یادیں (دوسری قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(دوسری قسط )

میری والدہ ماجدہ ، (محترمہ نفیسہ خاتون صاحبہ)اﷲتعالیٰ اُن پر ہمیشہ اپنی رحمت کی بارشیں برسائے، ایک مثالی ماں اور ایک مثالی گھریلو خاتون تھیں ۔ وہ دیوبند کے ایک مشہور انصاری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ، اور انہوں نے جس طرح ہرقسم کے سرد و گرم حالات میں حضرت والد صاحبؒ کی رفاقت کا حق ادا کیا ،وہ ایک مستقل موضوع ہے، اس کے بارے میں میں ان کی وفات پر لکھ بھی چکا ہوں ، جو میری کتاب "نقوش رفتگاں” میں شامل ہے ۔وہ بھی بڑی عابدہ وزاہد ہ خاتون تھیں ،ان کے تلاوت ، ذکر اور نوافل کے معمولات اس وقت تک قضا نہیں ہوئے جب تک وہ اپنے ہوش وحواس میں رہیں ۔
لیکن ہمارے لئے تو وہ ایک سراپامحبت و شفقت وجود تھا جس کے رات دن کے تقریباً تمام اوقات ہماری راحت رسانی کے لئے وقف تھے،اور اس کی خاطر وہ خود اپنی راحت وآرام کو ہمیشہ قربان کئے رہتی تھیں۔ یوں تو اپنی ساری اولاد ہی سے ان کی محبت برابر تھی، لیکن سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے مجھے اُن کا لاڈ پیار شاید سب سے زیادہ ملا، جس کاایک نتیجہ یہ تھا کہ میں کافی بڑا ہونے تک کھانا اُنہی کے ہاتھ سے کھایا کرتا تھا ، اور جب تک وہ لقمے بنا بناکرمیرے منہ تک نہ پہنچاتیں، میں کھانا نہیں کھاتا تھا۔ اس کے علاوہ والدہ صاحبہؒ کو کسی قریب کے گھر میں بھی جانا ہوتا ، تو ممکن نہیں تھا کہ میں اُن کے ساتھ نہ ہوں۔
اُس زمانے میں دیوبند جیسے قصبے میں خودکار سواریوں، مثلاً موٹر کاروں کا کوئی تصور نہیں تھا ۔جو لوگ دیوبند سے کبھی باہر نہ گئے ہوں ، انہوں نے کبھی موٹر کار شاید دیکھی بھی نہ ہو۔ لے دے کرتانگا (گھوڑا گاڑی) ہی ایک سواری ایسی تھی جس میں بیٹھ کر قصبے کے اندرونی فاصلے طے کئے جاسکتے تھے، اوروہ بھی صرف مردوں کیلئے مخصوص سواری تھی ۔ مسلمان خواتین کیلئے برقع پہن کر بھی تانگے میں بیٹھ کر کہیں جانا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔اگرکوئی بہت دور کا فاصلہ ہوتا، اور تانگے کے بغیر سفر کرنا مشکل ہوتا ، تو تانگے کے چاروں طرف پردہ باندھ کربرقع پوش خواتین اُس پردے کے اندر بیٹھتی تھیں، ورنہ ایک محلے سے دوسرے محلے جانے کے لئے پالکی استعمال ہوتی تھی، جسے دیوبند کی زبان میں ـ” ڈولی "کہا جاتا تھا ۔ اس ڈولی کو دوانسان اپنے کندھوں پر اٹھا تے تھے جنہیں ” کہُار” کہتے تھے ۔ جب کسی خاتون کو ڈولی میں سفر کرنا ہوتا، تو کہُار اُس کو گھر کے اندر رکھ کر باہر چلے جاتے ۔خاتون اُس میں بیٹھ جاتیں، اور کبھی کبھی اپنے ساتھ ایک پتھر رکھ کر بیٹھتی تھیں، تاکہ جب کہُار ڈولی کو اٹھائے،تو اُسے خاتون کے جسم کا صحیح وزن بھی معلوم نہ ہوسکے۔ بعض اوقات چھوٹے بچوں کو شوق ہوتا تھا کہ وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ اس سواری کا مزہ لیں۔ ایسی صورت میں پتھر رکھنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی تھی ۔چنانچہ جب میری والدہ صاحبہ میری ننھیال کے کسی گھر میں تشریف لے جاتیں ، تو مجھے بھی ساتھ بٹھالیتیں ، اور مجھے ڈولی کے چاروں طرف پڑے ہوئے پردوں کی وجہ سے یہ تو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ہم کہاں سے گزررہے ہیں، لیکن ہم جھٹکے لیتی ہوئی اُس ڈولی کے ہچکولوں ہی سے مزہ لیتے رہتے تھے، جنہیں ہم دیوبند کی زبان میں یہ کہتے تھے کہ بڑی اچھی” باریاں” آرہی ہیں ، (یعنی سواری کے مزے آرہے ہیں)۔
حضرت والد ماجد رحمۃ اﷲعلیہ کی اولاد میں ہم نو بہن بھائی تھے۔سب سے بڑی بہن محترمہ نعیمہ صاحبہ (مرحومہ)تھیں،جنہیں ہم "آپا جان "کہتے تھے۔ ان کی شادی میری پیدائش سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ ان کی دو صاحبزادیاں اورایک صاحبزادے بھی میری پیدائش سے پہلے پیدا ہوچکے تھے ۔اگرچہ وہ بہت خوش مزاج خاتون تھیں، اور میرے تمام بہن بھائی اُن سے بہت بے تکلف تھے ،لیکن بچپن ہی میں مجھ پر اُن کا ایسا رعب قائم ہوگیا تھاجو والدہ ماجدہ کے رعب سے بھی زیادہ تھا ۔اور اُس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اُن کا مکان ہمارے مکان سے کچھ فاصلے پر اُس محلے میں تھا جسے” ٹیلہ” کہا جاتا ہے، وہ ایک چھوٹاسا ٹیلہ تھا، مگر ہمیں وہ پہاڑ سے کم معلوم نہیں ہوتا تھا ۔ ہماری یہ بہن اس ٹیلے پر اپنے شوہر حکیم سید شریف حسین صاحب مرحوم کے ساتھ رہتی تھیں ،جو اپنی طبیعت کی نفاست اور نزاکت میں اودھ کے نواب معلوم ہوتے تھے ،اور اُن کے گھر میں صفائی ستھرائی کا اہتمام حد سے زیادہ تھا ۔ اُنہیں اپنے بستر پر معمولی شکن بھی گوارانہ تھی۔
میں اپنے کسی بڑے کے ساتھ اُن کے گھر جاتا، تو اپنے ہم عمر بھانجے بھانجیوں کے ساتھ کھیل میں لگ جاتا۔ایک مرتبہ اسی طرح کھیلتے کھیلتے میںاپنے میلے کچیلے پاؤں سمیت اپنی بہن کے بسترپرچڑھ گیا ،تو اُنہوں نے مجھے گُھورکر دیکھا اور فرمایا: ” بس قدم رنجہ نہ فرماؤ "۔ ” قدم رنجہ”کا لفظ پہلی باراُسی وقت سُنا تھا ، لیکن اس لفظ کے معنی اور اُس میں چُھپے ہوئے طنز سے زیادہ وہ گُھورتی ہوئی نظریں ایک دائمی رعب بن کر دل پر چھا گئیں، جوسالہا سال بعد جاکرکسی قدر بے تکلفی میں تبدیل ہوسکا۔ مجھے اُس وقت یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس طرح غصّے سے دیکھنے کو” گُھورنا” کہتے ہیں۔جب آپاجان نے میرے دوسرے بہن بھائیوں کو یہ واقعہ سنایا تو "گُھورنے” کالفظ میں نے پہلی بار سُنا تھا۔میری یہ سب سے بڑی بہن چونتیس سال کی عمر ہی میں انتقال فرماگئی تھیں جبکہ میں تیرہ سال کا تھا ۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس کی نعمتوں اورراحتوں سے نوازیں ، انہوں نے مشکل معاشی حالات میں جس خودداری اور وقار کے ساتھ زندگی گزاری ، اسکی مثال ملنی مشکل ہے ۔اس موقع پر ان کا ایک واقعہ قلم کی زبان پر آنے کے لئے بے چین ہورہا ہے ۔
