یادیں (ساتویں قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(ساتویں قسط )

پاکستان اس طرح بنا تھا کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں جو اثاثے پاکستان کے حصے میں آئے تھے ، اول تو وہ تناسب کے لحاظ سے پہلے ہی کم تھے ، پھر بہت سے اثاثے بھارت میں رہ گئے تھے ، اور ان کی وصولی کا تنازعہ مدت تک چلتا رہا ۔اس لئے پاکستان کی حکومت نے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ کام شروع کیا تھا ۔اس وقت دارالحکومت کراچی تھا ، اور وزارتوں کا سیکریٹریٹ ٹین کی چادروں والے کمروں میں کام کرتا تھا ۔پیپر ویٹ کی جگہ پتھر استعمال ہوتے تھے ، اور کاغذوں کو جوڑنے کے لئے پن کے بجائے کانٹوں سے کام لیا جاتا تھا ۔ اسی وقت پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے” بورڈ تعلیمات اسلامیہ” کے نام سے ایک بورڈ تشکیل دیا ، اور اس کا دفتر بھی اسمبلی کے ساتھ کھپریل کی چھت والے ایک کمرے میں بنایا گیا ۔بورڈ کی صدارت کیلئے حضرت علامہ سید سلیمان ندوی ،رحمۃ اﷲعلیہ، کو دعوت دی گئی، اورحضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کو بھی اُس کا رُکن بنایا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ زیر ترتیب دستورمیں اسلامی تعلیمات سمونے کیلئے تجاویز مرتب کرے ۔اس حیثیت میں حضرت والد صاحبؒ کو جیکب لائن میں ایک کوارٹر کرایہ پر دیا گیا۔دوسری طرف اس دوران ہماری سب سے بڑی بہن محترمہ نعیمہ خاتون صاحبہ (مرحومہ ) اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ہندوستان سے کراچی آگئیں۔ چنانچہ حضرت والد صاحب ؒ تقریباً ایک سال” کنگس کورٹ” میں رہنے کے بعد وہ فلیٹ عارضی طورپر ہماری بہن کو دیکر جیکب لائن کے اُس کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔
اب جیکب لائن کا وہ مدرسہ جو حضرت مولانااحتشام الحق تھانوی ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے قائم فرمایا تھا ، اور جہاں میرے بڑے بھائی پہلے سے پڑھتے تھے ، ہمارے نئے گھر سے قریب ہوگیا،اور مجھے اس قابل قرار دیدیا گیا کہ میں بھی جیکب لائن کے مدرسے میں پڑھ سکوں ۔ لیکن حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے شاید میرے نحیف ونزار جثے اوربہت پتلے دبلے وجودکو دیکھتے ہوئے میرے چار بھائیوں کے برعکس مجھے حفظ میں نہیں لگایا، اور براہ راست کچھ ملی جلی اردو فارسی شروع کرادی جس کا آغاز” حمد باری” سے ہوا ۔ یہ مولانا عبدالسمیع بے دل مرحوم کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس میں مختلف الفاظ کے معنی مثنوی اشعار میں بیان کئے گئے ہیں۔ اگرچہ مولانا عبدالسمیع صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اُن کی یہ کتاب چونکہ بچوں کو الفاظ کے معنی یادکرانے کیلئے مفید سمجھی گئی تھی ،اس لئے علماء دیوبند نے اُس سے استفادہ میں کسی مسلکی تعصب کو آڑے آنے نہیں دیا، اور وہ تمام مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھی ۔