شیخ الکل حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب قدس سرہ

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

گذشتہ مہینے برصغیر ، بلکہ عالم اسلام کے دینی حلقوں کے لئے سب سے بڑا سانحہ شیخ الکل حضر ت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا حادثۂ وفات تھا، جس کی وجہ سے آج ایسا لگتا ہے کہ امت کے ہر اس فرد کا دل صدمہ وحسرت میں ڈوبا ہوا ہے ، جو حضرت ؒ سے کسی قسم کی نسبت رکھتا تھا، حضرت قدس سرہ کا وجود اس وقت خاص طورپر برصغیر کے علماء ، دینی حلقوں اور دینی مدارس کے لئے ایک عظیم شامیانۂ رحمت تھا جس کے تصور ہی سے اس پر فتن دور میں دل کو ڈھارس ہو ا کرتی تھی ۔اس مہینے ہم اس عظیم شامیانے سے محروم ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس دنیا میں کوئی ہمیشہ یہاں رہنے کے لئے نہیں آتا، یہاں ہر شخص کو موت سے سابقہ پیش آتا ہے ، لیکن کچھ حضرات کی وفات ایسی ہوتی ہے کہ اس کا صدمہ اس کے اہل خانہ کی حد تک محدود نہیں ہوتا ، بلکہ وہ ایک پورے جہان کا صدمہ ہوتا ہے ۔

وماکان قیس ھُلکہ ھلک واحد
ولکنہ  بنیا ن  قوم  تھد  ما

ہمارے استاذ گرامی حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ ایسے ہی حضرات میں شامل تھے، چنانچہ میں نے ان کی تدفین کے وقت بڑے بڑے علماء کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کی تعزیت کررہے ہیں، اور بجاطورپر کررہے ہیں وہ اس روئے زمین پر بندہ کے آخری استاذ رہ گئے تھے  ۔ دوسرے تمام اساتذہ ان سے پہلے رخصت ہوچکے تھے ، اور اسی طرح کسی استاذ کے سرپر موجود رہنے کی جو عظیم حلاوت ہواکرتی ہے ، آپ کی وفات پر آج اس حلاوت کا اختتام ہوگیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ؒ سے بڑے بڑے کام لئے ، اور ان کی خدمات کا عظیم ترین مظہر وفاق المدارس العربیۃ کی صورت میں ہر شخص کے سامنے ہے جو وقت کے فتنوں اور طوفانوں میں الحمدللہ ثابت قدم رہ کر اہل علم کے لئے ایک تناور اور سایہ داردرخت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جس کی چھاؤں میں سب مل بیٹھ کر سکون وراحت حاصل کرتے ہیں۔
اس موقع پر حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ، ان کے کارناموں اور خدمات کا تذکرہ کسی مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے ، امید ہے کہ ان شاء اللہ اس موضوع پر مفصل اور تحقیقی کام ایسے حضرات کے قلم سے سامنے آئے گا جو اس کا حق اداکرسکیں، البتہ اس وقت چند متفرق یادیں ذکر کرنے کو دل چاہ رہا ہے ، جو ذیل میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔
میں نے اپنے استاذ گرامی حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کا اسم گرامی سب سے پہلے  ۱۳۷۶ ؁ ھ / ۱۹۵۷ ؁ ء  میں (جبکہ میری عمر چودہ سال تھی)اپنے بہنوئی اور سابق ناظم دار العلوم حضرت مولانا نور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اُس وقت سُنا جب ہمارا دار العلوم نانک واڑے سے شرافی گوٹھ کے قریب نئی عمارت میں منتقل ہونے جارہا تھا۔ اتفاق سے اس سال حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جامع مسجد نیو ٹاؤن میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے نام سے ایک نئے مدرسے کی بنیاد ڈالی، اور ہمارے بعض جلیل القدر اساتذہ کرام مثلاً حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا فضل محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ چونکہ شہر سے باہر دار العلوم کی نئی عمارت میں منتقل ہونے میں مشکلات محسوس فرماتے تھے اس لئے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر وہ نیو ٹاؤن جانے والے تھے اور ان کے جانے کی وجہ سے دار العلوم کے درجہ علیا کے اساتذہ میں بڑا خلا پیدا ہونے والا تھا، حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہکا مزاج اگرچہ ہمیشہ سے یہ تھا کہ کسی استاذ کو کسی مدرسے میں خدمت انجام دینے کے دوران وہاں سے چھوڑ کر اپنے یہاں آنے کی دعوت دینے سے پرہیز فرماتے تھے ، اور یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ایک مدرسے کو اجاڑ کر دوسرے مدرسے کو آباد کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے ۔ لیکن  حضرت مولانا نور احمد صاحب ؒ    کو اس موقع پر اطلاع ملی کہ بعض حضرات اپنی جگہوں کو خود چھوڑنا چاہتے ہیں ، ان کو دعوت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس بنیاد پر انہوں نے جن اساتذہ کرام کو دار العلوم میں تدریس کی دعوت دی اُن میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب ، حضرت مولانا اکبر علی صاحب  اور حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہم بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ حضرت مولانا نور احمد صاحب ؒ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ؒ  تھانہ بھون کے قریب ایک قصبہ جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں، اور ٹنڈو الہ یار کے مدرسے سے مستعفی ہونے کے بعد دار العلوم تشریف لائیں گے۔
شوال  ۱۳۷۶ ؁ ھ میں دار العلوم کی  نئی عمارت میں تعلیم شروع ہونی تھی، اُس وقت دار العلوم لق و دق  صحرا میں واقع تھا جس کے مغرب میں سمندر تک ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں تھا ، جنوب میں جہاں آج کورنگی آباد ہے، وہاں بھی  جنگلوں اور جانوروں کا بسیرا تھا، مشرق میں لانڈھی کی بستی تک کھیت اور باغات تھے، اور صرف شمال مشرق میں چھوٹا سا گاؤں شرافی آباد تھا۔ جن نئے حضرات اساتذہ کرام کو تعلیم کے آغاز میں دعوت دی گئی تھی ان کی رہائش کا انتظام بھی دار العلوم کی زمین میں چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکان تعمیر کر کے کیا گیا تھا، ان حضرات گرامی نے اس ویرانے میں دار العلوم کی خدمات کا آغاز فرمایا۔
اس سال میں اور میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم ہداؔیہ اخیرین، توضیح، میبذؔی، ملاحسنؔ، سراجیؔ اور تصرؔیح کی جماعت میں شامل تھے۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ  سے سب سے پہلے اس تعلیمی سال کے آغاز میں ملاقات ہوئی، حضرت اُس وقت نوجوان تھے، حسین اور شگفتہ چہرا، دلکش انداز گفتگو اور سادہ اور بے تکلف انداز زندگی ، ان تمام باتوں نے بہت جلد حضرت سے اُنس پیدا کردیا، اُس سال ہمارے دو سبق حضرت کے پاس تھے، ایک میبذی اور دوسرے ہدایہ اخیرین ۔