جیسا میں نے عرض کیا ، وہ شادی کے بعد اکثر مشکل معاشی حالات سے دوچاررہیں۔ اسی قسم کے حالات میں انہوں نے ایک مرتبہ حضرت والد صاحبؒ سے عرض کیا کہ میرے لئے دعا فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے حج کی سعادت عطا فرمادیں ۔ حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا: "کیا تمہیں حج کا شوق ہے؟ ” انہوں نے اثبات میں جواب دیا ، تو حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا”نہیں ، تمہیں شوق نہیں ہے ” انہوں نے حیرانی سے عرض کیا : ” میں سچ کہتی ہوں کہ مجھے حج کا بڑا شوق ہے "اس پر حضرت والدصاحبؒ نے فرمایا: "کیا تم نے اس کام کے لئے کچھ پیسے جمع کئے ہیں ؟”انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا ، تو حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا : "اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا شوق زبانی ہی زبانی ہے ، حقیقت میں شوق ہوتا ، تو اس کے لئے کچھ جمع کرتیں” انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ "کچھ بچتا ہو، تو جمع کروں ” حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا کہ کیا تم ایک آنہ بھی اس کام کے لئے بچا نہیں سکتیں ؟ انہوں نے کہا کہ "اتنا تو بچا سکتی ہوں ، لیکن حج کا خرچ اس سے کیسے پورا ہوگا ؟” حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا کہ بندہ اپنی استطاعت کے مطابق جب کسی نیک کام کے لئے قدم اٹھا لیتا ہے ، تو اول تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے ، اور اگر وہ نیک کام پورا نہ بھی ہوسکے ، تو اُس کا ثواب ان شاء اللہ مل کر رہتا ہے۔ لیکن کوئی قدم اٹھائے بغیر صرف آرزو سے کام نہیں بنتا ۔
بات آئی گئی ہوگئی ۔ اس کے کافی عرصے کے بعد ۱۹۵۶؁ ء میں جب ان کا انتقال ہوا ، اور ان کے ورثاء نے ان کے سامان کا جائزہ لیا ، تو اُس میں ایک کپڑے کا چھوٹا سا تھیلا ملا جس پر لکھا ہوا تھا "حج کے لئے پیسے ” اسے کھول کر دیکھا گیا، تو اس میں غالباً پینسٹھ( ۶۵) روپے نکلے ۔ حضرت والد صاحبؒ نے وہ تھیلا دیکھا ، تو ان کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے ، اور اُس وقت انہوں نے سارا واقعہ سُنایا ۔ اس کے بعد حضرت والد صاحبؒ نے ان پیسوں کو ان کے حج بدل کی ادائیگی میں خرچ کیا ، اور اس طرح ان کاحج بدل ادا کروایا ۔
پھر ایک مرتبہ حضرت والد صاحبؒ حج کے دوران میدان عرفات میں تھے ، چند لمحوں کے لئے اُن پر غنودگی طاری ہوئی ، تو انہوں نے عالم رؤیامیں دیکھا کہ آپا جان عرفات کے پہاڑ جبل الرحمہ پر چڑھ رہی ہیں ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بندی کا حج ادا فرمادیا ۔ رحمہا اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃ ۔
