ہیں،آپ کابہت اونچا مقام ہے میں بھی اس کے بارے میں کچھ بتائیے،یہ سن کر اس ڈاکو کے دل پر چوٹ لگی ،اور مریدین سے کہا کہ بھائیو! مجھے معاف کر دینا میں نے تمہیں ساری زندگی دھوکہ دیا ،میں نہ تو کوئی پیر ہو ں اور نہ ہی کوئی عابد و زاہد ہوں،میں تو ایک ڈاکو ہوں ،اور دنیا حاصل کرنے کے لئے مجھے ڈاکے سے بہتر یہ طریقہ نظر آیا تھا اس لئے اس کو اختیار کرلیا،مجھے معاف کردو کہ میں نے تمہیں دھوکے سے گھیر لیا اور اپنا مرید بنا لیا، تم میرے پاس سے چلے جاؤ اور کسی اللہ والے کو تلاش کرلو،میں جانوں اور میرا اللہ جانے،میں اس حرکت سے توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسانہیں کروں گا۔
یہ سن کر سب مریدین بھونچکے رہ گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے،لیکن چونکہ مخلص تھے اور اخلاص کے ساتھ کام کررہے تھے اس لئے سب جمع ہو گئے اور کہا کہ آپس میں مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے ہیںکہ یااللہ! ہمیں جو بھی ذکر ملاوہ انہی کے راستے سے ملا، اب آپ ان کی حالت بھی ایسی کردیں کہ یہ اس چکر سے نکل آئیں، چنانچہ انہوں نے دعا کی اور چونکہ مخلص لوگ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اس ڈاکو کی زندگی میں بھی انقلاب آگیا۔
دیکھئے! یہ ڈاکو صرف اتنا ہی نہیں کہ زبان سے ذکر کر رہا تھا بلکہ اس کا مقصود بھی اس ذکر سے لوگوں کو دھوکا دے کر دنیا کمانا تھا،لیکن اس کے مسلسل ذکر کے نتیجے میں بالآخر اللہ تعالیٰ نے نیت بھی درست فرمادی اور طریقہ بھی درست فرمادیااور اس کے ذکر کو قبول بھی فرمالیا۔
اس لئے وہ لوگ جو زبان سے ذکر کرتے ہیں لیکن ان کا دل و دماغ متوجہ نہیں ہوتا،اس پریشانی اورفکر میں نہ پڑیں کہ دل متوجہ نہیں ہورہا تو زبان سے ذکر کا کیا فائدہ ہے،بلکہ اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے غنیمت سمجھ کرلگے رہیں اور اس کو چھوڑیں نہیں، دل کو متوجہ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہیں،اگر دل متوجہ ہوجائے تو اللہ کی نعمت ہے اور اگر نہ بھی ہو تو یہ ذکر بے فائدہ نہیں ہے۔
نظام الاوقات بنائیں
اس لئے رمضان کے بعد بھی ہر شخص اپنا نظام الاوقات بنائے، حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ نظام الاوقات ایسی چیز ہے جس کی بدولت تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ کام ہوجایا کرتے ہیں،اور وقت میں برکت ہوجاتی ہے اورسارے کام اپنے اپنے نظم کے ساتھ انجام پا جاتے ہیں،لیکن کسی کام میں نظم الاوقات نہ ہو تو اس سے وقت ضائع ہوجاتا ہے،اس لئے اوقات کا ایک نظم بناناچاہئے۔
اس نظام الاوقات میں مثلاًفجر کی نماز کے بعدکچھ نہ کچھ تلاوت کا معمول بنائیں،خواہ تھوڑی سی تلاوت ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کی پابندی کریں،اور کچھ نہیں تو آدھاپارہ یا ایک پاؤ کی تلاوت تو ہر شخص اپنا معمول بنا لے،ہمارے حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ اورکچھ نہ بھی وہ سکے تو کم از کم ہر شخص یہ طے کر لے کہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد دو رکوع پڑھ کراٹھوں گا۔
اسی طرح ذکر کا بھی معمول بنائیں،اور ابتداء میں یہ چار چیزیں تو اہتمام کے ساتھ کریں:
