رمضان کی سلامتی

الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
فقد روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال:
{ مَنْ سَلِمَ لَہٗ رَمَضَانُ سَلِمَتْ لَہُ السَّنَۃُ }
بزرگانِ محترم اوربرادرانِ عزیز!
اللہ جلّ جلالہ کابڑافضل وکرم ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے ہمیں رمضان المبارک کامہینہ عطافرمایا،اس ماہ کی مبارک گھڑیاں الحمدللہ! اس وقت ہمیںنصیب ہیں۔ یہ مہینہ اللہ جل جلالہ کی رحمتوں کامہینہ ہے،برکتوں کامہینہ ہے،مغفرت کامہینہ ہے اور عذاب ِجہنم سے رہائی کا پروانہ حاصل ہونے کامہینہ ہے۔قرآنِ کریم میں فرمایا:
{ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ } (البقرۃ: ۱۸۵)
رمضان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کاموسمِ بہارہے
یہ وہ مہینہ ہے جس کواللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم کے نازل کرنے کیلئے منتخب فرمایااورجس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کی گھٹائیں اپنے بندوں پرجھوم جھوم کربرستی ہیں۔مغفرت کے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں۔رات کے وقت میں اللہ تعالیٰ کامنادی آوازلگاتاہے کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والاکہ جس کی میں مغفرت کروں!ہے کوئی رزق مانگنے والاجس کومیں رزق دوں!ہے کوئی مبتلائے آزارجس کومیں عافیت عطا کروں۔غرض یہ کہ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اوربرکتوں کاموسمِ بہارہے۔
رمضان المبارک کی قدرپہچانیں!
اس ماہِ مبارک کی قدرپہچاننے کی ضرورت ہے۔اس ماہ کی قدرپہچان کراس کو گزاریں تویہ ہماری زندگی کانقطۂ انقلاب بن سکتاہے۔
ابھی جوحدیث آپ کے سامنے پڑھی گئی،اس میں نبیِ کریم ﷺکایہ ارشاد منقول ہے
{ مَنْ سَلِمَ لَہٗ رَمَضَانُ سَلِمَتْ لَہُ السَّنَۃُ }
جس کارمضان سلامتی سے گزرجائے ،اس کاساراسال سلامتی سے گزرے گا۔
یہ ایک طرح سے حضوراکرم ﷺنے بشارت دی ہے کہ اگررمضان المبارک کوسلامتی کے ساتھ گزارلیاتوان شاء اللہ تعالیٰ ساراسال سلامتی کے ساتھ گزرے گا۔
رمضان المبارک کے سلامتی سے گزرنے کاپہلامطلب
رمضان کے سلامتی سے گزرنے کاایک مطلب تویہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے رمضان المبارک میں جوخصوصی عبادتیں مقررفرمائی ہیں،ان کوٹھیک ٹھیک انجام دیا جائے،مثلاًاللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک میں روزہ فرض کیاہے،یہ رمضان ہی میں فرض ہوتاہے،رمضان کے علاوہ کہیں فرض نہیں ہے۔روزے کی اس عبادت کو اہتمام کے ساتھ انجام دے کہ کوئی روزے نہ چھوٹے اورروزے کے مکمل آداب کی رعایت رکھتے ہوئے اس کورکھے۔جوبندہ اخلاص کے ساتھ صحیح طریقے سے روزہ رکھتا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}کہ اس کے نتیجے میں تمہارے اندرتقوی پیداہوگا۔