یادیں (تیسری قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(تیسری قسط )

بھائی جان (حضرت محمد زکی کیفی ،رحمۃ اللہ علیہ)کے بارے میں چند مزید خصوصیات کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی ۔خصوصاً یہ بات کہ ہم بھائیوں میں یہ سعادت صرف بھائی جان ہی کے حصے میں آئی کہ انہوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی، قدس سرہ، کی خدمت وصحبت بلکہ بیعت کا شرف بھی حاصل کیا، حضرت والد صاحب ،رحمۃ اللہ علیہ، انہیں ہر سال تھانہ بھون ساتھ لے جاتے تھے، اور حضرت تھانوی ،رحمۃ اللہ علیہ، ان سے بہت محبت فرماتے تھے، بارہا حضرت نے انہیں سرکی مالش کرنے کا موقع دیا۔ حضرتؒ پان کھانے کے عادی نہیں تھے، لیکن کھانے کے بعد بغیر کتھے چونے کا سادہ پتہ کبھی کبھی تناول فرمالیا کرتے تھے۔ بھائی جان اکثر ان کو بر وقت پان پیش کردیتے تھے، اس لئے حضرت نے ازراہِ مزاح ان کا نام” پانی” رکھا ہوا تھا۔ جب پان کی ضرورت ہوتی اور بھائی جان پاس نہ ہوتے تو فرماتے، "وہ ہمارا پانی کہاں گیا”؟ ایک بہت بڑی سعادت انہیں یہ حاصل ہوئی کہ ایک روز انہوں نے حضرت سے درخواست کی کہ "مجھے پند نامہ عطار پڑھا دیجئے”۔ حضرت ،رحمۃاللہ علیہ، کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ وہ کسی بچے کو پند نامہ پڑھائیں لیکن بھائی جان پر غیر معمولی شفقت و محبت کے پیش نظر آپ نے اس معصومانہ درخواست کو ٹھکرانا پسند نہیں فرمایا اور جواب دیا کہ” اور تو میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے لیکن عصر کے بعد میں ہوا خوری کے لئے جاتا ہوں، اس وقت کتاب لے کر میرے ساتھ چلاکرو میں اس فرصت میں تمہیں پند نامہ پڑھادوںگا”۔
چنانچہ عصر کے بعد بھائی جان کتاب لے کر پہنچ گئے اور درس شروع ہوگیا۔ اس وقت حضرت کے اکا بر خلفاء بھی موجود تھے،انہیں اطلاع ہوئی تو انہیں بڑا رشک آیا۔ اور انہوں نے بھی اس درس میں شامل ہونے کی اجازت چاہی۔ حضرتؒ نے اجازت دیدی اس کے بعد اس پر کیف درس میں حضرت والد صاحب ؒ، حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحبؒ، حضرت مولاناخیر محمد صاحبؒ اور حضرت ڈاکٹر عبد الحیٔ صاحب ؒ بھی شامل ہوگئے اور یہ درس رمضان بھر میں جاری رہا۔ حضرت مفتی محمد حسن صاحب ،رحمۃ اللہ علیہ، بھائی جان سے اکثر اس واقعہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ” تم تو ہمارے ہم سبق ہو اور تمہارے طفیل ہمیں حضرتؒ سے پند نامہ پڑھنے کی سعادت ملی ہے”۔
بھائی جان نے جب بچپن میں لکھنا سیکھا تو حضرت والد صاحب ،رحمۃ اللہ علیہ، نے ان سے سب سے پہلا خط حضرت حکیم الامت، رحمۃ اللہ علیہ، کے نام لکھوایا۔ اس خط کا جو جواب حضرتؒ نے مرحمت فرمایا وہ ایک مستقل سبق بھی ہے اور بھائی جان کے لئے ایک عظیم سرمایۂ سعادت بھی۔ حضرتؒ نے فرمایاکہ: "برخوردار سلمہ السلام علیکم مع الدعا، تمہارے حروف دیکھ کر دل خوش ہوا۔ تمہاری علمی و عملی ترقی کی دعا کرتا ہوں۔ خط ذرا اور صاف کر لو، اس سے مکتوب الیہ کو بھی سہولت وراحت ہوتی ہے اس نیت سے ثواب بھی ملتا ہے۔ دیکھو! میں تم کو بچپن سے صوفی بنارہا ہوں، درد سرکایہ تعویذ سر میں باندھ لو، سب گھروالوں کو سلام ودعا۔ اشرف علی”۔