استاذالاساتذہ حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ  اُ س وقت عہد شباب میں تھے،  شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگرد تھے  اور میرے شیخ ثانی حضرت مولانا مسیح اﷲ خان صاحب قدس سرہ کے مدرسے مفتاح العلوم جلال آباد میں طویل عرصے تدریس کی خدمات انجام دیکر مستقل سکونت کی غرض سے پاکستان تشریف لائے تھے۔اگرچہ اُس سال ہدایہ اخیرین اور میبذی ہماری دو کتابیں حضرت کے پاس تھیںلیکن جہاں تک یاد ہے اسباق دن میں اجتماعی طورپر شروع ہوئے اور شام کو اُن کے پاس میبذی کا گھنٹہ تھا  اس لئے اُن سے ہم نے پہلا سبق میبذی کا پڑھا تھا۔ مجھے طبعی طورپر منطق اور فلسفے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی  بس ضرورۃً ہی منطق کی کتابیں پڑھتا آیا تھا  البتہ فلسفے کی یہ پہلی اور آخری کتاب تھی ۔لیکن حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اﷲ تبارک وتعالی اپنے فضل خاص سے نوازیں  ،انہوں نے پہلا سبق ہی اس شان سے پڑھایا کہ کتاب اور استاذ دونوں سے حد درجہ مناسبت پیدا ہوگئی اور اپنے سابق طرزعمل کے برعکس پورے سال میں نے میبذی بڑی محنت اور ذوق وشوق کے ساتھ پڑھی۔اُنکے پاس دوسرا سبق ہدایہ اخیرین کا تھا ۔وہ بھی ماشاء اﷲ خوب ہوا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ہدایہ اخیرین حضرت شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے پڑھی تھی  اس لئے انہیں درس میں اپنے شیخ    ؒ کی اتباع کا بڑا ذوق تھا ۔چنانچہ صبح کے پہلے گھنٹے میں وہ ہمیشہ وقت پر درس کیلئے تشریف لاتے  اوردوگھنٹے مسلسل درس دیتے ہوئے اپنے شگفتہ چہرے اور دلکش انداز گفتگو سے ہمیں اس طرح نہال کردیتے تھے کہ تھکن کااحساس تک نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے اگلے تعلیمی سال میں جسے موقوف علیہ کا سال کہا جاتا ہے، حضرت  کے پاس ہمارا کوئی سبق نہیں تھا، لیکن گذشتہ سال حضرت سے جو خصوصی تعلق قائم ہوگیا تھا اس کی وجہ سے سبق نہ ہونے کے باوجود حضرت سے رابطوں میں کوئی کمی نہیں رہی، حضرت مولانا شمس الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت کے خاص شاگرد تھے، لیکن حضرت کی بے تکلفی نے ان کے ساتھ دوستانہ جیسا تعلق قائم فرمادیا تھا، اور حضرت مولانا شمس الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ہمارا تعلق بھی کچھ اسی قسم کا تھا، اس لئے ان دونوں بزرگوں کی پُر لطف صحبت سے ہم فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔ پھر جب دورۂ حدیث کا سال آیا تو دورے کا اہم ترین سبق جامع ترمذی آپ کے سپرد ہوا، اور حضرت نے ہمیں یہ سبق بہت اہتمام اور تحقیق سے پڑھایا۔ چونکہ جامع ترمذی میں فقہی اور حدیثی مباحث بڑی تفصیل سے حضرت بیان فرماتے تھے، اور طلبہ کی رعایت سے حضرت اپنی درسی تقریر املاء کرایا کرتے تھے ، اور چونکہ املاء کرانے میں کچھ وقفہ مل جاتا تھا ، اس لئے انکی تقریر میں عربی میں ضبط کرتا تھا ، اور حقیقت یہ ہے کہ حضرتؒ کی یہ تقریر اتنی منضبط ہوتی تھی کہ اُس سے مسئلے کے تمام پہلو   بڑے حسن ترتیب کے ساتھ یکجا ہوجاتے تھے ، اور جو باتیں  شروح میں منتشر ملتی ہیں، وہ یہاں نہایت منطقی ترتیب کے ساتھ چھنے چھنائے انداز میں مہیا ہوجاتی تھیں۔ اس تقریر کے مسودات میرے پاس اب بھی محفوظ ہیں ۔