تقوی اس طرح پیداہوگاکہ روزے میں بھوک لگ رہی ہے توکھانانہیں کھاؤ گے،پیاس لگ رہی ہے لیکن پانی نہیں پئوگے جبکہ ٹھنڈاپانی اور شربت موجودہے،کمرے میں کوئی دیکھنے والابھی نہیں،حلق میں کانٹے بھی پڑے ہوئے ہیں،دل پانی پینے کیلئے مچل بھی رہاہے،کوئی روزے دارمسلمان اس حالت میں بھی پانی نہیں پئے گا،بلکہ شایدکوئی شخص اس وقت یہ پیشکش بھی کردے کہ تم مجھ سے یہ ایک لاکھ روپے لے لواوریہ ایک گلاس پانی پی لو توالحمدللہ! غالب گمان یہ ہے کہ کیساہی گیاگزرا مسلمان ہوو ہ ایک لاکھ کوٹھوکرماردے گااورپانی نہیں پئے گاکہ میں نے اللہ کیلئے روزہ رکھاہے۔
اس کے دل میں یہ جذبہ جوپیداہورہاہے کہ کچھ بھی ہوجائے روزہ نہیں توڑوں گا،اسی کانام توتقوی ہے،تقوی کے معنی یہی ہیں کہ اللہ جل جلالہ کے سامنے جوابدہی کے احساس کی وجہ سے آدمی اپنی کسی خواہش کوچھوڑدے،اسی کوفرمایا
{ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیO فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی} (النّٰزعٰت: ۴۰،۴۱)
یعنی جواپنے پروردْگارکے سامنے کھڑے ہونے سے خوف رکھتاہوکہ ایک دن مجھے اس کے سامنے کھڑے ہوکرجواب دیناہے اوراپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے سے رُک جائے تواس کاٹھکانہ جنت ہے۔اپنے نفس کی خواہشات کوچھوڑناہی تقوٰی ہے۔ رمضان المبارک کاہرروزہ سراپاتقوٰی کادرس ہے۔
رمضان کی دوسری مخصوص عبادت
رمضان المبارک کی دوسری مخصوص عبادت تراویح ہے جواگرچہ روزے کی طرح فرض نہیں اورنہ ہی واجب ہے۔حدیث میں آتاہے کہ نبیِ کریم ﷺجب تراویح پڑھناشروع فرمائی توجماعت کااہتمام نہیں فرمایا۔مسجد ِنبوی میں چٹائی چاراطراف میں کھڑی کرکے ایک حجرہ نمااحاطہ سابنادیاجاتاتھا،اس میں آپ ﷺ اعتکاف فرمایا کرتے تھے،وہیں آپ ﷺنے تراویح کی نمازپڑھناشروع فرمائی۔ اس کوقیامِ رمضان کہاجاتا تھا، صحابۂِ کرامؓنے جب دیکھاکہ آپ ﷺقیامِ رمضان کی نمازپڑھ رہے ہیں تووہ بھی آپ ﷺکے پیچھے نیت باندھ کرکھڑے ہوگئے۔پہلے دن تھوڑے لوگ تھے ،دوسرے دن دیگرصحابۂِ کرامؓکوپتہ چلاتوایک بڑی جماعت حاضرہوگئی۔جب تیسری رات آئی توپوری مسجدبھرگئی اورحضورﷺکے پیچھے نماز پڑھنے کے شوق میں سب صحابۂِ کرامؓجمع ہوگئے۔ حضورﷺنے صحابۂِ کرامؓ کوفرمایاکہ اللہ تعالیٰ کوتمہاری یہ نمازبہت پسندآئی ہے،مجھے ڈرہے کہ یہ تمہارے ذمے کہیں فرض نہ ہوجائے،اگریہ فرض کردی گئی اورتم لوگ بے ہمتی کی وجہ سے اس فریضے کوبجانہ لائے تواس کابہت سخت گناہ ہوگا،اس لئے کل سے میں تمہیں جماعت سے نمازنہیں پڑھاؤں گا،بلکہ تم اپنے طورپرپڑھ لو۔چنانچہ صحابۂِ کرامؓنے اسی طرح کیا،کسی نے گھرمیں پڑھ لی ،کسی نے مسجدمیں پڑھ لی،دوچارنے مل کرجماعت سے پڑھ لی ۔
حضرت فاروقِ اعظمؓ کالوگوں کوتراویح پرجمع کرنا
حضرت فاروقِ اعظم ؓکے زمانے تک یہ سلسلہ رہا،ایک دفعہ انہوں نے دیکھاکہ مسجد ِنبوی میں لوگ ٹولیوں کی شکل میں تراویح اداکررہے ہیں،کئی کئی جماعتیں ہورہی ہیں،حضرت فاروقِ اعظمؓنے فرمایاکہ اب وحی کاسلسلہ تومنقطع ہے اور حضورﷺکے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کویہ جماعت پسندبھی تھی،لہٰذااب ایسا کریں کہ سارے لوگ ایک ہی امام کے پیچھے تراویح اداکریںاورامام وہ ہوگاجس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا
{ اَقْرَؤُھُمْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ}
تمام صحابۂِ کرام میں سب سے بہترین قرآن پڑھنے والے حضرت اُبی بن کعبؓہیں۔
ہرصحابیؓکی الگ شان ہے،حضرت علیؓکے بارے میں حضورﷺنے فرمایاتھا کہ علیؓ بہترین قاضی ہیں،یعنی سارے صحابہؓمیں لوگوں کے تنازعات کافیصلہ کرنے میں سب سے بہترعلی ہیں۔میراث کے مسائل کوتمام صحابہؓمیں سب سے زیادہ جاننے والے زیدبن ثابت ؓہیں۔حلال وحرام کا زیادہ علم رکھنے والے معاذبن جبل ؓہیں۔
چنانچہ حضرت اُبی بن کعبؓکھڑے ہوئے اورسارے صحابۂِ کرامؓنے ان کے پیچھے تراویح پڑھنی شروع کی۔اگلے دن جب سب لوگ حضرت ابی بن کعبؓکی امامت میں ایک جماعت سے نمازِتراویح اداکررہے تھے توحضرت فاروقِ اعظم ؓنے یہ منظردیکھ کرفرمایا { نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ}یہ توبڑی اچھی بات پیداہوگئی۔اس کے بعدسے تراویح جماعت کے ساتھ اکٹھی پڑھی جانے لگی۔
تراویح کی جماعت کاثبوت
جس طرح حضورﷺنے اپنی سنت کے بارے میں فرمایاکہ میری سنت کی اتباع کرو،اسی طرح اپنے خلفائِ راشدین کی سنت کی پیروی کرنے کابھی حکم فرمایا، اس لئے تراویح کی جماعت سنت ہے۔حضورﷺسے تین دن کی جماعت ثابت ہے اور بعد میں خلفائِ راشدین ؓسے اورتمام صحابۂِ کرامؓکے اہتمام سے ثابت ہے۔
نمازِتراویح کی خصوصی اہمیت
میرے شیخ حضرت عارفی قدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ’’اس تراویح میںاللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کایہ عالم ہے کہ ہرمؤمن کوہررات اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے چالیس مقامات ِقرب زیادہ عطافرمائے ہیں۔تراویح کی بیس رکعات ہیں اور ہررکعت میں دوسجدے ہیںتویہ چالیس سجدے ہوئے۔سجدہ کے بارے میں فرمایاکہ بندہ اپنے پروردْگارسے کسی وقت اتنازیادہ قریب نہیں ہوتاجتناسجدے کی حالت میں ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کے قرب کاسب سے اعلی مقام اوراعلی ذریعہ سجدہ ہے،اسی لئے قرآن کریم میں فرمایاکہ سجدہ کرواورمیرے پاس آجاؤ ۔یعنی تم جوپیشانی میرے سامنے زمین پرٹیکتے ہو،اس وقت تم مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ } (ق: ۱۶)
ہم بندے کے اس کی رگ ِجان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
اللہ تعالیٰ بندے کے اتنے قریب ہیں لیکن بندہ اللہ تعالیٰ سے دورہے،اس کادل ودماغ کہیں اورلگاہواہے،خواہشات کہیںاورجارہی ہیں،جذبات کچھ اورپیداہورہے ہیں،اس کواللہ تعالیٰ کے قرب کااحساس بھی نہیں ہے،اللہ تعالیٰ کے رگ ِجان سے زیادہ قریب ہونے کے باوجودبندہ ان سے غافل ہے،فارسی کاایک شعرہے ؎
تو کہ از طرف خویش بمن نزدیکی
من کہ از طرف خویش بغایت دور ام
یعنی یااللہ! آپ اپنی طرف سے تومجھ سے بہت ہی قریب ہیں،لیکن میں اپنی طرف سے آپ سے بہت دورہوں۔دل میں کچھ اورخیالات ہیں،جذبات کچھ اورہیں، صبح سے لیکرشام تک فکرکچھ اورہے،سوچ وبچاردوسری طرف ہے،آپ کاخیال اورآپ کی طرف دھیان نہیں ہے ؎
