حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں
(آٹھویں قسط )
حج کے بعد بھی کچھ دن مکہ مکرمہ میں رہنا ہوا، اور ان دنوں میں، میں اپنی والدہ صاحبہ، رحمۃ اﷲعلیہا ،کو طواف کے لئے لے جاتا ، اور طواف کی دعائیں مجھے تقریباً سب یاد ہوگئی تھیں ،وہ میں زور زور سے پڑھتا رہتا، اور بہت سی خواتین بھی وہ دعائیں دہراتی جاتی تھیں ۔

مکہ مکرمہ اُس وقت چھوٹا سا شہر تھا ، اور ہماری پہنچ حرم شریف کے باہر اپنے قریب ایک مسقف بازار تک تھی، جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ” سوق المدعیٰ ” یا "سوق اللیل” کہلاتا تھا ۔(اب نئی توسیع میں یہ بازار بھی ختم ہوگیا ہے )حاجی صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے صاحب زادے ہمارے دوست بن چکے تھے، (اور آجکل ان کے بیٹے یعنی حاجی صاحب مرحوم کے پوتے) عطریات کی مشہور دوکان ” السرتی” کے مالک ہیں)وہ کبھی کبھی ہمیں اس بازار میں لے جایا کرتے تھے ۔ اُس زمانے میں پاکستانی روپیہ سولہ آنے کا ہوتاتھا، اور ایک ریال کی قیمت بیس آنے تھی ،اور اُس بازار میں ایک ریال میں ایک شربت ملا کرتا تھا، جو مجھے بہت پسند تھا ۔جووقت طواف کرنے یا کرانے سے بچتا ،اس میں باہر نکل کر وہ شربت پینے کے سوا کوئی اور مصروفیت نہیں تھی ۔
مکہ مکرمہ کے بعد مدینہ منورہ جانے کا وقت آیا ، تو معلوم ہوا کہ وہاں جانے کے لئے پکی سڑک موجود نہیں ہے ، اور بس میں جانا خطرے سے خالی نہیں ، کیونکہ کچی سڑک پر جب ڈرائیور گاڑی دوڑاتے ہیں، تو بسااوقات مسافروں کے سر وں کے چھت سے ٹکرانے کی وجہ سے لوگ زخمی ہوجاتے ہیں ، اور وقت بھی بہت زیادہ لگتا ہے۔اس لئے حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے جہاز سے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کیلئے دوبارہ جدہ پہنچے ۔معلوم ہوا کہ جہاز مغرب کے قریب کسی وقت روانہ ہوگا ۔ چنانچہ ہم عصر کے قریب ہوائی اڈے پہنچے ۔ ہوائی اڈہ کیا تھا ؟ چھوٹی سی عمارت تھی، اور اُس میں اتنی جگہ نہیں تھی کہ مسافروں کو انتظار کیلئے بٹھایا جاسکے ۔ اس لئے تمام مسافروں کو عمارت کے باہرریت پر بیٹھ کر انتظار کرنا تھا ۔ہم سب وہیں کپڑا بچھاکر بیٹھ گئے۔میرے لئے یہ ہوائی جہاز میں بیٹھنے کا پہلا موقع تھا، اس لئے مدینہ منورہ کی حاضری کے اشتیاق کے علاوہ یہ بچکانہ شوق بھی شامل تھا کہ اس نئی سواری میں سفر ہوگا۔ مغرب کے قریب کسی وقت جہاز کی روانگی کا اعلان تھا، لیکن مغرب کے بعد وہیں بیٹھے بیٹھے عشاء ہوگئی، مگر جہاز کی روانگی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ۔ عشاء کے بعد بھی انتظار کا سلسلہ جاری رہا ،یہاں تک کہ بہت رات بیت گئی ، اور مسافر سونے لگے۔
رات بارہ بجے کے قریب جہاز کا ایک نمائندہ آیا ، اُس کے پاس مسافروں کی فہر ست تھی ۔ اُس نے ایک ایک مسافر کانام پُکارکر حاضری لینی شروع کی، لیکن آخر میں کسی خاتون کے نام کے ساتھ” مسماۃ "لکھا ہوا تھا، وہ اُسے بھی کسی کانام سمجھا، اور بار بار” مسماۃ” "مسماۃ” پکارتا رہا، اس نام پر کوئی جواب کیا آتا؟ چنانچہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک "یہ نام ” پُکارتا ہی چلا گیا ۔آخر میں شاید بھائی جان نے اُسے سمجھایا کہ یہ کوئی نام نہیں ہے ، بلکہ خواتین کے ناموں کے ساتھ یہ لفظ لکھا جاتا ہے ۔بہرحال! اُس کے حاضری لینے سے کچھ امید بندھی کہ شاید اب جہاز میں سوار ہونے کے لئے بلایا جائے ،لیکن اُس کے جانے کے بعد بھی کئی گھنٹے گذرگئے، اور کوئی بلا نے نہ آیا ، یہاں تک کہ پوری رات اسی طرح گذر گئی۔ جب صبح صادق کا وقت قریب آیا، تو معلوم ہوا کہ اب جہاز روانہ ہونے والا ہے ، اور مسافروں کو جہاز میں بٹھا یا جارہا ہے ۔حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے فرمایا کہ اب جہاز میں بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ فجر کی نماز قضا ہو، اس لئے قصداً اتنی دیر مزید رکے رہے کہ فجر کی نماز پڑھی جاسکے ۔ نماز کے بعد جہاز میں سوار ہوئے ۔یہ ایک چھوٹا سا ڈکوٹا طیارہ تھا، اور میرے لئے کسی فضائی سفر کا پہلا اتفاق تھا ، اس لئے میں اس سے خوب خوب محظوظ ہوا ۔
مدینہ منورہ کارن وے اُس وقت پکا نہیں تھا ، بلکہ بجری کا بنا ہواتھا ۔جہاز کا پہیہ جب زمین سے لگا تو فضا میں بہت سی بجری اُڑی ، اور پھر جہازاترنے کے بجائے دوبارہ اوپر اُٹھ گیا ،پھر کچھ بلندی پر جاکر اُس کا پہیہ دوبارہ زمین سے لگا، لیکن ایک بار پھر اُترنے کے بجائے پھر اوپر چلا گیا۔ ایسا شاید تین یا چار مرتبہ ہوا ،اور اُس کے بعد وہ زمین پر اُتر سکا۔میں نے یہ سمجھا کہ شاید جہاز اسی طرح ہمیشہ اُترا کرتا ہوگا ، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ جہاز میں کوئی خرابی تھی جس کی وجہ سے ایمرجنسی بھی پیدا ہوسکتی تھی ۔ اﷲتعالیٰ کا کرم تھا کہ تیسری یا چوتھی کوشش میں وہ اُترنے میں کامیاب ہوگیا۔نیچے اترے تو دیکھا کہ مدینہ منورہ کے ہوائی اڈہ پر ایک چھوٹے سے کمرے کے سوا کوئی عمارت نہیں تھی۔
میری عمر کااُس وقت آٹھواں سال تھا، لیکن شروع ہی سے مدینہ منورہ کی محبت دل میں سمائی ہوئی تھی ، اور اس مقدس شہر میں حاضری ایک سہاناخواب معلوم ہورہی تھی ۔اُس وقت مسجدنبوی (علی صاحبہ السلا م)کا شمالی دروازہ جو باب المجیدی کہلاتا تھا، ترکی عمارت کے پہلے صحن کے کنارے ہوتا تھا ،یعنی مسجد کی لمبائی موجودہ لمبائی کابمشکل چھٹا حصہ ہوگی۔دروازے کے سامنے تھوڑے سے کھلے حصے کے بعد ایک سرنگ نما راستہ تھا جس کے دونوں طرف دوکانیں بھی تھیں، اُس کے بعد ایک عمارت "ا صطفا منزل” کہلاتی تھی جو حضرت والد صاحب ؒ کے ایک دوست اور لکھنو کے ایک متدین تاجر حاجی اصطفا خان صاحب مرحوم نے حجاج اور زائرین کے مفت قیام کیلئے بنائی ہوئی تھی۔ ہمارا قیام اسی کے تہ خانے میں ہوا۔ اس تہ خانے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ایک کنواںتھا، اور یہ وہی کنواں تھا جو حضرت ابوطلحہ انصاری، رضی اﷲتعالیٰ، عنہ کے باغ میں واقع تھا ، اور اُسے بیرحاء یا بئر طلحہ کہا جاتا تھا ۔ جب سورۂ آل عمران کی وہ آیت نازل ہو ئی جس میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :
لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ
"تم ہرگز نیکی کا مقام حاصل نہیں کروگے جب تک اُن چیزوں میں سے (اﷲکی راہ میں)خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں "۔
صحابۂ کرام ،رضی اللہ تعالیٰ عنہم، اس بات کے بہت خواہش مند رہتے تھے کہ نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے ۔چنانچہ ان میں سے تقریباً ہر ایک نے یہ جائزہ لینا شروع کیا کہ اسے اپنے مال میں سے کون سا مال زیادہ پسند اور محبوب ہے ۔ پھر ہر صحابی نے اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے صدقہ کرنی شروع کردیں ۔اس کے بہت سے واقعات روایتوں میں آئے ہیں(۱)۔ انہی میں سے حضرت ابو طلحہ انصاری،رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بھی تھے ۔ انہوںنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! مجھے اپنا باغ بیر حاء سب سے زیادہ محبوب ہے ، اور میں چاہتا ہوں کہ وہ صدقہ کردوں ۔آپ نے فرمایا کہ ":واہ! وہ تو بڑا نفع بخش مال ہے ، اور میری رائے ہے کہ وہ تم اپنے رشتہ داروں کو صدقہ کردو” چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ صحیح بخاریؒ کی حدیث میں ہے کہ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا۔خود آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم، کو اس کے کنویں کا پانی بہت پسند تھا،اور آپ وہ شوق سے پیا کرتے تھے ۔ یہ ٍسعادت ہمارے حصے میں آئی کہ اس بابرکت کنویں کے قریب ہمیں دو مرتبہ قیام کی توفیق ہوئی، اور اُس کنویں کی برکتوں سے ہم سیراب ہوئے۔ اب اصطفا منزل کی وہ عمارت اور وہ کنواں مسجد کے توسیع شدہ حصے میں شامل ہوگئے ہیں۔
حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، ہمیں مسجدنبوی میں لے گئے ،اُس کے ایک ایک حصے کا تعارف کرایا، اور پھر سرکار رسالت مآب، صلی اﷲعلیہ وسلم، کے روضۂ اقدس پر حاضری اور سلام عرض کرنے کی توفیق ہوئی۔ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ ہم کتنے دن مدینہ منورہ میں رہے ، لیکن غالباً آٹھ دن قیام رہا۔ اس دوران حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، ہمیں مختلف زیارتوں کے لئے لے گئے جن میں جنت البقیع کے بعد سب سے پہلے ہم احدپہاڑ کی زیارت کے لئے گئے تھے ۔ وہاں شہداء احد کو سلام عرض کیا، اور میں نے دیکھا کہ حضرت والد صاحبؒ ، بھائی جان اور دوسرے رفقاء اس بات کااندازہ لگاتے رہے کہ مشرکین کی فوج کہاں تھی،اور مسلمانوں کا لشکر کس طرف تھا ، نیز وہ ٹیلہ جس پر آنحضرت ،صلی اللہ علیہ وسلم، نے تیر اندازوں کو مقرر فرمایا تھا ، وہ کونسا ٹیلہ تھا ۔اس ٹیلے کو "جبل الرماۃ” کہا جاتا ہے ، اور اس بات کی تحقیق ہوتی رہی کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے کس طرف سے آکر اس ٹیلے پر حملہ کیا ہوگا؟ لیکن کوئی یقینی بات سامنے نہ آسکی ۔انہی زیارتوں کے دوران ہم مسجد قبلتین بھی گئے، یعنی وہ مسجد جس میں پہلی بار بیت المقدس کے بجائے کعبہ شریف کو قبلہ بنانے کے احکام آئے ، اور نماز کے دوران ہی آنحضرت، صلی اللہ علیہ وسلم، نے اپنا رخ کعبہ شریف کی طرف پھیر لیا ۔ اس وقت یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی ، اور اس میں دو چھوٹی چھوٹی محرابیں ایک دوسری کے مقابل بنی ہوئی تھیں ۔ ایک محراب شمال کی طرف یہ بتانے کے لئے تھی کہ نماز بیت المقدس کی طرف رخ کرکے شروع کی گئی تھی ، اور دوسری محراب جنوب میں تھی جس کا رخ کعبہ شریف کی طرف تھا ، اور نماز کے دوران ہی رخ اس طرف پھیر لیا گیا تھا۔ اسی طرح غزوۂ احزاب کی جگہ بھی حاضری ہوئی ،اور میں نے اپنے بڑوں کو یہ اندازے لگاتے ہوئے دیکھا کہ خندق کس جگہ اور کہاں سے کہاں تک کھودی گئی ہوگی ۔نیزمسجد قبا حاضر ی ہوئی۔ اس وقت یہ بھی ایک چھوٹی سی مسجد تھی ، اس کے اندر ایک خاص جگہ دیوارسے نکلا ہوا ایک سریا اس بات کی علامت تھی کہ اس جگہ حضور اقدس، صلی اللہ علیہ وسلم، امامت فرمایا کرتے تھے۔نیز مسجد کے صحن میں بھی ایک چھوٹی سی محراب بنی ہوئی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی ۔
مسجد قبا کے مغربی دروازے کے سامنے ایک باغ تھا ۔ اسی باغ میں وہ مشہور کنواں تھا جس کا ذکر احادیث میں ” بئر اریس "کے نام سے آیا ہے ۔صحیح بخاری میں اس کے بارے میں یہ روایت آئی ہے:
صحیح البخاری(۵:۸)

