یادیں (پہلی قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(پہلی قسط )

اپنے آپ کو مسلک کے اعتبار سے دیوبندی کہتے اور لکھتے ہوئے تو مجھے اس لئے تأمل ہوتا ہے کہ اس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے ،اوربعض لوگ دیوبندی مسلک کے لفظ سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ دیوبندی کوئی مذہبی فرقہ ہے جس نے امت کی اکثریت سے ہٹ کر کوئی الگ راستہ نکالا ہے حالانکہ دارالعلوم دیوبند کے مکتب فکرسے وابستہ علماء اپنے اعتقاد اور عمل میں قرآن کریم اور سنت نبوی علی صاحبہا السلام کی ٹھیک اُسی معتدل تعبیر کے قائل ہیں جو چودہ سوسال سے امت میں متوارث چلی آتی ہے ،انہوں نے کسی نئے فرقے کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ جمہور امت جن عقائدکے قائل اور جن اعمال پر کاربند چلے آتے تھے علماء دیوبند ٹھیک انہی عقائدواعمال کے پابند ہیں، البتہ اگر کبھی اُن پر کوئی گردوغبار آتا دیکھا، تو اُسے حکمت اور استقامت سے ہٹانے کی کوشش انہوں نے ضرور کی ہے ،جس کے نتیجے میں بعض ان سے عناد رکھنے والوں نے یہ تأثر دیاہے کہ وہ ایک الگ فرقہ ہیں۔ اس موضوع پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج ” بہترین کتاب ہے ، اور اس کے مقدمے میں میں نے اس پہلو کو مزید واضح کیا ہے لیکن اس وقت کہنا یہ تھا کہ حضرات علماء دیوبند کو دینی معاملات میں اپنا آئیڈیل سمجھنے کے باوجود مجھے یہ کہنے میں تو تأمل ہوتا ہے کہ میں مسلک کے اعتبار سے "دیوبندی” ہوںکیونکہ اس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے ،لیکن میں پیدائشی طورپر دیوبندی ضرور ہوں اور مجھے اﷲتبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ سعادت ضرور حاصل ہے کہ میری پیدائش اُس قصبے میں ہوئی جہاں دارالعلوم دیوبند نے علم وفضل ،عزیمت واستقامت اور عظمتِ کردار کے وہ پہاڑ پیداکئے جن کی نظیریں اس آخری دور میں ملنی مشکل ہیں۔
دیوبند میں ہمارے آباء واجداد "میاں جی” کے لقب سے مشہور تھے۔ "میاں جی” اس دور میں ایک لقب تھا جس کے بارے میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ :
"ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قصبات و دیہات میں پھیلے ہوئے عام مکا تب جن میں قرآن کریم کی تعلیم کے بعداردو، فارسی، حساب ریاضی کی تعلیم کا عام رواج تھا جو آجکل مڈل اسکول کی تعلیم سے زیادہ معیاری تعلیم تھی ، اس کے اساتذہ "میاں جی” کے لقب سے مشہور ہوتے تھے جو دینی تعلیم کے ساتھ عملی تقدس کے حامل ہوں ، جیسے حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی ؒ کے شیخ میاں جی نور محمد صاحب (رحمۃ اللہ تعالی علیہما)بھی لوہاری میں معروف ہوئے ،اور میاں جی منے شاہ صاحبؒ دیوبند میں صاحب کشف وکرامات بزرگ ہوئے ہیں” ۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
"مجھے اپنے خاندان کا کوئی موثق اور باسند نسب نامہ ہاتھ نہیں آیا ، مگر شریعت نے ان معاملات میں سند متصل ہونے کی شرط نہیں رکھی ، بلکہ بڑے بوڑھوں کی زبان پر عام شہرت کو کافی سمجھا ہے۔میں نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے بتواتر یہ بات سنی ہے کہ ہمارا خاندان حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہے”(۱)۔
میری پیدائش ۵؍ شوال ۱۳۴۲؁ھ کو ہوئی۔ اپنی پیدائش کی یہی تاریخ حضرت والد ماجد رحمۃ اﷲ علیہ کی بیاض میں لکھی ہوئی دیکھی تھی۔چونکہ اُس ماحول میں تاریخوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ہجری سالوں اور مہینوں ہی کا حساب رکھا جاتا تھا اس لئے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کے ساتھ شمسی تاریخ نہیں لکھی تھی لیکن بعد میں مختلف تقویموں کے ذریعے حساب لگانے سے معلوم ہوا کہ وہ اکتوبر ۱۹۴۳؁ ء کی تیسری تاریخ تھی ۔اور یہ واقعہ بھی میں نے اپنی والدہ ماجدہ اور اپنے بہن بھائیوں سے سنا کہ جس دن میں پیدا ہوا،اُسی دن جس بستر پرمجھے لٹایا گیا تھا، اُس پر چھت سے ایک سانپ آکر گرگیا تھا ، اور اگر اُسے کسی طرح بستر ٍسے ہٹاکر مار نہ دیا گیا ہوتا ،تو شاید یہ دنیا میری برائیوں سے محفوظ ہوجاتی۔
بہرحال!مجھے اپنی عمر کے صرف چارسال سات مہینے (اکتوبر ۱۹۴۳؁ء سے مئی ۱۹۴۸؁ء تک) دیوبندکے قصبے میں گذارنے کا موقع ملا اور وہاں بچپن کا صرف وہ وقت میں نے گذارا جس میں بچے کو اپنے کھیل کود کی دنیا سے باہر کسی چیز کا شعور نہیں ہوتا اور بعدمیں جب بڑا ہوجاتا ہے ، تو اس دور کی باتیں بھول بیٹھتا ہے ۔لیکن مجھے اس بچپن کے دیوبند کی بہت سی باتیں اس طرح یاد ہیں جیسے میں آج انہیں دیکھ رہا ہوں۔
یہ وہ وقت تھا جب دیوبند کے گھروں میں نہ بجلی تھی ، نہ پنکھا،نہ بہتے ہوئے پانی کے نل ، نہ تیل نہ گیس کے چولھے۔بجلی کے قمقموں کی جگہ یا تو موم بتی کے چراغ تھے ، یا لالٹینیں ۔نلوں کی جگہ پانی کا ذخیرہ مٹی کے مٹکوں یا پیتل کے گھڑوں میں رکھا جاتا تھا ، جنہیں بھر نے کے لئے اکثر کسی ماشکی کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جو چمڑے کی بڑی سی مشک کمر پر لادکر گھر گھر پانی پہنچایا کرتا تھا ۔کوئی فیشن ایبل اور خوشحال علاقہ ہوتا ، تو اس میں بورنگ کرکے ایک مشترک لوہے کا نلکا لگا دیا جاتا تھا جس کے ہینڈل کو زور زور سے اوپر نیچے کرکے کسی بالٹی یا لوٹے میں پانی بھر اجا سکتا تھا ۔ پانی مہیا کرنے کے علاوہ اس کا ایک فائدہ یہ تھا کہ ہاتھوں کی ، بلکہ پورے جسم کی ورزش ہوجایا کرتی تھی ۔چونکہ میری عمر ایسی ورزش کی متحمل نہیں تھی، اس لئے دوسروں کو اس کے ہینڈل سے جھولتے ہوئے دیکھ کر ہی خوش ہولیتا تھا۔گھروں میں پینے کے لئے صراحیاںہوتی تھیں ، جو لُو کے تھپیڑے کھاکر خوب ٹھنڈی ہوجایا کرتی تھیں ۔بجلی کے پنکھوں کی جگہ ہاتھ کے پنکھے ہوتے تھے، جو آج بھی جب بجلی چلی جاتی ہے، تو بے طرح یاد آتے ہیں۔
مئی جون کے موسم میں جب گرمی کی تپش درودیوار سے پھوٹتی ، تو لکھوری اینٹوں سے بنے ہوئے صحن میں کوئی سقّاء (جسے بہشتی اور ماشکی بھی کہا جاتا تھا )اپنی مشک سے فرش پرپانی کاچھڑکاؤ کرجاتاتھا اور جب فضا میں رُکی ہوئی ہوا کو ہاتھ کے پنکھوں سے منہ کی طرف درآمد کیا جاتا،توگیلے فرش سے سوندھی سوندھی خوشبو اٹھا کرتی تھی اور اُس سے ممکنہ ٹھنڈک حاصل کرنے کا کام بھی نکل جاتا تھا۔اسی موسم میں جب میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ ایک بانوں سے بنی ہوئی چارپائی پر صحن میں لیٹتا تومیرے اورتاروں بھرے آسمان کے درمیان گیس ، پٹرول اورڈیزل کا کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا تھا اور نہ فضا میں پھیلی ہوئی کسی روشنی سے کوئی چھوٹے سے چھوٹاستارا ماند پڑتاتھا۔جگمگ کرتے ستاروں کے درمیان کہکشاں کے جال اور اُس سے پھوٹتی ہوئی سفیدی کومیں دیر تک تکتا رہتا اورہم بچے یہ سمجھتے تھے کہ یہ آسمانی سڑک ہے جو اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کیلئے بنائی ہے۔اسی آسمانی سڑک پر فرشتوں کی آمدورفت کا تصور کرتے کرتے مجھے نیند آجاتی تھی۔
دل چاہ رہا ہے کہ اپنی ان یادوںکو بچپن کے اُس دور کے کچھ متفرق واقعات سے شروع کروں،لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ میں اُس وقت کے اپنے گھر کے افراد کا مختصر تذکرہ کردوں:
مجھے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کا تعارف کرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ میری پہچان اُن کے واسطے سے ہوتی ہے نہ کہ اُن کی پہچان میرے واسطے سے(۱)، میں جوکچھ بھی ہوں، انہی کی نسبت سے ہوں ۔اگر کوئی اچھائی اللہ کی توفیق سے ملی ہے ، تو انہی کے واسطے اور فیض سے ، اور اگر کوئی برائی آئی ہے ، تو وہ ان کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے ہے، غرض جو کچھ ہوں ، انہی کا ہوں :
اگر سیا ہ دلم، داغ لالہ زارِ تو ام
وگر کشادہ جبینم، گلِ بہارِ توام
لہٰذا میری اس سرگزشت میں ان کا تذکرہ ان شاء اللہ تعالیٰ بار بار آئے گا۔
میں نے جب سے آنکھ کھولی حضرت والد ماجد رحمۃ اﷲعلیہ کو دو کاموں میں مشغول دیکھا ۔ وہ اُس وقت اگرچہ دارالعلوم دیوبند کے مفتیٔ اعظم کے عہدے اور تدریس سے مستعفی ہوچکے تھے لیکن ایک تو بہت سے طالب علم جو خاص طورپر انہی سے شاگردی کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے اُن سے خصوصی درخواست کرکے اُن سے ہمارے گھرپر آکر پڑھا کرتے تھے ۔یہ وہ چیز تھی جسے آج کوچنگ یا ٹیوشن کہا جاتا ہے ، لیکن بڑا فرق یہ ہے کہ آج کوچنگ اور ٹیوشن، پڑھانے والوں کے لئے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہوتے ہیں ، لیکن دینی مدارس میں استاذ شاگرد کا رشتہ ایسا بے لوث ہوتا ہے کہ جس طالب علم کے لئے باقاعدہ درس گاہ میں پڑھنا کافی نہ ہوتا ہو، اسے استاذ الگ سے پڑھانے میں نہ صرف یہ کہ بخل سے کام نہیں لیتے، بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ شاگرد کا حق ادا کرتے ہیں ، اور اس پر طالب علم سے کوئی معاوضہ وصول کرنا مدارس کے ماحول میں نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے ، چاہے استاذ کی معاشی حالت کیسی ہی کمزورہو۔ چنانچہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسی جذبے کے ساتھ ان طلبہ کو ہمارے گھر یا مسجد میں پڑھایا کرتے تھے ۔
ہمارے محلے کی مسجد کانام توآدینی مسجد” تھا (۱) لیکن لوگ اُسے عام بول چال میں دینی مسجد کہتے تھے۔شروع میں ہمارے دادا حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُس کے متولی تھے(۲)، بعدمیں حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ اُس کے متولی بنے اوربعض اوقات اُس میں بھی درس دیا کرتے تھے ۔
دوسرے جب وہ گھر میں ہوتے ، تو اکثر اوقات اُنہیں کچھ نہ کچھ لکھتے ہوئے ہی پایا۔یہاں تک کہ رات کو بھی گرمیوں میں جب ہمارے گھر کے صحن میں روشنی کیلئے سہ دری کے ایک دروازے میں ایک لالٹین لٹکا دی جاتی تھی حضرت والد صاحبؒ اُسی لالٹین کی روشنی میں اکثر وبیشتر لکڑی کے قلم کو( جسے اُس وقت کِلک کا قلم کہا جاتا تھا)دوات میں ڈبو ڈبو کر کچھ نہ کچھ لکھتے نظر آتے تھے ، کیونکہ فاؤنٹین پین کا رواج نہیں ہواتھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی بیٹھک کے ساتھ ایک چھوٹاسا کمرہ بنایا ہوا تھا جسے ہم حجرہ کہتے تھے ۔ وہ ان کی عبادت گاہ تھی ، جہاں سے ان کی تلاوت اورذکر کی آواز آیا کرتی تھی۔
مجھے بچپن کے اُس دور میں حضرت والد ماجد ؒ کے علمی اور عملی کمالات کا اندازہ تو کیا ہوتا؟ (صحیح معنی میں تو وہ اب بھی نہیں ہے،)لیکن اتنا ضرور تھا کہ اپنی چھوٹی سی کائنات میں وہی محبت وعقیدت کا سب سے بڑا مرکز تھے ۔اور وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ۔میرے تقریباً تمام بڑے بھائیوں نے ان کی محبت کے ساتھ اُن کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار کا بھی مزہ چکھا تھا لیکن میرے حصے میں اُن کا صرف پیار ہی پیارآیا تھا۔ایک مرتبہ میں(تقریباً بارہ سال کی عمر میں )اپنی والدہ مرحومہ کے ساتھ اپنے بڑے بھائی کے یہاں لاہور چلا گیا تھا۔ اُس وقت انہوں نے بھائی جان کے نام اپنے خط میں لکھا تھا :
"محمد تقی سلمہ کے بغیرمجھے بھی دن کاٹنے مشکل ہورہے ہیں۔”
دیوبند کے زمانے میں اُن کا صرف ایک مرتبہ مدراس کا سفر مجھے یاد ہے جس میں ان کی جدائی میرے لئے انتہائی صبرآزما تھی اور اُس پر طرّہ یہ ہوا کہ جب وہ سفر سے واپس تشریف لائے ،تو میں نے ضدکرکے اپنے بھائیوں کو اس پر آمادہ کرلیا تھا کہ اُن کے استقبال کیلئے میں بھی اُن کے ساتھ ریلوے اسٹیشن جاؤں گا۔اس میں سب سے بڑا شوق تو حضرت والد صاحبؒ کے استقبال کا تھا لیکن اسٹیشن جانے میں دو مزے اور بھی تھے۔ ایک یہ کہ اسٹیشن جانے کیلئے تانگے (گھوڑا گاڑی)کی سواری لازمی تھی۔محلّے میں ایک ہندو تانگے والا پھگو کے نام سے مشہور تھا – ایسے مواقع پر اُس کی خدمات حاصل کرنے کیلئے تانگے کی پہلے سے بکنگ کرالی جاتی تھی، جو اُس موقع پر کرالی گئی تھی، اس تانگے کی سواری کا موقع ہمیں بہت کم ملتا تھا کیونکہ قریب کے فاصلے پیدل اور درمیانی قسم کے فاصلے اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ ڈولی (پالکی)میں طے ہوجایا کرتے تھے ۔اتنی دور جانا شاذ ونادر ہو تا تھا جس کیلئے تانگے کی ضرورت ہو۔ لہذا اسٹیشن جانے میں اس شاہانہ سواری کامزہ بھی آنا تھا جس کا تصور بڑا دلفریب تھا۔دوسرے ریلوے اسٹیشن ہمارے لئے بذاتِ خود ایک اعلیٰ درجے کی تفریح گاہ سے کم نہ تھاجس سے لطف اندوز ہونے کے مواقع خال خال ہی میسر آتے تھے۔ لہذا یہ ہمارے لئے کئی لحاظ سے ایک انتہائی پر لطف اور پر مسرت موقع تھا ۔
لیکن عین وقت پر نہ جانے کس طرح میرا ہاتھ جل گیا اور اُس کی وجہ سے علاج معالجے کیلئے مجھے گھر ہی میں روک لیا گیااور میں اسٹیشن جانے سے محروم رہا ۔یہ محرومی میرے لئے کئی محرومیوں کا مجموعہ تھی اس لئے اُس کی حسرت آج بھی یاد ہے ۔لیکن اُس کے بعد یہ پُر لطف منظر بھی بھلائے نہیں بھولتا کہ جونہی حضرت والد صاحبؒ گھر میں داخل ہوئے اُنہوں نے کسی اور طرف متوجہ ہونے کے بجائے سب سے پہلے مجھے پکارا اور آگے بڑھکر گود میں اُٹھالیا ۔لالٹین کی روشنی میں اُن کی سیاہ گھنی داڑھی اور اُنکا خوشی اور محبت سے کِھلا ہوا چہرہ اِس وقت بھی میرے تصور کی نگاہوں میں اس طرح سامنے ہے جیسے میں ابھی ان کو دیکھ رہا ہوں۔
جاری ہے ……

٭٭٭٭٭٭٭٭٭