بڑی دور ہے ابھی تک رگِ جان کی مسافت
جو دیا ہے قرب تونے تو شعور بھی عطا کر
اللہ تعالیٰ اپنے قرب کاشعورہمیں عطافرمادیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں توقریب ہوں،بندہ ہی دورہے،اے بندے! تومیرے پاس آجا!سجدہ کراورمیرے پاس آجا!جب دھیان سے سجدہ کروگے تو میرے قریب آجاؤگے۔حضرت مجذوب صاحبؒفرماتے ہیں ؎
وہ اتنے تھے قریب کہ دل ہی میں مل گئے
میں جارہا تھا دور کا ساماں کئے ہوئے
جب دھیان سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوکرسجدہ کیاجائے گاتواندازہ ہوگاکہ وہ توبہت ہی قریب ہیں،یہ سجدہ ایسی چیزہے۔ہمارے حضرت عارفی قدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عام دنوں سے زیادہ رمضان المبارک میں چالیس مقامات ِقرب بندے کوعطافرمائے ہیں۔اگرپابندی سے پورارمضان تراویح اداکی جائے توبارہ سوسجدے بنتے ہیں،گویااس ماہِ مبارک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بارہ سومقامات ِقرب تراویح کے ذریعے بندے کوعطافرمائے ہیں،یہ معمولی بات نہیں ہے۔حضوراکرم ﷺنے فرمایا:
{اِنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْکُمْ صِیَامَہٗ وَ سَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَہٗ }
اللہ تعالیٰ نے اس رمضان المبارک میں دن کے وقت روزے فرض کئے اورمیں نے تمہارے لئے رات کے وقت میں قیام یعنی تراویح سنت مقررکردی۔
روزے اورتراویح کی عبادت اس مہینے کے ساتھ خاص ہے،عام دنوں میں فرض روزہ نہیں ہے اورنفل کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے۔
رمضان المبارک سلامتی سے گزرجانے کاپہلامطلب یہ ہے کہ ان مخصوص عبادتوں کوٹھیک ٹھیک انجام دیاجائے۔یہ رمضان المبارک کے خصوصی اعمال ہیں، الحمدللہ! ہرمسلمان انہیںجانتابھی ہے اورحتی الامکان کوشش بھی کرتاہے کہ ان اعمال کوصحیح طریقے سے انجام دیاجائے
رمضان المبارک کے سلامتی سے گزرنے کادوسرامطلب
رمضان المبارک کے سلامتی کے ساتھ گزرنے کادوسرامطلب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہرآدمی اس بات کاخصوصی اہتمام کرے کہ اس سے کوئی گناہ سرزدنہ ہو۔ورنہ یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ پہلے کھاناپیناحلال تھا،اپنی بیوی سے جنسی تعلق حلال تھا،پھررمضان المبارک میں یہ حلال چیزیں توچھوڑدیں،لیکن جوچیزیں رمضان المبارک سے پہلے بھی حرام تھیںوہ نہ چھوڑیں،مثلاًجھوٹ بولناپہلے بھی حرام تھا،رمضان المبارک میں وہ نہ چھوڑا،رشوت لیناعام حالات میں بھی حرام تھی، رمضان میں بھی ترک نہ کی، عام دنوں میں بھی غیبت کرناحرام تھا،رمضان میں بھی غیبت کررہاہے۔
ہماری انہی بداعمالیوں کانتیجہ ہے کہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی انسانی جانیں مکھی اورمچھروں سے بھی زیادہ بے حقیقت ہوکررہ گئی ہیں،اس مہینے کے تقدس کا اتنابھی پاس نہیں کہ کم ازکم اس مہینے میں توکسی دوسرے کوتکلیف نہ پہنچائیں۔
لیکن اللہ بچائے! اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اوربغاوت کس مقام پرپہنچ گئی ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی لوگوں کی جانیں لے لینا،لوگوں کاخون بہادینا، خاندانوں کو اُجاڑدینامعمولی سی بات بن کررہ گئی ہے۔
مسلمان کی حرمت بیت اللہ سے بھی زیادہ ہے
حضورﷺایک مرتبہ مسجد ِحرام میں طواف فرمارہے تھے،حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓفرماتے ہیںکہ میں بھی ساتھ تھا،طواف کے دوران آپ ﷺنے بیت اللہ سے خطاب فرمایاکہ اے اللہ کے گھر! توکتناعظیم ہے!تیری حرمت کتنی عظیم ہے! توکتنے تقدس والاہے!مگرایک چیزایسی ہے کہ اس کی حرمت تجھ سے بھی زیادہ ہے،وہ ہے ایک مسلمان کی جان،اس کامال اوراس کی آبرو۔
کسی مسلمان کی جان لینا،اسی میں ناحق تکلیف دینابھی داخل ہے،اس کے مال اورعزت وآبروکوناحق پامال کرنااس کوحضورﷺنے بیت اللہ کی بے حرمتی سے زیادہ بڑاسنگین گناہ قراردیاہے۔لیکن آج مسلمان معاشرے میں ایک دوسرے پرمکھی مچھر سے زیادہ بے حقیقت سمجھ کرحملہ کئے جارہیہیں۔
پھریہ بھی نہیں کہ کسی کوجائزبات پرغصہ آگیااوراس میں اس نے دوسرے پرحملہ کردیا،اگرچہ حرام تووہ بھی ہے لیکن کوئی وجہ توہے،لیکن ہمارے ہاں توبغیروجہ کے محض دشمنوں کے پروپیگنڈے سے متاثرہوکرنسلی اورزبانی تعصبات میںڈوب کردوسرے مسلمان بھائی کاگلاکاٹاجارہاہے۔
ہمارے دل میں یہ احساس پیداہوجائے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اپنے مسلمان بھائی کی جان،مال اورعزت وآبروپرہاتھ ڈال کرمیں اپنے لئے جہنم خریدرہا ہوں، جیسے قرآنِ کریم میں فرمایا
{ وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیہَا}
(النسائ: ۹۳)
ترجمہ
جس شخص نے کسی مؤمن کوقتل کیاتواس کی جزاء جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔
گناہ ،رمضان کی سلامتی کے منافی ہیں
اگرروزہ رکھ کراس قسم کے گناہوں میں بھی مبتلاہے تویہ مسلمان کی بے حرمتی میں بھی داخل ہے اور رمضان کی سلامتی کے خلاف بھی ہے۔
اسی طرح غیبت ،جھوٹ،رشوت نہ چھوڑی ،بدنظری سے بازنہ آیا،کسی نامحرم پرلذّت لینے کی غرض سے نگاہ ڈالناآنکھوں کازناہے،اس کونہ چھوڑا،جب سے مسلمان کے گھرمیں ٹی وی کارُجحان ہواہے توآدمی چاہے نہ چاہے نگاہ کے گناہ میں مبتلاہوتا ہے۔اسی طرح کانوں کاگناہ ہے،مثلاًغیبت سننا،گانے سنناوغیرہ یہ بھی روزے کی حالت میں ہورہے ہیں۔
میں اس کی مثال دیاکرتاہو ںکہ جیسے گرمی کے موسم میں لوگ اپنے گھروں میں ایئرکنڈیشنڈکرتے ہیں،پہلے چاروں طرف کی کھڑکیاں بندکرتے ہیں،دروازے بند کرتے ہیں، پھر ائیرکنڈیشنڈکی ٹھنڈک سارے کمرے میں پھیلتی ہے، اگر ائیرکنڈیشنڈ آن کردیااوردروازے ،کھڑکیاں بھی کھول دیں توٹھنڈک ایک طرف سے آرہی ہے اور دوسری طرف سے نکل رہی ہے،گرمی پھرویسے کے ویسے برقرارہے توایسے ائیرکنڈیشنڈ کرنے کاکیافائدہ ہے؟
