صحافت

صحافت ذہنی قیادت کا درجہ رکھتی ہے
اسے اخلاقی تباہی کا ذریعہ نہ بنائیے
صحافت کسی قوم کے ذہن کی تعمیر وتخریب میں جو اہم کردار ادا کرت ہے وہ کسی بھی ہوش مند انسان سے مخفی نہیں۔ موجودہ دور میں اخبارات اوررسائل ایسی چیزیں ہیں جن سے کوئی پڑھا لکھا گھرانہ خالی نہیں ہوتا لہذا ان کے ذریعہ صحیح بات کو گھر گھر پہنچایا جاسکتا ہے، خاص طور سے روزنامہ اخبارات آج کل کی زندگی کا لازمی جز بن کر رہ گئے ہیں یہاں تک کہ جو ان پڑھ لوگ ان کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے وہ بھی ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوکر رہتے ہیں۔
ان حالات میں اخبارات کے ارباب ادارت اور اصحاب انتظام پر پوری قوم کی زبردست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے زندگی کے جس شعبے کو اختیار کیا ہے وہ محض ایک تجارتی پیشہ یا ایک ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ قوم کی ذہنی قیادت ورہنمائی کا ایک ایسا منصب ہے جو بڑی نازک ذمہ داریوں کا حامل ہے کسی انسان کی معاشی ضروریات اگر کسی قومی یا اجتماعی خدمت کے ساتھ وابستہ ہو جائیں تو یہ اﷲ تعالی کا بہت بڑا انعام ہے کیونکہ اس مقام پر اس کی دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی ایک ہی کام سے حاصل ہوجاتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کام کو خالص تجارت قرار دے کر اس کے اجتماعی فوائد کو تجارتی منافع کے بھینٹ چڑھادیا جائے۔
افسوس ہے کہ جب ہم اس نقطہ نظر سے اپنے ملک کی صحافت کا جائزہ لیتے ہیں تو حسرت اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ پچھلے اٹھائیس سال میں ہماری صحافت نے نئی نسل کا مزاج بگاڑنے، اس کے اخلاق خراب کرنے اور اسے نفسانی خواہشات کا غلام بنانے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی، ایک صحافی کا فرض یہ ہے کہ وہ جس بات کو اپنے قومی حالات کے لحاظ سے حق سمجھتا ہے اسے بے خوف وخطر حق کہے اور اس کے اظہار میں کسی لالچ یا خوف کو حائل نہ ہونے دے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری صحافت میں حق وناحق کے فیصلے اکثر وبیشتر حکومت یا عوام کے تیور دیکھ کر کئے جاتے رہے ہیں۔
ہمارے ارباب صحافت کا ایک گروہ وہ ہے جو ہر صاحب اقتدار کی مدح وتوصیف کا خوگر رہا ہے یہاں تک کہ ایسی مثالیں بھی ہماری صحافت میں ایک دو نہیں بے شمار ہیں کہ ایک ہی شخص کسی صاحب اقتدار کو اس کے عہد حکومت میں آفتاب و مہتاب قرار دیتا ہے اور اس کے ہر جائز و ناجائز فعل پر احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کرتا ہے، لیکن جب اس کا اقتدار ڈھلتا ہے اور اس کا کوئی مخالف حکومت کی کرسی سنبھالتا ہے تو اسے بدترین آمر اور اس کے عہد حکومت کا بدترین عہد حکومت قرار دینے میں اسے کوئی باک محسوس نہیں ہوتا۔
دوسری طرف اہل صحافت ایک کا گروہ وہ ہے جس کا مطمح نظر عوامی مقبولیت اور عوام کی تحسین وآفرین کو حصول ہے اور اس مقصد کے لئے وہ عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے اور ہر ایسی بات کہنے سے پرہیز کرتا ہے جس سے عام لوگوں کی تعریف وتوصیف حاصل نہ ہوسکے، ہماری شامت اعمال یہ ہے کہ ہمیں ایسے حکمران کبھی میسر نہیں آسکے جنہیں عام ہر دلعزیزی حاصل ہو اس کے نتیجے میں ملک کی فضا کچھ ایسی بن گئی ہے کہ حکومت کے خلاف لکھنے والا عوام میں ہیرو بنتا ہے اور بات کی ذاتی خوبی و خرابی سے قطع نظر، مجرد حکومت کی مخالفت پر عوامی تحسین و آفرین حاصل ہوتی ہے چنانچہ بعض اہل صھافت نے حکومت کی مخالفت کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ایسا کرنا ہمارے اجتماعی مقصد کے لئے ضروری یا مفید ہے بلکہ اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اس لے صلے میں عوام کی طرف سے حق گوئی و بے باکی کے خطابات وصول ہوں گے اور گلے میں تحسین وتبریک کے ہار ڈالے جائیں گے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کی جو فکری رہنمائی اخبارات کے ذریعہ ہوسکتی بھی وہ حکوم کے موافق اور مخالف دونوں قسم کے اخبارات سے حاصل نہیں ہوتی۔