(۱)۔۔۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ۔
(۲)۔۔۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ۔
(۳)۔۔۔ استغفار۔
(۴)۔۔۔ درود شریف۔
اگر کسی کو اپنے حالات کے مطابق فجرکی نماز کے بعد اس کا موقع نہیں ملتا ، مثلاً صبح صبح کام پر جانا پڑتا ہے تو وہ شام کے کسی وقت میں ان کلمات کے ذکرکو اپنا معمول بنا لے ،لیکن اس کام کے لئے ایک وقت ضرور مقرر کرے،اس میں بڑا فائدہ ہے۔
یہ تو معمول کا ذکر ہے،لیکن اگر چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے بھی زبان پر کوئی ذکر آجائے،جیسے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ وغیرہ،کرتے رہناچاہئے۔
ذکر سے روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے
حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ یہ ذکر ایک انرجی ہے،اس کے ذریعہ دل میں ایک طاقت وہمت پیدا ہوتی ہے جس سے شیطان اورنفس کا مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے،فرمایا کرتے تھے کہ آدمی جب صبح کے وقت کام پر جانے کے لئے نکلتا ہے تو ناشتہ کر کے جاتا ہے تاکہ جسم میں کچھ قوت آجائے اورکام کو چستی کے ساتھ انجام دیا جا سکے ،اسی طرح ذکر بھی روحانی ناشتہ ہے،اور صبح کے وقت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے ایک روحانی قوت حاصل ہوجاتی ہے ،اور سارادن کاروبارِ زندگی میں نفس اور شیطان سے ہونے والے مقابلے کے لئے انسان تیار ہوجاتا ہے۔
یہ توذکر لسانی کی بات ہے لیکن اصل ذکر وہی ہے جو دوسری قسم میں بیان ہوا، یعنی زبان سے بھی ذکر ہو اور دل بھی اس کی طرف متوجہ ہو۔
ذکر کی سب سے زیادہ نفع بخش صورت
لیکن ذکر کی تیسری قسم اپنی فضیلت کے ا عتبار سے اگرچہ درمیانی ہے ،لیکن اپنے نفع کے اعتبار سے یہ ذکر کی دونوں قسموں پر حاوی ہے،یعنی ہر وقت چلتے پھرتے ،اُٹھتے بیٹھتے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے،کبھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لے، کبھی اس کی نعمتوںپر دل میں شکر ادا کرے،کبھی جہنم سے پناہ مانگ لے،کبھی اپنی کوئی حاجت اللہ تعالیٰ سے مانگ لے ،غرض یہ کہ اس کے سامنے جو بھی حاجت آتی ہے وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ر کھ دیتا ہے۔
مثلاً گھر سے نکلیں تو دل میں دعا کرلیں کہ یا اللہ ! سواری آسانی سے مل جائے، سواری میں بیٹھ جائیں تو دل میں دعاکرلیں کہ یا اللہ! آسانی کے ساتھ منزل پر پہنچ جاؤں،یااللہ !مجھے سفر میں اچھا ہم سفر ملے،یااللہ!ان کو بھی دین ودنیا کی بھلائی عطا فرمادے،ہسپتال کے قریب سے گزریں تو دل میں تمام مریضوں کی صحت یابی کے لئے دعا کرلیں،کسی غریب آدمی کو دیکھیں تو اس کے لئے دعا کرلیں کہ یااللہ! اس کی حاجات پوری فرمادے،گرمی لگ رہی ہے تو دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لیں کہ یا اللہ! گرمی کی تکلیف سے نجات عطا فرمادے،سردی لگے تو دل میں اسی طرح دعا مانگ لیں،اچھی ہوا چلے تو دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر اداکریں،بارش آئے تو اللہ تعالیٰ کاشکر اداکریں کہ آپ نے بارش عطا فرمائی،ہمیں اس کی تباہ کاریوں سے بچائے رکھنا۔