میں نے وہ اور فارسی کی گردانوں کی کتاب "رسالہ نادر "جو ہمارے دادا حضرت مولانا محمد یا سین ،رحمۃاﷲعلیہ، کی تالیف تھی، حضرت مولانا نور احمد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، سے جیکب لائن کے مدرسے میں پڑھنی شروع کردی تھی، لیکن یہ پڑھائی میری کمسنی کی وجہ سے بے قاعدہ سی تھی کہ جب چاہا سبق پڑھ لیا، اور جب چاہا چھٹی کرلی، بلکہ کوئی سبق کسی استاذ سے پڑھ لیا، اور کوئی کسی اور اُستاذ سے ۔ حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے صاحبزادوں میں مولانااحترام الحق صاحب مجھ سے کچھ بڑے تھے، اور جناب اعتصام الحق صاحب (حفظہما اﷲتعالیٰ)تقریباً میرے ہم عمر۔بے قاعدہ اسباق سے فارغ بیشتروقت اُن کی رفاقت میں گذرجاتا، اور کبھی حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے گھر پر ہونے والی مجلسوں میں بیٹھ کر ۔اس تعلیم کی بے قاعدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے اس زمانے میں کئی بار ٹائیفائڈہوا جس کی وجہ سے مہینے مہینے بستر پر گذارنے پڑے۔
دوسری طرف اُس وقت ہمارے بھائی جان (جناب محمد زکی کیفی رحمۃ اللہ علیہ) لاہور منتقل ہوگئے تھے، اورانہوں نے وہاں ادارۂ اسلامیات کے نام سے کتب خانہ قائم کرلیا تھا۔ ان کے یہاں پہلے بچے کی ولادت متوقع تھی، (جس کانام” محمد مسعود غواص” رکھا گیا تھا، اوروہ پیدائش کے کچھ ہی دن کے بعد اﷲکو پیارا ہوگیا تھا) جس کے لئے والدہ صاحبہ نے لاہور کا سفر کیا ،اور میں چونکہ ان کا لاڈلا تھا، اس لئے وہ میرے بغیر سفر نہیں کرتی تھیں۔ برادر معظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم ،جنہیں میں گھرکی بے تکلفی میں "بھائی رفیع” کہا کرتاہوں، اور اس سرگذشت میں بھی اختصار اور بے تکلفی کے اظہار کیلئے بعض اوقات یہی تعبیر اختیار کروں گا،وہ اس سفر میں بطور محرم والدہ صاحبہ کے ساتھ لاہور گئے تھے ، اور تقریباً دو مہینے ہمیں والدہ صاحبہؒ کے ساتھ وہاں رہنا پڑا۔بھائی صاحب چونکہ اُس وقت حفظ کررہے تھے، اس لئے انہوں نے جامعہ اشرفیہ میں ایک استاذ کے ساتھ اپنے حفظ کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن میری تعلیم پہلے ہی بے قاعدہ چل رہی تھی ، اس لئے اُس کا کوئی باقاعدہ متبادل تلاش کرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔البتہ جب والدہ صاحبہ، رحمہا اﷲتعالیٰ، کو کچھ وقت ملتا ّ ،وہ مجھے بہشتی گوہر اور سیرت خاتم الانبیاء پڑھانے بیٹھ جاتی تھیں۔ باقی وقت سیر سپاٹوں ہی میں گذرتا تھا۔
اسی سیر سپاٹے کا یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا کہ وہ شدید سردی کا زمانہ تھا، اوربھائی رفیع صاحب مدظلہم حضرت مولانا محمد متین خطیب صاحب ؒ کے صاحبزادے محمد معین صاحب مرحوم کے ساتھ اکثر شام کو لارنس گارڈن کے "گلشن فاطمہ” میں تفریح کیلئے جایا کرتے تھے، جو اُس وقت انتہائی حسین باغ تھا۔میں بھی کبھی کبھی ان کے ساتھ چلا جاتا تھا ۔ اسی باغ کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت تالاب تھا ۔ایک مرتبہ یہ دونوں باتوں میں مشغول تھے، اور میں نے اس تالاب کے کنارے بنی ہوئی پتلی سی منڈیر پر چلنے کی مشق شروع کردی، کچھ دیر تک تو یہ مشق کامیاب رہی، لیکن پھر اچانک گیلی منڈیر سے پاؤں پھسلا ،اور میں دھڑام سے تالاب میں گرکر غوطے کھانے لگا ۔ دسمبر کی شدید سردی اور تالاب کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا ،ایک ہی لمحے میں موت سامنے نظر آنے لگی۔تالاب اگرچہ زیادہ گہرا نہیں تھا ، لیکن مجھ جیسے بچے کو ڈبونے کیلئے کافی تھا۔
