رمضان صبرکامہینہ(حصہ پنجم)

(حصہ پنجم)
الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
بات یہ چل رہی تھی کہ یہ رمضان المبارک مہینہ صبرکامہینہ ہے،حدیث میں سرکارِدوعالم ﷺنے اس کو{شھر الصبر}قراردیاہے،اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں یہ مہینہ اس کام کیلئے عطافرمایاہے کہ ہم صبرکی تربیت حاصل کریں۔
صبرکے معنی ہیں: اپنی خواہشات ِنفس کوقابومیں کرنا،ان کے بے مہارچھوڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع بنادینا۔ اسی طرح خواہشات میں تمیزکرناکہ کون سی خواہش ایسی ہے جوپوری کرنی چاہئے اورکون سی خواہش ایسی ہے کہ جس کو پورا نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس کودبانا اور کچلناچاہئے اور اس کے تقاضے پر عمل سے پرہیز کرنا چاہئے۔
جائزخواہشات بھی ضرورت کے درجے تک پوری کریں
درحقیقت یہ چیزسارے تدین کی بنیادہے کہ انسان اپنے نفس کوقابوکرے اور اچھی بری خواہشات میں تمیزکرکے صرف انہی خواہشات کوبقدر ِضرورت پوراکرے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جائزاورمباح قراردیاہے،درحقیقت یہی چیزانسان کی عقلمندی کی علامت ہے،حدیث میں نبیِ کریم ﷺنے فرمایاکہ:
{اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتَ}
عقلمندوہ ہے جواپنے نفس کوقابومیں رکھے اورمرنے کے بعدآنے والی زندگی کیلئے عمل کرے۔
یہ دنیاوی خواہشات ویسے بھی عارضی ہیں اوردنیاوی تاریخ میں بھی ایساکوئی شخص نہیں گزراکہ جس کی ساری خواہشات پوری ہوگئی ہوں،اگرفرض کروکہ کسی کی ساری خواہشات پوری ہوبھی گئیں توجتنی اس کی عمرہے بس اسی حدتک خواہشات ہیں اوراس کے قبرمیں جاتے ہی خواہشات بھی دفن ہوگئیں،جبکہ مرنے کے بعدآنے والی زندگی لامتناہی ہے،دنیاوی خواہشات کے مزے اُڑاکراگرآخرت میں سزاہوئی تویہ کون سی عقلمندی ہوئی؟یہ توبیوقوفی ہے جیسے فرض کروکہ کسی نے چوری کرکے لاکھ ،دس لاکھ روپے حاصل کرلئے اورچنددن بڑے مزے اڑائے کہ اِدھراُدھرگھوما،ہوائی جہازوں میں سفرکیا،فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرا، پھر گرفتار ہوگیا،اس پرمقدمہ چلا، شریعت کے قانون کے مطابق ہاتھ پاؤں کاٹے جاتے،اگردنیاوی قانون ہیں تب بھی سات آٹھ سال کی جیل ہوگئی،اب اس کوکون عقلمندی کہے گاکہ چنددن کے مزے اڑائے اورآخرمیں جاکر سزا کاٹ رہاہے،اسی لئے نبیِ کریم ﷺفرماتے ہیں کہ عقلمند وہ شخص ہے جواپنی نفسانی خواہشات کوقابومیں رکھے اورمرنے کے بعدجواَبدی زندگی آنے والی ہے،جوکہ ہمیشہ رہنے والی ہے، کبھی ختم نہیں ہوگی،اس کیلئے کچھ کام کرے۔
ایک شخص وہ ہے جس کے ہاںتنگی تھی لیکن اس نے قانون کی پابندی کے ساتھ زندگی بسرکی،پھرقانون کی پاسداری کرنے کی وجہ سے بادشاہ نے اس کولاکھوں ، کروڑوں روپے انعام دیدیاتوتکلیف اس نے اٹھائی لیکن وہ عارضی تکلیف تھی، پھر جو انعام ملاتووہ ساری زندگی کیلئے کافی ہوگیا۔
اس کے بعدفرمایا:
{وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہٗ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ }
اور بیوقوف شخص ہے کہ جس نے اپنے نفس کواپنی خواہشات کے پیچھے لگادیا(جودل میں آرہاہے وہ کررہاہے،حلال وحرام کی فکرنہیں،جائزو ناجائز کی فکرنہیں،مناسب نامناسب کی فکرنہیں،بس اپنی خواہشات
کاقیدی بناہواہے) اوراللہ میاں پرآرزوئیں باندھے بیٹھاہے۔
اللہ تعالیٰ کے غفوررحیم ہونے کامطلب