ان سے چھوٹی بہن محترمہ عتیقہ خاتون صاحبہ مدظلہا ہیں جو ماشاء اﷲبہت عبادت گذار اور منظم زندگی رکھنے والی خاتون ہیں۔انہیں حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲعلیہ سے بیعت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اور آج (۲۳؍فروری ۲۰۱۷؁ ء مطابق ۲۵؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷؁ھ کو) میرے علم کی حد تک اب دنیا میں ان کے سوا کوئی اور ایسا شخص موجود نہیں ہے جسے براہ راست حکیم الامۃ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کا شرف حاصل ہو۔
حضرت والدصاحب قدس سرہ کا معمول تھا کہ وہ ہمیشہ رمضان المبارک اہل وعیال کے ساتھ تھانہ بھون میں حضرت حکیم الامۃؒ کی صحبت میں گذارتے تھے ۔ اس غرض کے لئے بکثرت خود حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مکان کے بالائی کمرے میں ٹھہر نا ہوتا تھا ۔یہ بالائی کمرہ اس طرح تھا کہ حضرتؒ کے رہائشی کمرے کے سامنے صحن تھا ، اور صحن کے آخری سرے پر سیڑھیاں اس بالائی کمرے تک پہنچاتی تھیں۔ بیت الخلاء چونکہ ایک ہی تھا ، اس لئے حضرتؒ نے یہ انتظام فرمایا ہوا تھا کہ صحن میں ایک خاص جگہ پر ایک لالٹین رکھوا دیتے تھے ۔ اس لالٹین کا وہاں رکھا ہوا ہونا اس بات کی علامت تھی کہ نیچے کا بیت الخلاء اوپر کے کمرے والوں کے لئے خالی ہے ، اور پردے کا انتظام بھی موجود ہے ۔ اگر لالٹین وہاں نہ ہوتی ، تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ بیت الخلاء مشغول ہے ۔
میری یہی بہن بتاتی ہیں کہ اوپر کی منزل میں رہتے ہوئے حضرت والد صاحب ؒ انتہائی ادب کی حالت میں رہتے تھے ، اور ہم بچوں کو تلقین فرماتے رہتے تھے کہ ذرا بھی شور نہ ہو ، کہیں ہم حضرتؒ کی تکلیف کا باعث نہ بن جائیں ۔میں اس وقت چھوٹی بچی تھی ، اور ابھی پردے کے قابل نہیں تھی ۔اسی دوران ایک دن حضرت والدصاحب ؒ نے مجھ سے فرمایا کہ حضرتؒ سے جاکر کہنا کہ آپ مجھے بیعت کرلیں۔ شروع میں میں نے اسے ایک مذاق سمجھاکہ ایک بچی کو کیسے بیعت کیا جاسکتا ہے ؟ چنانچہ جب والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ فرمایا ، تو میں نے پوچھا: "کیا بچے بھی بیعت ہوتے ہیں؟ ” والد صاحب ؒ نے فرمایا: "جی ہاں ، بیعت ہوسکتے ہیں ۔”اس کے بعد میں نے پیرانی صاحبہ سے عرض کیا کہ مجھے حضرت ؒ سے بیعت ہونا ہے ۔ چنانچہ پیرانی صاحبہ نے حضرتؒ سے فرمایا کہ یہ بچی بیعت ہونا چاہتی ہے۔ حضرتؒ نے مجھے بلاکر فرمایا: ” بیعت کو گڈے گڑیا کا کھیل تونہیں سمجھوگی؟ ” جب میں نے نفی میں جواب دیا ، تو حضرتؒ نے ایک کپڑے کا سرا میرے ہاتھ میں دیکر دوسرا سرا اپنے دست مبارک میں رکھا ، اور مجھے بیعت کرلیا۔اس طرح انہیں بچپن ہی میں یہ شرف حاصل ہوگیا(۱)۔