اسی طرح روزے کی مثال ہے کہ روزے کاائیرکنڈیشنڈلگاکرآنکھ کی کھڑکی کھلی رکھی،کانوں کی کھڑکی کھلی رکھی،منہ کے دروازے کھلے رکھے کہ حلال وحرام کی تمیزختم کردی توروزے کاکیافائدہ ہوا؟قرآنِ کریم میں تویہ ہے کہ ہمارے روزے اس لئے فرض کئے{ لَعَلَّکُمْ تَتَّقوْنَ}تاکہ تمہارے اندرتقوٰی پیداہواورتقوٰی اسی طرح پیدا ہوگا کہ جس طرح حلال چیزیں چھوڑدیں ،اسی طرح حرام بھی چھوڑدو۔
اگررمضان المبارک میں بھی یہ گناہ جاری رہے تورمضان المبارک سلامتی سے کیسے گزرے گا؟اس لئے کم ازکم رمضان کے مہینے میں ہم یہ طے کرلیں کہ آنکھ غلط جگہ نہیں اُٹھے گی،کان غلط بات نہیں سنیںگے اورہمارے منہ میں کوئی حرام کالقمہ نہیں جائے گا،کسی کی غیبت نہیں کریں گے،رشوت نہ دینگے اورنہ لینگے اورکسی بھی انسان کواپنی ذات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے،اس طرح سے اگررمضان گزارا توپھروہ بشارت حاصل ہوگی کہ جس کارمضان سلامتی کے ساتھ گزراتواس کا پوراسال بھی سلامتی کے ساتھ گزرے گا۔(ان شاء اللہ تعالیٰ)
درمیانِ رمضان سچی توبہ کرکے عمل شروع کرنا
رمضان المبارک کے درمیان کسی کویہ خیال آسکتاہے کہ اب کیاہوسکتا ہے،اب تونصف رمضان گزرگیااوراس میں ہم پوری طرح اہتمام نہ کرسکے تواب بارہ دن میں کرنے کاکیافائدہ!
جواب اس کایہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے اتنے چوپٹ کھولے ہوئے ہیں کہ کوئی شخص اگراپنے آپ کوبالکل ہی تباہ کرناچاہے تووہ بات الگ ہے،لیکن اگرکوئی ذرہ برابربھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجائے تواس کی رحمت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں،بس ! ایک مرتبہ سچے دل سے توبہ کرلو کہ یااللہ! گذشتہ عرصہ میں جوزندگی گزری، سوگزری،رمضان المبارک کے جتنے ایام گزرگئے ،میں ان سے کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھاسکا،ان میں گناہوںمیں مبتلارہا،اے اللہ! اب توبہ کرتا ہوں،اپنے فضل وکرم سے معاف فرما!توبہ کرتے ہی سارے گناہ ختم ہوگئے:
{ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہٗ}
گناہ سے توبہ کرنیوالاایساہوجاتاہے جیسے کہ اس نے گناہ کیاہی نہیں تھا۔
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی صاحب قدس اللہ سرہ نے فرمایاکہ جب بندہ کسی گناہ سے توبہ کرلیتاہے تواللہ تبارک وتعالیٰ صرف اتناہی نہیں کرتے کہ اس کومعاف فرمادیتے ہیں،بلکہ وہ گناہ اس کے نامۂِ اعمال سے بھی مٹادیا جاتاہے،قیامت میں اس کاکوئی تذکرہ بھی نہیں ہوگاکہ اس نے یہ گناہ کیاتھا،پھراس سے توبہ کرلی۔
اورانسان جب چاہے اپنے گناہوں کے ڈھیرکوتوبہ کے بارودسے ایک آن میں اُڑاسکتاہے،حتی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نامۂِ اعمال سے بھی وہ گناہ مٹادیتے ہیں۔
اگردرمیان رمضان میں توبہ کرلی اورباقی ایام گناہوں سے بچ کرگزارلئے تو حضورﷺکی اس بشارت کے مصداق بن جائیںگے کہ جس کارمضان سلامتی سے گزرا، اس کاسال سلامتی سے گزرے گا۔
حضورﷺکاجبرئیل امین علیہ السلام کی دعاپرآمین کہنا