بھائی رفیع صاحب اور بھائی معین صاحب نے بڑی دقت سے مجھے نیم بے ہوشی کی حالت میں تالاب سے نکالا،لیکن گیلے کپڑوں میں پورا بدن سردی سے کپکپارہا تھا ،اور دانت سے دانت بج رہے تھے ۔ وہاں کپڑے بدلنے کا بھی کوئی راستہ نہ تھا ۔ بھائی رفیع صاحب مد ظلہم اُس وقت سردی سے بچاؤ کے لئے شیر وانی پہنے ہوئے تھے۔ اﷲتعالیٰ اُن کو ہمیشہ دنیااور آخرت میں اپنی رحمتوں سے نوازے ، انہوں نے اپنی شیروانی اتارکر مجھے اُس میں لپیٹا ، اور نہ جانے کس طرح مجھے گھر لاکر انگیٹھی کے سامنے بٹھایا، تب جان میں جان آئی۔اس طرح اُس ارشاد نبوی کا سبق تواُسی دن مل گیا تھاجس میں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
"من رعی حول الحمیٰ اوشک ان یقع فیہ”
"جوشخص کسی ممنوعہ علاقے کے اردگرد اپنے جانور چرائے ، وہ کسی بھی وقت اُس ممنوعہ علاقے میں جاپڑسکتا ہے ۔”
لیکن کاش !کہ اپنے اعمال واخلاق میں بھی اس سبق پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی ہوتی!
بھائی جان اُس وقت نیلا گنبد میں جامعہ اشرفیہ کی پرانی عمارت کے ساتھ ایک تنگ وتاریک قسم کے فلیٹ میں رہتے تھے ۔اسی فلیٹ کے اوپر کی منزل میں حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی ؒ اور سب سے اوپر کی منزل میں جامعہ اشرفیہ کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب ، رحمۃ اللہ علیہما، رہا کرتے تھے ۔ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب، قدس سرہ، حضرت حکیم الامت ؒ کے اجل خلفاء میں سے تھے، اور انہوں نے جامعہ اشرفیہ دراصل امرتسر میں قائم فرمایا تھا، لیکن جب قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا ، تووہ لاہور منتقل ہوگئے تھے ،اور اس عمارت میں یہ جامعہ اشرفیہ قائم فرمایا جو قیام پاکستان کے بعد قائم ہونے والے مدرسوں میں اولیت کا شرف رکھتا ہے۔ حضرت والد صاحب ؒ کی ہم کو یہ تاکید تھی کہ جب کبھی لاہور جائیں، تو حضرتؒ کی خدمت میں اہتمام کے ساتھ حاضری دیا کریں ۔ چنانچہ اُس وقت جبکہ میری عمر سات سال کی تھی بھائی جان مرحوم کے ساتھ اُن کی خدمت میں باربار جانا، اور حضرتؒ کی شفقتوں اور دعاؤں سے سیراب ہونا خوب یادہے ۔اگرچہ حضرتؒ کے مقام بلندکا شعور تو اُس وقت کیا ہوتا ؟وہ تو اب بھی نہیں ہے ، لیکن یہ تأثر اُسی وقت کا یاد ہے کہ حضرتؒ کی مجلس میں جاکر اُس تنگ وتاریک فلیٹ میں بھی ایک عجیب قسم کا نور اور سرور محسوس ہوتا تھا ، اورایسا لگتا تھا کہ ہم شفقت ورحمت کے ایک شامیانے میں آگئے ہیں۔ رحمہ اﷲ تعالیٰ رحمۃً واسعۃ۔