پھر اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ آج کے اخبارات اپنا ظاہری ڈھانچہ مرتب کرتے وقت کبھی بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ قوم پر اور خاص طور پر ناپختہ ذہنوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہمیں یہ لکھتے ہوئے انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ تجارتی منافع کی دوڑ میں ہماری صحافی برادری نے عفت واخلاق کی ہر قدر کو پامال کر ڈالا ہے۔ عریانی وفحاشی کو فروغ دینے میں ہر اخبار دوسرے سے آگے نکل جانے کی فکر میں ہے۔ سینما کے اشتہارات کا حصہ جس قدر متعفن اور اخلاقی جذام کا حامل ہوتا ہے وہ تو کسی تشریح کا محتاج ہی نہیں۔ عام خبروں کا حصہ بھی بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شریف اور باحیا انسان اسے اپنے بچوں کے سامنے نہیں پڑھ سکتا اخلاقی جرائم کی خبریں بہت ممتاز اور نمایاں کرکے شائع کی جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات مزے لے لے کر قسط وار بیان ہوتی ہیں اور کچھ نہیں تو کسی غیر ملکی فاحشہ کی معمولی نقل وحرکت کی خبر شائع کرنے کے بہانے اس کی نیم عریاں تصویر شائع کردی جاتی ہے، خاص طور سے شام کے اخبارات نے تو اس معاملے میں قیامت ہی ڈھا رکھی ہے اور ان کا کوئی شمارہ اس قسم کی اخلاق سوز تصویروں سے خالی نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی غیر ملکی شہزادی نے کسی شخص نے ناجائز تعلقات قائم کر رکھے ہیں یا کوئی مشہور خاتون کسی جزیرے میں اپنے شوہر کے ساتھ ہنی مون منا رہی ہے تو پاکستان کے نوجوانوں نے کا کیا قصور کیا ہے کہ اس کی تفصیلات سنا سنا کر ان کا ذہن خراب کیا جائے، ایسی کونسی خبر ہے جس سے واقف ہونا اہل پاکستان کے لئے ناگزیر ہے؟ یا اگر کسی ایکٹر یا ایکٹریس میں باہمی ناچاقی کے بعد کوئی سمجھوتہ ہوگیا ہے تو پاکستان کی نوخیز نسل کے ذمہ کیا فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اس کی تمام تفصیلات سے باخبر ہو۔ لیکن ہمارے اخبارات ہیں کہ اس نوع کی خبروں کو چار دانگ عالم سے اکٹھا کرکے ان کا سڑا ہوا ملغوبہ ہماری نوجوان نسل کے آگے اس طرح لا ڈالتے ہیں جیسے دنیا بھر میں اس سے اہم خبر کوئی نہیں۔
صحافت کو محض ایک ذریعہ تجارت بنالینا بجائے خود ایک مذموم حرکت ہے، لیکن ناپختہ ذہنوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر معاشی منافع حاصل کرنا تو تجارت کی بھی سب سے بدتر اور سب سے گھناؤنی قسم ہے چہ جائیکہ صحافت جیسے مقدس کام کو اس سے ناپاک کیا جائے۔ لیکن افسوس اور صد افسوس ہے کہ ہماری صحافت میں اس پاکی وناپاکی کا احساس عنقا ہوتا جارہا ہے اور روزبروز اس خطرناک طرز عمل کی سنگینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں نوبت کہاں تک پہنچ گئی ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے آج سے بیس سال پہلے کے اخبارات کا موازنہ آج کے اخبارات سے کرکے دیکھ لیجئے اندازہ ہوجائے گا کہ عریانی وفحاشی کے جذام نے کس رفتار سے ہماری صحافت میں سرایت کی ہے۔
آج کی نشست میں ہم اپنے ملک کے مدیران جرائد سے یہ التجا کرنا چاہتے ہیں کہ خدارا اس ستم رسیدہ قوم کی حالت پر رحم کیجئے جو مادی اور اخلاقی اعتبار سے گوناگوں تباہیوں کا سامنا کررہی ہے۔ یہ قوم نہ اپنے مزاج ومذاق اور دین ومذہب کے لحاظ سے یہ ان عیاشیوں کی متحمل ہے اور نہ اس کے مادی وسائل وذرائع اس کی اجازت دیتے ہیں۔ دنیا کی دوسری اقوام عریانی وفحاشی اور عیش پرستی اختیار کرکے دنیا میں کچھ روز مزے اڑا سکتی ہیں لیکن یہ مسلمان قوم جس کا خمیر کلمہ لا الہ الا اﷲ سے اٹھا ہے اس کے لئے عیش ونشاط اور طاؤس ورباب کا راستہ اختیار کرنے کے بعد تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں۔ اﷲ تعالی نے آپ کو فکری قیادت کا منصب عطا کیا ہے، آپ اپنی مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ اس قوم کو اخلاق وشرافت کے بام عورج تک لیجا سکتے ہیں اور پھر انسانیت کی خدمت کے لئے اور اس قوم کے سارے کارنامے آپ کے نامۂ اعمال میں لکھے جاسکتے ہیں آپ کا فریضہ یہ ہے کہ اگر نئی نسل کسی غلط سمت کا رخ کررہی ہے تو آپ اپنی حکمت وبصیرت اور اپنی محبت وشفقت سے اس کا رخ بدلنے کی کوشش کریں، نہ یہ کہ بے راہ روی میں اس کی حوصلہ افزائی کے مرتکب ہوں۔ آپ کے اسلاف نے آپ کو غیرت وحمیت اورعفت وعصمت کی میراث عطا کی تھی لیکن آپ اپنے بچوں کے لئے کیا چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟ بے حیائی، بد اخلاقی، آبروباختگی اور ذلت و رسوائی……؟
آپ کی نگاہ اس تھوڑی سی زائد آمدنی پر ہے جو اس قسم کی فحش اور عریاں مضامین اور اشتہارات کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے لیکن خدا کے لئے سوچئے کہ کیا تھوڑی سی زائد آمدنی جو مسلسل نئی نسل کے اخلاق تباہ اور ذہن برباد کررہی ہے ضمیر کو سکون اور روح کو قرار عطا کرسکتی ہے۔
یہ ساری آمدنی اور اس کے ذریعہ تعمیر ہونے والے عشرت کدے تو بالآخر یہیں رہ جائیں گے لیکن آخر میں اس کے سنگین نتائج اور دنیا میں ان کی انمٹ بدنامی کبھی ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لہم عذاب الیم فی الدنیا والآخرۃ۔
’’بلا شبہ جو لوگ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لئے دنیا میں اور آخرت (دونوں) میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
لہذا خدا کے لئے اپنے اخبارات کے طرز عمل پر نظر ثانی کیجئے، ان میں اخلاقی جرائم کی خبریں، فحش مضامین اور عریاں اشتہارات کو بند کیجئے، صاف ستھری صحافت کو فروغ دیجئے، قوم کو عریانیت پر مائل کرنے کے بجائے اس میں علم و ادب کا پاکیزہ مذاق پروان چڑھایئے اور ان میں ایک ایسا مستحکم ملی شعوع پیدا کیجئے جو اس قوم کو خودداری، غیرت وحمیت اور تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔
اس صورت حال کی بہت بڑی ذمہ داری اخبارات کے قارئین پر عائد ہوتی ہے بھی تک ان قارئین کی اکثریت ان حضرات کی ہے جو اخبارات کی اس روش سے نہ صرف یہ کہ خوش نہیں بلکہ اس سے بیزار ہیں لیکن افسوس یہ کہ ہم سب اپنی بے زاری کے جذبات کو دل ہی دل میں گھونٹ کر رہ جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ انہیں اپنی نجی مجلسوں تک محدود رکھتے ہیں اور ان کا اظہار اخبارات کے منتظمین پر نہیں کرتے، مدیران جرائد کو نہ شخصی ملاقاتوں کے ذریعے اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے نہ ان کے پاس اس موضوع کا کوئی خط پہنچتا ہے اور نہ کسی اور طریقے سے انہیں اس طرز عمل پر متنبہ کیا جاتا ہے۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر آپ اخبارات کی اس روش کو برا سمجھتے ہیں، اگر آپ کے نزدیک صحافت کا یہ طرز عمل ہماری نوخیز نسل کو خراب کررہا ہے اور آپ کو ان ناپختہ ذہنوں پر کوئی ترس آتا ہے تو اپنے ان جذبات کو اپنے تک محدود رکھنے کے بجائے صحافت کے ارباب حل وعقد تک پہنچایئے، ان سے ملاقات کے لئے شہریوں کے وفود بنایئے، انہیں خطوط لکھئے اور ان سے مطالبہ کیجئے کہ وہ اس طرز عمل سے باز آئیں اس کام کو صرف علماء اور دینی اداروں کے حوالے کرکے مطمئن ہوجانا کسی طرح آخرت کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ اﷲ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (۲۳/فروری، ۱۹۷۶)