یعنی خواہشات کی مکمل تابعداری کرنے کے باوجوداللہ تعالیٰ سے آرزویہ لگائے بیٹھا کہ اللہ تعالیٰ توبڑے غفوررحیم ہیں،میرے سب گناہ معاف فرمادیں گے، میرے دل میں جوآئے وہ تومیں کرتارہوں،کچھ پروانہ کروں کیونکہ اللہ بڑا غفوررحیم ہے۔
اکثروبیشتریہ صورتحال ہم لوگوں کے دماغوں میں پیداہوتی ہے کہ جب دل میں کسی گناہ کاداعیہ پیداہورہاہے کہ فلاں گناہ کرگزروںتوبہت سے وہ لوگ ہیں کہ جن کو حلال وحرام کی سرے سے کچھ فکرہی نہیں۔اللہ بچائے!یہ توانتہاء درجے کی غفلت ہے، لیکن جن لوگوں کوکچھ حلال وحرام کی فکرہے توان کوشیطان اورنفس اس طرح بہکاتے ہیں کہ یہ ہیں توگناہ کے کام لیکن اللہ بڑاغفوررحیم ہے،ابھی توکر گزرو بعدمیں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلینا۔ اس کونبیِ کریم ﷺنے عاجزاوربیوقوف فرمایا۔
یہ وہی بات ہے جیساکہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کی کہ جب انہوں نے آپس میں یوسف علیہ السلام کوقتل کرنے کامشورہ کیاتوان کے بڑے بھائی نے کہاکہ اس وقت ایسا کر گزرو، اس کے بعد{وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ} (یوسف: ۹) اس کے بعدبڑے نیک بن جانا،یعنی توبہ ،استغفارکرکے نیک بن جانا۔گناہ کے داعیہ اورتقاضاکے وقت شیطان اورنفس ہمیں یہی ترکیب سجھاتے ہیں۔
آج کل لوگوں نے یہ وطیرہ اپنارکھاہے کہ جب کوئی انہیں کسی غلط کام پر سمجھانے بجھانے کی کوشش کرے تووہ کہتے ہیں کہ میاں! کیابات کرتے ہو؟اللہ بخشنے والاہے، ان مولویوں نے اللہ تعالیٰ کاڈرہی دِلوں میں بٹھارکھاہے،ہم توبس یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑاغفوررحیم ہے،اللہ تعالیٰ جہاں غفوررحیم ہیں وہیں شدیدالعقاب بھی ہیں،فرمایا:
{نَبِّیئْ عِبَادِیْ أَنِّیْٓ أَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ Oوَأَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیْمُ} (الحجر: ۵۰)
میرے بندوں کویہ بتادوکہ میںواقعی بہت بخشنے والاہوں،لیکن ساتھ یہ بھی بتادوکہ میراعذاب بھی بہت دردناک ہے۔
ایک پہلوکولیکربیٹھ جانااوردوسرے سے قطعِ نظرکرلینایہ بیوقوفی ہے۔
بات یہ ہورہی تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ مہینہ اس بات کی تربیت کیلئے بنایا ہے کہ آدمی اس مہینے کے ساتھ ساتھ اپنی عام زندگی میں بھی اپنی خواہشات کو قابومیں لائے۔پھراس کوحاصل کرنے کاطریقہ عرض کیاتھاکہ سب سے پہلے اپنی سوچ کارُخ تبدیل کیاجائے،اس وقت سوچ بچارکاسارارُخ دنیا کی لذّتوں اور دنیاوی راحتوں کی طرف ہے،اس کارُخ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی طرف کرو اورآخرت کی طرف کرو۔ساری کائنات کی مشینری ہماری خدمت میں لگائی ہوئی ہے:
{ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا} (البقرۃ: ۲۹)
ان باتوں میں اپنی سوچ کارُخ پھیرنے کی کوشش کرو۔اس کیلئے پہلے تواپنے اختیارسے یہ باتیں سوچنے کی کوشش کرو،جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے
{یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ} (آل عمران: ۱۹۱)
کائنات کوپیداکرنے کامقصد
یہ ساری کائنات کیوں پیداکی گئی؟ ہمارے جسم میں سرسے لیکرپاؤں تک اللہ تعالیٰ نے کیاکیانعمتیں دی ہوئی ہیں؟پھرمرنے کے بعدکیاحالات پیش آنے والے ہیں،جنت کیسی ہوگی اورجہنم کیسی ہوگی؟ اورکیاکام مجھے کرنے چاہئیں اورکیانہیں کرنے چاہئیں؟
ایک حدیث میں نبیِ کریم ،سرورِدوعالم ﷺکاارشادہے:
{ اِعْمَلْ لِدُنْیَاکَ بِقَدْرِ بَقَآئِکَ فِیْھَا وَ اعْمَلْ لِآخِرَتِکَ بِقَدْرِ بَقَآئِکَ فِیْھَا}
اپنی دنیاکیلئے اتناکام کروجتنااس دنیامیں رہناہے اورآخرت کیلئے اتناکام کروجتنا آخرت میں رہناہے۔