اسی دوران ایک دن بھائی جان دوکان سے روتے ہوئے گھر آئے، اور بتایا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی ؒ وفات پاگئے ہیں۔ وہ بہاولپور کی یونی ورسٹی کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے تھے کہ وہیں پر اُن کاانتقال ہوگیا۔انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون ۔اُن کے علمی مقام کااندازہ اُس بچپن میں کیا ہوتا؟ لیکن اُن کی شفقتوں سے محرومی نے اُس بچپن میں بھی ہمیں مغموم کردیا، اور بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ملک وملت کیلئے کتنا زبردست سانحہ تھاجس سے ملک کے دینی حلقے اُس مرکزیت سے محروم ہوگئے جس نے تمام مکاتب فکر کو وسیع تر ملکی مفادات کی ایک لڑی میں پرویا ہوا تھا ۔رحمہ اﷲ تعالیٰ رحمۃً واسعۃ۔
ہماری دوسرے نمبر کی بہن محترمہ عتیقہ خاتون صاحبہ، مد ظلہا ،جودیوبندہی میں رہ گئی تھیں ، اُن کے شوہرجناب منشی بشیر احمد صاحب مرحوم کا (جو دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ میں ملازمت کرتے تھے)وہاں انتقال ہوگیا ، اور حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ،نے اُنہیں عدت گذارکر پاکستان بلا لیا ،اور وہ بھی اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ لاہور آگئیں ،اور پھر ہمارے ساتھ ہی کراچی پہنچیں۔اور جیکب لائن کے کوارٹر ہی کے ایک حصے میں مقیم رہیں۔جیکب لائن میں ہمارا قیام تقریباً دوسال رہا ۔ اسی دوران میری بڑی بہن محترمہ حسیبہ خاتون (رحمہا اللہ تعالیٰ)کا نکاح ہوگیا، اور وہ رخصت ہوکر سُسرال چلی گئیں۔
جیکب لائن کے یہ کوارٹر سرکاری ملازمین کے لئے بڑے معمولی معیار پر بنائے گئے تھے جن کی دیواریں بھی چھوٹی تھیں ، اور چوروں کو رات کے وقت ان پر چڑھ کر گھر میں کود جانے میں کسی دقت کا سامنا کرنا نہیں پڑتا تھا۔ چنانچہ اس گھر میں چور بہت آیا کرتے تھے، لیکن اس وقت چور بھی غیر ترقی یافتہ ہوتے تھے ، اس لئے چپکے سے گھر میں کودنے کے بعد کوئی چھوٹی موٹی چیز ہاتھ لگ جاتی ، تو اسی کو غنیمت جانتے تھے ، اور اگر انہیں شبہ ہوجاتا کہ کسی گھر والے کی آنکھ کھل گئی ہے ، تو جس آسانی سے آتے ہوئے دیوار پھاندی تھی ، اسی آسانی سے دیوار پھاندکرواپس چلے جاتے تھے ۔اس طر ح چھوٹی موٹی چوریاں ہوتی رہتی تھیں ، لیکن ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اللہ علیہ، نے حج کا ارادہ فرمالیا ، اور اس کی تمام کارروائیاں مکمل کرکے جہاز کا ٹکٹ ، پاسپورٹ اور شاید غیر ملکی کرنسی بھی ایک بڑے سے بٹوے میں رکھ لی تھی ۔رات کے وقت جب سب سوئے ہوئے تھے ، ایک چور آیا ، اور خداجانے کس طرح وہ بٹوا اٹھاکر لے گیا جس میں حج کا سارا سامان موجود تھا ۔ حضرت والد صاحبؒ صبح کو اٹھے ، تو یہ سارا سامان غائب تھا ۔نہ پیسے تھے، نہ ٹکٹ ، نہ پاسپورٹ ، اور جہاز کی روانگی اتنی قریب تھی کہ اگر کسی طرح پیسوں کاانتظام ہوبھی جاتا ، تو سرکاری کارروائیوں کا وقت نہ تھا ، اس لئے حضرت والد صاحبؒ اس سال ساری تیاریوں کے باوجود حج کو نہ جاسکے ۔ حضرت مولانا احتشام الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ، کو اللہ تعالیٰ نے ظرافت بھی خوب عطا فرمائی تھی ، جب انہیں حضرت والد صاحبؒ نے یہ واقعہ بتایا تو انہوں نے کہا :”حضرت ! اب تو وہ چور ہی حج کرے گا۔” اس قسم کے مواقع پر ہم نے حضرت والد صاحبؒ کے تقدیر پر راضی رہنے کے جس وصف کا ہمیشہ مشاہدہ کیا ، وہ کم دیکھنے میں آتا ہے ۔
