یادیں (پانچویں قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(پانچویں قسط )

پاکستان کی طرف ہجرت

اسی دوران گھر میں یہ چرچا بار بار سننے میں آتا تھا کہ ہمیں پاکستان جانا چاہئے یا نہیں ۔حضرت والد ماجد رحمۃ اﷲعلیہ نے اپنے شیخ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒاوراپنے استاذ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہما ،کے ایماء پر تحریک قیام پاکستان میں نمایاں حصہ لیا تھا ۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی، رحمۃ اﷲعلیہ، پاکستان تشریف لے جاچکے تھے، اورپاکستان کے قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے پاکستان کا جھنڈا سب سے پہلے لہرانے کی انہی سے درخواست کی تھی۔پاکستان بننے کے بعدحضرت شیخ الاسلام، رحمۃ اﷲعلیہ، کی پہلی جدوجہد یہ تھی کہ ملک کے لئے ایک اسلامی دستور تیار کیا جائے چنانچہ اس غرض کے لئے انہوں نے جناح صاحب مرحوم اور اُس وقت کے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب مرحوم کو آمادہ کیا کہ وہ دستور کی اسلامی بنیادیں طے کرنے کیلئے اُس وقت کے بڑے علماء سے مدد لیں ، اور ابتدائی طورپر اس کے لئے میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی اور جناب ڈاکٹر حمیداﷲصاحب ،رحمۃ اﷲعلیہم، کاانتخاب کیا گیا ،اور ان حضرات کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی کہ وہ تین مہینے میں دستور کی اسلامی بنیادیں ایک رپورٹ کی شکل میں مرتب فرمائیں۔
حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ ،کے لئے مستقل طورپر دیوبند چھوڑکر پاکستان جانا بہت سے مسائل کی وجہ سے نہایت مشکل تھا۔اول تودیوبند میں اُن کے مشاغل مختلف نوعیتوں کے تھے جنہیں چھوڑنا آسان نہیں تھا،دوسرے ہماری دادی صاحبہ، رحمۃ اﷲعلیہا، انہی کے ساتھ رہتی تھیں ۔اُنہیں دیوبند میں تنہا چھوڑنا بھی مشکل تھا ، اور ساتھ لے جانا بھی مشکل،کیونکہ وہ بہت عمررسیدہ تھیں ، اور امن وامان کے لحاظ سے یہ وقت بڑا مخدوش تھا،نیز دوشادی شدہ بیٹیاں ایسی تھیں کہ اُنہیں ساتھ لے جانا اس وقت ممکن نہیں تھا، اور اُس دور میں اولاد کے کسی دوسرے ملک میں رہنے کا تصور بڑا تکلیف دہ ہوتا تھا ۔تیسرے دارالعلوم سے مستعفی ہونے کے بعد گھریلو اخراجات کیلئے آمدنی کا واحد ذریعہ تجارتی کتب خانہ دارالاشاعت تھا، اور اُسے اُن فسادزدہ حالات میں پاکستان منتقل کرنا کارے دارد ۔چوتھے اُس وقت ملک کے مختلف حصوں میں ہندؤوں اور سکھوں کی طرف سے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا، اور پاکستان جانے والے مہاجرین کو قدم قدم پر آگ اور خون کی ندیاں عبور کرنی پڑتی تھیں۔پانچویں پاکستان میں آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا ۔اس لئے کافی دن خاندان میں یہ مسئلہ زیر بحث رہا کہ پاکستان جانا مناسب ہے یانہیں؟ حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی ،رحمۃ اﷲعلیہ، جو پاکستان بننے سے پہلے دہلی سیکریٹریٹ کی مسجد میں خطیب تھے، حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اﷲعلیہ کے تقریباً ساتھ ساتھ پاکستان چلے گئے تھے ۔علامہ عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہ ،نے اُن کو، حضرت والد صاحب ؒ کو دعوت دینے کیلئے دیوبند بھیجا ۔ خاندان کے بہت سے رشتہ دار وں کی رائے مذکورہ بالا حالات کی وجہ سے اس کے خلاف تھی، لیکن حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ جس پاکستان کے بنانے میں اپنی جدوجہد ابتک صرف کی ہے ، اُس کی صحیح بنیادوں پر تعمیر وترقی کے اہم کام میں بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری ہے ۔
یہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ ،کا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اﷲتعالیٰ نے اُنہیں غیر معمولی حوصلہ عطا فرمایا تھا ، اس لئے انہوں نے تمام مسائل کو نظر اندازفرماکر اپنے گھر والوں سے فرما دیا کہ وہ ہجر ت کی تیاری کریں۔ مجھے اپنے بچپن کی وجہ سے مسائل کا تو کچھ علم نہیں تھا ، لیکن میں گھر کی مجموعی فضاپر خوشی اور غم کے ملے جُلے جذبات کااندازہ کرسکتاتھا ،حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے ابتک اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے جدّی مکان کے ایک چھوٹے سے کمرے میں گذاراتھا، اور اب چند سال پہلے ہی اُنہوں نے وہ مکان بڑے شوق وذوق سے تعمیر کروایا تھا جس میں وہ اب مقیم تھے ۔دوسری طرف اُنہیں باغبانی کا بھی شوق تھا، جس کے لئے انہوں نے جی ٹی روڈ کے قریب ایک باغ لگایاتھا، اور جب کبھی اُنہیں اپنی علمی مشغولیات سے کچھ فرصت ملتی، وہ عموماً عصرکے بعد اس باغ میں تشریف لے جاتے۔ کئی مرتبہ میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔اس باغ میں انہوں نے خاص طورپر آم کے پودے لگائے ہوئے تھے، اور اُس سال اُن پر پہلا پھل آرہا تھا۔وہاں اُنہوں نے ایک کمرہ بھی بنوادیا تھا جہاں کبھی کبھی تمام گھر والے جمع ہوکر باغ کی شاداب فضا سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ان تمام چیزوں کو ایک دم سے چھوڑ کر چلے جانا یقیناً بہت صبر آزما تھا ،کیونکہ یہ یقین تھا کہ چھوڑکر جانے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ساری جائیدادیں حکومت کی تحویل میں چلی جائیں۔ لیکن حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ ،نے جب چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ، تو فرمایا کرتے تھے کہ” جس دن میں نے گھر اور باغ سے قدم نکالا، یہ ساری جائیدادیں میرے دل سے نکل گئیں”۔ حقیقت یہ ہے کہ زہد کی یہ تفسیر جو بعد میں کتابوں میں پڑھی ، اور بزرگوں سے سُنی کہ انسان دنیا کے مال ودولت سے دل نہ لگائے، اور مال ہو، مگر اُس کی محبت دل میں بسی ہوئی نہ ہو،اُس کا جیتا جاگتانمونہ ہم نے اپنے والد ماجد کی زندگی میں ہر مرحلے پر دیکھا ۔ رحمہ اﷲتعالی رحمۃً واسعۃ۔
والد صاحب ؒ نے اُس وقت یہ طے فرمایا تھا کہ اُن کی صرف غیر شادی شدہ اولاد اُن کے ساتھ جائے گی اور شادی شدہ اولاد فی الحال دیوبند ہی میں رہے گی ۔ ہماری دو بڑی شادی شدہ بہنوں اور بھائی جان یعنی جناب محمد زکی کیفی، رحمۃ اﷲعلیہ، کو اس قرارداد کے مطابق دیوبند ہی میں رہنا تھا۔چنانچہ اسی قرار داد کے مطابق تیاری شروع کردی گئی ، اور آخرکار یکم مئی ۱۹۴۸ ؁ ء کا وہ دن آگیا جس کی رات کو دیوبند سے روانہ ہونا تھا ۔مجھے یہ یاد ہے کہ اُس دن دوپہر کے وقت خاندان کی بہت سی خواتین ہمارے گھر کی بیٹھک میں جمع تھیں ،اور ہماری دو بہنیں جو ساتھ جانے والی تھیں، اور جن کے بارے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ وہ شعر بھی کہا کرتی تھیں، انہوں نے اس موقع پر وطن سے خطاب کرتے ہوئے ایک نظم کہی تھی ۔اس نظم کے یہ دو مصرعے مجھے اُسی وقت سے یادہیں:
سلام تجھ پہ کہ اب دور جارہے ہیں ہم
لے آج آخری آنسو بہا رہے ہیں ہم

میری وہ بہنیں سب خواتین کو وہ اپنی نظم سُنارہی تھیں ، اور سب کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔
اُسی رات کو ہم دیوبند کے اسٹیشن سے ریل میں سوار ہوئے ، اور پہلی منزل دہلی تھی جہاں پروگرام کے مطابق ہمیں ایک دن قیام کرنا تھا۔ دہلی سیکریٹریٹ میں ایک افسر حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ،کے استقبال کیلئے دہلی اسٹیشن آئے ہوئے تھے ، اور اُنہی کے گھر پر قیام ہونا تھا ۔ وہ ایک سیاہ رنگ کی آسٹن کار لے کر آئے تھے ۔جہاں تک یاد ہے ،میرے لئے کسی کار کو دیکھنے اور اُس میں سوار ہونے کا یہ پہلا موقع تھا اور مجھے اس اعزاز کی خوشی ابتک اس طرح یاد ہے کہ کار میں پھیلی ہوئی خوشبو ابتک میری یاد میں بسی ہوئی ہے ۔
ایک دن دہلی میں کس طرح گذرا؟ مجھے اب یاد نہیں، لیکن یہ یاد ہے کہ اگلے دن ہم دہلی کے ریلوے اسٹیشن کے اُس پلیٹ فارم سے ریل میں دوبارہ سوار ہوئے جو مرکزی پلیٹ فارم سے الگ تھا (کیونکہ یہ اُس چھوٹی لائن پر چلنے والی گاڑیوں کا پلیٹ فارم تھا جو راجستھان کی طرف جاتی تھیں)ہمارے بڑے بھائی جان کے بارے میں اگر چہ یہ طے ہوا تھا کہ وہ ابھی پاکستان نہیں جائیں گے، لیکن وہ ہمیں پہنچانے کے لئے دہلی تک ساتھ آئے تھے ۔ اور مجھے وہ منظر یاد ہے کہ وہ پلیٹ فارم پر اکیلے کھڑے تھے ، اور ہماری ریل دھیرے دھیرے پلیٹ فارم چھوڑ رہی تھی ۔پلیٹ فارم کے ساتھ ہی لال قلعے کے برج نظر آتے تھے، اس لئے پاکستان پہنچنے کے بعد بھی جب کبھی میں بھائی جان کا تصور کرتا ،تو وہ اُسی طر ح پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آتے اور ان کے پس منظر میں لال قلعہ !
جو بچہ عمر کے پانچویں سال میں ہو، ظاہر ہے کہ اُسے وطن چھوڑنے ، نیا ملک بننے اور اس کی طرف مستقل ہجرت کرنے کے مضمرات کا کیا اندازہ ہوسکتا تھا ؟ اس لئے میں ان تمام مسائل سے بے نیاز صرف اتنا جانتا تھا کہ والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ریل کا لمبا سفرہے، چنانچہ میں چُھک چُھک کرتی ریل کی کھڑکی سے چمٹا رہتا ، اور ہر نئے اسٹیشن کی چہل پہل سے مزہ لیتا ۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کسی اسٹیشن سے روانہ ہوتے وقت ریل کا دھواں چھوڑتا ہوا انجن تین مرتبہ سیٹیاں بجاتا ہے ، اور تیسری سیٹی پرریل روانہ ہوجاتی ہے۔چنانچہ میرے دو بڑے بھائی جب سیٹی کی آواز سنتے ، یا گارڈ کی سبز جھنڈی دیکھ لیتے ،تو مجھ سے کہتے: "ریل کو چلوادیں؟” میں اثبات میں سر ہلاتا ، تو وہ ریل کی ایک دیوار پر ہاتھ سے زور دیتے ، اور ریل چلنے لگتی ، اور میں حیران رہ جاتا کہ وہ اس ڈبے میں بیٹھ کر کس طرح ریل کو کنٹرول کررہے ہیں ۔ اُسی سفر کی یہ بات بھی مجھے یاد ہے کہ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ایک روٹی ہاتھ میں لئے ریل کے اسٹیشن چھوڑنے کا منظر دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ایک چیل آئی ، اور میرے ہاتھ سے روٹی چھین کر لے گئی۔
دہلی سے ہم راجستھان کے شہر جودھپور پہنچے، اور ایک رات وہاں گذاری۔ وہاں کی صرف اتنی بات مجھے یادہے کہ جس گھر میں ہمارا قیام ہوا ،وہ ریلوے لائن کے بالکل ساتھ تھا، اور اُس کے سامنے سے ایک بدبودار مال گاڑی گذرتی نظر آئی تھی، جوغالباً کوڑے کرکٹ اور غلاظت کو کہیں دور پھینکنے کے لئے استعمال ہوتی تھی ۔ وہاں سے روانہ ہوئے، تو ایک اسٹیشن باڑھ میل کا تھا ، جہاں ہماری دوبہنوں کاایک بکس جس میں ان کے کپڑے تھے، کسی طرح گم ہوگیا تھا جس کی تلاش میں کافی پریشانی رہی۔اُس کے بعد وہ اسٹیشن آیا جس کے بعد پاکستان شروع ہونا تھا ۔یہاں کسٹم ہونا تھا، اور ہندوستان کے کسٹم آفیسر مہاجرین کے سامان کی بڑی سخت چیکنگ کررہے تھے اور خاص طورپر بغیر سلے کپڑوں کو لیجانے نہیں دے رہے تھے ۔شاید مقصد یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کی مخالفت میں "بھوکا ننگا پاکستان "کا جو نعرہ لگایا تھا ، اُس کو حقیقت بناکر مہاجرین کو دکھا سکیں کہ جو ملک تم نے مانگا تھا، وہاں تمہیں پہننے کے کپڑے تک میسر نہیں آئیں گے ۔ہمارے سامان میں ایک سلائی کی مشین بھی تھی وہ بھی انڈین کسٹم نے ضبط کرلی ،اور کسٹم کی انتہائی تکلیف دہ کارروائی کے بعد ریل روانہ ہوئی، اور کچھ ہی دیر کے بعد پاکستان کی سرحد میں داخل ہوگئی ۔ہماری اگلی منزل حیدرآباد سندھ تھی، اور وہاں بھی ہم نے ایک رات گذاری ۔وہاں اُس وقت کی صرف اتنی بات مجھے یاد ہے کہ وہاں تقریباً تمام مکانوں کی چھتوں پر ترچھے بنے ہوئے ہوادان نظر آتے تھے جو ہم یوپی کے رہنے والوں کے لئے ایک عجوبہ تھا ۔
حیدرآباد میں قیام کے بعد ہم آخرکار ۶؍ مئی ۱۹۴۸ ؁ ء کو کراچی کے سٹی ریلوے اسٹیشن پر پہنچے۔یہاں حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی ؒاور حضرت والدماجدؒ کے دوست خلیفہ محمد عاقل صاحب (رحمۃ اﷲعلیہم) استقبال کے لئے موجودتھے۔ چونکہ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، حکومت کی دعوت پر تشریف لائے تھے، اس لئے حکومت کی طرف سے صدر کے علاقے میں وکٹوریہ روڈ کی ایک بلڈنگ "کنگس کورٹ ” کی تیسری منزل پر ایک فلیٹ میں قیام کا انتظام کیا گیا تھا ۔ کچھ دن ہم سب یہاں فرش پر سوتے رہے ،اور کچھ عرصے کے بعد چارپائیوں کاانتظام کیا گیا۔یہ ایک خوبصورت فلیٹ تھا جس کی کھڑکیاں اُس وکٹوریہ روڈ پر کھلتی تھیں جسے اب عبداﷲہارون روڈ کہا جاتا ہے، اور آج وہاں ٹریفک اوردورویہ دوکانوں کی جو گہما گہمی نظر آتی ہے، اس کی موجودگی میں ۱۹۴۸؁ ء کے وکٹوریہ روڈ کا تصور مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے جس کی صفائی ستھرائی اور پُر سکون ماحول کی وجہ سے وہ شہر کی خوبصورت ترین سڑک تھی۔اس کی دائیں جانب شہر کی مرکزی شاہراہ بندرروڈ واقع تھی، جسے اب قائد اعظم روڈ کہا جاتا ہے ، اوروہیں ٹراموں کا مرکزی اڈہ تھا جسے ٹرام گودی کہا جاتا تھا ۔ بائیں طرف صدر کا بارونق بازار تھا ۔ اُس زمانے میں کراچی کی اہم سڑ کوں کی روزانہ باقاعدہ دھلائی ہوا کرتی تھی۔ ہم دیوبند کے دیہاتی ماحول سے اُٹھ کر آنے والوں کیلئے اس میں دلچسپیوں کے بہت سے سامان تھے۔اسی سڑک سے گورنر جنرل ، وزیر اعظم اور باہر کے مہمان سربراہان حکومت گذرا کرتے تھے ۔
"کنگس کورٹ” نامی یہ بلڈنگ جو اب بھی اسی نام سے موجود ہے ، ایک چارمنزلہ رہائشی عمارت تھی ، اور اپنے مکینوں کے لحاظ سے اس کو ایک "کثیر ثقافتی "(multicultural) عمارت کہا جاسکتا تھا۔ ہم تیسری منزل پر مقیم تھے ، ہم سے اوپر چوتھی منزل پر سندھ کے ایک معروف صنعت کار جناب محمد لائق لاکھو صاحب مرحوم رہا کرتے تھے ، جو ایک وضع دار سندھی ثقافت کے نمائندے تھے ،” لاکھو” سندھ کی ایک معزز برادری کا نام ہے ، لیکن اُس وقت اُنہیں آس پاس کے لوگ "لاکھا صاحب "کہا کرتے تھے ، اور میرے بچپن کے ذہن نے اس کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ یہ لکھ پتی آدمی ہیں ، اس لئے انہیں لاکھا کہا جاتا ہے ۔ان کے ساتھ ہمارا بالکل خاندانی جیسا تعلق ہوگیا تھا ۔ لاکھو صاحب کی اہلیہ ہم سب بھائیوں سے بہت محبت کرتی، اورہمارے ساتھ بڑی بہن جیسا سلوک کرتی تھیں۔ ان کے بیٹے غلام بشیر صاحب مرحوم ہمارے بھائی جیسے تھے ۔میری عمر تقریباًپانچ سال کی تھی ، اور میں ان کے گھر بے تکلف چلا جایا کرتا تھا۔ لاکھو صاحب کی اہلیہ سندھ کے روایتی طریقے سے سیدھے توے پر گھی والی روٹیاں پکایا کرتی تھیں جو مجھے بہت پسند تھیں ، اور وہ بڑی محبت سے کھلایا کرتی تھیں ۔ ان کے گھر میں سندھ کی روایتی جھولے والی مسہری بھی تھی جس پر ہم بچے جھولے کے مزے لیا کرتے تھے ۔ گھرکے اوپر کھلی ہوئی چھت تھی جو عصر کے بعد ہمارے کھیل کا میدان ہواکرتی تھی ۔غلام بشیر صاحب بھی اس وقت کمسن تھے ، اور ہمارے گھر میں بیٹوں کی طرح بے تکلف آتے تھے ، لاکھو صاحب کے گھر کی خواتین سے ہمارے گھر کی خواتین کا گہرا رابطہ تھا ، غرض جتنے دن ہم وہاں رہے ، ان کے ساتھ دُکھ سکھ میں اس طرح شریک رہتے کہ ایک ہی گھرانے کا گمان ہوتا تھا ۔ بعد میں ہم وہاں سے چلے گئے ، تب بھی رابطہ قائم رہا ، لاکھو صاحب اور ان کے بیٹے غلام بشیر صاحب مرحوم اب وفات پاچکے ہیں ، لیکن غلام بشیر صاحب کے بیٹے غلام ہادی صاحب آجکل اسٹیٹ ایجنسی کاکام کرتے ہیں ، اور ان سے اب بھی رابطہ رہتا ہے ۔
ہم سے نیچے (یعنی دوسری منزل ) میں جناب وزیر گل صاحب رہتے تھے جو نیوی کے ایک لیفٹننٹ کمانڈرتھے ، اور انکا تعلق صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخواہ ) سے تھا ۔ اُ ن سے بھی ایسا گہرا تعلق ہوگیا تھا کہ ان کی اہلیہ ہماری والدہ صاحبہ کو اپنی ماں کہا کرتی تھیں ۔ ان کے بچے شاہجہاں اور ان کی بہنوں کا ہر وقت ہمارے یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا ، اور وزیر گل صاحب کی اہلیہ کو کوئی مسئلہ پیش آتا ، تو وہ مشورے کے لئے ہماری والدہ صاحبہ کے پاس آتی تھیں ۔
تیسری منزل ہی پر ہمارے فلیٹ کے سامنے ایک اور فلیٹ تھا جس میں ایک میمن پارسی فیملی رہتی تھی،ان کے گھر کے دروازے پرپاؤڈر سے بنے ہوئے وہ نقش ونگار نظر آتے تھے جو اُس وقت پارسیوں کے گھروں کی علامت سمجھے جاتے تھے ۔
پہلی منزل پرسہارن پور کے ایک مہاجر سرکاری افسر آباد تھے ، اور زمینی منزل پر ادھیڑ عمرکا ایک انگریز جوڑا رہتا تھا ۔ انگریز مرد ایک ہاتھ سے معذور (ٹنڈے) تھے ، اور ان کے گھر کے آگے ایک کھلی چھت والی پرانی سی کار کھڑی رہتی تھی ،جو اپنے مالک کی خدمت کرنے سے زیادہ اُن سے اپنی خدمت لیتی رہتی تھی ، چنانچہ ہم بکثرت دیکھتے تھے کہ جب اُنہیں شام کو کہیں جانا ہوتا ، تو وہ تقریباً دوپہر سے ہاتھ میں اوزار لئے کبھی اُس کے بونٹ کے سامنے کھڑے، اور کبھی گاڑی کے نیچے لیٹے ہوئے نظر آتے تھے۔پھر نہا دھوکر شام کو میاں بیوی گاڑی میں سوار ہوتے ، اوراُس کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سے پتہ چلتا تھا کہ وہ رو دھوکر ان کی خدمت کے لئے تیارہوگئی ہے۔
