یادیں (چھٹی قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(چھٹی قسط )

جیساکہ پہلے عرض کرچکا ہوں، دیوبند میں حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے دارالاشاعت کے نام سے ایک تجارتی کتب خانہ قائم فرمایا تھا جو وہ دیوبند ہی میں چھوڑ آئے تھے ، اور بھائی جان (جناب محمد زکی کیفی، رحمۃاللہ علیہ) اُس کی دیکھ بھال کرتے تھے ، مگر اُس کی آمدنی بھی اول تو معمولی سی تھی، دوسرے اُس کو پاکستان منتقل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ،نے نہ جانے کس طرح کچھ چھوٹے چھوٹے رسالے پاکستان آنے کے بعد بھی اُس دور میں چھپوائے، لیکن یہ وہ دورتھا جب اردو جاننے والے مہاجرین لُٹے پٹے پاکستان آرہے تھے ،اور ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ خود اپنے کھانے پینے اوررہائش کا انتظام کرنا تھا ، اس لئے اردوکتابوں کی مانگ اتنی نہ تھی کہ وہ طباعت واشاعت کا خرچ نکالنے کے بعد کچھ آمدنی بھی پیدا کرسکیں۔
اس معاشی صورت حال کے ساتھ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کو ہر وقت یہ فکر بھی لاحق تھی کہ وہ اپنی ضعیف والدہ صاحبہؒ کودیوبند چھوڑکر آئے تھے ،جو حضرت گنگوہی، قدس سرہ، سے بیعت تھیں ، اور ہم نے اُنہیں زندگی بھر کبھی ذکراﷲسے خالی نہیں پایا، یہاں تک کہ اُن کے ہر سانس کے ساتھ” اﷲاﷲ "کے الفاظ ہم خود سُنا کرتے تھے ۔حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، چاہتے تھے کہ اُنہیں جلد ازجلد یہاں بلانے کا کوئی انتظام کیا جائے ۔ وہ ریل کے سفر کی متحمل بھی نہیں تھیں۔اس کے علاوہ ہمارے بھائی جان ہمارے دیوبندکے گھر میں اکیلے رہ گئے تھے ، ان کی عمر بھی اُس وقت بائیس چوبیس سال کی تھی ، اور دارالاشاعت کا سارا انتظام بھی وہی کرتے تھے ۔ والدین اور بہن بھائیوں سے دوررہ کر تنہائی میں اُن کے کیا جذبات تھے ؟ اس کا کچھ اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اسی دوران جب عید آئی تو اُنہوں نے ہم بہن بھائیوں کے نام ایک کارڈ پر ایک نظم میں اپنے جذبات کااظہار کیا تھا جس کے یہ شعر مجھے اب بھی یاد رہ گئے ہیں:
مانا کہ میں دل درد کا خوگر ہی بنالوں
لیکن جو خلش چھپ نہ سکے ، کیسے چھپالوں
تم عید کی خوشیوں سے کر وگھر میں چراغاں
میں اپناہی دل اپنے ہی داغوں سے سجالوں
ماں باپ جدا ،بھائی بہن پاس نہیں ہیں
ایسے میں بتاؤ کہ میں کیا عید منالوں ؟
حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کو تیسری فکر یہ تھی کہ ہم چاروں بھائی جو ساتھ پاکستان آئے تھے، تعلیم کے محتاج تھے ، اور اُس وقت کراچی میں صرف ایک مدرسہ تھا جو محلہ کھڈہ میں مظہرالعلوم کے نام سے معروف تھا وہ ہمارے گھر سے اتنا دورتھا کہ اُس میں تعلیم حاصل کرنا ہمارے لئے قابل عمل نہیں تھا ۔
اُدھر حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کوسب سے بڑی تکلیف یہ تھی کہ یہ علاقہ جس میں ہم آکر آباد ہوئے تھے، زیادہ تر انگریزوں اورپارسیوں کا علاقہ تھا ، اور جوتھوڑے بہت مسلمان یہاں آباد تھے ، وہ بیچارے بھی الاّ ما شاء اﷲ دین کی کوئی خاص فکر نہیں رکھتے تھے ، اس لئے اس علاقے میں دور دورتک کوئی مسجد نہیں تھی۔ شروع میں حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، جماعت میں شامل ہونے کی خاطر دور دور بھی تشریف لے جاتے، لیکن پھر انہوں نے ہمارے گھر کے تقریباً سامنے کچھ مسلمانوں کے تعاون سے ایک کیبن بنوادیا، جس میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت شروع ہو گئی ، اور پھر رفتہ رفتہ مسجد کے لئے اس کے برابر والی گلی میں ایک جگہ بھی مل گئی، جہاں الحمد ﷲباقاعدہ مسجد بنی ، اور وہ ابتک چلی آتی ہے۔
مزید مسئلہ یہ بھی تھا کہ مہاجرین کے قافلے روز بروز کراچی پہنچ رہے تھے ، اُن میں سے کچھ اپنے رشتہ دار بھی تھے، اور ان کا حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کے سوا کوئی سہارا نہیں تھا ، اس لئے وہ بھی تقریباً مستقل مہمان کے طورپر ہمارے گھرہی میں ٹھہرتے، اور ان کو روزگاردلانے کی کوشش بھی حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کے فرائض میں شامل تھی۔ اس کے علاوہ بھی وہ لُٹے پٹے مہاجرین کی ہر ممکن امداد کی کوشش فرماتے تھے۔
غرض حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا تھا اور اب ہمارے لئے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ اُنہوں نے کس کس طرح ان حالات کا مقابلہ فرمایا ،لیکن ہمارے لئے وہ ایک انتہائی شفیق باپ تھے جو گھر والوں کے سامنے ہمیشہ مطمئن اور خوش وخرم نظر آتے ،بلکہ ہم لوگوں کی دلداری کے لئے ہمیں سیرو تفریح کو بھی لے جاتے ۔اُس وقت کراچی میں سمندر کی تفریح کیلئے سب سے دلکش جگہ کلفٹن تھی جسے اُس وقت زیادہ تر”ہوا بندر "کہاجاتا تھا ۔چونکہ وہ شہر سے بہت دور جگہ سمجھی جاتی تھی جہاں بسیں بھی بہت کم جاتی تھیں، اس لئے دن کے وقت وہ اکثر سنسان اور پُرسکون ہوتی تھی، حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، ہم سب گھر والوں کو اُسی وقت وہاں لے جاتے ۔ آج جس جگہ بڑا سا پارک بنا ہوا ہے، اُس وقت سمندر وہاں تک آیا کرتا تھا ، اور وہ قدیم پُل جو اب پارک کے مشرقی حصے سے مغربی حصے تک پھیلا ہوا ہے، سمندر کی موجیں اُس پُل کے اگلے حصے کے نیچے تک آیا کرتی تھیں ۔یہاں ہم لوگ سمندر کی موجوں میں اپنی اپنی بساط کے مطابق نہاتے ، اور گھر سے لایا ہوا کھانا دوپہر کے وقت وہیں کھاکر واپس لوٹتے ۔اسی طرح حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کبھی ہمیں بادبانی کشتی میں سوار کرکے کیماڑی سے منوڑہ لے جاتے ، اور دن بھر کی یہ تفریح ہم بچوں کیلئے بڑی پُرکیف ہوتی تھی ۔
ایک طرف تو مذکورہ بالا مسائل کے باوجود وہ ہماری دلداری کیلئے اس قسم کی تفریحات کا بھی سامان فرماتے، (اور ان تفریحات کے دوران بزرگوں کے واقعات اور نصیحتوں کے ذریعے ذہن سازی بھی کرتے جاتے ۔) دوسری طرف حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے جو علمی ذوق عطا فرمایا تھا، اُس کی بناپر خالص علمی اور فقہی مشغلے کسی حال نہیں چھوٹے ۔اگرچہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی کی حیثیت سے آپ مدت پہلے استعفاء دے چکے تھے، لیکن لوگ اطراف عالم سے اُن کے پاس فقہی سوالات بھیجتے رہتے تھے جن کے جواب وہ اس حالت میں بھی تحریر فرماتے ، اور دیوبند سے اگر چہ وہ زیادہ سامان ساتھ نہ لاسکے تھے، لیکن اہم کتابیں، مخطوطات، قلمی مسودے اور بزرگوں کے خطوط اور تبرکات کو بڑے اہتمام سے ساتھ لائے تھے ، اور فرمایا کرتے تھے کہ کسٹم کی تلاشی میں مجھے سب سے زیادہ فکر ان کتابوں اور کاغذات کی تھی، لیکن کسٹم والوں کو ان سے کوئی غرض نہیں تھی انہیں تو یہ فکر تھی کہ کوئی سونا چاندی یا بے سلا کپڑا نہ جانے پائے۔اس طرح والد صاحبؒ کا یہ علمی اثاثہ بڑی حد تک ان کے ساتھ آگیا تھا، یہاں تک کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہ، اپنے ساتھ اتنی کتابیں نہیں لاسکے تھے، اس لئے بعض اوقات کسی مسئلے کی تحقیق کی ضرورت پڑتی ،تو وہ تین منزل کا زینہ چڑھ کر ہمارے گھرتشریف لاتے اور مطالعہ فرماتے ۔
رفتہ رفتہ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ مسائل اس طرح حل ہونے شروع ہوئے کہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے کچھ دوستوں نے کراچی ہی میں کتابوں کی نشرواشاعت کا ایک ادارہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے ساتھ شرکت میں قائم کیا، اور دوسری طرف بھائی جان مرحوم جو دیوبند کا کتب خانہ چلا رہے تھے، کسی طرح ان کے لئے ممکن ہوگیا کہ وہ کتب خانے کو وہاں سے سمیٹ کر پاکستان چلے آئیں ، اور ہماری دادی صاحبہ، رحمہا اﷲتعالیٰ، کو بھی اپنے ساتھ لے آئیں ۔چونکہ ان کے لئے ریل کا سفر قابل برداشت نہ تھا، اس لئے وہ انہیں دہلی سے ہوائی جہاز میں لیکر آئے۔ وہ ہم سب گھروالوں کی خوشی کا ناقابل فراموش دن تھا جب ہم اُن کے استقبال کے لئے ڈرگ روڈکے ہوائی اڈے روانہ ہوئے۔ ڈرگ روڈ کا ہوائی اڈہ اُس وقت شہر سے بہت دور سمجھا جاتا تھا ، اور بیچ میں جنگل حائل تھے ۔اُس وقت اورینٹ ائیر ویز کے نام سے ایک ہی ائیر لائن پاکستان اور ہندو ستان کے درمیان چلا کرتی تھی ۔اُس کا ڈکوٹا طیار ہ رن وے پر آکر رُکا، تو میرے لئے کسی جہاز کو اتنے قریب سے دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ہم سب کی نگاہیں اُس کے دروازے پر مرکوز تھیں، تھوڑی دیر بعد بھائی جان دروازے سے نمودار ہوئے، اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ ہلاکر دوبارہ اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر میں وہ باہر آئے تو اُنہوں نے ہماری دادی صاحبہ کو اپنے بازوؤں میں اُٹھایا ہوا تھا ۔ اور اس طرح حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کی ایک بڑی پریشانی رفع ہوئی۔
بھائی جان اپنے ساتھ جتنی کتابیں ہوائی جہاز میں لاسکتے تھے ،وہ تو لے آئے تھے، لیکن سارا ذخیرہ پانی کے جہاز ہی سے آسکتا تھا۔ اﷲتعالیٰ نے اس کی یہ صورت پیدا فرمائی کہ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کے ایک خصوصی شاگردحضرت مولانا نوراحمد صاحب (رحمۃ اﷲعلیہ) جو برما کے ضلع اکیاب سے تعلق رکھتے تھے ، تعلیم کی غرض سے دارالعلوم دیوبندتشریف لائے تھے ،ان کا حضرت والد صاحب، رحمۃ اللہ علیہ، سے خصوصی تعلق تھا ۔حضرت والد صاحب، رحمۃ اللہ علیہ، نے چونکہ پاکستان کی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی تھی ، اور انہیں دارالعلوم میں رہتے ہوئے کسی سیاسی جدو جہد میں شریک ہونا منظور نہیں تھا ، اس لئے وہ اپنے شیخ حضرت حکیم الامت تھانوی، قدس سرہ ،کے ایماء پردارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہو چکے تھے ۔حضرت مولانا نور احمد صاحب ؒ کو چونکہ حضرت والد صاحب ؒ سے خصوصی تعلق تھا ، اس لئے وہ غالباً خارجی اوقات میں حضرت والد صاحبؒ سے کچھ کتابیں بھی پڑھتے تھے ، اور بکثرت اُن کی خدمت اور صحبت میں رہا کرتے تھے ۔وہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے پاکستان چلے جانے سے بہت مغموم تھے ، اور خود بھی پاکستان آنا چاہتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں مہم جوئی اور محنت ومشقت کے کام نہایت پھرتی سے کرنے کا بڑا ذوق عطا فرمایا تھا ۔اُنہوں نے یہ کام اپنے ذمے لیا کہ وہ یہ کتابیں پانی کے جہاز سے پاکستان لے کر آئیں،چنانچہ ایسا ہی ہوا ، اوران کے ذریعے یہ کتب خانہ کراچی منتقل ہوگیا، اُن کے ساتھ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے اپنے بھانجے جناب فخرعالم صاحب (مرحوم)کوبھی جہاز سے بلوالیا جو والدین کی وفات کے بعد ہماری دادی صاحبہ مرحومہ کے زیر پرورش تھے ، مگر ان کے پاکستان آنے کی وجہ سے دیوبند میں اپنی خالہ کے پاس رہ گئے تھے،اور ان کی جدائی کی وجہ سے ہماری دادی صاحبہ بہت بے چین تھیں۔حضرت والد صاحب، رحمۃ اللہ علیہ، نے مناسب سمجھا کہ حضرت مولانا نوراحمد صاحب، رحمۃ اللہ علیہ، کے ساتھ انہیں بھی بلوالیں ۔ چنانچہ وہ بھی بحری جہاز سے ان کے ساتھ آگئے ۔