عَنْ سَعِیدِ بْنِ المُسَیِّبِ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ، أَنَّہُ تَوَضَّأَ فِی بَیْتِہِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَقُلْتُ: لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَأَکُونَنَّ مَعَہُ یَوْمِی ہَذَا، قَالَ: فَجَائَ المَسْجِدَ فَسَأَلَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: خَرَجَ وَوَجَّہَ ہَا ہُنَا، فَخَرَجْتُ عَلَی إِثْرِہِ أَسْأَلُ عَنْہُ حَتَّی دَخَلَ بِئْرَ أَرِیسٍ، فَجَلَسْتُ عِنْدَ البَابِ، وَبَابُہَا مِنْ جَرِیدٍ حَتَّی قَضَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاجَتَہُ فَتَوَضَّأَ، فَقُمْتُ إِلَیْہِ فَإِذَا ہُوَ جَالِسٌ عَلَی بِئْرِ أَرِیسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّہَا، وَکَشَفَ عَنْ سَاقَیْہِ وَدَلَّاہُمَا فِی البِئْرِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ البَابِ، فَقُلْتُ لَأَکُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الیَوْمَ، فَجَاء َ أَبُو بَکْرٍ فَدَفَعَ البَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ ہَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَکْرٍ، فَقُلْتُ: عَلَی رِسْلِکَ ثُمَّ ذَہَبْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، ہَذَا أَبُو بَکْرٍ یَسْتَأْذِنُ؟ فَقَالَ: ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ. فَأَقْبَلْتُ حَتَّی قُلْتُ لِأَبِی بَکْرٍ: ادْخُلْ، وَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبَشِّرُکَ بِالْجَنَّۃِ، فَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ فَجَلَسَ عَنْ یَمِینِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَہُ فِی القُفِّ، وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی البِئْرِ کَمَا صَنَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَشَفَ عَنْ سَاقَیْہِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، وَقَدْ تَرَکْتُ أَخِی یَتَوَضَّأُ وَیَلْحَقُنِی، فَقُلْتُ: إِنْ یُرِدِ اللَّہُ بِفُلاَنٍ خَیْرًا – یُرِیدُ أَخَاہُ – یَأْتِ بِہِ، فَإِذَا إِنْسَانٌ یُحَرِّکُ البَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ ہَذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، فَقُلْتُ عَلَی رِسْلِکَ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ: ہَذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ یَسْتَأْذِنُ؟ فَقَالَ: ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ، فَجِئْتُ فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَبَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّۃِ، فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی القُفِّ عَنْ یَسَارِہِ، وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی البِئْرِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: إِنْ یُرِدِ اللَّہُ بِفُلاَنٍ خَیْرًا یَأْتِ بِہِ، فَجَاء َ إِنْسَانٌ یُحَرِّکُ البَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ ہَذَا؟ فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: عَلَی رِسْلِکَ، فَجِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ، عَلَی بَلْوَی تُصِیبُہُ فَجِئْتُہُ فَقُلْتُ لَہُ: ادْخُلْ، وَبَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّۃِ عَلَی بَلْوَی تُصِیبُکَ، فَدَخَلَ فَوَجَدَ القُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاہَہُ مِنَ الشَّقِّ الآخَرِ قَالَ شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ سَعِیدُ بْنُ المُسَیِّبِ” فَأَوَّلْتُہَا قُبُورَہُمْ”

اس روایت کا خلا صہ یہ ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن یہ طے کیا کہ سارے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہوںگا ۔ میں مسجدنبوی پہنچا ، تو آپ کو نہیں پایا۔لوگوں نے ایک خاص سمت کی طرف اشارہ کرکے مجھے بتایا کہ آپ اس طرف تشریف لے گئے ہیں ۔ میں آپ کو اس سمت میں تلاش کرتے ہوئے چلا ، تو آپ کو دیکھا کہ آپ بئر اریس میں تشریف لے گئے ، پھر آپ نے قضائے حاجت کے بعد وضو فرمایا، اور اپنی مبارک پنڈلیاں کھولیں ، اور اس کنویں کے بیچ میں پاؤں لٹکاکر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت ابو موسی اشعری ،رضی اللہ تعالی عنہ، فرماتے ہیں کہ میں باغ کے دروازے پر پہنچا ، اور کہا کہ آج میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دربانی کا فریضہ انجام دوں گا۔اتنے میں حضرت ابوبکر ،رضی اللہ تعالیٰ عنہ، وہاں تشریف لائے ،اور دروازے کو دھکا دیا ، میں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا : "ابوبکر” میں نے کہا : "ذرا ٹھہر یے "پھر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ، اور عرض کیا کہ ” ابوبکر آئے ہیں ، اور آپ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں ، تو آپ نے فرمایا کہ :انہیں بلالو ، اور انہیں جنت کی خوشخبری دیدو ۔” چنانچہ وہ تشریف لائے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف کنویں میں پاؤں لٹکاکر بیٹھ گئے ۔حضرت ابوموسیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ میں واپس آکر دروازے پربیٹھ گیا ، میں اس وقت اپنے بھائی کووضو کرتے ہوئے چھوڑ کر آیا تھا ، میرے دل میں آیا کہ اگر وہ بھی اس وقت آجائیں تو اچھا ہو،(تاکہ میں ان کے لئے بھی اجازت لوں ، اور انہیں بھی جنت کی خوشخبری مل جائے ) لیکن اس مرتبہ دروازے پر حرکت ہوئی ، تو حضرت عمر، رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، میں نے ان کے لئے اجازت مانگی ، تو ان کو بھی آپ نے اجازت دی ، اور ساتھ ہی جنت کی خوشخبری بھی عطا فرمائی۔ وہ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کنویں میں پاؤں لٹکاکر بیٹھ گئے ۔پھر حضرت عثمان ،رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ، آپ نے انہیں بھی اجازت دی ، اور فرمایا کہ انہیں جنت کی بشارت دے دو ، اور اس کے ساتھ ایک آزمائش کی بھی جو انہیں پیش آئے گی ۔اب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہیں رہی تھی ، اس لئے وہ آپ کے سامنے کی طرف کنویں میں پاؤں لٹکاکر بیٹھ گئے ۔حضرت سعید بن المسیب ،رحمۃ اللہ علیہ، جو یہ حدیث حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کررہے ہیں ، یہ واقعہ بیان کرکے فرماتے ہیں کہ مجھے اس میں یہ اشارہ محسوس ہوا کہ وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر، رضی اللہ تعالیٰ عنہما ،کی قبریں تو آپ کے ساتھ بنیں ، اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کی قبر ان حضرات کے ساتھ نہیں ، بلکہ انکے سامنے بقیع میں بنی ۔ (صحیح بخاری ، مناقب)
حضرت والد صاحب، رحمۃ اللہ علیہ، جب اس کنویں کے پاس پہنچے ، تو آپ بھی اس میں پاؤں لٹکاکر بیٹھے ، بھائی جان بھی ، اور ان کی تقلید میں میں نے بھی ایسا ہی کیا ۔
اس کنویں کی دوسری خاص بات یہ تھی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط بھیجنے کے لئے ایک انگوٹھی بنوائی تھی جس پر "محمد رسول اللہ” کے مبارک الفاظ نقش تھے ۔ آپ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت ابوبکر ؓ کے پاس رہی ، پھر حضرت عمرؓ کے پاس آئی ، اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کے پاس رہی (رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین)۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عثمانؓ یہ انگوٹھی پہنے ہوئے بئر اریس پر بیٹھے ، اور ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر اسے الٹنے پلٹنے لگے ۔ اتنے میں وہ انگو ٹھی کنویں میں گر گئی ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم تین دن تک اسے کنویں میں تلاش کرتے رہے ، وہ نہ ملی ، تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کنویں کا پورا پانی نکال کر دیکھا ، تب بھی وہ نہ مل سکی ۔ (صحیح بخاری ، باب ہل یجعل نقش الخاتم ثلاثۃ أسطر) اس لئے اس کنویں کو بئر الخاتم (انگوٹھی کا کنواں ) بھی کہا جاتا ہے ۔
اس کنویں پر حضرت والد صاحب ،رحمۃ اللہ علیہ ،کے ساتھ آٹھ سال کی عمر میں پہلی بار حاضری ہوئی تھی، پھر ۱۹۶۳؁ ء میں اور غالباً ۱۹۶۴؁ ء میں بھی ۔ اس کے بعد جب حاضری ہوئی تو حکومت نے اس باغ اور کنویں کو ختم کرکے سڑک میں شامل کردیا ۔
مدینہ منورہ کے قیام کے دوران جنت البقیع بھی کئی بار حاضری ہوئی ،وہ اس وقت زائرین کے لئے کھلا ہوتا تھا ۔اور یہ بھی یاد ہے کہ میرا ایک بچپن کا دانت وہاں ٹوٹا تھا تو میری والد ہ صاحبہ، رحمہا اﷲتعالیٰ ،نے فرمایا تھا کہ یہ دانت جنت البقیع میں دفن کردو، تاکہ کم ازکم تمہارے جسم کا ایک حصہ جنت البقیع میں دفن ہوجائے ۔ چنانچہ میں نے بڑے شوق سے جنت البقیع کی ایک جگہ زمین کھودکر دانت وہاں دفن کیا۔
اُس سفر حج کی بس یہی کچھ باتیں ہیں جو دھندلی دھندلی یاد رہ گئی ہیں ۔اور اُس کے بعد واپسی میں سفینۂ عرب کا سفر ،اور یہ بات بھی کہ جہاز کے سفر ہی کے دوران یہ خبر ملی کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان صاحب مرحوم کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں شہید کردیا گیا۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱؁ ء کی تاریخ تھی ، اور اس خبر کے ملتے ہی پور ے جہاز میں صدمے کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ میں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ، کی آنکھوں میں بھی آنسو دیکھے ۔حضرت مفتی محمد حسن صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے خلیفہ حضرت حاجی محمد افضل صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، بھی اس جہاز میں ہم سفر تھے ، اور جب وہ خبر پہنچی تووہ حضرت والد صاحب قدس سرہ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے ۔وہ بھی آبدیدہ تھے ، اور بار بار یہ جملہ ان کی زبان پر تھا کہ ” :اﷲتعالیٰ کی مشیّت ہے” حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، بھی یہ لفظ باربار دہراتے تھے ، اور مجھے یاد ہے کہ یہ لفظ میں نے سب سے پہلے اُسی وقت سنا تھا ۔جہازکا جھنڈا کئی دن سرنگوں رہا، یہاں تک کہ جہاز کراچی کے ساحل تک پہنچ گیا۔
جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