خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط و ترتیب __ امتیازعلی مردانی

ہماری سب سے بڑی ضرورت
آپس کااتحاد واتفاق ہے

۱۹ ؍رجب ۱۴۳۸ھ (۷، اپریل ۲۰۱۷ ئ)جمعہ کے روز اضاخیل پشاور میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے صد سالہ اجتماع میں نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے جو خطاب فرمایا وہ بلاشبہ عصر حاضر کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔خطاب کے آغاز میں حضرت والا مد ظلہم نے امام حرم مکی اور دیگر سعودی مہمانان گرامی کے خیر مقد م کے لئے عربی میں کلمات ارشاد فرمائے، اس کے بعد اردو میں خطاب فرمایا۔ ذیل میں حضرت والا مد ظلہم کا یہ خطاب ضبط وتنقیح کے بعد ہدیۂ قارئین ہے ۔ مولائے کریم مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور مکاتب فکر کو ان ہدایات پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ و السلام علی سیدنا و مولٰنا محمدٍ خاتم النبیین و امام المرسلین قائد الغر المحجلین وعلی اٰلہ واصحابہ اجمعین وعلی کل من تبعہم باحسان الی یوم الدین۔
اما بعد!
الدکتور صالح العثمان الشیخ حفظہ اللہ تعالی و فضیلۃ الشیخ صالح ابو طالب حفظہ اللہ تعالی، صاحب السماحۃ الشیخ فضل الرحمان قائد جمعیۃ علماء الاسلام حفظہ اللہ تعالی ، العلماء الاجلاء والحضور الاکارم؛
السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ،
انی فی بدایۃ کلمتی ارحب الشیخین الجلیلین الفاضلین الحبیبین، الدکتور صالح آل الشیخ وزیر الشؤن الاسلامیۃ فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ الشقیقۃ الحبیبۃ، وفضیلۃ الشیخ صالح امام الحرم المکی الشریف،ونشکرہما باسمی وباسم اہل باکستان باجمعہم وباسم العلماء فی ہذہ الدیار، واشکرہم علی انہم نوروا ہذہ الدیار بوجودہم المیمون و بقدومہم المبارک فی ارضنا ارض باکستان و فی ہذا الحفل الطیب المبارک الذی جمع حفلا کبیرا من علماء المسلمین و اہل الدین ۔
وکما اشکر سماحۃ الشیخ فضل الرحمان حفظہ اللہ تعالی حیث اتاح لنا ہذہ الفرصۃ الطیبۃ للاجتماع بہما والاجتماع بوفدہما والاستماع الیٰ کلمتھم الطیبۃ، والی حضورہذا الحفل الکریم الذی قلما یوجد لہ النظیر۔
وبعد ہذہ الکلمات الترحیبیۃ لضیو فنا الکرام، استسمحہم بان اتکلم بعض الکلمات باللغۃ الاردیۃ التی یفہمہا شعبنا العزیز۔

میرے بہت ہی قابل احترام علما ئے کرام اور معزز حاضرین !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ و برکاتہ
ہمارے لیے یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آج ہمیں مسلمانوں کے اتنے عظیم اجتماع میں شرکت کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ مسلمانوں کاایک ایسا اجتماع ہے جو شاید پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس اجتماع کوپورے ملک و ملت کے لیے انتہائی مفید اور نافع بنائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس اجتماع میں ـ’’امام حرم مکی حفظہ اللہ ‘‘ کی امامت میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی بھی ہمیں توفیق عطا فرمائی،ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کابہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔اور میں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کو تہ ِدل سے مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں اور ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں ، کہ انہوں نے اس عظیم الشان اجتماع کا اہتمام فرمایا۔
مسلمان اتنی بڑی تعداد میں یہاں جمع ہیں ، تو یہ بذاتِ خود ایک ایسا موقع ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ مسلمانوں کے اس اجتماع پراللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما ئیںگے ۔
یہ دور تک نظر آنے والے سر ،جن کی انتہا مجھے نظر نہیں آ رہی ، یہ کسی دنیا وی مقصد کے لیے جمع نہیں ہوئے، یہ کسی مالی مفاد کی خاطر نہیں آئے، کسی ذاتی منفعت کے حصول کے لیے یہاں جمع نہیں ہوئے بلکہ ان کو لانے والی چیزایک ہی چیز ہے ، اور وہ ہے ـ کلمہ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ۔
اس کلمہ کی خاطر اور اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لیے یہ افراد یہاں جمع ہوئے ہیں، اور مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ، ا ن شا ء اللہ ، ان کی یہ آمد اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو گی، اور اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازیں گے۔
اس موقع پر میں لمبی چوڑی تقریر کرنے کے بجائے ایک مختصر گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں ، کہ اس عظیم اجتماع میں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مختلف مکاتب فکر کے ، مختلف طبقہ ہائے خیال کے ، مختلف جہتوں کے حضرات موجود ہیں ، دینی ، علمی ، سیاسی ، غیر سیاسی ، ہر طرح کی شخصیات اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس موقع پر جمع فرمائی ہیں۔ اور صرف پاکستان سے نہیں بلکہ پاکستان کے باہر کے ممالک ، مثلاً ہمارے انتہائی محبوب ملک سعودی عرب سے ، اس کے علاوہ امارا ت سے، بحرین سے، بنگلہ دیش سے، برطانیہ سے، جنوبی افریقہ سے، اور نہ جانے کن کن ممالک سے مسلمان یہاں پر جمع ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ یہ سب مسلمان ایک ہی کام کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں ، وہ یہ کہ آج اسلام اور مسلمانوں کو بڑے عظیم مسائل درپیش ہیں۔ اسلام اور مسلمان پوری دنیا کے اندر طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہیں، اور خاص طور پر اس وقت ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کی جو تصویر اس وقت پوری دنیا میں پھیلائی جارہی ہے، اوراسلام کو دہشت گردی سے وابستہ کیا جارہا ہے، اس کو خون ریزی کے ساتھ وابستہ کیا جارہا ہے، اور اس میں خود ہمارے بعض نادان مسلمان بھائی جو اسلام ہی کا نام لے کر اس پروپیگنڈے کو اپنے عمل سے تقویت دے رہے ہیں، ا ور اس کی وجہ سے اسلام کی ایک انتہائی غلط ، بھیانک تصویر لوگوں کے سامنے آرہی ہے ، اور وہ اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، دوسری طرف مختلف ملکوں میں دشمنان اسلام ، اسلام اور ملت اسلامیہ کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تیسری طرف سیکولراور لادینی طاقتیں اس فکر میں ہیں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں شریعت کا صحیح نفاذ نہ ہو سکے،یہ طاقتیں نہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہیں ، اور نہ دنیا کے کسی اور خطے میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہیں۔
ان مسائل کے دور میں ، ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے، کہ ہم آپس میں متحد ہوں ، ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم آپس کے اپنے مسلکی اختلافات کو ، اپنے فکری اختلافات کو، اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک مقصد کے لیے جمع ہوں، اور اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جائے ، اسلام اور شریعت کی تنفیذ کا صحیح کام اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے کیاجائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مشترک فکری بنیادوں پر تمام مسلمان متفق ومتحد ہو کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کے لیے کام کریں۔
اس میں نہ تویہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ساری جماعتوں کو ختم کر یں، نہ یہ ضروری ہے کہ ساری تنظیمیں ختم ہو جائیں ، نہ یہ ضروری ہے کہ ادارے ختم ہو جائیں ۔ جماعتیں ، تنظیمیں ، ادارے اپنی جگہ پر برقرار رہتے ہوئے بھی ، مشترک مقاصد کے لیے اللہ کی رضا کی خاطر ، یک جہت اور یک جان ہو کر کام کر سکتے ہیں ۔ہمارے اکابر نے الحمد للہ اپنے عمل سے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ دین کی خاطر متحد ہو کر ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کی خاطر کام کیا جاسکتا ہے۔
یہ اجتماع الحمد للہ مختلف جہتوں کے حضرات کا اجتماع ہے ، جو خالصۃً دین کی بنیاد پر یہاں تشریف لائے ہیں ، میں امید رکھتا ہوں کہ یہ اجتماع مشترک مقاصد میں مشترک جدو جہد کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس اجتماع کی برکات عطا فرمائے اور اپنی رحمت سے ہمیں اپنی رضائے کامل کی خاطر جدو جہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آخر میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہو ں کہ چاہے ہم دین کا کوئی بھی کام کر رہے ہوں ، خواہ وہ تدریس کا کام ہو، خواہ وہ دعوت کا کام ہو،خواہ وہ وعظ و تبلیغ کا کام ہو،خواہ وہ سیاست میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کا کلمہ بلند کرنے کا کام ہو، جہاد ہو، خواہ کوئی بھی کام ہو، وہ اسی وقت بار آور ہو سکتا ہے ، جب وہ کام اخلاص کے ساتھ اللہ جل جلا لہ کی رضا کی خاطر کیا جا رہا ہو۔
’’انما الاعمال بالنیات‘‘ سب سے پہلی حدیث ہے جس سے ہم اپنی تدریس کا آغاز کرتے ہیں، اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں اللہ جل جلالہ کی رضا کو پیش نظر رکھیں ۔ اخلاص کے ساتھ ، للہیت کے ساتھ ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو کام بھی کیا جائے گا وہ ان شاء اللہ آخرت میں بھی سرخروئی کا باعث بنے گا، اور دنیا میںبھی کامیاب ہو گا۔
ان چند مختصر کلمات کے ساتھ میں آپ حضرات سے اجازت چاہتا ہوں، اور دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس اجتماع کو مسلمانوںکے لیے ، امت اسلامیہ کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بنائے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین۔

(ماہنامہ البلاغ – شعبان المعظم 1438 ھ)