دنیاکی زندگی کے بارے میں کسی کونہیں پتہ کہ وہ کتنی دیرکی ہے؟جبکہ آخرت کے بارے میں اس کالامتناہی ہونایقینی ہے،اس لئے سوچ کارُخ بدلنے کی ضرورت ہے۔یہ بات محض کہنے کی حدتک میں نے کہدی اورسننے کی حدتک آپ نے سن لی،لیکن جب اس پرعمل کرناچاہیں گے تویہ آسان معلوم نہیں ہوگا،کیونکہ ہمارے دماغ میں خیالات کی ایک رَوہے جوچل رہی ہے ،اگرشروع میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں ،رحمتوں اوراس سے دعائیں مانگنے کی طرف کچھ دھیان دیناشروع کیاتوکچھ دیریہ کیفیت رہے گی،اس کے بعدپھروہی خیالات اورسوچ دماغ میں آجائے گی،جس کے ہم عادی ہیں،لیکن جیسے ہی تنبہ ہوپھراپنے دھیا ن کواللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف لے جاؤ،پھرکچھ دیرچلے، پھرخیالات بھٹک گئے توپھرواپس آجاؤ،یہ مشق کرتے رہناہے،اس کے بعدان شاء اللہ ایک وقت ایساآجائے گاکہ وہ خیالات غالب ہوں اوروہ خیالات مغلوب ہوں گے۔
صبرحاصل کرنے کیلئے صحبت ضروری ہے
صبرکی نعمت حاصل کرنے کادوسراطریقہ جوپہلے طریقے کے مقابلے میں نہ صرف آسان ہے بلکہ وہ پہلے طریقے کوبھی آسان بنانے والاہے،وہ ہے صحبت۔حقیقت میں فکرکارُخ اس وقت مڑے گاجب کسی ایسے شخص کی صحبت میں رہوگے یااس کی صحبت حاصل کروگے جس کارُخ اُدھرکومڑاہواہو۔کسی اللہ والے کی صحبت میں جاکرپڑو،اس کی مجلسوں میں جاکربیٹھو،اس کی باتیں سنو،اس کے طرزِعمل کودیکھو،اس کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ خیالات اورفکرمیں ان شاء اللہ تعالیٰ تبدیلی پیدافرمائیں گے،اسی لئے فرمایا
{ یٰٓـأَیُّہَا الَّذِینَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ}
(التوبۃ: ۱۱۹)
اے ایمان والو! تقوٰی اختیارکرواورسچے لوگوں کے ساتھی بن جاؤ۔
ہمارے حضرت نے اس کاترجمہ یوں بھی کیاہے کہ ’’سچے لوگوں کے ساتھ رہ پڑو‘‘۔یعنی اپنے فارغ اوقات کوزیادہ سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والوں اورخوفِ خدا رکھنے والوں کی خدمت وصحبت میں گزاراکرو،اس کانتیجہ یہ نکلے گاکہ ان کے دِلوں کی خواہشات اوران کی سوچ تمہاری طرف بھی منتقل ہوجائے گی،انسان جس قسم کی صحبت میں رہتاہے،اسی قسم کے خیالات اورجذبات اس کے دل میں پیداہوتی ہیں ۔
صحبت کی نعمت
یہ صحبت ایسی نعمت ہے کہ رفتہ رفتہ انسان کوکچھ سے کچھ بنادیتی ہے،شیخ سعدی ؒنے گلستاں کے شروع میں بڑے خوبصورت شعرلکھے ہیں ،جن مفہوم یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک محبوب کے ہاتھ سے میرے ہاتھ میں ایک مٹی آگئی جوکہ بڑی خوشبودارتھی،میں نے اس مٹی سے پوچھاکہ تم مشک ہویاعنبر؟کہ میں تمہاری دل آویزخوشبوسے مست ہورہاہے،اس نے کہاکہ میں تووہی ناچیزمٹی ہوں،لیکن ایک عرصے تک میں ایک پھول کے ساتھ پڑی رہی،تواس ہم نشین کے جمال اورخوشبونے مجھ پراثرکردیاکہ مجھ میں سے بھی خوشبوآنے لگی۔
ان اشعارکامقصدیہ ہے کہ صحبت ایسی چیزہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تعلق مع اللہ کی جوخوشبواس کے اندرپیدافرمائی ہے اورطاعات کی جوخوشبوعطافرمائی ہے،وہ تمہیں دل میں بھی منتقل ہونے لگے گی،پھرتمہاری خواہشات کارُخ بھی بدلے گا،پہلے تم دنیا کیلئے منصوبے سوچاکرتے تھے اوراب آخرت کیلئے منصوبے بناؤگے کہ آخرت میں میرے لئے کون سی چیزفائدہ مندہوگی؟