ہماری وہ بہن جو اپنے شوہر کی وفات کے بعداپنی تین بیٹیوں کے ساتھ پاکستان آئی تھیں ، ان کی آمد کے بعد جیکب لائن کا مکان تنگ پڑگیا، اور حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے برنس روڈ کے قریب کیمبل اسٹریٹ پر ایک بلڈنگ میں جو اقبال منزل کے نام سے مشہور تھی، ایک وسیع فلیٹ کرایہ پر لے لیا، اور ہم وہاں منتقل ہوگئے، اور پانچ سال ( یعنی 1951؁ ء سے 1956؁ ء تک)وہاں مقیم رہے ۔یہ پانچ سال کئی حیثیتوں سے بڑے مبارک ثابت ہوئے ،اور اسی دوران کراچی میں ہمارا قیام مستحکم ہوا۔
بچپن میں پہلا سفرحج
یہاں منتقل ہونے کے بعد ایک نعمت تو یہ حاصل ہوئی کہ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے حج کاارادہ فرمایا ۔اس سے پہلے سال جیکب لائن کے قیام کے دوران بھی انہوں نے حج کی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں، لیکن پیچھے لکھ چکا ہوں کہ حج کے پاسپورٹ اور ٹکٹ وغیرہ کی چوری کی وجہ سے حضرت والد صاحب،رحمۃ اﷲعلیہ، حج کو نہ جاسکے تھے۔ اس سال انہوں نے دوبارہ ارادہ فرمایا ۔اُس وقت میری والدہ صاحبہ، رحمۃ اﷲعلیہا ،اور ہمارے بھائی جان (جناب مولانا محمد زکی کیفی صاحب مرحوم)بھی سفر میں ساتھ ہوگئے۔میری عمر اُس وقت آٹھ سال تھی ،اور والدہ صاحبہ کا کوئی سفر میرے بغیر ممکن نہیں تھا، اس لئے مجھے بھی اُس چھوٹی سی عمر میں سفر حج کی سعادت نصیب ہوگئی ۔چنانچہ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۱ ؁ ء کوہم اس مبارک سفر پر روانہ ہوئے۔
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی صاحب تھانوی، رحمۃ اﷲعلیہ، کے ایک مجاز صحبت الحاج ظفراحمد صاحب تھانوی، رحمۃ اﷲعلیہ، اُس وقت پان اسلامک اسٹیم شپ کمپنی میں انجینئر تھے ۔ اسی کمپنی کاایک پانی کا جہاز سفینۂ عرب کہلاتا تھا جو حج کے موسم میں حاجیوں کو لے جایا کرتا تھا ۔اسی جہاز کے اوپر والے عرشے پر اُنہوں نے ایک وسیع کیبن بک کرایا تھا جس کے ایک حصے میں وہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے ایک صاحبزادے مشرف علی صاحب اور ایک صاحب زادی کے ساتھ مقیم تھے ، اور دوسرے حصے میں حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے ساتھ ہم رہتے تھے۔اُس عمر میں سفر حج کے تقدس کا کچھ کچھ احساس تو مجھے بھی ہوچلاتھا ، لیکن اُس کے ساتھ پانی کے جہاز میں سفر کی دلچسپی بھی شامل ہوگئی تھی۔ الحاج ظفراحمد صاحبؒ کے صاحب زادے اور صاحب زادی بھی میرے تقریباً ہم عمر تھے، اور جلد ہی اُن کے ساتھ ایسی بے تکلفی ہوگئی کہ جہاز ہمارے لئے بھاگ دوڑ کاایک میدان بن گیا ۔اس بھاگ دوڑ سے جووقت بچتا ،میں اس میں حج کی کتاب سے طواف کی دعائیں یاد کرتا تھا ۔تقریباً ایک ہفتہ سمندر میں بڑا دلچسپ اور پُر کیف گذرا، یہاں تک کہ ایک موقع پر میں نے حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ ،وغیرہ کو کپتان سے یہ تحقیق کرتے ہوئے دیکھا کہ جہازیلملم کے سامنے سے کب گذرے گا ؟ (اُس وقت تک تحقیق یہی تھی کہ پانی کاجہاز جب یلملم کے سامنے سے گذرے ، تو اُسی وقت احرام باندھنا ضروری ہے بعدمیں یہ تحقیق بدل گئی جسکی تفصیل جواہر الفقہ میں ہے) چنانچہ جب معلوم ہوا کہ جہاز یلملم کے سامنے سے گذرنے والا ہے ، تو سب نے احرام باندھ لئے اور مجھ سے بھی احرام بندھوایا گیا۔اُس وقت پورا جہاز لبیک کی صداؤں سے گونج رہا تھا ۔اگلے ہی دن ہم جدّہ پہنچ گئے ۔
اُس وقت جدّہ ایک چھوٹا سا شہر تھا۔یہاں حاجیوں کے مختصر قیام کیلئے ایک حجاج منزل قائم تھی ، اُسی کے ایک لکڑی سے بنے ہوئے کمرے میں ہمارا قیام ہوا۔کمرے سے زمین کی طرف باہرقدم نکالتے، تو زمین میں اس قدر نمی تھی کہ جوتوں سمیت ہم اُس میں دھنس جایا کرتے تھے ، اور چلنا بہت مشکل معلوم ہوتا تھا ۔کھانے کی ایک دوکان تھی جس کی روٹیوں میں سرخ سرخ کیڑے (جنہیں سُرسری کہا جاتا ہے)صاف نظر آتے تھے ، اور اُن کو صاف کرکے منہ میں رکھ بھی لیں، تو اُس کی بُو سے سابقہ پیش آتا تھا ۔ چنانچہ کھانے کے بجائے کسی اور چیزسے بھوک مٹانی پڑ تی تھی ۔سارے جدہ شہر میں پکی سڑکیں گنی چُنی تھیں باقی کچی۔ جب مکہ مکرمہ جانے کا وقت آیا ، تو معلوم ہوا کہ بس میں سوار ہونے کے لئے دور کسی اڈے پر جانا ہوگا ۔وہاں پہنچے، تو کئی گھنٹے بعد بس آئی، اور مکہ مکرمہ روانہ ہوئی ۔راستہ کچا پکا سا تھا ، اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ ہمیں مکہ مکرمہ پہنچنے میں چار سے پانچ گھنٹے لگے تھے ۔آخر کار وہ منزل آگئی جس کا ایک ہفتے سے انتظار تھا ۔
وہ منظر بڑا ہی ایمان افروز تھا جب ہم عشاء کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ وہاں ایک دروازہ سا تھا جہاں گاڑی رُکی، تو بہت سے لوگ صراحیوں میں آب زمزم لئے کھڑے تھے ، اور داخل ہونے والوں کا استقبال سفیدخوشبودارکٹوریوں میں زمزم پلاکر کر رہے تھے۔ مکہ مکرمہ کی برکات شروع ہوچکی تھیں۔معلم کے پاس سامان وغیرہ اتار اگیا۔حج کا وقت بہت قریب تھا ، اورہم سب نے” قِران” کا احرام باندھا ہوا تھا۔ چنانچہ اُسی رات حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، ہم سب کو لے کر حرم شریف روانہ ہوئے، حرم شریف میں داخل ہوتے ہی نیلے رنگ کے غلاف میں لپٹے ہوئے بیت اﷲشریف کا وہ منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے ۔اپنی کمسنی کے باوجود میں جلال وجمال کے اس پیکر مجسم کو دیکھ کردم بخود ہوگیا تھا، لیکن مجھے یہ محسوس ہورہا تھا جیسے یہ منظر میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں۔میرے بڑوں پر گریہ طاری تھا ،اوراسی عالم میں طواف شروع ہوگیا۔راستے میں آتے ہوئے میں حج کی کتاب میں طواف کا طریقہ پڑھتا آیا تھا،تصور نے حجر اسوداوررکن یمانی کی نہ جانے کتنی تصویریں بنائی ہوئی تھیں، اورطواف کی جو دعائیں کتاب میں لکھی تھیں، وہ بھی کچھ نہ کچھ یاد کررکھی تھیں، لیکن یہاں پہنچ کر سب کچھ بھول چکا تھا، چنانچہ بے سمجھے بوجھے حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے پیچھے پیچھے چل کر طواف پورا کیا۔