الغرض ہر وقت کوئی نہ کوئی حاجت اللہ تعالیٰ نے مانگتے رہیں،حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ یہ کر کے دیکھو،پھر دیکھنا کہ کیا سے کیا ہوتا ہے۔
ہدایت ملنے کی دعا کا معمول بنائیں
آخری بات یہ کہ ہر شخص رات کا ایک وقت مقرر کرلے،مثلاً عشاء کے بعد رات کو سونے سے پہلے کا وقت مقرر کرلے ،اور اس وقت میں چند منٹ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعاکرے کہ یا اللہ ! میں آپ کے راستے پر چلنا چاہتا ہوں،میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے تمام خیالات،خواہشات اور جذبات آپ کے تابع ہوجائیں،آپ نے اپنے کلامِ مجید میں مجھے جگہ جگہ صبرکی تلقین فرمائی ہے،اور اپنی خواہشوں کو قابو کرنے کا حکم دیا ہے،یااللہ! میں ناتواں اور کمزور ہوں،میری طاقت اورہمت و حوصلہ کمزور ہے،اے اللہ!آپ ہی اپنے فضل وکرم سے مجھے یہ قوت اور ہمت عطا فرمادیجئے کہ میں اپنی خواہشات پر قابو پاسکوںاور ان کو آپ کی مرضی کے تابع بنا سکوں،اور کوئی بھی دن اس دعا کے مانگنے سے خالی نہ جائے اس کا معمول بنالیں،یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی انسان اس طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرے اور اللہ تعالیٰ اس کو رد فرمادیں۔
اللہ تعالیٰ سے باتیں کیا کرو
ہمارے حضرت والاؒ تو یہاںتک فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے باتیںکیا کرو اور یہ دعا کیا کرو کہ یااللہ!یا تو مجھے وہ کیفیت اور طاقت عطا فرمادے کہ جس کے ذریعہ میں شیطان اور نفس کا مقابلہ کرسکوں یا پھر مجھ سے مواخذہ نہ فرمائیے گا {أُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللّٰہِ}میں نے اپنا معاملہ آپ کے حوالے کر دیا ہے،حضرت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح باتیں کیاکرو،وہ ہمارے ہی اللہ میاں ہیں،انہوں نے ہی ہمیں پیدا کیا، پرورش کی ،پالا پوسا اور ہماری سب حاجتیں بھی پوری کی ہیں،تو ان سے نہیں مانگو گے تو اور کس سے مانگو گے؟اللہ سے دعا کرو کہ یااللہ مجھے ٹھیک فرمادیجئے،یہی مطلب ہے اُس دعا کا جو آپ ﷺ نے سکھائی ہے:
{اَللّٰہُمَّ إِنَّ قُلُوْبَنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ، لَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْہَا شَیْئًا، فَإِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِھِمَا فَکُنْ أَنْتَ وَلِیَّہُمَا وَاہْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ}
یااللہ!ہمارے دل اور ہمارے اعضاء آپ کے قبضہ میں ہیں،ہم نے میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیںہیں،جب آپ نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ فرمادیا ہے تو آپ ہی ہمارے دل اور اعضاء کے کارساز ہو
جائیںاور ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرمادیں۔
اور:
{اللّٰہُمَّ إِنَّکَ سَأَلْتَنَا مِنْ أَنْفُسِنَا مَا لَا نَمْلِکُہُ إِلَّا بِکَ، اللّٰہُمَّ فَأَعْطِنَا مِنْہَا مَا یُرْضِیکَ عَنَّا }
اے اللہ! آپ نے ہم سے ان کاموں کا مطالبہ کیاہے جو ہم آپ کی توفیق کے بغیر نہیں کر سکتے،اس لئے ہمیں ان کاموں کی توفیق عطا