میری اِن ہمشیرہ کی شادی بھی میری پیدائش سے پہلے ہوچکی تھی، بلکہ ان کی ایک صاحبزادی مجھ سے پہلے پیدا ہوچکی تھیں اور ایک صاحبزادی میرے تقریباً ساتھ ساتھ پیدا ہوئی تھیں۔وہ اپنے شوہراور بچیوں کے ساتھ ہمارے گھر سے مغربی سمت میں سامنے ہی ایک الگ گھر میں رہتی تھیں۔ محترمہ نعیمہ خاتون صاحبہ مرحومہ کی دوصاحبزادیوں اورایک صاحبزادے اور محترمہ عتیقہ خاتون صاحبہ مد ظلہا کی ایک صاحبزادی کا میں کہنے کو ماموں تھا ، لیکن میرے یہ بھانجے بھانجیاں عمر میں مجھ سے بڑے تھے، اورپھوپی امۃ الحنان صاحبہ کے مکتب میں (جس کاذکر ان شاء اللہ تعالی آگے آنے والا ہے) یہ چاروں مجھ سے آگے تھے۔ لیکن چونکہ عمر کا فرق زیادہ نہیں تھا ، اس لئے یہ میرے بھانجے کم اور دوست زیادہ تھے ، اور میری دوستی انہی کی حد تک محدود تھی۔ان میں بھی بھانجے ایک ہی تھے ، جو بعد میں مولانا حکیم مشرف حسین صاحب (رحمۃ اﷲ علیہ)کہلائے۔چنانچہ زیادہ تر دوستی انہی سے تھی- وہ ہر کھیل میں طاق تھے، اور میں اُن کا تابع مہمل۔
بہر کیف! ان دونوں بہنوں کے ساتھ عمر میں اتنے زیادہ تفاوت کی وجہ سے کہ ان کی اولاد بھی مجھ سے بڑی تھی، ان کے ساتھ بہنوں جیسی بے تکلفی کے بجائے ایک مربی جیسے رعب کا تعلق تھا۔
ان دو بہنوں کے بعد تیسرا نمبر ہمارے سب سے بڑے بھائی جناب محمد زکی کیفی صاحب (رحمۃ اﷲ علیہ)کا تھا جنہیں ہم” بھائی جان”کہتے تھے ۔انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں درس نظامی کی تعلیم متوسط کتابوں تک حاصل کی تھی، لیکن پھر کچھ حالات ایسے ہوئے کہ وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے ، اور انہوں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے قائم کئے ہوئے کتب خانے دارالاشاعت کو سنبھا لاہوا تھا لیکن ان کا مطالعہ، خاص طورپر تاریخ وسیرت ،تصوف اور اکابر علماء دیوبند کے حالات وسوانح اور ان کے ملفوظات و افادات کے معاملے میں، اتنا وسیع تھا کہ اچھے اچھے علماء بھی اس میں ان کی ہمسری نہیں کرسکتے تھے۔اس کے علاوہ وہ حکیم الامۃ حضرت مولانااشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ سے بیعت تھے۔ اور تمام بزرگوں کے منظور ِنظر۔حضرت مفتی محمد حسن صاحبؒ ، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی ؒ ، حضرت مولانا داود غزنوی ؒ ، حضرت مولانا رسول خان صاحب ؒ سب ان سے محبت فرماتے تھے،اور جب کبھی انارکلی میں ان کی کتابوں کی دوکان کے قریب سے گزرتے ، تو وہاں تشریف لاکر کچھ دیر بیٹھتے ، اور اپنے فیوض سے انہیں سرفراز فرماتے تھے ۔ بھائی جان کو قرآن کریم کی تلاوت کا خاص ذوق تھا، اور رمضان المبارک میں دس سے پندرہ تک قرآن کریم ختم کرلیتے تھے ۔بہترین شاعرتھے اور ان کا کلام "کیفیات "کے نام سے قبول عام حاصل کر چکا ہے جس پر میں نے پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ان کی شادی حضرت شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگرد اور دیوبندکی عیدگاہ کے خاندانی خطیب حضرت مولانا محمد مبین خطیب رحمۃ اﷲعلیہ کی صاحبزادی سے ۱۹۴۶؁ ء میں اُس وقت ہوئی جب میری عمر تین سال تھی، اور مجھے ان کی شادی کے علاوہ یہ بھی یادہے کہ ان کی شادی سے پہلے میرے والد ماجد رحمۃ اﷲعلیہ نے ہمارے مکان کے شمالی حصے میں ان کے لئے دو کمروں کا اضافہ کروایا تھا۔ وہ اُس وقت حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے تجارتی کتب خانے دارالاشاعت کے ناظم بن چکے تھے۔ وہ بھی عمر میں مجھ سے کم ازکم چودہ سال بڑے تھے، اس لئے بڑی دو بہنوں کے بعد دل پر اُن کا بھی اچھا خاصا رعب رہتا تھا ۔