اب صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنی تھی۔اُس وقت مسعیٰ یعنی سعی کی جگہ اس طرح الگ نہیں تھی جیسی آج ہے ، بلکہ صفا اور مروہ کے درمیان ایک عام سی سڑک تھی جس کے دونوں طرف دوکانیں بھی تھیں ، اوراس سڑک پر ہاکروں کے ٹھیلے بھی کھڑے ہوتے تھے، اور گاڑیاں بھی چلتی تھیں ۔ انہی دوکانوں اور گاڑیوں کے درمیان سعی بھی کرنی ہوتی تھی۔ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے شروع میں تو ہم بچوں کو اپنے ساتھ رکھا ، لیکن جب دیکھا کہ ہنگامے میں بچوں کے کچل جانے یا گم ہوجانے کااندیشہ ہے ، تو اُنہوں نے ایک ہاتھ گاڑی کرائے پر لیکر ہم تینوں بچوں کو اُس پر بٹھا دیا ،اور گاڑی والے کو تاکید کی کہ وہ ساتھ رہے ، ساتھ ہی اُس سے ایک جگہ متعین کرلی جہاں الگ ہوجانے کی صورت میں وہ سعی کے بعد اُن سے مل جائے۔ لیکن گاڑی میں بیٹھنے کے کچھ ہی دیر بعدکسی ریلے میں حضرت والد صاحبؒ ، والدہ صاحبہ ؒاور بھائی جان، رحمۃ اﷲعلیہم، ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ،اورجب اپنے آپ کو ہم نے ایک ایسے اجنبی کے حوالے دیکھا جو نہ ہماری بات سمجھتا تھا، اور نہ ہم اُس کی، تو ہمارا صبروضبط جواب دے گیا، اور ہم تینوں نے تقریباً روناشروع کردیا، پھر یاد نہیں کہ کس طرح سعی پوری ہوئی، اورکس طرح ہم حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، سے ملے ۔
حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے ایک دوست حاجی داود مائت صاحب مرحوم مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھے ، اور انہوں نے حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، سے فرمایاکہ قیام کسی معلم کے بجائے اُن کے گھر پر ہو۔ اُس وقت کے حرم شریف کا نقشہ دیکھنے والے اب خال خال ہی رہ گئے ہوںگے۔حرم شریف اُس وقت صرف (قدیم)ترکی عمارت کی حد تک محدود تھا ، اور اُس کے چاروں طرف حرم شریف سے بالکل متصل تین تین منزلہ فلیٹ بنے ہوئے تھے۔آجکل جہاں با ب الفتح کی اندرونی سیڑھیاں واقع ہیں ، اُن کے قریب حرم کا ایک چھوٹا سا دروازہ باب الرباط کہلاتا تھا ۔اسی باب الرباط سے سیڑھیاں اُن رہائشی فلیٹوں پر چڑھتی تھیں، اور تیسری منزل پر حاجی داود مائت صاحب مرحوم کا گھرتھا۔اسی گھرکے ایک ایسے کمرے میں قیام ہوا کہ اس کی کھڑکی حرم شریف میں کھلتی تھی، اور وہاں سے بیت اﷲشریف ، میزاب رحمت اور حطیم کا منظر ہر وقت سامنے تھا۔
منیٰ میں اُس وقت تھوڑی سی آبادی بھی تھی ، اورحاجی داود مائت صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے منیٰ میں ایک مکان کرائے پر لیا تھا جس میں ہم سب کا قیام ہوا ۔ اور اگلے دن عرفات کیلئے روانگی۔اُس عمر میں مناسک حج کا شعور تو کیا ہوتا؟ اتنا یاد ہے کہ حد نظر تک پھیلے ہوئے خیموں اور تمام انسانوں کا ایک ہی جیسا لباس میرے لئے ایک حیرت انگیز منظر تھا ۔ گرمی کی شدت کے باوجود لوگ انتہائی جوش وخروش کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے جبل رحمت کی طرف رواں دواں تھے ۔اُس روز گرمی انتہائی شدید تھی، اس کے باوجودحضرت والد صاحب ؒ شروع میں جبل الرحمۃ تک پہنچنے کی کوشش میں خیمے سے روانہ ہوگئے، لیکن پھر لوگوں نے بتایا کہ اگر وہاں تک پہنچ بھی گئے ، توواپسی میں خیمے اکھڑنے کی وجہ سے اپنے خیمے تک پہنچنا ناممکن ہوجائے گا ، چنانچہ واپس خیمے میں آکر والدہ صاحبہ اور بھائی جان کے ساتھ نہایت خضوع وخشوع کے ساتھ وقوف میں مشغول رہے۔
