صحابہؓ کی حالت

انصار مدینہ نے پیش کش کی کہ آپ ہمارے بھائی ہیں ۔ لہٰذا ہماری زمینیں آدھی آپ لے لیں ۔ آدھی ہم رکھ لیں ، لیکن مہاجرین نے کہا کہ نہیں ، ہم وہ زمینیں اس طرح لینے کے لئے تیار نہیں ۔ البتہ آپ کی زمینوں میں محنت کریں گے، محنت کے بعد جو پیداوار ہوگی، وہ آپس میں تقسیم کرلیں گے۔۔۔۔ بتائیے کہ ان کی وہ دنیا طلبی کہاں گئی؟
میدان جہاد میں جنگ ہورہی ہے، موت آنکھوں کے سامنے ناچ رہی ہے اس وقت کوئی حدیث سنادیتا ہے کہ سرکارِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے راستے میں شہید ہو تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو جنت کے اعلیٰ درجات عطا فرماتے ہیں ۔ ایک صحابی نے پوچھا: کیا واقعی یہ بات رسول اللہ ﷺ سے تم نے سنی؟ کہا کہ ہاں میں نے سنی، میرے کانوں نے سنی، میرے دل نے یاد رکھا۔ ان صحابی نے کہا کہ اچھا بس، اب تو میرے اوپر جہاد سے علیٰحدگی حرام ہے۔ تلوار اٹھائی اور دشمن کے نرغے کے اندر گھسے، تیر آکر سینے کے اوپر لگا، سینے سے خون کا فوارہ ابلتا ہوا دیکھ کر جو الفاظ زبان سے جاری ہوتے ہیں وہ یہ کہ ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ رب کعبہ کی قسم آج میں کامیاب ہوگیا، آج منزل مل گئی۔
یہ وہی دنیا کے طالب، وہی دنیا کے چاہنے والے، دنیا کے پیچھے دوڑنے والے تھے، لیکن بنی کریم سرورِدوعالم محمد مصطفی ﷺ کی صحبت سے آخرت دل و دماغ پر اس طرح چھا گئی۔

(اصلاحی خطبات جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 272)
********