میرے ایک دوست نے ایک مرتبہ بڑااچھاجملہ کہاجومجھے بہت پسندبھی آیا اور اس نے دل میں عبرت بھی پیداکی،کہنے لگے کہ لوگ آج کل اس فکرمیں ہوتے ہیںکہ میرے مرنے کے بعدمیری اولادکاکیابنے گا؟لیکن یہ فکرنہیں ہوتی کہ خوداولاد کے مرنے کے بعداولاد کاکیابنے گا؟ ٹھیک ہے کہ اپنے بیوی بچوں کواس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیںلیکن اس بات کی فکرزیادہ ہونی چاہئے کہ اولادکے مرنے کے بعدان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی ہوگی تواس وقت یہ کیا کریں گے؟اس بات کی فکرزیادہ ہونی چاہئے،اس کیلئے ان کی صحیح تربیت کی جائے اوران کو دین کے راستے پرلگایاجائے،ان میں حلال وحرام کی فکرپیداکی جائے اورجائزو ناجائز کی فکرپیداکی جائے ۔
کفروفسق میں ڈوبے لوگوں کوجب حضورﷺکی صحبت ملی توصحبت کی برکت سے وہ صحابیؓبن گئے،دین اسی طرح پھیلاہے کہ ؎
نہ کتابوں سے نہ کالج سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
جب آدمی کسی کی صحبت میں بیٹھتاہے اورآتاجاتاہے تواس کی خوشبواس کے اندربھی منتقل ہوجاتی ہے۔
جس آدمی کواس کاموقع نہ ملے یاکم ملے ۔ہمارے حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ اس طرح کے لوگوں اورخاص طورپرخواتین کے بارے میں فرمایاکرتے تھے کہ ایسے لوگ ان بزرگوں کے حالات،ملفوظات اورواقعات کامطالعہ کریں۔
میں ہروقت حضرت تھانویؒکے ملفوظات کاحوالہ دیتارہتاہوں تولوگ سمجھتے ہوں گے کہ شخصیت پرستی کی وجہ سے ایساکرتاہے یاکچھ زیادہ ہی عقیدت ہوگئی ہے،حقیقت یہ ہے کہ الحمدللہ! کوئی شخصیت پرستی نہیں،کوئی مبالغہ نہیں ،لیکن خوداپنی سمجھ اوراپنے تجربے کی حدتک بات یہ ہے کہ اس آخری دورمیں اصلاحِ نفس کاجیساکام اللہ تعالیٰ نے حضرت والاسے لیاہے اوران کے مواعظ وملفوظات ہم جیسے لوگوں کیلئے جس طرح اصلاح میں مفید ہیں،اتنااورکہیں نظرنہیں آتا،اس لئے میں ان کاحوالہ زیادہ دیتاہوں۔
صحابۂِ کرام ؒسے شروع کریں،کیونکہ وہ ہمارے لئے اُسوہ ہیں،اس کے بعد نیچے کے بزرگوں کے حالات پڑھیں،صحابۂِ کرام ؓکے حالات سن کراورپڑھ کربعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ توبہت دورکی بات ہے،اب نہ وہ قوٰی ہیں اورنہ وہ حالات ہیں،قریبی زمانے کے بزرگوں کے حالات پڑھنے سے فائدہ یہ ہوتاہے کہ یہ خیال نہیں آتاکہ یہ کوئی بہت پرانے زمانے کے لوگ تھے،بلکہ یہی خیال آتاہے کہ جس طرح کے حالات سے ہمیں سابقہ پڑتاہے اسی طرح کے حالات ان کوبھی درپیش تھے،اس کے باوجودانہوں نے یہ کام کیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس پرعمل کی توفیق عطافرمائے،ان شاء اللہ تعالیٰ ان دونوں طریقوں پرعمل کرنے کے بعدسوچ کارُخ بدل جائیگا،جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی خواہشات کوقابورکھنے کاحکم فرمایاہے تواسی پروردگارنے یہ بھی فرمایاکہ :
{لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا} (البقرۃ: ۲۸۶)
مایوسی اورپریشانی کی کوئی ضرورت نہیں،بس اتناارادہ کرلوکہ اپنی خواہشات کے رُخ کوتبدیل کریں گے اورساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے رہیں کہ :
{ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ وَاجْعَلْ ھِمَّتِیْ وَ ھَوَایَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی }
کہ اے اللہ! میرے دل کے وسوسوں کواپنی خشیت اوراپنے ذکرمیں تبدیل کردے اورمیرے ارادے اورمیری خواہشات ان چیزوں کی
طرف موڑدیجئے جوآپ کی رضاکے مطابق ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب کاموں کی توفیق عطافرمائے۔آمین
وآخردعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین