فقہ اکیڈمی جدید دور کی اہم ضرورت

جنگ19فروری 1986ء
س ……فقہ اکیڈمی کے قیام کے مقاصد اور اس کا دائرہ کار اور اس کے اغراض و مقاصد کے بارے میں آپ کچھ وضاحت فرمائیں۔
ج ……مجمع الفقہ الاسلامی کا بنیادی تصور دراصل سعودی عرب کے سابق فرمانروا ملک خالد بن عبد العزیز نے پیش کیا تھا 1981 ء میں جو اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس میں شاہ خالد نے یہ رائے پیش کی کہ عالم اسلام کے علمائے کرام اور فقہائے عظام کا ایک ایسا ادارہ قائم ہونا چاہئے جس میں نو بہ نوآنے والے مسائل پر فقہی نقطہ نظر سے غور کیا جائے اور اس کا حل تلاش کیا جائے اس سے پہلے اگرچہ مختلف ملکوں میں مختلف اداروں کے تحت چھوٹی چھوٹی تنظیمیں قائم ہیں مثلاً رابطہ عالم اسلامی کے تحت مجمع الفقہی قائم ہے جامعہ ازہر کے تحت مجمع البحوث الاسلامیہ کے نام سے ادارہ ایک عرصے سے کام کررہا ہے جس میں پاکستان سے محدث العصر شیخ وقت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمة اللہ علیہ مفکر اسلام قائد انقلاب حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ شرکت کرتے رہے ہیں اسی طرح برصغیر میں بھی مختلف حلقوں میں اپنے اپنے دائرہ کے تحت فقہی مسائل حاضرہ پر کام ہورہا ہے دارالعلوم ندوہ میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، کراچی میں مجلس تحقیقی مسائل حاضرہ وغیرہ کے عنوان سے جزوی طور پر کام ہورہا تھا لیکن یہ ادارے علاقائی سطح پر تھے ان میں تمام عالم اسلام کی نمائندگی نہیں تھی اس لئے شاہ خالد نے یہ تصور پیش کیا کہ ایک ایسا ادارہ ہونا چاہئے جس میں پورے عالم اسلام کے تمام ممالک کی نمائندگی ہو اور اس میں تمام عالم اسلام کی طرف سے ایک متفقہ مؤقف پیش کیا جائے یہ قرارداد شاہ خالد کی تحریک پر 1981 ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس نے منظور کی اور یہ ادارہ تمام اسلامی ممالک کی متحدہ تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس جس کو عربی میں منتظمة المؤتمر الاسلامی کہتے ہیں جو ایک طرح سے آج کل مسلمانوں کی اقوام متحدہ کے طورپر کام کررہی ہے، اقوام متحدہ پوری دنیا کے لئے کام کررہی ہے اور یہ تنظیم عالم اسلام کی اقوام متحدہ ہے اس تنظیم کے ماتحت یہ ادارہ قائم کرنے کا معاملہ طے ہوا اور اس غرض کے لئے ایک مجلس تاسیسی قائم کی گئی تمام ملکوں سے مختلف علماء اور فقہاءاور اہل فکر کو جمع کرکے اس کا ابتدائی ڈھانچہ اور دستور تیار کرنے کے لئے کہا گیا اس مجلس تاسیسی نے ابتدائی ڈھانچہ اور دستور تیار کیا اس دستور اور ڈھانچہ کو تمام اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک کانفرنس میں منظورکیا گیا اور اس کے تحت یہ بات طے کی گئی کہ ہر ملک سے ایک مستند عالم دین کو بطور مستقل رکن منتخب کیا جائےگا۔
س ۔۔۔موتمرتاسیسی میں کون لوگ شامل تھے؟
ج ۔۔۔موتمر تاسیسی میں تمام ممالک کے چیدہ چیدہ علمائے کرام شامل تھے پاکستان سے اس وقت جسٹس آفتاب حسین ، جسٹس تنزیل الرحمن میر محمد علی شریک اجلاس تھے لیکن بعد میں جب دستور منظور ہوگیا تو اس کے تحت یہ ضروری قراردیاگیا کہ ہر ملک ایک نمائندہ تو اپنا مستقل نامزد کرے اس فقہ اکیڈمی کے لئے اور بوقت ضرورت دوسرے حضرات کو بھی بطور عارضی رکن مبصر ایکسپرٹ بلایاجاسکتا ہے چنانچہ اس دستور کی منظوری کے بعد منتظمة المؤتمر الاسلامی(O.I.C) نے تمام ملکوں سے درخواست کی کہ وہ اپنا مستقل نمائندہ نامزد کریں اس نامزگی میں کافی وقت لگا اور یہاں تک کہ سال ڈیڑھ سال بعد ملکوں نے اپنی نامزدگیاں روانہ کیں جب یہ نامزگیاں مکمل ہوئیں تو نومبر 1984 ء میں اس مجمع الفقہ الاسلامی کا پہلا اجلاس ہوا یہ اجلاس چونکہ پہلا اجلاس تھا لہذا اس کی حیثیت ایک تشکیلی اجلاس کی تھی جس میں گویا اکیڈمی کے دستور کی روشنی میں طریق کار مرتب کیا گیا عہدیداروں کا انتخاب عمل میں آیا مجلس عاملہ کا انتخاب عمل میں آیا اور آئندہ سال کے لئے کام کرنے کے طریقہ کار تجویز کیا گیا لیکن ظاہر ہے کہ کوئی علمی کام اس اجلاس میں نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ یہ پہلا اجلاس تھا۔
اس اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ اکیڈمی کے تین شعبے ہوں ایک شعبہ” شعبة التخطیط” یعنی پلاننگ کا شعبہ ہوگا جو ہر سال یہ طے کرے گا کہ ہم نے اس سال کیا کرنا ہے اور کس تربیت سے کرنا ہوگا دوسرا شعبہ بحوث اور دراسات کا ہوگا (ریسرچ کا) جس میں مختلف مسائل پر تحقیقی مقالات لکھے جائیں گے لکھوائیں جائیں گے ارکان سے بھی اور باہر کے لوگوں سے بھی اور پھر اسے آخری شکل دے کر وہ شعبہ کونسل کی مجلس عامہ کے سامنے پیش کرے گا اسی شعبہ ہی کے تحت یہ بھی ہے کہ فقہ سے متعلق جو مخطوطات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے انہیں شائع کرنے کا اہتمام کرے گا اور جو کتابیں ترجمے کی محتاج ہیں ان کےترجمہ کا کام انجام دے گا جس میں یہ بھی داخل ہے کہ غیر عربی زبان میں جو فقہ پر کام ہوا مثلاً اردو زبان جو اس وقت دینی علوم کی ترویج اور علوم کی خدمت کے لحاظ سے عربی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے تو اس زبان میں جو کچھ فقہ پر کام ہوا ہوا ہے اسے عربی میں منتقل کیا جائے اور اسی طریقے سے لوگوں نے جو انفرادی طورپر تحقیقی کام کیا ہے فقہ میں اور انہیں شائع کرنے کے اسباب ووسائل انہیں مہیا نہیں ہیں ان کی اشاعت کا اہتمام کرے گا یہ بھی اسی شعبہ بحوث ودراسات کے ذمہ ہے تیسرا شعبہ شعبةالافتاء ہے اکیڈمی کے پاس آنے والے سوالات کا جواب یہ شعبہ تیار کرے گا اور بالاخر تینوں اپنے کام کو مجلس عامہ کے سامنے پیش کریں گے جو ان کی منظوری دے گی اور بالاتفاق یہ طے ہوا تھا کہ ہر سال میں ہر تین مہینے بعد ایک شعبہ کا اجلاس ہوگا اور سال میں ایک مرتبہ مجلس عام کا اجلاس ہوگا جس میں تینوں شعبوں کی کاروائی کو مجلس عامہ کے سامنے پیش کرکے اسے آخری شکل دی جائے گی طے یہ ہوا تھا کہ تمام ممالک مل کر اس کے اخراجات چلائیں گے اس لئے اکیڈمی کا بجٹ کا کچھ حصہ ہر ملک ادا کرے گا مثلاً پاکستان دوفیصد ادا کرے گا اور سعودی عرب دس فیصد اس طریقے سے ہر ملک کے ذمہ مقرر ہوا لیکن سوائے سعودی عرب ، پاکستان اور مصر کے کسی نے بھی اپنا حصہ ادانہیں کیا اس لئے بجٹ کی پوری رقم حاصل نہ ہونے کی وجہ سے تینوں شعبوں کا اجلاس نہیں ہوسکا صرف شعبہ التخطیط کا اجلاس ہوا تھا جس نے موضوعات طے کرکے بذریعہ مراسلہ اراکین کو بھیج دئے تھے کہ وہ ان پر تیاری اور کام کرکے اکیڈمی کو بھیجیں ۔
س ۔۔۔اس اکیڈمی کے مقاصد کیا ہیں ؟
ج ۔۔۔اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ اکیڈمی کے درج ذیل مقاصد ہوں گے ۔
نوبہ نو پیش آنے والے فقہی مسائل کا کتا ب وسنت اور اسلامی فقہ کی روشنی میں جواب (۲)ضروری فقہی موضوعات پر تحقیقی مقالات کی تیاری (۳)جو کتابیں فقہ کی مخطوطات کی شکل میں ہیں اور ابھی تک شائی نہیں ہوئیں ان کی اشاعت کا مناسب انتظام کرنا (۴)جامع فقہی انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنا (۵)فقہی لغت تیار کرنا (٦)غیر عربی زبان میں فقہ پر لکھی گئی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کرنا۔
س ۔۔۔فقہی انسائیلو پیڈیا اور فقہی لغت پر کس طرح کام ہوگا اور اس کی تیاری میں کن امور کو پیش نظر رکھا جائے گا؟
ج ۔۔۔فقہی انسائیکلو پیڈیا پر اس وقت دوجگہ کام ہورہا ہے ایک مصر میں شؤن الاعلیٰ کی طرف سے اس کی اب تک ١۸ جلدیں آچکی ہیں پہلے موسوعة جمال عبد الناصر کے نام سے اب اس کا نام موسوعة االفقہ الاسلامی ہے ١۸ جلدیں آچکی ہیں لیکن ابھی تک الف ختم نہیں ہوا اور الف کے بعد بھی ش تک یعنی الف کے بعد دوسرا حرف جو ہوتا ہے اس میں ش تک اور دوسرا کام کویت میں شروع ہوا ہے جس کی اب تک ۷ جلدیں آچکی ہیں اس میں بھی ابھی تک الف چل رہا ہے ان دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے اکیڈمی میں ایک تجویز یہ تھی کہ جب یہ دوانسائیکلو پیڈیا موجود ہیں اور ان پر کام ہورہا ہے تو نیا انسائیکلو پیڈیا شروع کرنے کی کیا ضرورت ہے تو اس کے لئے کمیٹی بنائی گئی ہے جو غور کرے گی کہ کون سا خلا جو ان دو انسائیکلو پیڈیا میں باقی ہے جس کو ہم نے پورا کرنا ہے یا یہ کہ یہ دونوں کے دونوں انسائیکلو پیڈیا کافی ہیں اور اس میں اضافہ کی ضرورت نہیں ۔
س ۔۔۔اس اکیڈمی کے لئے بجٹ صرف تین ملکوں نے دیا ہے سعودی عرب ، پاکستان اور مصر کیا آپ کے خیا ل میں بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام نہیں ہوجائے گا یا اس کی کوئی اور صورت نکالی جائے گی؟
ج ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں بڑی مشکلات اس کی وجہ سے پیش آرہی ہیں لیکن فی الحال سعودی عرب قرض دیتا ہے اور قرضے کے ذریعے کام چل رہا ہے بہت ہی ناگزیر ضرورت کے وقت یہ قرض دیا جاتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب تک تمام ممالک پوری طرح اس میں دلچسپی نہیں لیں گے اس وقت تک صحیح کام نہیں ہوسکتا ۔
س ۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہی تین ملک اس کا خرچہ برداشت کرلیں یا سعودی عرب ہی اسے برداشت کرے؟
ج ۔۔۔سعودی عرب کے جوموجودہ حالات ہیں اس میں یہ مشکل ہے کہ سعودیہ مکمل اخراجات برداشت کرے پہلے تو سعودی عرب کے بارے میں یہ تصور کیاجا تا تھا کہ وہ تنہا ہی یہ سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اب جن حالات سے وہ گزررہا ہے صرف ایران کی وجہ سے اور اس کے ساتھ پیٹرول کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے اس کی مالی پالیسی میں وہ وسعت باقی نہیں رہی جو پہلے تھی تو اس لئے یہ بات ذرا مشکل نظر آئی کہ پورے کا پورا خرچہ وہ برداشت کرے لہذا اس میں دوسرے ممالک کو بھی حصہ لینا چاہئے اور ان کی طرف مراجعت کی جارہی ہے بہت سے ملک ایسے ہیں جو عدم دلچسپی کی وجہ سے نہیں دے رہے جیسے کویت ، بحرین ہے یا خلیج کی ریاستیں ان کے پاس نہ دینے کے کا کوئی جواز نہیں بہت سے افریقی ممالک ایسے ہیں جو اس وجہ سے نہیں دے سکے کہ ان کے یہاں قحط بہت سخط پڑا لیکن یہ کہ جو ممالک خلیج سے تعلق رکھتے ہیں ان کے پاس نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ۔
