بیان :حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب____________شفیق الرحمٰن کراچوی

زروجواہر سے بہتر خزانہ

(دوسری اورآخری قسط)

۲۶؍صفر ۱۴۳۸ ھ (۲۷؍نومبر ۲۰۱۶ ئ) اتوار کے روز عصر کے بعد والی مجلس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا جو اصلاحی بیان جامع مسجد دارالعلوم کراچی میں ہوا ،افادئہ عام کے لئے ہدیۂ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

عبادت سنت کے مطابق کرنی چاہیے :چوتھی دعا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزانہ قرار دیا وہ ہے حسن عبادتک اے اللہ میں آپ سے آ پ کی عبادت اچھی طرح کرنے کی توفیق مانگتا ہوں عبادت نہیں مانگی بلکہ عبادت کے حسن کی توفیق مانگی، عبادت تو آدمی بسا اوقات کرلیتا ہے لیکن ایسی عبادت جو اچھی کہلائے وہ ہوتی ہے جو سنت کے مطابق ہو ، نماز پڑھ لی لیکن اُلٹی سیدھی پڑھی سنت کے مطابق نہ پڑھی تو یہ عبادت تو ہوئی لیکن سنت کے مطابق عبادت نہ ہوئی لہذا سنت کے مطابق عبادت کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے ،اس لئے فرمایا کہ اے اللہ میں آپ سے آپ کی عبادت کو اچھی طرح کرنے کی توفیق مانگتا ہوں۔
سچی زبان : پانچویں چیز جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزانہ قرار دیا اور اسکی دعا مانگی وہ ہے لساناًصادقاً اے اللہ میں آپ سے سچی زبان مانگتا ہوں، سچی زبان کے اندر یہ بات تو داخل ہے ہی کہ آدمی جھوٹ نہ بولے ہمیشہ سچ ہی بولے لیکن صدق درحقیقت قرآن کریم کی اور شریعت کی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی کام کو اس کے صحیح طریقے سے انجام دینا ،یہ صدق ہے ۔
عبادات میں کمال پیدا کرنے کا طریقہ :عبادت اور اللہ تعالیٰ کی طاعات میں دو چیزیں مطلوب ہیں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، ایک صدق دوسر ا اخلاص، صدق یہ ہے کہ جس طرح وہ کام کرنا چاہیے اسی طرح کیا جائے اور اخلاص یہ ہے کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے، فرض کرو ہم نمازپڑھ رہے ہیں تو اگر سنت کے مطابق اسی طرح ادا کی جائے جیسے ادا کرنا چاہیے تو یہ صدق ہے اور نماز خالص اللہ کی رضامندی کے لیے ہو اس میں دکھاوا نہ ہو کوئی دنیاوی مقصدنہ ہو ،یہ اخلاص ہے دو چیزوں سے عبادت کے اندر کمال پیدا ہوتا ہے ایک صدق سے دوسرے اخلاص سے۔ اب دیکھو جیسے بہت سے حضرات بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں یعنی دین میں جن کاموں کی کوئی اصل نہیں ان کو دین سمجھ کر کررہے ہیں مثلاً تیجہ، دسواں ، چالیسواں وغیرہ اس کے علاوہ اور بہت سی بدعات کا لوگ ارتکاب کرتے ہیں اب اس میں کیا ہورہا ہے ، مثلاً تیجہ میں قرآن شریف لوگ پڑھ رہے ہیں تلاوت ہورہی ہے لیکن چونکہ سنت کے مطابق نہیں ہورہی اس واسطے صدق نہیں ہے، طریقہ وہ نہیں جو سنت نے سکھایا، بلکہ طریقہ وہ ہے جو اپنی طرف سے گھڑ لیا تو جو طریقہ اپنی طرف سے گھڑ لیا وہ بدعت بن گیا۔
بدعات میں بسا اوقات خلوص ہوتا ہے مثلاً لوگ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس نکال رہے ہیں چلو اگر اس جلوس میں دیگر خُرافات نہ بھی ہوں ، لیکن بذاتِ خود جلوس نکالنے کو عبادت سمجھنا بدعت ہے، نہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،نہ صحابہ کرام سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور اس کو عبادت سمجھ کرکررہے ہیں، بہت سے لوگ خلوص کے ساتھ جلوس نکال رہے ہیں جذبہ یہی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور تعلق کا اظہار ہو، تو خلوص تو ہے لیکن صدق نہیںکیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اظہار کا طریقہ وہ نہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ نے سکھایاتو جب یہ فرمایا کہ اے اللہ مجھے صدق والی زبان عطا فرما تو اس میں صرف اتنی بات نہیں کہ وہ سچ بولے بلکہ یہ تو ہے ہی کہ سچ بولے، لیکن زبان کا جو صحیح استعمال کا طریقہ ہے وہ سارا اس میں آگیا کہ وہ زبان کبھی غیبت نہ کرے، کبھی کسی پر بہتان نہ لگائے، وہ زبان کبھی کسی کی دل آزاری نہ کرے وہ زبان کبھی گالی گلوچ نہ کرے، فحش باتیں نہ کرے، یہ ساری باتیں لساناًصادقاً میں آگئیں یعنی جس کام کے لیے میرے مولا نے یہ زبان پیدا کی ہے یہ زبان اسی میں استعمال ہو، اس کے خلاف استعمال نہ ہو، اس لیے سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس صدقِ لسان کو بھی اللہ میاں سے مانگو کہ یا اللہ میں آپ سے صادق زبان مانگتا ہوں۔
قلب سلیم: چھٹی دعا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی اور اُسے خزانہ قرار دیا فرمایا کہ وقلباً سلیماً اے اللہ میں آپ سے سلامتی والا دل مانگتا ہوں ، کیا جامع الفاظ ہیں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک لفظ اپنے اندر معانی کی کائنات سمیٹے ہوئے ہے کہ دل ایسا ہو جو سلامتی والا ہو۔
قلب سلیم کا مطلب: قلب سلیم وہ ہوتا ہے جس میں خیالات بھی اچھے آتے ہوں ، جذبات بھی اچھے پرورش پاتے ہوں جس کے اندر ارادے بھی صحیح پیدا ہوتے ہوں، اور جس میں بات بھی وہ سمجھ میں آتی ہو جو صحیح ہو، غلط بات سے وہ انکار کرتا ہو، وہ ہے قلبِ سلیم ، اللہ بچائے جب کسی کی مت اُلٹی ہوجائے تو اچھائی بھی برائی نظر آتی ہے اور برائی ، اچھائی نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
گناہوں کی نحوست : گناہوں کی نحوست یہ ہوتی ہے کہ بندے کی عقل ماری جاتی ہے اور وہ دل جو صحیح سمجھ رکھتا ہے وہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے اس کے اندر یہ بات پیدا ہوجاتی ہے کہ اچھی چیز کو برا سمجھتا ہے اور بری چیز کو اچھا سمجھتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ لاکھ دلائل دے دو کہ بھائی جو تم کام کررہے ہو یہ اچھا کام نہیں ہے برا کام ہے لیکن اس کا دل مانتا ہی نہیں کسی اچھا ئی کی طرف بلالو اور اس کی ہزار اچھائیاں بیان کرو اس سے دل مانتا ہی نہیں اس لئے کہ اس کا قلب اب ٹیڑھا ہوگیا ہے۔
قرآن کریم ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَھُوْنَ بِھَا(الاعراف :۱۷۹) انکے پاس دل تو ہے لیکن اس میں سمجھ نہیں ہے وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَ یَسْمَعُوْنَ بِھَا(الاعراف :۱۷۹) کان ہیں مگر بات سننے کی صلاحیت سے خالی ہیں لیکن جب قلب سلیم عطا ہوتا ہے اللہ تعالی ہم سب کو عطا فرمائے تو اچھی بات سمجھ میں آتی ہے بری و غلط بات سے دل انکار کرتا ہے تو جب اللہ تعالی قلب سلیم عطا فرمادیتے ہیں تو باتیں بھی ذہن میں اچھی آتی ہیں راستے بھی اچھے نکلتے ہیں ۔
اس لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی سے مانگو یا اللہ میں آپ سے قلب سلیم مانگتا ہوں جو اچھی باتیں سوچے اچھی باتوں کے ارادے اس میں پیدا ہوں ۔
استقامت والے اخلاق : چھٹی چیز جسے آپ نے خزانہ قرار دیا وہ ہے خلقا مستقیمااے اللہ ایسے اخلاق عطا فرما جو مجھے سیدھا راستہ دکھائیں ،سیدھے راستے پر لے جائیں ۔
اعتراف عجز : فرمایا اسئلک من خیر ماتعلم عجیب جملہ ارشاد فرمایا کہ جب یہ ساری باتیں مانگ لیں پہلے استقامت مانگی ، عزیمت مانگی، اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر مانگا ،اللہ تعالی کی عبادت کا حسن مانگا، زبان صادق مانگی، سلامتی والا دل مانگا ،استقامت والے اخلاق مانگے، سب کچھ مانگ لیا لیکن پھر بھی کیا کہتے ہیں واسئلک من خیر ما تعلم کہ اے اللہ میں کیا مانگوں گا جو اچھائیاں میری سمجھ میں آرہی تھیں وہ تو میں نے مانگ لیں لیکن کتنی ہی اچھائیاں ایسی ہیں جن کی طرف میرا ذہن نہیں گیا لیکن آ پ کے علم ازلی میں ہے تو اے اللہ میرے حق میں جتنی اچھائیاں ہیں آپ کے علم میں وہ بھی میں آپ سے مانگتا ہوں یعنی بندے نے اپنی شکستگی کا اور اپنے ہتھیار ڈالنے کا اعتراف کرکے اللہ تعالی پر چھوڑ دیا۔ یہ دعا کوئی پیغمبر اور اللہ تعالی کا محبوب ہی مانگ سکتا ہے۔
أعوذبک من شر ما تعلم یعنی اے اللہ ساری برائیوں سے تو میںپناہ مانگتا ہوں لیکن بہت سی برائیاں ایسی ہیں جن کا مجھے پتا ہی نہیں کہ یہ برائی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ کس چیز میںمیرے لیے برائی ہے اس سے بھی میں آپ کی پناہ مانگتاہوں ، انک أنت علام الغیوب آپ ہی علام الغیوب ہیں سب سے بڑے جاننے والے ہیں یہ دُعائیہ کلمات ہیںجو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شداد بن اوس ؓکو سکھائے اور یہ فرمایا کہ لوگ سونا چاندی جمع کررہے ہونگے اور تم یہ کلمات جمع کرلو۔
کلمات کے خزانہ ہونے کا مطلب : خزانہ تو وہ ہوتا ہے جو آدمی جمع کرکے رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ خزانہ جمع کرکے رکھ لو جمع کیسے کروگے کہ اس کو یاد کرو اور یاد کرکے ان کو باربار اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مانگتے رہو، مانگتے رہو ،جیسے خزانے والا خزانے کو باربار کھول کر دیکھتاہے اورخوش ہوتا ہے کہ دیکھو یہ خزانہ میرا رکھا ہوا ہے ، جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہُ (الھمزۃ:۲) اس کی گنتی کرتا رہتا ہے لیکن جو خزانہ میں تمہیں دے رہا ہوں اس کو محفوظ بھی رکھو اور مانگتے بھی رہو کیونکہ اس سے بڑا خزانہ کوئی اور نہیں، ارے بھائی ساری دنیا کی اچھائیاں اور ساری دین کی اچھائیاں اس میں جمع ہوگئیں جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں بندے کے تصور میں بھی نہیں آسکتیں اس لیے فرمایا کہ لوگ سونا چاندی جمع کررہے ہونگے تم انکی جگہ ان کلمات کا خزانہ جمع کرلو۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم اپنی رحمت سے ہم سب کو یہ خزانہ عطاء فرمائے ، اس دعا کویادکرلیں کوئی زیادہ لمبی چوڑی دعا نہیں یہ خزانہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکر گئے ہیں ، اس کو یاد بھی کرلیںاور اپنی صبح شام کی دعاؤں میں اس کو شامل کرلیں ، نمازوں کی دُعاؤں میں انکو شامل کرلیں، ان تمام باتوں کا تصور کرکے مانگیں ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ جو بندہ سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کادیا ہوا خزانہ مانگے گا دنیا وآخرت کے اعتبار سے امیر ترین شخص ہوگااللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ خزانہ نصیب فرمائے۔
واٰ خر دعوانا ان الحمدللّہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – رجب المرجب 1438 ھ)