اُنہیں خوشنویسی کا بھی بڑا شوق تھا اور وہ کبھی کبھی کسی بڑے کاغذ یا گتّے پربڑے خوبصورت انداز میں کوئی شعر یا کوئی حکیمانہ مقولہ لکھ کر اپنا یہ شوق پورا کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے اسی مشغلے میں مصروف تھے کہ بیچ میں کسی کام سے اُٹھ کر چلے گئے، اور میں نے بھی وہاں پہنچ کر ان کی نقل اُتارنے کی کوشش میں روشنائی کی دوات کو اس بری طرح ہاتھ لگایا کہ وہ الٹی ہوگئی اور ساری ر وشنائی بہ کر نیچے پھیل گئی۔بھائی جان کا رعب تو دل میں بیٹھا ہوا تھا لیکن یہ یک طرفہ قسم کا رعب تھاان کی طرف سے مجھے مارنے کی نوبت کبھی نہیں آئی تھی۔ اس حرکت کے نتیجے میں مجھے یہ تو یقین ہوگیا کہ جس چیز کا رعب دل پر طاری رہا ہے ،آج اُس کا عملی مظاہرہ ضرور ہوکر رہے گا ،لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ مظاہرہ کتنی شدت کا ہوسکتا ہے، تاکہ ذہن کو اُس کے لئے تیار رکھوں ۔ چنانچہ روشنائی وغیرہ کو وہیں چھوڑکر میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے پاس روانہ ہوگیا ، اور اُن میں سے ہر ایک سے پوچھتا پھرا کہ : ” بھائی جان کا ہاتھ کیسا پڑتا ہے؟” (یعنی جب وہ تھپڑ مارتے ہیں تو وہ کتنی زور کا ہوتا ہے؟) میرے بہن بھائی جنہیں میری اس حرکت کا علم نہیں تھا ، حیران تھے کہ مجھے بھائی جان کے تھپڑ کی تحقیق کی ضرورت کیوں پیش آگئی ہے ؟ پھر جب میں نے اُنہیں واقعہ بتایا، تو سب خوب ہنسے، یہاں تک کہ بھائی جان کو بھی جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے بھی میری اس تحقیق کاعملی جواب دینے کے بجائے اُس کا لطف لیا، اور پھر میرا یہ جملہ ایک لطیفہ بن گیا جسے میری ذہانتوں کی فہرست میں ایک اضافے کے طورپر مجلسوں میں بیان کیا جاتا تھا۔
بعد میں تو بھائی جان نے اپنے آپ سے اتنا بے تکلف کرلیا تھا کہ وہ بے تکلفی دوستی کی حد تک پہنچ گئی تھی، اور کبھی کبھی تو ان سے مذاق کی کوئی بات کرنے کے بعد مجھے شرمندگی ہونے لگتی تھی کہ کہیں حدود سے تجاوز نہ ہوگیا ہو۔ اس بے تکلفی کی وجہ سے ان کے ساتھ جو وقت بھی ملتا ، وہ ہمیں ایک نعمت معلوم ہوتا تھا ۔وہ دارالعلوم میں ہماری مصروفیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ، اور قیمتی مشوروں سے سرفراز فرماتے تھے۔ جب سے میں نے لکھنا شروع کیا ، وہ میری ہر تحریر کو اہتمام سے پڑھتے ، اور اس پر تبصرے بھی فرماتے ، اور مشورے بھی دیتے ۔ میں نے اپنی کتاب "حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق "انہی کی فرمائش پر لکھی تھی، جس کا تذکرہ ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گا(۱)۔
جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