ایک مرتبہ نبیِٔ اکرم ﷺخطبہ دینے کیلئے تشریف لائے،پہلی سیڑھی پرقدم رکھا توآمین فرمایا،دوسری سیڑھی پرقدم رکھا،پھرآمین فرمایا،تیسری سیڑھی پرقدم رکھاتو پھرآمین فرمایا۔صحابۂِ کرامؓنے عرض کیاکہ یارسول اللہ! ہم نے کوئی دعاتوسنی نہیں،آپ ﷺسے تین مرتبہ آمین سنا۔حضورﷺنے فرمایاکہ جب میں خطبہ دینے کیلئے آنے لگا تو حضرت جبرئیلِ امین علیہ الصلاۃ والسلام میرے سامنے آگئے،انہوں نے تین دعائیں مانگیں،ان میں سے ہردعاپرمیں نے آمین کہا۔
وہ تین دعائیں حقیقت میں بددعائیں تھیں،پہلی بددعایہ تھی کہ بربادہووہ شخص کہ جس کواس کے والدین بڑھاپے کی حالت میں ملے اوروہ اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کراسکا،یعنی والدین بوڑھے ہیں اوران کی خدمت کی ضرورت ہے توایسے آدمی کواپنے گناہوں کی بخشش کروانابہت ہی آسان ہے،کیونکہ والدین کامرتبہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھاہے کہ اگران کوایک مرتبہ پیارکی نگاہ سے دیکھاجائے توحج وعمرہ کاثواب ملتاہے۔
پھرفرمایا:بربادہووہ شخص جس کے سامنے حضورِاقدس ،نبیِٔ کریم ،سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کااسمِ گرامی لیاجائے اوروہ آپ پردرودنہ بھیجے۔
تیسرے نمبرپرفرمایاکہ بربادہوجائے وہ شخص کہ جس کورمضان کامہینہ ملا،پورا رمضان گزرگیااوروہ اپنے گناہوں کی بخشش نہ کراسکا۔رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت مغفرت کے بہانے ڈھونڈرہی تھی،قدم قدم پرمغفرت کے سامان موجودتھے، شیطان کوقیدکردیاگیاتھا،اس کے باوجودوہ اپنی مغفرت نہ کراسکا۔
اندازہ لگائیے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام بددعادے رہے ہیں اور حضورِاکرمﷺ آمین فرمارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کواس کامصداق بننے سے محفوظ رکھے۔
خلاصۂِ کلام
رمضان المبارک کاپورامہینہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اورگناہوں سے بچ کر سلامتی کے ساتھ گذارنے کی کوشش کرنی چاہئے،ان شاء اللہ پوراسال سلامتی سے گزرے گا۔
رمضان المبارک کاآخری عشرہ پورے رمضان کاعطرہے،اس عشرے کی پانچ راتوں کے بارے میں احتمال ہے کہ شایدوہ شبِ قدرہو۔اس عشرے میں اعتکاف کی کوشش کرنی چاہئے،اگراعتکاف کاموقع نہ ہوتواپنی دیگرمصروفیات کوکم سے کم تر کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کااہتمام کریں۔
آج کل کے حالات میں ہم سب مسلمان پوری اُمت کی طرف سے استغفار کریں،ہم اس وقت جس گرداب میں مبتلاہیں اورچاروں طرف مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوئے ہیں،مصیبتیں اورآفات آرہی ہیں،یہ بظاہرہماری شامت ِاعمال ہے، اس لئے پوری اُمت کی طرف سے مغفرت کی دعامانگیں۔
اسی طرح یہ دعابھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکام وعوام کواپنے حالات کی اصلاح کی توفیق عطافرمائیں۔رمضان کی راتوں میں خاص طورپریہ دعائیں کرنے کی ضرورت ہے،پتہ نہیں !اللہ کے کس بندے کی دعاقبول ہوجائے اورہم سب کابیڑاپار ہوجائے۔
وآخر دعوانا أن الحمدللّٰہ رب العٰلمین