فرمادیجئے جو آپ کی مرضی کے مطابق ہوں۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ دو کہ یااللہ! یا تو ان کاموں کے کرنے کی ہمت عطا فرمادے یا پھر ہماری پکڑ نہ فرما،جب اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کرنے کا معمول بنائیں گے تو حالات بدلیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرم ہوگا،اور وہ کیفیت جو اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہوحاصل ہو جائے گی،اور اگر کبھی بھول چوک ہو بھی گئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے توبہ کی توفیق بھی ہو جائے گی،جو شخص بھی اللہ تعالیٰ سے اس طرح مانگے گا وہ کبھی بھی محروم نہیںرہے گا،یہ دعا کرنا کوئی معمولی بات نہیںہے،دعا ایسی چیز ہے جو لمحے میں انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے ۔
دعا مانگنے کا ایک عجیب قصہ
آج سے تقریباً پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے کہ جرمنی سے ایک صاحب کا خط میرے پاس آیا،اور انہوں نے اپنا مسئلہ مجھے لکھا کہ میں جرمنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا تھا،اور اس تعلیم کے دوران نہ مجھے دین کی فکر تھی اور نہ آخرت کی بس پیسے کمانے کا شوق تھا،تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہاں کی کسی لڑکی سے میرا تعلق ہو گیا اور میں نے اس سے شادی کرلی ،اور بچے بھی ہو گئے۔
جب بچے بڑے ہوگئے اور پڑھنے لکھنے کی عمر کو پہنچ گئے تو میں نے ایک دن دیکھا کہ میری بیوی میرے بچوں کو عیسائی مذہب کی تعلیم دے رہی ہے،یہ دیکھ کر میرے اندرکا سویاہوا مسلمان جاگ اٹھا،اور میرے دل میں یہ غیرت آئی کہ یہ عورت میرے بچوں کو عیسائی بنارہی ہے،میں نے اس کو منع کیا کہ یہ مسلمان کا بیٹا ہے، مسلمان ہی رہے گا،لیکن اس نے میری بات نہ مانی اور کہنے لگی کہ میں جس بات کو حق سمجھتی ہوں اپنی اولاد کو بھی سکھاؤں گی،میں نے کہا کہ تم جو سکھا رہی ہو وہ حق نہیں ہے بلکہ ا سلام حق ہے،میری بیوی نے کہا کہ اچھا بتاؤ !اسلام کیسے حق ہے؟ جب اس نے یہ بات کی تو میں لاجواب ہو گیا، کیوںکہ میرے پاس نہ تو دین کا کوئی علم تھا اورنہ ہی اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی دلیل تھی،جب کہ میری بیوی اپنے مذہب کی عالمہ تھی اس لئے جب اس نے مجھ سے بحث کی تو میرے پاس کوئی جواب نہ تھا،اور اب میں اس مصیبت میں گرفتار ہوں ،آپ خدا کے لئے میری مدد کریں۔
میں نے دل میں سوچا کہ یااللہ! یہ مسلمان بندہ مصیبت میں ہے،اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یااللہ! اس کی مدد کا کوئی طریقہ میرے دل میں ڈال دیجئے،میں نے اس کو جواب لکھا کہ آپ اس سے بحث مباحثہ کرنا بند کردیں،کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور ساتھ ہیں میں نے اس کو اپنی ایک کتاب جو عیسائیت کے موضوع پر تھی ،وہ بھی بھیج دی اور لکھا کہ اس عورت کو دو باتوں پر آمادہ کر لو:
ایک تو یہ کہ وہ اس کتاب کو پڑھے،اوردوسرااس سے یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ کو تم بھی مانتی ہو اور میں بھی مانتا ہوں،ہم دونوںرات کو بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں گے کہ یااللہ! عیسائیت اور اسلام میں جو بھی دینِ برحق ہے اس پر ہمیں جما دیجئے۔