میری تعلیم کا آغاز
حضر ت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہ، کا کراچی میں اپنا گھر تو کوئی نہیں تھا ، لیکن جمشید روڈ کی عامل کالونی میں مسلم لیگ کے ایک لیڈر ایس ایم قریشی صاحب مرحوم کا ایک بنگلہ تھا جس کے بارے میں انہوں نے فرمائش کی تھی کہ حضرتؒ اس میں قیام فرمائیں ۔چنانچہ حضر تؒ اُسی میں مقیم تھے ، اور حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کراچی آنے کے بعدنوزائیدہ ملک کے مسائل پرمشوروں کیلئے بکثرت اُن کے گھر جایا کرتے تھے ، اورحضرتؒ کی دعاؤں کیلئے اکثرمجھے بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میں قاعدۂ بغدادی ایک خوبصورت سے جُزدان میں رکھ کر حضرتؒ کے سامنے بیٹھا تھا، اور غالب گمان یہ ہے کہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، اُس وقت مجھے حضرتؒ سے بسم اﷲکرانے کیلئے لیگئے تھے۔
ادھرحضرت مولانا احتشام الحق صاحب ،رحمۃاﷲعلیہ ،نے جیکب لائن میں ایک مسجد بنالی تھی جس کی چھت اُس وقت ٹین کی چادروں کی تھی ، اور اُسی کے ساتھ اُن کا مکان بھی تھا ۔ اس مسجد میں اُنہوں نے ایک چھوٹا سا مدرسہ بھی قائم کرلیا تھا جس میں قرآن کریم حفظ وناظرہ کی تعلیم ہوتی تھی ۔ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے میرے بڑے بھائیوں کو تو اُس مدرسے میں داخل کردیا تھا جہاں برادر محترم جناب محمد ولی رازی صاحب قاری محمد زکریا صاحب ؒ کے پاس اور حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب عثمانی جناب حافظ نذیر احمد صاحب ؒ کے پاس حفظ کرتے تھے ۔ میری کمسنی کی وجہ سے حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے مجھے اُس وقت وہاں باقاعدہ داخل کرنے کے بجائے گھر پر ہی حضرت مولانا نوراحمد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، سے قاعدہ بغدادی پڑھوانا شروع کردیا تھا ۔
ابھی قاعدہ ختم نہیں ہوا تھا ، بلکہ اُس کا خاصا حصہ باقی تھا کہ دیوبند سے ایک خط کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ میری ایک بھانجی نے (جو مجھ سے ایک سال عمر میں بڑی تھیں) الف لام میم کا پارہ شروع کردیا ہے ، میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ حضرت مولانا نوراحمد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، مشکل سے مشکل کام کو تیز رفتاری سے انجام دینے کے عادی تھے ۔جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میری تقریباً ہم عمر بھانجی نے دیوبند میں الف لام میم کا پارہ شروع کردیا ہے ، تو اُنہوں نے فرمایا کہ تم قاعدہ کافی پڑھ چکے ہو، اب تمہیں عم کا پارہ شروع کروادیتے ہیں ، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ قاعدہ ختم کرنے سے پہلے ہی میں نے عم کا پارہ شروع کردیا ۔حضرت مولانا نور احمد صاحب،رحمۃ اﷲعلیہ، اس طرح مجھے ناظرہ قرآن کریم پڑھاتے رہے، یہاں تک کہ میرے سات پارے مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر اُنہوں نے فرمایا کہ اب تمہیں لفظوں کی پہچان ہوگئی ہے، اس لئے باقی قرآن کریم تم خودروزانہ پڑھ لیا کرو، اور اُس کے بعد اُنہوں نے مجھے بہشتی زیور کے اردو قاعدے سے سرسری گذارکر” بہشتی گوہر” شروع کرادیا ۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے "بہشتی گوہر” شروع کیا تو اُس کا پہلا جملہ یہ تھا کہ” یہ عالم شروع میں ناپید تھا” اس میں” ناپید” کا مطلب سمجھنے میں مجھے کافی دشواری پیش آئی ،اور میں اُس کا مطلب سمجھنے کے لئے اپنے استاذ سے کافی جرح کرتا رہا۔ بہر کیف! ابھی اس کے کچھ ہی سبق ہوئے تھے کہ حضرت مولانا احتشام الحق صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ،نے اپنے مدرسے میں کتابوں کی تعلیم بھی شروع کروادی ،اور رفتہ رفتہ یہاں باقاعدہ درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا ،جہاں حضرت مولانا بدر عالم صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، جیسے اکابر نے بھی درس دیا، اور شاید کچھ عرصہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے بھی، اور حضرت مولانا نور احمد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، وہاں تعلیم دینے میں مصروف ہوگئے، اس لئے میں نے” بہشتی گوہر” اور” سیر ت خاتم الانبیاء” کے کچھ حصے اپنی والدہ ماجدہ ، رحمۃ اﷲعلیہا، سے پڑھنے شروع کردئیے اور اب یاد نہیں کہ کتنا حصہ کس سے پڑھا، اوریہی میری اردوزبان کی تعلیم کی کل کائنات تھی ۔ان دو کتابوں کے علاوہ میں نے اردو سیکھنے کیلئے کوئی اور کتاب نہیں پڑھی۔
دوسری طرف میں روزانہ قرآن شریف اپنے طورپر پڑھتا رہتا تھا ۔ میں قرآن شریف کو تکیہ پر رکھ کر چارپائی پر بیٹھتا ،ا ور روزانہ اُس کا کچھ حصہ پڑھ لیتا تھا ، اور کبھی کبھی اپنی والدہ صاحبہ ؒ یا گھر کے کسی اور فرد کوسنا بھی دیتا تھا،یہاں تک کہ اسی طرح خود پڑھ پڑھ کر ایک صبح الحمد ﷲناظرہ قرآن کریم کی تکمیل ہوگئی۔
میں دیکھتا تھا کہ جب بچوں کا قرآن کریم ناظرہ یا حفظ مکمل ہوتا، توعموماً اُس کیلئے باقاعدہ تقریب منعقد ہوتی تھی ، جسے” آمین” کی تقریب کہا جاتا تھا ، اور بسااوقات مٹھائی تقسیم کرکے خوشیاں منائی جاتی تھیں ، لیکن میں نے قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم اس طرح مکمل کی کہ جس دن میری یہ "خودکار”پڑھائی مکمل ہوئی، اُس دن کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ آج میرا قرآن کریم ختم ہورہا ہے ۔مجھے اپنے دل کی یہ حسرت اب تک یاد ہے کہ میں نے اکیلے کمرے میں آخری آیات پڑھ کرقرآن شریف بند کردیا ، نہ کوئی دیکھنے والا تھا ، نہ سننے والا، نہ کوئی تقریب تھی، نہ کوئی اجتماع ۔
آخرکار میں نے حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کو بتایاکہ آج میرا قرآن کریم پورا ہوگیا ہے، تو وہ بہت خوش ہوئے ،اور انہوں نے مجھے انعام دینے کے لئے میرے دوبڑے بھائیوں (مولانا محمدولی رازی اور حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہما)کوبازار بھیجا ۔ میں اپنے گھر کی بالکنی میں کھڑا اُن کی واپسی کا شدت سے انتظار کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ دُورسے مجھے آتے نظرآئے ، تو اُن کے ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کی کھلونے والی گاڑی تھی جس سے وہ خود بھی راستے میں محظوظ ہوتے آرہے تھے۔ اُسے پاکر میری خوشی کا کچھ ٹھکانا نہیں تھا ۔ وہ ایک معمولی سی مگر خوبصورت گاڑی تھی (اُس وقت تک شاید خودکار گاڑیاں نہیں چلی تھیں) لیکن وہ میرے لئے کائنات کی بڑی دولت تھی ۔اب احساس ہوتا ہے کہ انسان اپنی فانی زندگی کے ہر مرحلے میں جن چیزوں سے دل لگاتا آیا ہے، اگلے مرحلے میں اُس پر ہنسی آتی ہے ، یہاں تک کہ ایک وقت وہ آنے والا ہے جب یہ ساری زمین، جائیداد اور روپے پیسے کے ڈھیر کھلونوں سے زیادہ بے حقیقت معلوم ہونگے :
بد نامئی حیات دو روزے نہ بود بیش
آں ہم بتو کلیم چہ گویم چساں گذشت
یک روز وقف ِبستنِ دل شود بہ این وآں
روز دگر بہ کَندنِ دل زین وآں گذشت
بہر حال! اس طرح میری تعلیم کا آغاز ہوا ۔
٭٭٭
جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

</section