اس طرح اس چارمنزلہ عمارت میں رنگارنگ ثقافتیں جمع تھیں ، حضرت والد صاحب، رحمۃ اللہ علیہ، ان تمام پڑوسیوں کے حقوق حسب مراتب ادا فرماتے تھے ، اور ہمارا بچپن جسے کھیل کود سے آگے کسی اور چیز سے ابھی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی ، ان سب سے لطف لیتا رہتا تھا۔ان سب رنگارنگ خاندانوں کے درمیان ایسا برادرانہ تعلق تھا کہ اپنے ثقافتی فرق کے باوجود سب ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک رہتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک روئی کے گودام میں بڑی خوفناک آگ لگی تھی۔ وہ جگہ ہمارے مکان سے کم ازکم تین چار میل دور تھی ، لیکن اُس آگ کا خوفناک دھواں ہمیں اپنے گھر کے سامنے والی عمارت کے بالکل پیچھے محسوس ہورہا تھا ۔اس دھویں کو دیکھتے ہی ہماری بلڈنگ سے سارے جوان لوگ آگ بجھانے کے لئے اُس دھویں کی سمت روانہ ہوگئے ، ہمارے بڑے بھائی جناب محمد رضی صاحب ؒ بھی ان میں شامل تھے ، اور چند ہی لمحوں میں میں نے کھڑکی سے دیکھا کہ ہر قریبی عمارت سے انسانوں کا ایک بڑا ہجوم اُس آگ کا رُخ کررہا ہے ۔ کئی گھنٹے بعد بھائی صاحب واپس آئے ، تو انہوں نے بتایا کہ یہ آگ یہاں سے بہت دور سٹی اسٹیشن کے روئی کے گودام میں لگی تھی ، اور سب لوگوں نے وہاں پہنچ کر آگ بجھانے میں مدد کی ، اور اسی مدد کے دوران ایک روئی کی جلتی ہوئی گانٹھ بھائی صاحب ؒ کے پاؤں پر آگری تھی جس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں کئی دن تک زخم رہا۔
اس طرح اُس زمانے میں باہمی محبتوں کے بڑے دلنواز مناظر نظر آیا کرتے تھے ۔ جنہیں آج آنکھیں دیکھنے کو ترستی ہیں ۔
لیکن ہمارے والدین کے لئے یہ بڑے صبر آزما دن تھے۔تین مہینے کے لئے تو حضرت والد صاحب،ؒ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒاور ڈاکٹر حمیداﷲصاحب ؒ دستوری سفارشات کی رپورٹ تیار کرنے میں مصروف رہے، جس پر کچھ اعزازیہ مل جاتا تھا۔ لیکن اس کے بعد اُن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔جو چاربیٹے ساتھ تھے ، وہ سب کے سب کمسن تھے، اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم تھا ، اور اُنہیں کسی قابل ذکر کمائی کے کام میں لگانا مشکل تھا۔دیوبند سے جو کچھ روپیہ ساتھ لاناممکن تھا ، اُس کے بارے میں اُس وقت یہ سوچا گیا تھاکہ نقد رقم کو سفر میں ساتھ رکھنا مناسب نہیں ، اس لئے جو کچھ نقدرقم تھی ، حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے دیوبند ہی کے ایک سُنار سے اُس کے ذریعے ایک سونے کا گلوبند بنواکر حضرت والدہ صاحبہ، رحمہا اﷲتعالیٰ، کو پہنا دیا تھا کہ جب ضرورت پڑے ، اُسے بیچ کر نقد رقم حاصل کی جاسکے ۔ چنانچہ جب آمدنی کی کوئی اور صورت نہ رہی، تو اس گلوبند کو بیچنے کے لئے کراچی کے ایک سُنار کے پاس لے گئے ۔ اُس نے سونے کو کسوٹی پر پرکھ کر بتایاکہ یہ سونا ہے ہی نہیں، اور جس سُنار سے یہ گلوبند بنوایا گیا تھا اُس نے دھوکہ کرکے شایدپیتل پر سنہری پالش کردی تھی اور اُس کو سونے کا گلوبند کہکر بیچ دیا تھا۔جو رہی سہی پونجی تھی ، وہ اس طرح مٹی ہوگئی، لیکن مجھے یاد ہے کہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، اس واقعے کا ہنس ہنس کر ذکر فرمایا کرتے تھے۔
حضرت والد صاحب ؒ کے تعلقات وزیر اعظم سے لے کر نیچے کے افسروں تک بہت سے لوگوں سے تھے اور ان میں سے بہت سے والد صاحبؒ سے ملنے کے لئے ہمارے گھر بھی آیاکرتے تھے، لیکن کسی کو پتہ نہیں تھا کہ گھر میں کیا گذررہی ہے؟خود ہم بچوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ والد صاحبؒ کن حالات سے دوچار ہیں، البتہ والدہ صاحبہ، رحمہا اﷲتعالی، کئی کئی دن تک دال پکاتی رہتیں ۔مجھے تو یاد نہیں، لیکن میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم جو اُس وقت دس سال کے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن اُنہوں نے والدہ صاحبہ سے یہ شکوہ کردیا کہ آپ ہرروز دال ہی پکاتی رہتی ہیں۔اُس موقع پر والدہ صاحبہ ؒ نے پہلی بار اُن کے سامنے یہ فرمایا کہ” تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ تمہارے باپ کا کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے "۔
حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کے ایک دوست حضرت خلیفہ محمد عاقل صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، ہمارے دادا حضرت مولانا محمد یاسین صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ،کے شاگرد تھے، اور دارالعلوم دیوبند میں فارسی اور ریاضی کے استاذ رہے تھے، لیکن تحریک پاکستان میں شمولیت کی وجہ سے اُنہوں نے بھی وہاں سے استعفاء دیدیا تھا ، اورشیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی، رحمۃ اﷲعلیہ، کے پاکستان آنے کے بعد وہ بھی ہم سے پہلے پاکستان آگئے تھے، اور یہاں اُنہوں نے ایک راشن کی دوکان کھول لی تھی جو صدر اور جیکب لائن کے درمیان واقع تھی۔اُس ابتدائی زمانے میں جب حضرت والد صاحب ؒ کا کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں تھا، وہ زبردستی اپنی دوکان سے کچھ راشن ہمارے گھر بھجوادیا کرتے تھے، ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ کچھ عرصے تک اُسی سے ہمارے گھر میں کھاناپکتا تھا ۔
ایک طرف تو حضرت خلیفہ محمد عاقل صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کا یہ خلوص تھا کہ وہ کوئی حساب رکھے بغیر راشن ہمارے گھر بھجوادیا کرتے تھے ، اور دوسری طرف حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کی یہ معاملات کی صفائی تھی کہ جتنی مرتبہ اُن کی دوکان سے مختلف اجناس آتیں وہ اُن کا پورا حساب رکھتے تھے،چنانچہ جب اﷲتعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی، تو انہوں نے پورا حساب کرکے اُتنی ہی رقم کا ہدیہ حضرت خلیفہ صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کو پیش کردیا ۔ (بعد میں اتفاق سے خود اُن پر ایک سخت وقت آیا، اور اُس وقت حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کے پاس وسعت تھی، اس لئے انہوں نے اُس سخت وقت میں حضرت خلیفہ صاحبؒ کی مدد فرمائی۔)
جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

</section