کچھ دن بعد اس کا جواب آیا کہ آپ نے جو طریقہ لکھا تھا میں نے اس پر عمل کیا ہے،اس کو کتاب بھی دے دی ہے اور اس کو دعا کرنے پربھی آمادہ کر لیا ہے،اب وہ اس کتاب کا مطالعہ بھی کرتی ہے اور ہر روز دعا بھی مانگتی ہے،لیکن ابھی تک کوئی فرق نہیںپڑا،میں نے اس کی بات پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس کو لکھا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے مایوس نہ ہوںاور کچھ دن مزید صبر کریںاور اس کو کہیں کہ دعا نہ چھوڑے۔
اس کے بعد اس کا تیسرا خط آیا،جس میں کچھ اس طرح کا مضمون تھا کہ:
’’مولانا! آپ نے خدا کو دلیل سے پہچانا ہوگا ،میں نے خدا کو آنکھ سے دیکھ لیا ہے۔‘‘
اور پھر اس نے اپنا قصہ لکھا کہ میری بیوی کسی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی ،وہاں سے اس کو کوئی سرٹیفکیٹ لینا تھا،وہ مجھے ساتھ لے گئی ،وہ گاڑی چلارہی تھی اور میں برابر والی سیٹ پر بیٹھا ہواتھا،جب ہم وہاں سے واپس آنے لگے تو اچانک اس نے گاڑی ایک کنارے پر کھڑی کی اور اسٹیرنگ پر جھک گئی،میں گھبراگیا کہ شاید اس کو کوئی دورہ پڑا ہے، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ قریب جا کر دیکھا تو وہ رو رہی تھی،وہ بولنا چاہ رہی تھی لیکن رونے کی شدت کی وجہ سے اس کے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے،جب میں نے اس سے بار بارپوچھا کہ تمہیںکیا تکلیف ہوئی ہے اورکیوںرورہی ہو؟ تو اس نے کہا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے ،بس مجھے مسلمان کرلو،مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا،یہ وہی عورت ہے جو صبح شام مجھ سے بحث کیا کرتی تھی اور آج مجھے کہہ رہی کہ مجھے مسلمان کرلو،میں نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ تم نے کیا کہا؟ اس نے کہا کہ میں یہ کہہ رہی ہوں کہ مجھے مسلمان بنالو،میں نے کہا کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟ کہنے لگی کہ ہاں! سچ کہہ رہی ہوں،میں نے گاڑی ڈرائیوکرنا شروع کی اور سیدھا اسلامک سینٹر پہنچا اور اس کو مسلمان کیا،اور آج پہلی مرتبہ رمضان کا موقع ہے کہ ہم دونوں نے سحری کھا کر روزہ رکھا ہے،اور سحری کھانے کے بعد پہلا کام آپ کو خط لکھنے کا کررہے ہیں،اور دوسرا خط میری بیوی کا ہے جو اس نے آپ کے نام لکھا ہے۔
اس میں اس نے لکھا تھا کہ میںآپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہ طریقہ لکھا ،جس کے نتیجے میں مجھے اللہ تعالیٰ نے ایمان سے نواز دیا،اس کے علاوہ اس نے کچھ اور بھی دین کی باتیں مجھ سے پوچھی تھیں۔
یہ میرے اپنے ساتھ بیتا ہوا واقعہ ہے،خلاصہ یہ کہ دین حق پر چلنے کی دعا جب بھی کی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی رائیگاں نہیں جاتی،اس لئے اس دعا کو اپنے روزانہ کے معمول میں شامل کرلیں۔
اگر ہم نے مذکورہ سب کام کرلئے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے اُمید ہے کہ رمضان ہمارے لئے {شہر الصبر} بن کر ہماری زندگی میں انقلاب اور تبدیلی کا پیش خیمہ بنے گا،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین