بیان :حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب____________شفیق الرحمٰن کراچوی

زروجواہر سے بہتر خزانہ

۲۶؍صفر ۱۴۳۸ ھ (۲۷؍نومبر ۲۰۱۶ء) اتوار کے روز عصر کے بعد والی مجلس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا جو اصلاحی بیان جامع مسجد دارالعلوم کراچی میں ہوا ،افادئہ عام کے لئے ہدیۂ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

خطبۂ مسنونہ کے بعد فرمایا !
پچھلے چند ہفتوں سے پہلے سفر پھر بیماری کی وجہ سے اس مجلس میں حاضری نہیں ہوسکی ،الحمدللہ اب طبیعت کچھ رو بصحت ہے اس لئے خیال ہواکہ اپنے نیک احباب کی برکت سے محروم نہ رہوں چنانچہ اللہ کے نام پر ارادہ کرلیا کہ آج آپ کے سامنے حاضری ہو ۔اگر چہ طبیعت پوری طرح متحمل نہیں ہے ۔لیکن اللہ جل شانہ کے فضل و کرم سے پہلے کے مقابلے میں طبیعت بہت بہترہے ،اور یہ خیال ہوتا ہے کہ اس مجلس میں چونکہ اللہ کے نیک بندے دین کی طلب لے کر آتے ہیں تو اس کی برکت بھی ان شاء اللہ میرے شامل حال ہوگی ۔اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس حاضری کو قبول بھی فر مائے اور اس کا فائدہ بھی ہم سب کو پہنچائے ۔
ا بھی کتاب کھولی تو یاد آیا کہ آخری مجلس میں ،میں نے ایک حدیث کا بیان شر وع کیا تھا غالباً وہ نا مکمل رہ گیا تھا تو ان شاء اللہ اسی کی تکمیل کی کوشش کرتا ہوں اللہ تعالی اپنی رضا کے مطابق عرض کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ : حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی ہیں۔بڑے بڑے اور مشہور صحابۂ کرام میں ان کاشمار ہوتا ہے بہت ہی عبادت گزار تھے ۔ان کے والد بھی صحابی تھے اور اصحاب بدر میں سے تھے اور غزوۂ احد میں شہید ہوئے ۔
حضرت شدا د بن اوسؓ سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں ،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے خصوصی تعلق پر بھی بہت سی احادیث شاہد ہیں یہ جو ہم اکثر و بیشتر سید الاستغفارپڑھتے رہتے ہیں اللھم انت ربی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ اس کو سید الاستغفار کہا گیا ہے یعنی استغفار کے جتنے طریقے ہیں ان میں سے سب سے اعلی طریقہ یہ ہے ،یہ بھی حضرت شداد ابن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب تھا تو یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، ان کی طبیعت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا اور اس اندیشہ کا کہ شاید اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے جارہے ہیں بڑا ثر تھا ایک دن غمگین آزردہ اور رنجیدہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے یا رسول اللہ دنیا بہت تنگ معلوم ہوتی ہے یعنی آپ کی جدائی اور آپ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کا غم اور رنج اتنا زیادہ ہے کہ ساری دنیا تنگ معلوم ہوتی ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی کہ تم دیکھو گے کہ شام فتح ہوجائے گا بیت المقدس فتح ہوجائے گا اور تمہیں وہاں پر بھی کام کرنے کی توفیق ہوگی چنانچہ بعد میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ چاروں خلفائے راشدین کے زمانے میں زندہ رہے بہت سی فتوحات میں حصہ لیا آخر میں شام میں ان کی زندگی کا بڑا حصہ گزرا اور وہیں پر وفات ہوئی ۔
حدیث شداد بن اوس رضی اللہ عنہ : حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اذا رأیت الناس یکتنزون الذہب والفضۃ فاکتنز ھذہ الکلمات یعنی جب تم لوگوں کو دیکھو کہ وہ سونا چاندی جمع کررہے ہیں اور اسی فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سونا چاندی ملے تو تم اس حالت میں بجائے سونا چاندی جمع کرنے کے ان کلمات کو جمع کرلو جو میں تمہیں سکھا رہا ہوں اور یہ سمجھو کہ یہ خزانہ ہے جو میں تمہیں دے رہا ہوں کچھ دعائیہ کلمات تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سکھائے تھے ۔
زروجواہر سے بہتر خزانہ : سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شدادبن اوس کو یہ دعائیہ کلمات سکھائے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الثَّبَاتَ فِیْ الْاَمْرِ وَعَزِیْمَۃَ الرُّشْدِ وَشُکْرَ نِعْمَتِکَ وَحُسْنَ عِبَادَتِکَ وَلِسَانًا صَادِقًا وَقَلْبًا سَلِیْمًا وَخُلُقًا مُسْتَقِیْمًا وَاَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا تَعْلَمُ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ۔
اور فرمایا کہ سونا چاندی کے خزانہ کو جمع کرنے سے بہتر ہے کہ اس خزانہ کو جمع کرو ۔
ہر نیک کام میں استقامت مطلوب ہے
پہلی چیز جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شداد بن اوس کو سکھائی اور اس کو خزانہ قرار دیا وہ ہے "الثبات فی الامر”اے اللہ میں آپ سے تمام معاملات میں استقامت مانگتا ہوں یعنی جو بھی اچھا کام ہو اور جو بھی اچھی چیز ہو اس میں مجھے استقامت عطا فرمادیجئے کہ میں اس کو پابندی کے ساتھ ادا کروں اور کسی کے ڈرائے میں نہ آؤں،نہ کسی کے ہنسی مذاق اور طعنے کی پرواہ کروں اور وہ کام مستقل مزاجی سے کرتا رہوں۔
بعض اوقات کسی کام کو شروع کرنا مشکل نہیں ہوتا ،آدمی جذبے میں آکر کسی کام کو شروع کردیتا ہے لیکن اس کام کو استقامت اور پابندی سے کرنا مشکل ہوتا ہے اس کی توفیق اللہ تعالی سے مانگنی چاہیے کہ اللہ ہمیں استقامت عطافرمائے ۔
سب سے اچھا عمل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’ خیر العمل ما دیم علیہ وان قل ‘‘ سب سے اچھا عمل وہ ہے جس پر استقامت و مداومت ہو چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو ۔بہت سے لوگ کسی وقت جوش وجذبے میں آکرکوئی اچھا کام شروع کردیتے ہیں لیکن جب بعد میں کسی نے مذاق اڑادیا ،کسی نے کچھ ڈرا دھمکادیا ،یا کسی نے کوئی جملہ کس دیا اس سے متأثر ہوکر پھسل جاتے ہیں،یا کسی کے کہنے میں نہیں بلکہ خود اپنے نفس اور شیطان کے بہکاوے میں آگئے مثلاً کوئی عمل شروع کیا لیکن پھر نفس نے بہکایا کہ یہ کونسا فرض یا واجب ہے اگر نہ بھی کیا تو کیا ہوا ؟ اس کے نتیجے میں آدمی پھسل جاتا ہے اور استقامت سے دور چلا جاتا ہے اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی کہ اللہ تعالی سے استقامت مانگو اس لئے کہ تھوڑا عمل ہو اور استقامت کے ساتھ ہو تو اللہ تعالی کے ہاں اس کی بڑی قدر وقیمت ہے اور وہ انسان کیلئے بڑا مفید ہوتا ہے اسی لئے بزرگوں نے فرمایا کہ اپنی نفلی عبادتوں کے معمول اتنے مقرر کرو جن کو نباہ کر پابندی کے ساتھ کرسکو۔
اور بزرگوں نے اس کی مثال یوں دی ہے کہ فرض کرو کہ ایک نل ہے اس میں سے ایک ایک قطرہ پانی گر رہا ہو اور مستقل گر رہا ہو اور نیچے ایک پتھر رکھا ہو اہو تو ایک مدت کے بعد یہ پانی اس پتھر کے اندر سوراخ کردے گا اور اگر بہت تیز پریشر سے پانی کھولا اور قطرے سے ہزاروں گنا زیادہ پانی بہا دیا لیکن اس سے پتھر پر کچھ اثرنہیں ہوگا لہذا عمل تھوڑا ہو لیکن پابندی سے ہو تو اس میں بڑی برکت ہوتی ہے اور اس کا بڑا فائدہ ہوتا ہے ۔
نیک کاموں میں عزم مصمم اللہ تعالی کی نعمت ہے
دوسر ی چیز جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزانہ فرمایا وہ ہے عزیمۃ الرشد یعنی اے اللہ جو بھی ہدایت کا کام ہے نیک کا م ہے اس کا عزم میرے دل میں پیدا فرمادیجئے، بسا اوقات انسان کسی کا م کو اچھا تو سمجھتا ہے کہ یہ کام اچھا ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بڑا اجر ہے لیکن اس کے باوجود اس کا م کے کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لئے وہ پکا عزم نہیں کرپاتا کہ میں یہ کام ضرور کروں گا تو یہ بھی اللہ تعالی سے مانگنے کی چیز ہے اللہ ہی سے مانگے کہ اے اللہ جو بھی ہدایت کے کام ہیں ان کے اندر میرا عزم پختہ کر دیجیے کہ میں پکے عزم کے ساتھ اور پکے ارادے کے ساتھ یہ کام کروں ،غالب کہتا ہے کہ :
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں جاتی
یعنی جانتا ہوں کہ اس چیز کا ثواب ملے گا جانتا ہوں کہ اس میں خیر ہے ،بھلائی ہے مگر طبیعت اس کی طرف نہیں جاتی جب آدمی طبیعت کا غلام بن جاتا ہے کہ طبیعت جو چاہے گی وہ کروں گا اور جو نہیں چاہے گی وہ نہیں کروں گا تو وہ طبیعت کا غلام بن جاتا ہے اللہ کا نہیں رہتا اللہ تعالی کا بندہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہے اس لئے یہ دعا کی کہ اسئلک عزیمۃ الرشد میں آپ سے بھلائی کے کام کا عزم صمیم مانگتا ہوں کہ جب کوئی بھلائی کا کام سامنے آئے تو میں اس کا پختہ عزم کرسکوں اور اس کے انجام دینے کی ہمت میرے اندر پیدا ہوجائے ۔
نعمتوں پر شکر کرنا اللہ تعالی کی توفیق سے ہوتا ہے
تیسری چیز جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزانہ قرار دیا وہ ہے شکر نعمتک اے اللہ میں آپ سے آپ کی نعمتوں پر شکر کی توفیق مانگتا ہوں یہ بڑی عجیب دعا مانگی کہ اللہ تعالی کی نعمتوں پرشکر کی توفیق مل جائے کیونکہ انسان ایسا ناشکرا ہے کہ ہزار نعمتوں میں پل رہا ہو،نعمتیں اس پر چاروں طرف سے برس رہی ہوں تو بسا اوقات نعمتوں کی طرف تو دھیان جاتا نہیں لیکن اگر ذرا سی کوئی تکلیف آگئی ،ذراسی طبیعت کے خلاف کوئی بات ہوگئی تو اس کا دکھڑا لے کر بیٹھ جاتا ہے ۔تو یہ بھی اللہ تعالی کی توفیق سے ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرے ۔
شکوہ ٔخداوندی : شیطان انسان کو ناشکرا بننے کی طرف لے جاتا ہے پھر ایسے شخص کی نگا ہ ہمیشہ ناگوار چیزوں پر رہتی ہے کہ میرے ساتھ یہ ہوگیا میرے ساتھ یہ ہوگیا جو اللہ کی نعمتیں ہیں ان کی طرف دھیان نہیں جاتا چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا وَقَلِیْلٌ مِنْ عِبَادِیَ الشَّکْوْ رُ حضرت داؤد ؑکو اللہ تعالی نے ساری سلطنتیں عطا فرمائی تھی اور بہت ساری نعمتوں سے نوازا تھا پھر فرمایا کہ اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاؤُدَ شُکْرًا کہ اے آل داؤد شکر کی محنت کرو وَقَلِیْلٌ مِنْ عِبَادِیَ الشَّکْوْ رُ (سباء :۱۳)میرے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں ۔سر سے لیکر پاؤں تک نعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔میں نے بینائی ان کو دی ، سماعت ان کو دی، بولنے کی طاقت میں نے ان کودی ،قوت ان کو دی ،رزق میں نے ان کو عطا فرمایا ،زندگی عطا فرمائی مگر نعمتوں کی طرف دھیان نہیں کرتے ،ذرا سی تکلیف آتی ہے تواس کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں وَقَلِیْلٌ مِنْ عِبَادِیَ الشَّکْوْ رُ میرے بندوں میں شکر گزار بہت کم ہیں لہذا یہ توفیق بھی اللہ تعالی کی طرف سے ملتی ہے کہ بندہ شکر گزار بنے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اتنے بڑے بادشاہ ہیں ساری دنیا پر حکومت، پرندوں پر جانوروں پر اور ہواؤں پر ان کی حکومت ،دعا کیا مانگ رہے ہیں کہ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ (النمل:۱۹)اے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں آپ کی نعمتوں کا شکر ادا کرسکو ںجو آپ نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام بھی شکر کی توفیق اللہ تعالی سے مانگ رہے ہیں اس لئے کہ بندہ شکر گزار بھی اسی وقت بنتا ہے جب شکر کی توفیق ملے اور توفیق اسی کو ملتی ہے جو اللہ تعالی سے توفیق مانگتا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی سے شکر کی توفیق مانگو کہ اے اللہ اپنے فضل و کر م سے ہمیں شکر گزار بندہ بنا دیجئے۔
شکر کے انعامات : جب بندہ شکر گزار بن جاتا ہے تواس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ہر وقت اس کے دل و دماغ میں نعمتوں کا تصور ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے کس طرح نوازا ہوا ہے اب اگر کوئی چھوٹی موٹی تکلیفیں آتی بھی ہیں تو اس کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کے بجائے نعمتوں کے شکر کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
میں نے اپنے والد ماجد قدس اللہ سرہ سے سنا کہ حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب جو حضرت میاں صاحب کے نام سے مشہور ہیں ،حضرت والد صاحب کے استاد بھی تھے اور بے تکلف بھی بہت تھے ،بڑے صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ،حضرت والد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے پتہ چلا کہ حضرت بیمار ہیں شدید بخار میں ہیں میں عیادت کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا کہ بخار میں تپ رہے ہیں تیز بخار چڑھا ہوا تھا پوچھا کہ حضرت کیسے مزاج ہیں فرمایا الحمد للہ !اللہ تعالی کا بہت کرم ہے، الحمد اللہ میری آنکھیں ٹھیک کام کررہی ہیں، میرے کان ٹھیک کام کررہے ہیں ،زبان ٹھیک کا م کررہی ہے، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ مجھے فلاں بیماری نہیں ہے ، جتنی بیماریاں نہیں تھیں ان کا ذکر کیا کہ الحمد للہ، اللہ تعالی نے مجھے اتنی بیماریوں سے محفوظ کر رکھا ہے ، ہاں بھئی تھوڑا سا بخار ہے دعا کرو اللہ پاک یہ بھی ٹھیک فرمادیں جو بخار کی تکلیف تھی اس کو آخر میں ذکر کیا اور جو تکلیفیں نہیں تھیں راحتیں تھیں ان کا ذکر پہلے کیا۔ لہذا جب بندے کو اللہ تعالی کی طرف سے شکر گزار بننے کی توفیق ہوتی ہے تو اسکا دھیان اور اس کی تو جہ اللہ تعالی کی نعمتوں کی طرف زیادہ ہوتی ہے تکلیفوں کی طرف بہت کم ہوتی ہے اور جو ہوتی بھی ہے تو اس کو یہ دھیان رہتا ہے کہ یا اللہ آپ کے فیصلے پر راضی ہوں لیکن میں کمزور ہوں اپنی رحمت سے آپ میری یہ تکلیف بھی دور فرمادیجیے ۔
شکر گزار بندے کو اللہ تعالی کا قرب نصیب ہوتا ہے
میرے حضرت والا حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی رحمہ اللہ ، اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے ،تقریبا ًہر مجلس میں ہم لوگوں کو اس طرف متوجہ فرمایا کرتے تھے کہ ذرا اللہ تعالی کی نعمتوں کا تصور کیا کروکہ کیسی کیسی نعمتیں اس نے دے رکھی ہیں ان کا تصور کرکے اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر کثرت سے کیا کرو جب کسی بندے کو اللہ تعالی کا شکر گزار بننے کی توفیق ہوجاتی ہے تو اس پر معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا معمولی چیز نہیں ہے اس کے ذریعے اللہ جل جلالہ سے تعلق مضبوط ہوجاتا ہے اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ رابطہ استوار ہوجاتاہے جتنازیادہ شکر ادا کرو گے اتنا زیادہ اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوگا ۔
ارے یہ تو ہے ہی وعدہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم : ۷)جو نعمتیں موجود ہیں ان پر شکر کروگے تو اور نعمتیں عطا کروں گا نعمتیں تو ملیں گی ان شاء اللہ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شکر کی برکت سے بندہ اپنے پروردگار کے قریب سے قریب تر ہوتا چلاجاتا ہے اللہ تعالی کا قرب نصیب ہوتا ہے اور شیطان سے حفاظت ہوتی ہے کیونکہ شیطان کا سب سے پہلا حربہ بندے کو ناشکرا بنانا ہے اسے لئے جب اس کو جنت سے نکالا جارہا تھا تو اس نے یہ دعوے کیے تھے ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَائِلِھِمْوَلاَتَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ (الاعراف:۱۷) کہ میں ان بندوں کی دائیں جانب سے آؤں گا ،بائیں طرف سے آؤں گا ،سامنے سے آؤں گا ،پیچھے سے آؤں گا یعنی چاروں طرف سے ان پر حملہ کروں گا اور میرے اس حملہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ اکثر لوگوں کو آپ شکر گزار نہیں پائیں گے تو ہمارے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اس سے معلوم ہو ا کہ شیطان کا سب سے پہلا حملہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کو شکر سے ہٹا ئے لہذا شیطان سے حفاظت کا سب سے بڑا راستہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کا شکر گزار بن جائے ۔
شکر کا انوکھا انداز : ایک مرتبہ ہم اپنے شیخ حضرت عارفی قدس اللہ سرہ کے ساتھ کسی کے ہاں کھانے کی دعوت پر جمع تھے اور کھانا شروع ہوچکا تھا تو حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو اس وقت کھانے پر اللہ تعالیٰ کی کیسی کیسی نعمتیں جمع ہیں ،سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کھانا بذاتِ خود ایک نعمت ہے آدمی جب بھوکا ہو اور کھانا نہ ملے تو وہ کیسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتاہے لہذا ایک نعمت تو یہ ہوئی پھر کھانا لذیذ اور مزیدار بھی ہو یہ دوسری نعمت ہے تیسری نعمت یہ ہے کہ بھوک بھی ہو کیونکہ اگر کھانا مزیدار بھی ہو لیکن بھوک نہ ہو، کھانے کی طلب نہ ہو تو اس کھانے کا کیا فائدہ تو بھوک کا ہونا تیسری نعمت ہے اور چوتھی نعمت کھلانے والا عزت کے ساتھ کھلائے کیونکہ کھانابھی موجود ہو مزیدار بھی ہو اور بھوک بھی ہو لیکن کھلانے والا بے عزت کر کے کھلائے تو ایسا کھانا کس کام کا ،تو یہ ایک مستقل نعمت ہے کہ کوئی محبت سے کھلارہا ہے عزت سے کھلارہا ہے اگر کھانا لذیذ بھی ہو ، بھوک بھی ہو اور کھلانے والا عزت سے بھی کھلائے لیکن غم کی کوئی تشویش ناک خبر آگئی تو سارا کھانا دھرا کا دھرا رہ جائے گا تو الحمدللہ ایسی کوئی خبر بھی نہیں ، حالت بھی ٹھیک ہے راحت کی حالت میں ہے یہ پانچویں نعمت ہے، تو فرمایا ایک کھانے میں کتنی ساری نعمتیں جمع ہوگئی ہیں ، اس طرف نگاہ جاتی ہے شکر گزار بندے کی کہ دیکھو کیاکیا نعمتیں جمع ہیں اور اگر نا شکرا ہوتو ذرا سا بھی کھانے میں نقص نکل آئے گا تو اسکو لے کر بیٹھ جائے گا کہ کھانا خراب تھا مزیدار نہیں تھا وغیرہ وغیرہ تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے کہ بندہ شکر گزار بنتا ہے اس لئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ میں آپ سے آپکی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق مانتا ہوں۔
جاری ہے ……..

٭٭٭ ٭٭٭ ٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ جمادي الثانيہ 1438ھ)