غروب آفتاب کے بعد وہاں سے روانہ ہوکرمزدلفہ پہنچے ۔مزدلفہ اُس وقت ایک ریتیلا صحرا تھا جہاں چاند کی چاندنی کے سوا کوئی روشنی نہیں تھی، اور کھلے آسمان کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ریت د ن بھر کی شدید گرمی کے بعد ایک عظیم نعمت تھی ۔ سب تھکے ہوئے تھے ، لیکن سونے سے پہلے سامان کی حفاظت اس لئے ضروری تھی کہ اُن دنوں وہاں چوری، ڈاکوں کی کافی کثرت ہوا کرتی تھی ۔یہ سعودی حکومت کے بانی سلطان عبدالعزیز، رحمہ اللہ تعالی، کی حکومت کا دور تھا، اور ابھی امن وامان کی صورت حال پوری طرح قابو میں نہیں آئی تھی۔ چنانچہ سب بڑوں نے یہ طے کیا کہ سامان کو بیچ میں رکھ کر اُس کے چاروں طرف بستر لگا لئے جائیں ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ حفاظت کا یہ سامان کرنے کے بعد سب لوگ لیٹتے ہی سوگئے ۔ صبح جب آنکھ کھلی ، تو دیکھا کہ سامان میں سے ایک بکس غائب ہے جس میں ہم گھر والوں کا سارا سامان تھا۔اس میں احرام کھولنے کے بعد پہننے کے کپڑے بھی تھے اور کچھ نقدی بھی ، اور پاسپورٹ وغیرہ بھی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حفاظت کی غرض سے چونکہ اس بکس کو درمیان میں رکھ کر سب سوئے ہوئے تھے ، اس لئے چور سمجھ گیا کہ اصل مال اسی میں ہے جس کی اتنی حفاظت کی جارہی ہے ۔اور اس طرح یہ غیر معمولی حفاظت ہی چوری کا سبب بن گئی۔متنبی نے ایسے ہی مواقع کے لئے کہا ہے کہ :
الأمر للہ رُبّ مجتہد
ما خاب إلاّ لأنّہ جاہد
ومتّقٍ والسّہام مرسلۃٌ
یحید من حابض إلی صارد
یعنی :معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، بہت سے کوشش کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی کوشش ہی کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔ اگر تیر کسی شخص کے سامنے سے آرہے ہوں ، تو وہ ان سے بچنے کے لئے ان کے سامنے سے ہٹ کر نشانے سے الگ جاکر کھڑا ہوتا ہے ، لیکن تیر بھٹک کر اسی کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔
نتیجہ یہ کہ ہمارے گھرانے کے تمام افراد اس حالت میں رہ گئے کہ احرام کی چادروں کے سوا اُن کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ چنانچہ جب اُس روز منیٰ واپس پہنچے ،اور قربانی کے بعد احرام کھولنے کا وقت آیا، تو حضرت والد صاحبؒ بھائی جان مرحوم اور میرے پاس پہننے کے لئے کوئی سلا ہوا کپڑا نہیں تھا ۔ آخرحاجی داود مائت صاحب ؒ اور ان کے صاحب زادوں نے اپنے کپڑے پہننے کے لئے دئیے، اور تین دن تک ہم اُنہی کپڑوں میں رہے ۔ اب یاد نہیں کہ پاسپورٹ گم ہونے کے بعد حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے کیاانتظام فرمایاتھا ۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

</section