س۔۔۔ اس سلسلے میں کوئی اقدام کیا گیا؟
ج ۔۔۔جی ہاں ان کو اپرچ کیا گیا ہے اور انہیں باقاعدہ خطوط لکھے گئے ان میں سے بعض نے وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنی واجب الاداء رقم اداکردیں گے ۔
س ۔۔۔اگر آپ کی اکیڈمی کو مستقل بنیادوں پر بنایاجائے کہ سال میں ایک اجلاس کے بجائے جب کام تیار ہوجائے تو اجلاس بلاکر اس پر غور کرلیا جائے اور اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرلی جائے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا؟
ج۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ یہ کام ہمہ وقتی نوعیت کا ہے ۔ اور اسی لئے یہ تجویز پیش ہوئی ہے اور وسائل کے مطابق ان شاء الله اس پر عمل بھی ہوگا کہ وہاں کچھ علماء ہمہ وقتی طورپر موجود رہیں ۔ اور جب بھی کام تیار ہوجائے تو اجلاس منعقد ہواور اس پر فیصلے کئے جائیں لیکن ابھی چونکہ ابتدائی مرحلہ میں مالی مشکلات بھی ہیں ۔ اس لئے اس پر ابھی عمل نہیں ہوسکتا ۔
س ۔۔۔اکیڈمی کا اراکین کو منتخب کرنے میں کن باتوں کا خیال رکھا گیا ہے ؟
ج ۔۔۔دستور کے اندر کچھ شرائط لازمی قراردی گئیں۔اول تو یہ کہ وہ قرآن وسنت کے علوم میں ماہر ہو جس کی شہادت اس کی تالیفات وغیرہ سے ملتی ہوں یعنی صرف یہی نہیں کہ زبانی طور پر کہ دیا گیا کہ فلاں ان علوم میں ماہر ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس کی تالیفات شہادت دیتی ہوں دوسرا یہ کہ وہ عربی روانی سے بول سکتا ہو چونکہ اکیڈمی کے دستور کی زبان عربی ہے اور تیسرا یہ کہ بحیثیت مجموعی تمام اراکین اکیڈمی اس کے علم وفضل پر مطمئن ہوں۔ یہ تین شرائط دستور میں رکھی گئی تھیں لیکن دستوری شرائط وہ سب کاغذی ہوتی ہیں۔اور عمل جب ہوتا ہے تو ضروری نہیں ہوتا کہ ان کی رعایت رکھی گئی ہو بالخصوص جبکہ اراکین کا انتخاب حکومتوں نے کیا ہو یہ اور بات ہے کہ انتخاب کرنے بعد وہ اکیڈمی کے مستقل ارکان ہوگئے ہیں اور اب ان کو نکالنے کا اختیار صرف اکیڈمی کو ہے متعلقہ حکومتیں نہیں نکال سکتیں ۔ تو حکومتوں کے انتخاب میں جس طرح کے تحفظات ہوتے وہ آپ سب حضرات کو معلوم ہیں ، تو اس لئے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انتخاب سوفیصد درست اور بہت اچھا ہے لیکن سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ جو فعال ارکان ہیں وہ اگر اچھے میسر آجاتے ہیں تو کم ازکم امید ہے اکیڈمی کا کام بہتر طور پر ہوگا اور اگر خدانخواستہ رجال کار میں کوئی نقص پیدا ہو تو یہ دودھاری تلوار ہے جو فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔
س ۔۔۔کیا اکیڈمی کو یہ حق ہے کہ وہ کسی منتخب شدہ نمائندہ کو رد کرے یا نکال دے؟
ج ۔۔۔جی ہاں اکیڈ می کو یہ اختیار ہے کہ وہ دوتہائی اکثریت سے کسی بھی رکن کے بارے میں یہ فیصلہ کرسکتی ہے ۔