اُس وقت اس حسن انضباط کا اتنا اندازہ نہیں ہوا، لیکن جب خود شروح حدیث کو کھنگالنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ حضرت والا نے کس طرح بکھرے ہوئے مباحث کو سمیٹ کر ہمیں لکھوایا ہے کہ انکو سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ حضرت استاذکو املاء کرانے میں وقت لگتا تھا۔ اس لئے درس کی رفتار کم رہتی تھی ۔ یہانتک کہ آخر سال تک کتاب ارکان اربعہ تک ہی ہو پائی تھی ۔دوسری طرف ترمذی جلد ثانی حضرت نے املاء کے بغیر شروع کرارکھی تھی جسکی مقدار نسبۃً زیادہ ہوگئی تھی۔ لیکن جب سال ختم ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ اب بیشتر احادیث ایسی ہیں جو صحیح بخاری یا صحیح مسلم یا ابوداود وغیرہ میں گذرچکی ہیں  اس لئے باقی کتاب روایۃً  پڑھ لینا  بھی  کافی ہوگا۔ اس کیلئے حضرت نے اضافی وقت دیکر کتاب مکمل کرانی شروع فرمائی ۔یہاں تک کہ جب تقریباً سو صفحات باقی رہگئے ہونگے،  تو حضرت نے ایک پوری رات سبق پڑھایا ۔اس کیلئے درسگاہ ہی میں اسٹوو منگواکر وقفے وقفے سے چائے بنانے اور پلا نے کا سلسلہ بھی جاری رہا  یہاں تک کہ شاید ایک یا دو راتوں میں کتاب مکمل ہوگئی ۔
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق تدریس کا ہم نے دار العلوم میں خوب مشاہدہ کیا اور اس دوران  یہ محسوس کیا تھا کہ حضرت کو نہ صرف تدریس بلکہ مدرسین کی تربیت کا خصوصی ذوق ہے، لیکن اس ذوق کا ایک نمایاں مظاہرہ اول تو جامعہ فاروقیہ کے ذریعے ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ممتاز مدارس میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا، دوسرے ان کے اس ذوق کا ہمہ گیر اور مفید ترین مظاہرہ اس وقت ہوا جب وفاق المدارس العربیہ کی نظامت یا سربراہی آپ کے سپرد کی گئی۔ وفاق المدارس العربیہ اگرچہ پہلے سے قائم تھا اور بڑے بڑے علماء اور بزرگوں نے اُسے قائم کرنے اور چلانے میں اپنی خدمات صرف کیں، لیکن اس کی خدمات میں جو گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی اس کے بارے میں بلا خوف تردید  یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی انتھک جد وجہد اور مدارس کے مزاج کی حقیقت پسندانہ فہم اور اصلاح کی مسلسل تڑپ  کا نتیجہ ہے، حضرت کی بلند ہمتی ہم جیسوں کیلئے ہمیشہ ایک قابل رشک مثال رہی ، جس مقصد کو آپ لے کر چلے، کسی قسم کی مشقت اور محنت آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی، اور سخت سے سخت محنت اور مشقت کو آپ نے جس خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا وہ ہم جیسوں کو ہمیشہ شرم دلاتی رہی۔ وفاق کو منظم بنانے اور اس کے مقاصد کو مؤثر انداز میں حاصل کرنے کیلئے آپ نے بہ نفس نفیس ایسے گاؤں گوٹھوں کے پُر مشقت سفر کئے جن میں آپ سے پہلے کوئی نہیں گیا تھا۔ اسی محنت ومشقت میں اللہ تعالیٰ نے وہ برکت عطا فرمائی کہ الحمد للہ وفاق ایک تنومند ادارہ بنا، اور سازشوں اور مخالفتوں کے طوفان میں بفضلہٖ تعالیٰ اسے ثابت قدمی نصیب ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت کے ان فیوض کو قائم ودائم رکھیں ۔ آمین۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ اکابر علماء دیوبند کے مسلک کے بارے میں بہت متصلّب تھے، لیکن مدارس دینیہ کے مشترک مقاصد کیلئے حضرت نے دوسرے مکاتب فکر کے ساتھ مل کر کام کرنے میں اس تصلب کو رکاوٹ بننے نہیں دیا، اور یہ آپ ہی کی حکیمانہ تدبیر کا نتیجہ تھا کہ مختلف مکاتب فکر کے مدارس کا ایک اتحاد "اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ” کے نام سے نہ صرف وجود میں آیا، بلکہ اس نے مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں اور پروپیگینڈے کا مؤثر مقابلہ کیا، اور الحمد للہ وہ تادمِ تحریر کامیابی کے ساتھ رو بعمل ہے۔