عام لوگ سوچیں گے کہ خط صاف کرنے کا تصوّف سے کیا واسطہ؟ لیکن یہ حکیم الامت حضرت تھانوی ،رحمۃ اللہ علیہ، کی خصوصیت تھی کہ انہوں نے شریعت و طریقت کے اہم ترین تقاضوں یعنی آداب معاشرت، اخلاق اور صفائی معاملات کی طرف اپنے متعلقین کو اس وقت بطور خاص متوجہ فرمایا جب دین کے ان شعبوں کو دین سے خارج سمجھ لیا گیاتھا، اور اوراد وو ظائف یا نوافل میں سستی پر حضرتؒ نے کبھی عتاب نہیں فرمایا، لیکن اگر کوئی شخص آداب معاشرت یا معاملات وغیرہ میں کوتاہی یا ایسا کام کرتا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے تو اس پر سخت گرفت فرماتے تھے۔
حضرتؒ کی اسی تعلیم وتربیت کا اثر تھا کہ بھائی جان ہمیشہ اپنی نقل و حرکت میں اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ اس سے کسی دوسرے کوکوئی تکلیف نہ پہنچے۔
حضرت حکیم الامتؒ سے بھائی جان کے بیعت ہونے کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ بھائی جان اس وقت تک نابالغ تھے، حضرتؒ کی شفقتوں اور عنایتوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ایک دن خود ہی حضرتؒ سے بیعت کی درخواست کی۔ حضرت عموماًبلوغ سے پہلے بیعت نہیں فرماتے تھے، اس لئے ازراہ خوش طبعی فرمایا کہ بیعت خالی ہاتھ تھوڑے ہی ہوتے ہیں، امرود لے کر آئو تو بیعت کریں۔ وہ موسم ایسا تھا کہ بازار میں امرود نہیں آرہے تھے، اس لئے حضرتؒ نے یہ بات انہیں ٹالنے کے لئے فرمائی تھی اور خیال یہ تھا کہ اس موسم میں وہ امرود نہیں لاسکیں گے۔ لیکن بھائی جان نہ جانے کہاں سے تلاش کرکے امرود لے آئے؟ حضرتؒ نے دیکھا تو بڑا تعجب ہوا اور چونکہ وعدہ فرما چکے تھے اس لئے بیعت کے لئے راضی ہوگئے۔ لیکن حضرتؒ کے برابر شرعی احکام کی رعایت کون کرے گا؟ بھائی جان اس وقت نابالغ تھے اور نابالغ سے ہدیہ قبول کرنا والدین کی اجازت کے بغیر شرعًا جائز نہیں تھا، اس لئے بھائی جان کو واپس بھیجا کہ جاکر اپنے والدین سے پوچھ کر آؤ، بھائی جان اجازت لے آئے، تو اس کے بعد بیعت فرمایا۔
اس واقعہ کے بعد ۷؍ ربیع الثانی ۱۳۵۶ ؁ ھ کو حضرت والد صاحب مد ظلہم نے حضرت حکیم الامت کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس میں لکھا کہ:
” محمد زکی سلمہ کے لئے الحمدللہ مرید ہونے کی کھلی ہوئی برکت ظاہر ہوئی کہ نماز کا بہت ہی شوق ہوگیا، عشاء کی نماز کے وقت پہلے سو جاتا تھا اب بیٹھا ہوا انتظار کرتا رہتا ہے”۔
حضرت حکیم الامتؒ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا :
"ماشااللہ !دعا کیجئے مجھ کو بھی اس بے گناہ بچے کی برکت نصیب ہو اور ہمّت عمل اور استقامت واخلاص عطاہو”۔
بھائی جان کے بچپن کے بہت سے معاملات حضرت حکیم الامتؒ ہی کے مشوروں سے انجام پائے۔۱۰؍رجب ۱۳۵۵ ؁ ھ کے مکتوب میں حضرت والد صاحب ؒ نے حضرت تھانویؒ کو لکھا:
"محمد زکی سلمہ سال بھر سے زائد ہوا کہ اس کو حفظ قرآن مجید شروع کرادیا تھا مگر کچھ عرصہ چھ ماہ سے وہ بیمار چلا جاتا ہے۔۔۔۔اب بعض اقرباء کا مشورہ یہ ہے کہ حفظ قرآن کی محنت یہ برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔سخت تردد میں ہوں، کیا کروں”۔
حضرتؒ نے جواب دیا:
"اگر زکی میرا بچہ ہوتا تو حفظ چھڑا دیتا، پھر جب کسی موقع پر قوت ہوتی(گو بعد فراغ درسیات سہی) پھر تکمیل کرادیتا۔ اس وقت بہت سہولت ہوجاتی ہے”۔
اس طرح بھائی جان اٹھارہ سال کی عمر تک حضرت حکیم الامت ،رحمۃ اللہ علیہ، کی ہدایات اور عنایات سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اسی دوران حضرت والد صاحب ؒ کو ایک مرتبہ ایک خط حضرت تھانویؒ کے پاس تھا نہ بھون بھیجنا تھا۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ یہ خط آج ہی حضرت ؒ کو پہنچ جائے۔ ادھر سہار نپور سے تھانہ بھون جانے والی گاڑی میں سفر کا کوئی امکان نہیں رہاتھا۔ بھائی جان نے یہ خدمت اپنے ذمہ لی، دیوبند سے مظفر نگر اور مظفر نگر سے شاملی پہنچے، خیال تھا کہ شاملی سے تھانہ بھون جانے والی گاڑی مل جائے گی، مگر شاملی پہنچے توگاڑی نکل چکی تھی۔بھائی جان نے وہاں سے ایک سائیکل کرائے پر لی اور شاملی سے تھانہ بھون تک کا طویل راستہ اسی سائیکل پر طے کرکے مکتوب بروقت حضرتؒ کو پہنچادیا۔
حضرت تھانویؒ کے علاوہ دیوبند میں حضرت میاں صاحبؒ (حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحبؒ)بھی بھائی جان سے نہایت شفقت فرماتے تھے، اور بھائی جان کو ان کی خدمت وصحبت کا بھی خوب خوب موقع ملا۔ انہیں بچپن ہی سے بزرگوں سے فیضیاب ہونے اور ان کی خدمت وصحبت سے فائدہ اٹھانے کا خاص ذوق تھا اور اس لحاظ سے انہیں یہ شعر کہنے کا واقعی حق پہنچتا تھا کہ ؎
اس وقت سے میں تیرا پرستار حسن ہوں
دل کو مرے شعور محبت بھی جب نہ تھا
اور بزرگوں کی اسی صحبت کا اثر تھا کہ ان پر دین اور فہم دین کا ایک ایسا پختہ رنگ چڑھا ہوا محسوس ہوتا تھا جو کسی ماحول میں کبھی مغلوب یا مر عوب نہیں ہوا، وہ جس ماحول میں رہے ہمیشہ اچھا رنگ دوسروں پر چھوڑ کر آئے ؎
رنگیں ہے ہم سے قصہ مہر و وفا کہ ہم
اپنی وفا کا رنگ ترے رخ پر مل گئے
چوتھے نمبر پر ہماری بہن حسیبہ خاتون (۱)( رحمہا اﷲتعالی) تھیں جنہیں ہم” بی جان "کہتے تھے۔اور پانچویں نمبر پر محترمہ رقیبہ خاتون صاحبہ مد ظلہا جنکو ہم چھوٹی آپا کہتے ہیں ۔عمر میں یہ دونوں بھی مجھ سے کافی بڑی تھیں لیکن اُس وقت غیر شادی شدہ تھیں اور انہوں نے شروع ہی سے ہمیں اپنے ساتھ اتنا بے تکلف کیا ہوا تھا کہ عمر کے بڑے تفاوت کے باوجود ان سے ہمیشہ دوستی کا سا رشتہ قائم رہا ۔ان بہنوں کی بھی تعلیم کی کل کائنات پھوپی امۃ الحنان صاحبہ کے مکتب(جس کاذکر میں ان شا ء اﷲآگے کروںگا) اور گھریلو طورپر "بہشتی زیور "کی حد تک محدود تھی، لیکن حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کے حسن تربیت کے نتیجے میں ان کا علمی اور ادبی ذوق یقیناً یونیور سٹیوں کی پڑھی ہوئی خواتین سے بھی زیادہ تھا ۔ ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا اورنہ صرف یہ کہ سخن فہمی کی صلاحیت غیر معمولی تھی بلکہ وہ خود اعلیٰ درجے کے شعرکہتی تھیں ۔محض نمونے کیلئے ان میں سے بڑی بہن محترمہ حسیبہ خاتون مرحومہ کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
ہمیں تو آتا ہے رونا مآلِ گلشن پر
بھلا یہ ہنستے ہیں کیوں گلستاں ، نہیں معلوم
گذررہی ہیں نشیمن سے بے سلام وپیام
خفا خفا سی ہیں کیوں بجلیاں نہیں معلوم
اور محترمہ رقیبہ خاتون صاحبہ مدظلہا کے یہ شعر:
ضبط غم پر بھی ڈبڈبا ہی گئی
آنکھ دل سے شکست کھا ہی گئی
سنتے سنتے مر ا فسانۂ غم
چاند تاروں کو نیند آ ہی گئی
اس چھوٹی سی عمر میں میرے گھر کے زیادہ تر اوقات انہی دو بہنو ں کے ساتھ گذرتے تھے ،کیونکہ کپڑے بدلنے سے لیکرمیرے ناز نخرے اٹھانے تک یہی میری دیکھ بھال پر مأمور تھیں ، اس لئے ان کی صحبت نے بچپن کے اسی ابتدائی زمانے میں مجھ میں ادبی ذوق کا بیج ڈال دیا تھا جس کا کچھ مزید حال میں ان شاء اﷲ تعالیٰ آگے ذکر کروںگا۔
ان کے بعد جناب محمد رضی عثمانی صاحب (رحمہ اﷲتعالی) تھے جو اُس وقت دارالعلوم دیوبند کے درجۂ فارسی میں پڑھتے تھے ۔وہ طبعی طورپر بچوں سے نہ صرف بہت محبت کرتے تھے بلکہ ان کی نفسیات کی باریکیوں سے بھی خوب واقف تھے۔انہوں نے مجھے بہت سر چڑھارکھا تھا ، اور میری ہر خواہش کوپورا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ہم تین چھوٹے بھائی اُنہیں "بھائی رضی” کہتے تھے، اور اُس وقت میں اپنی تتلائی ہوئی زبان میں” بھائی لجی!” لیکن اگر کسی وقت وہ میراکوئی مطالبہ پورا نہ کرسکتے، تو میں اُن سے ناراضی کا برملا اس طرح اظہار بھی کردیتا تھا کہ اُنہیں خطاب کرتے ہوے بھائی کا لفظ حذف کرکے براہ راست اُن کا نام لے لیتا، اور غصے کے لہجے میں کہتا ": لجی! "۔
اُنہیں ایک مرتبہ یہ معلوم ہوگیا کہ میں کبوتر دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہوں ۔ اُن کے ایک دوست نے جو حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، رحمۃ اﷲعلیہ، کے بھتیجے تھے، کبوترپال رکھے تھے ، بھائی صاحب نے شاید اُن سے فرمائش کی ہوگی کہ وہ میرے لئے بھی ایک کبوتر لے آئیں۔ چنانچہ ایک دن وہ اپنے ہاتھ میں کبوتر لے کر دروازے پر آئے۔بھائی صاحب مجھے لے کر خوشی خوشی دروازے پر گئے، اور میں نے جب کبوتر دیکھا ، اور یہ معلوم ہوا کہ یہ میرے لئے آیا ہے تو میری خوشی کا کچھ ٹھکانا نہیں تھا ،اور مجھے بچپن کی وہ خوشی اب تک یادہے۔
اﷲتعالیٰ بھائی صاحب کو اپنی مکمل مغفرت کا مورد بنائے ۔وہ خود بھی اُس وقت کم عمرتھے۔ کبھی کبھی مجھے خوش کرنے کیلئے وہ کاغذ پر مختلف تصویریں بناتے تھے ۔ایک مرتبہ اُنہوں نے کاغذ پرایک امرود،ایک لیموں ، ایک چڑیا، ایک گدھے اور ایک کوّے کی تصویر بنادی۔شایدمجھے کسی طرح یہ معلوم ہوگیا تھا کہ جانوروں کی تصویر بنانے سے والدصاحب ؒ ناراض ہوں گے۔ لہٰذا جب کبھی میں اُن سے ناراض ہوتا،تو ا ُن کانام لے کر خطاب کرتے ہوئے اُنہیں اپنی تتلائی ہوئی زبان میں کہتا :”ا ملود، نیموں، چلیا، ددھا، توّا (امرود، لیموں، چڑیا،گدھا ،کوّا) شاید اس میں یہ دھمکی پنہاں ہوتی تھی کہ اگر آپ نے مجھے راضی نہ کیا، تو میںوالدصاحبؒ سے شکایت کردوں گا کہ انہوں نے چڑیا،گدھے اور کوّے کی تصویر بنائی تھی۔رفتہ رفتہ یہ میری گالی بن گئی اور صرف اُنہی سے نہیں بلکہ جس کسی سے مجھے کوئی ناراضگی ہوتی تو میں اُسے غصے کے لہجے میں یہی کہتا ": املود، نیموں، چلیا ،ددھا، توّا” یہ میری بدترین گالی تھی جو میں کسی بچے سے لڑائی کے دوران اُس کودیا کرتا تھا۔
اﷲتعالیٰ بھا ئی رضی صاحب پر اپنی مغفرت ورضوان کی بارش برسائے ، مجھ سے ان کے عشق کا عالم یہ تھا کہ جب حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کو شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی، قُدس سرہ ،کی جگہ بخاری شریف پڑھانے کے لئے دارالعلوم ڈابھیل بلایا گیا،تو حضرت والد صاحبؒ اُنہیں بھی اپنے ساتھ ڈابھیل لے گئے ۔ڈابھیل میں کئی مہینے قیام رہا ۔اس دوران وہ میری یاد میں بہت افسردہ رہتے اور انہوں نے "البلاغ ” میں حضرت والدصاحب رحمۃ اﷲعلیہ پر جو مضمون لکھا ہے اُس میں وہ لکھتے ہیں:
احقر ان دنوں قرآن کریم ناظرہ پڑھتا تھا،اور وہیں درجۂ قرآن میں داخلہ لے لیا تھا۔مدرسے سے چھٹی کے بعد اکثر خاموش خاموش رہتا تھا۔نہ کھانے میں دل تھا، اور نہ کسی اور کام میں ۔اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ آج کے مولانا محمدتقی عثمانی مدیر البلاغ اُس وقت دو یا اڑھائی سال کے تھے ، اور احقر کوان سے اس قدر محبت اور تعلق خاطر تھا کہ دیوبند میں ایک گھنٹہ بھی اُس سے علیحدہ رہنا شا ق گذرتا تھا، چنانچہ ڈابھیل میں بھی ہر وقت بس وہی یاد آتے رہتے اور جب کوئی اور بس نہ چلتاتو مدرسے کے درودیوارپر اُن کا نام لکھتا رہتا تھا۔(مفتیٔ اعظم نمبر۲:۱۰۴۴)
بھائی صاحب کی ایک بڑی قربانی یہ تھی کہ پاکستان ہجرت کے بعد ہم سب بھائی تو چھوٹے تھے ، اور حضرت والد صاحب ؒ کا ہاتھ نہیں بٹا سکتے تھے ، وہی تنہا ایسی عمر میں تھے کہ کسی معاشی سرگرمی میں ان کے کام آسکیں ، چنانچہ وہ ابتدائی تعلیم کے بعد والد صاحبؒ کے تجارتی کتب خانے دارالاشاعت کے ناظم بن کر اسی کے لئے وقف ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم آگے جاری نہ رکھ سکے ، لیکن اپنے مطالعے کے ذوق سے بفضلہ تعالیٰ انہوں نے اپنی معلومات میں اضافے کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رکھا ، اور عملی زندگی میں وہ دینی معلومات کے اعتبار سے بھی بہت سوں کے لئے قابل رشک تھے ۔ حرمین شریفین کی حاضری کا بڑا ذوق تھا ، اور تقریباً ہر سال نہایت والہیت کے ساتھ حج یا عمرے کے لئے جانے کا معمول تھا۔
پھر ساتویں نمبر پر جناب محمد ولی رازی صاحب مد ظلہم ہیں وہ دارالعلوم دیوبند میں قرآن کریم حفظ کر رہے تھے۔ان کو اﷲتعالیٰ نے ذہانت وفطانت، حاضر جوابی اور ظرافت طبع کے خداداد اوصاف عطا فرمائے ہیں وہ جب شعر وشاعری کے کوچے میں داخل ہوئے ، تو اس میں بھی امتیاز حاصل کیا، تدریس کے شعبے میں گئے ، تو کراچی گرامر اسکول اور کراچی یونی ورسٹی میں اسلامیات پڑھانے کے دوران انہوں نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدلیں۔ انگریزی میں ایم اے کیا، تو اس صلاحیت سے متعدد دینی کتابوں کے انگریزی ترجمے کی خدمت انجام دی ۔”بائبل سے قرآن تک ” اور مرزائیوں کے بارے میں "امت مسلمہ کا موقف ” کا انگریزی ترجمہ انہی کے قلم سے ہوا ہے ۔البلاغ انگریزی اب بھی انہی کی ادارت میں نکلتا ہے۔ ان کی ذہانت وفطانت کا شاہکار ان کی تالیف” ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم” اب شہرۂ آفاق ہوچکی ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت اس اہتمام سے لکھی ہے کہ اس میں کوئی لفظ نقطوں والا استعمال نہیں ہوا ، تقریباً چار سو صفحات کی یہ سیرت نقطوں سے خالی ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ اسے عالمی ریکارڈ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ نقطوں کے بغیر اردو میں کوئی لمبی تحریر ، خاص طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ،لکھنا کتنا مشکل کام ہے ، اس کی کچھ تفصیل میں نے اس کتاب کے مقدمے میں بیان کی ہے ۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے یہ کارنامہ چند مہینوں میں انجام دیا ، اور ایک ریکارڈ قائم کردیا ۔ ان کی اور بھی بہت سی کتابیں اور مضامین ان کی وسعت مطالعہ اور علمی ، دینی اور ادبی ذوق کی آئنہ دار ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں انتہائی متواضع اور سادگی کاپیکر بنایا ہے ۔نام ونمود سے کوسوں دور رہ کر وہ اب بھی اپنے مضامین کے ذریعے علم ودین کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں ۔
آٹھویں نمبر پر میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب عثمانی مد ظلہم مجھ سے سات سال بڑے ہیں ، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بچپن سے آج تک اس طرح ساتھ رکھا ہے کہ نہ صرف گھر کے ماحول میں ، بلکہ دینی اور ملکی حلقوں میں بھی ہم دونوں کے نام ایک ساتھ لازم وملزوم کی طرح لئے جاتے رہے ہیں ۔ ہم سب بہن بھائیوں میں مجھے سب سے طویل رفاقت کا اعزاز انہی کے ساتھ حاصل ہوا جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ، مگر طبیعت کے بے ڈھنگ انداز نے اس پر عمل کرنے میں بکثرت رکاوٹ پیداکی،وہ نہایت منظم اور بااصول زندگی کے حامل ، اور میں بد حواس اور بے ڈھنگ ، وہ ہرکام اطمینان اور وقار سے کرنے کے عادی ، اور میں جلد باز ، ان کے گھر سے لیکر دفتر تک ہر چیز باقرینہ، اور میں بد سلیقہ ، غرض میری ان بے وقوفیوں کو انہوں نے جس صبر وضبط کے ساتھ برداشت کیا، یہ انہی کا حوصلہ ہے ، یہ اختلاف طبائع جس کاقابل اعتراض حصہ یقیناً میرے بے ہنگم انداززندگی ہی کی وجہ سے تھا، اسے ان کے تحمل اور بڑائی نے کبھی قابل ذکر ناگواری میں تبدیل ہونے نہیں دیا ، اور اس میں انہی کی بڑائی کا سب سے زیادہ دخل ہے کہ تعلیم کے زمانے سے لے کر تدریس ، افتاء اور پھر ملکی معاملات تک مجھے الحمد للہ تعالیٰ ان کے ساتھ تقریباُ پوری ہم آہنگی کے ساتھ ان سے استفادے کا موقع ملا ، اور ہمیشہ ان کی شفقت میسر آئی۔۔ علماء کرام نے انہیں حضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد "مفتیٔ اعظم پاکستان "کا لقب دیا، اور ان کی اردو عربی تصانیف ،فتاویٰ اوران کے دروس کی منضبط، واضح اور جچی تلی تقریریں اور ان کے مواعظ اس لقب کی صحت پر شاہد عدل ہیں۔ آج پاکستان میں جب سنجیدہ ، صاحب رائے ، معتدل اور مخلص علماء کی کوئی فہرست بنتی ہے ، تو الحمدللہ ان کا نام نامی سر فہرست ہوتا ہے۔دارالعلوم کی تعمیر وترقی کے لئے انہوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی جس طرح وقف کی ، آج دارالعلوم کے درو دیوار اور اس کا ایک ایک نشیب وفراز اس کی گواہی دے رہا ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ دارالعلوم کی تمام عمارتیں ، ایک دو کو چھوڑکرسب براہ راست ان کی نگرانی میں بنیں ، اور ان کی ایک ایک اینٹ پر انہوں نے بذات خود محنت فرمائی ہے ، توغالباً اس میں مبالغہ نہیں ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایۂ رحمت بعافیت تمام ہم پر سلامت رکھے ، وہ صرف میرے لئے نہیں ، پورے خاندان اور پورے دارالعلوم کے لئے ایک شفیق باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ملک وملت کے مقاصد میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

</section