حضرت ؒ نے جن اکابر سے تعلیم وتربیت حاصل کی تھی ، اس کا نتیجہ تھا کہ دینی عقائد وافکار میں ان کا تصلّب کسی مداہنت کو گوارا نہیں کرتاتھا، چنانچہ انہوں نے جس بات کو حق سمجھا ، اس کے اظہار میں کبھی تساہل سے کام نہیں لیا۔عمر کے آخری حصے میں حضرت ؒ کے لئے نہ صرف نقل وحرکت بلکہ گفتگو بھی سخت مشکل ہوگئی تھی لیکن دینی حلقوں میں پیش آنے والے واقعات پر ان کی گہری نظر رہتی تھی ، اور ان کے بارے میں جہاں ضروری سمجھتے زبانی یا تحریری طورپر اپنی رائے ظاہر فرماتے تھے ۔
الحمدللہ ان معاملات میں بکثرت وہ مجھ ناکارہ شاگرد کو بھی شریک رہنے کی سعادت عطافرماتے ، اجتماعی مسائل میں حضرتؒ کی ہدایات بھی زبانی یا تحریری پہنچتی رہتی تھیں اور حضرت ؒ ان میں مشورہ بھی فرماتے ،اور بندہ کی طرف سے کوئی طالب علمانہ مشورہ دیا جاتا ، تو اسے قبول فرماکر بندہ کی قدر افزائی فرماتے تھے ۔
حضرت ؒکے ضعف وعلالت کی بناپر حضرتؒ کی زیارت بھی کم ہونے لگی تھی ، اور زیادہ تر رابطہ فون یا خط کے ذریعے رہتا تھا، لیکن وفات سے کچھ ہی پہلے وفاق المدارس میں جو ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوئی، اس سلسلے میں ایک ہی ہفتے میں کئی بار حضرت ؒ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ، اور وفاق کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حضرت ؒ نے اکابر وفاق کا جو اجتماع طلب فرمایا ۔اس میں اس ناکارہ کو نہ صر ف خصوصی عوت دی ، بلکہ اجلاس کی صدارت حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب مدظلہم کے سپر د فرماکر حکم دیا کہ ان کی نیابت ومعاونت میں کارروائی یہ ناکارہ چلائے ، بالآخر الحمدللہ حضرت والا اس اجلاس کے نتائج سے مطمئن رہے، اور اس وقت حضرت ؒ کی دست بوسی کی ایک بار پھر سعادت ملی ۔ اس وقت یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ حضرت ؒ کی آخری زیارت ہوگی ، لیکن اس کے فوراً بعد حضرت ؒ کی علالت کی شدت کا علم ہوا۔ بندہ حضرتؒ کے معالج اور صاحبزادگان سے رابطے میں رہا ، صحت میں اتار چڑھاؤ کی خبریں ملتی رہیں، اس دوران دو مرتبہ ہسپتال سے گھر بھی منتقل ہوئے ، لیکن اتوار ۱۶؍ربیع الثانی ۱۴۳۸ ھ (۱۵؍جنوری ۲۰۱۷ء) کو طبیعت زیادہ خراب ہوئی ، دل کی تکلیف کی وجہ سے ٹبّہ ہسپتال منتقل کیا گیا ، وہیں ۱۷؍ربیع الثانی کی شب میں حضرت ؒ کا وقت معہود آگیا، اور وہ مالک حقیقی سے جاملے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہم اکرم نزلہ ووسع مدخلہ وأبدلہ دارا خیرا من دارہ وأھلا خیرا من أھلہ ونقّہ من الخطایا کما ینقّی الثوب الابیض من الدّنس وأسکنہ بحوۃ جنانک یا ارحم الراحمین ولا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ ۔
بندہ
محمد تقی عثمانی
۲۲؍۴؍۱۴۳۸ ھ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